دوسرا منظر
(اسی مکان کے سونے کا کمرہ۔ رات کا وقت ہے اور نفیس باہر سے آ کر کپڑے بدل رہا ہے۔ عذرا اس کا کوٹ اس کے موزے وغیرہ لے کر مناسب جگہوں پر رکھ رہی ہے۔ )
عذرا :بہت تھکے ہوئے نظر آتے ہو۔ آج بہت کام تھا کیا؟
نفیس :دفتر میں کوئی کام نہیں۔ البتہ دوسری باتیں تھوڑی ہیں پریشانی کے لیے۔
عذرا :دوسری باتیں کوئی اور مکان دیکھا؟
نفیس :مکان کے لیے بہت کوشش کی لیکن کوئی ہو تو بات بنے۔ یہ غریب ہونا بھی توایک لعنت ہے ورنہ ایسے ہی دو کمرے پینتیس روپیہ میں ملتے تھے۔
عذرا :پینتیس توہم کسی صورت نہیں دے سکتے۔ ۔ ۔ کھانا؟
نفیس :تمہارا خیال ہے میں ابھی تک بھوکا ہوں گا۔ دفتر کی ٹی شاپ سے بہتر الم غلم کھا لیا اور چائے پی لی۔ اس دفعہ بل بھی بہت بن جائے گا۔ جب کوئی گھبراہٹ ہوتی ہے تومیں کھانے پر زور دیتا ہوں۔
عذرا : اور مجھے کھانا پینا سب بھول جاتا ہے (کچھ یاد کرتے ہوئے) میں نے تو بیس بار کہا ہے پراٹھے ساتھ لے جایا کرو۔
نفیس :کون مصیبت میں پڑے (چارپائی پر بیٹھتے ہوئے) اور پھر دفتر میں لیمو نچوڑ بابو ہے۔
عذرا :لیموں نچوڑ بابو۔
نفیس :ہاں، اپنا ایک لیموں کسی کی دال میں نچوڑ کر برابر کا حصہ بن جاتا ہے۔
(دونوں خفیف سی ہنسی ہنستے ہیں۔ )
عذرا :تو پھر دو باتیں تو ہو نہیں سکتیں کہ بل بھی نہ بنے اور بھوک بھی اتر جائے۔
(نفیس اپنا منھ دونوں ہاتھوں میں دے لیتا ہے۔ )
عذرا :کیوں چپ چاپ بیٹھ گئے ؟
نفیس :تو اور کیا شور مچاؤں۔ دیکھو مجھے یوں تنگ نہ کرو عذرا مجھے آرام سے سو جانے دو۔
عذرا :آئے ہائے۔ ۔ ۔ راستہ دیکھتے دیکھتے آنکھیں پک جاتی ہیں۔ شادو کے گاہکوں کے ڈر کے مارے دن بھر کواڑ بند کیے پڑی رہتی ہوں اور اب۔ ۔ ۔
نفیس
چڑ کر) نہ اندر پڑی رہا کرو۔ میں دیکھنے آتا ہوں کیا۔ خوب رنگ رلیاں منایا کرو۔ مجھ سے یہ ناز برداری نہیں ہونے کی۔
عذرا
رونکھی ہو کر)تم بھی یوں کہو گے تو زندہ نہ رہوں گی۔
نفیس : اور میں کون زندوں میں ہوں۔ مردوں سے بدتر ہوں۔ محلہ والے الگ بدنام کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ایک شادو گئی اور اس کی جگہ دوسری شادو آ گئی۔
عذرا :محلہ والے جو چاہے کہتے پھریں۔ تمہارے سوا میں کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہوں۔ اگر تم بھی ایسی باتیں کرنے لگے تو میرا کون ٹھکانا ہے ؟۔ ۔ ۔ اب جو لوگ آتے ہیں تو اس میں میرا کیا قصور ہے ؟ میں تھوڑے کسی کو بلانے جاتی ہوں۔
نفیس :یہی تمہاری بھول ہے کہ تم میرے آگے جواب دہ ہو۔ تمہارا کیا خیال ہے کہ ہم خودکشی میں حق بجانب ہیں۔ ہم اپنے کو نہیں مار سکتے اگر چہ یہ جسم ہمارا اپنا ہے، اس کے لیے ہم حکومت کے سامنے جواب دہ ہیں۔ ۔ ۔ اس جسم کے علاوہ ہمارا ایک اخلاقی جسم بھی ہوتا ہے جسے پامال کرنے کے لیے ہم گلی کوچے کے ہر کتے، بلی، بچے بوڑھے کے حضور جواب دہ ہیں۔ ۔ ۔
عذرا :لیکن ہم نے کون اخلاقی خودکشی کی ہے۔
نفیس : اور تم تو کچھ بھی نہیں جانتیں۔ تم نے سنا ہے خلق کی آواز خدا کا نقارہ ہوتی ہے۔ بس وہ نقارہ بج رہا ہے اگر تمہارے کانوں میں اس کی آواز نہیں گونجتی تو تم بہری ہو۔ اس میں تمہارے کانوں کا قصور ہے۔
عذرا :اس کا یہ مطلب ہوا کہ چار آدمی تمہیں اٹھ کر برا کہنے لگیں تو تم برے ہو گئے ؟۔ ۔ ۔
نفیس :برا نہیں ہوا لیکن برائی سے آلودہ ضرور ہو گیا۔ میرا ایمان ہے دس آدمی مل کر تمہیں کہیں تمہارے چہرے پر ناک نہیں ہے تو ضرور سمجھ لو خدا نے تمہارا چہرہ بغیر ناک کے بنایا ہے اگر چہ آئینہ اس کے خلاف ہی گواہی دے۔
عذرا
زہر خند سے) اچھی بات ہے۔ ۔ ۔ اگر ان دس آدمیوں نے کسی کو پاگل کر دینے کی سازش کی ہو تو۔
نفیس :نہیں نہیں، تم اسے مذاق میں ٹالنے کی کوشش نہ کرو۔ جس آدمی کو یہ بات کہنے کے لیے دس آدمی اکٹھے ہوں گے اس آدمی میں ضرور کوئی نہ کوئی نقص ہو گا۔ کم از کم وہ اس قابل ضرور ہو گا اس کا مذاق اڑایا جائے۔ ۔ ۔ اور جب یہ ہو جائے تو پاگل پنے اور ناک کے نہ ہونے میں صرف عقیدے کا فرق ہے نا۔ ۔ ۔ دیکھو تم پھر ہنس رہی ہو۔ ۔ ۔
عذرا :اچھا اگر تمہیں میرا ہنسنا ناگوار گزرتا ہے تومیں نہیں ہنستی لیکن اس میں میرا کیا قصور ہے اور اگر میرا قصور ہے تو تم بھی اس قصور میں برابر کے حصہ دار ہو۔
نفیس :آہ۔ ۔ ۔
(سرد آہ بھرکر لیٹ جاتا ہے۔ )
عذرا :دیکھو اب جانے دو۔
نفیس :نہیں نہیں، میں ہنس نہیں سکتا جب کہ میرا دل رو رہا ہے۔ محلہ والوں نے ہمارے خلاف ایک سازش کر رکھی ہے۔
عذرا :آج کی سازش ہے وہ۔ دو مہینے ہم کو یہاں ہو گئے۔ ۔ ۔ تب سے یہ باتیں ہو رہی ہیں۔
نفیس :تمہارے خیال میں تو صرف باتیں ہو رہی ہیں۔
عذرا : اور نہیں تو کیا ہو رہا ہے ؟
نفیس :چہ میگوئیوں کی حدسے گزر کر محلے کے معتبر آدمیوں نے ایک جلسہ کیا ہے جس میں یہ طے پایا ہے کہ ہمیں یہاں سے چلے جانے کا مشورہ دیا جائے۔
عذرا
گھبرا کر) سچ۔
نفیس : اور تو کیا میں جھوٹ کہہ رہا ہوں۔
عذرا :نہ جائیں تو وہ کیا کریں گے۔
نفیس :کوئی ایک طریقہ ہے تنگ کرنے کا۔ وہ کئی طریقوں سے ہمیں پریشان کر سکتے ہیں۔
عذرا :مثلاً۔
نفیس :مثلاً۔ ۔ ۔ مثلاً وہ حاکمان شہر سے شکایت کر سکتے ہیں کہ مکان میں در پردہ فحاشی ہوتی ہے جو شادو کا کوئی گاہک آئے تو وہ پولیس کی معرفت ہمیں پکڑوا سکتے ہیں۔ وہ ہمارا حقہ پانی بند کر سکتے ہیں۔
عذرا :حقہ پانی کی تومیں پروا نہیں کرتی ہاں دوسری باتیں البتہ۔ ۔ ۔ لیکن تمہیں ان باتوں کے لیے لڑنا چاہئے۔ میں نہیں مان سکتی، قانون ایسا ہی موم کی ناک ہے کہ ان کی مرضی کے مطابق۔ ۔ ۔
نفیس :دماغ میرا بھی ان باتوں کو نہیں قبول کرتا۔ لیکن جب ٹھنڈے دل سے غور کرتا ہوں تو اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ اگر دفتر والوں تک بھی یہاں کی باتیں پہنچ گئیں تومیں منھ دکھانے کے قابل نہیں رہوں گا۔ ۔ ۔ کتنے آدمی ہوں گے جو سمجھیں گے کہ یہ شریف انسان ہے زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہو گی جو یہی سمجھیں گے کہ اپنی بیوی۔ ۔ ۔
عذرا :بس چپ رہو۔ ۔ ۔ کسی طرح یہاں سے نکل جاؤ خواہ ہمیں کسی چھپر کھٹ کے نیچے ہی کیوں نہ رہنا پڑے۔
نفیس :ہاں میں چلا جاؤں گا۔ میں اپنی عزت کے لیے لڑوں گا نہیں، شور نہیں مچاؤں گا۔ میں شریف انسان ہوں۔ تم جانتی ہو جب ہم نئے نئے اس مکان میں آئے تھے تو اس روز ایک طالب علم۔ ۔ ۔ کیا نام ؟۔ ۔ ۔ نام یاد نہیں رہا۔ بہرحال ایک طالب علم شادو سے ملنے آیا تھا اور اس نے کہا تھا کہ شریف آدمی اپنی بیٹی کی بے حرمتی دیکھ کر بھی عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹاتے۔ ۔ ۔ بس اس کے الفاظ میں آدمی کی جگہ خاوند اور بیٹی کی جگہ بیوی کر لو۔ ۔ ۔
عذرا :شرابی چھوکرے کی باتوں پر جاتے ہو؟
نفیس :باتیں بڑے کام کی کرتا تھا وہ شرابی چھوکرا۔
عذرا :اپنی عزت بچانے میں دامن پر جو داغ لگ جاتے ہیں وہ مبارک ہیں۔ ۔ ۔ تم زیادہ پرواہ نہ کیا کرو۔ آؤ میں تمہیں کچھ سنا دوں جی بہل جائے گا ذرا۔ ۔ ۔
نفیس :گویا پڑوسیوں کو اس بات کا ثبوت دیں کہ یہاں یہی دھندہ ہوتا ہے۔
عذرا :آئے ہائے۔ اور تو کیا بالکل گھٹ کے مر جائیں۔
(طنبورہ لے آتی ہے اور اسے چھیڑتی ہے۔ )
نفیس :عذرا تم نہیں سوچتیں ہم یہاں پردیسی ہیں۔ کل کلاں کو کوئی بات ہوئی تو ہماری حمایت میں یہاں ایک آدمی بھی کھڑا نہ ہو گا۔
عذرا :کوئی نہ ہو۔ ۔ ۔ خدا ہمارے ساتھ ہے۔
نفیس :خدا بہت دور کی بات۔ ۔ ۔ عذرا ٹھیرو۔ ۔ ۔ یہ آواز کدھر سے آ رہی ہے ؟
(کھڑکی سے باہر دو آدمی بات کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کی شکلیں بھی دھندلی دھندلی نظر آتی ہیں۔ )
بنواری :دیکھ لو میں نہ کہتا تھا صاف آواز آ رہی ہے۔ ۔ ۔ اندر کوئی آدمی بھی ہے۔
مرزا شوکت :ہاں، اور کوئی ساز معلوم ہوتا ہے، ستار کے موافق۔
بنواری :میں نہ کہتا تھا ان کا یہاں ہونا ہماری بہو بیٹیوں کے لیے بہت خراب ہے مشکل سے شادو کو یہاں سے نکالا تھا۔ ۔ ۔ (وقفہ)۔ ۔ ۔ تواب کیا ارادہ ہے ؟
مرزا شوکت :میرے خیال میں اندر چل دو۔ ۔ ۔ جو روکا تو محلے کے نام پر شور مچا دیں گے اور جو نہ روکا تو ہمارا کام بنا بنایا ہے۔ ۔ ۔ عورت اچھی معلوم ہوتی ہے۔ تم نے اس دن اسے لفافہ خریدتے ہوئے دیکھا تھا۔
(مل کر ہنستے ہیں۔ )
مرزا شوکت :اب کرو ذرا ہمت۔ ۔ ۔
(نفیس یہ سن کر کھڑکی کی طرف آتا ہے۔ )
نفیس :خبردار کسی نے کھڑکی پر آنے کی کوشش کی۔ یہاں اب نہ شادو رہتی ہے اور نہ کوئی ایسی عورت۔
بنواری
آہستہ سے)صاحب ہمیں شادو سے کوئی خاص وہ نہیں ہے۔
مرزا شوکت :ہم تو دو گھڑی۔ ۔ ۔
نفیس :میں کہتا ہوں کہ یہاں سے بھاگ جاؤ۔ ۔ ۔ اب شادو کی جگہ یہاں گرہستی رہتے ہیں اور ان کے متعلق آپ کا اندازہ سراسر غلط ہے۔
بنواری :اماں چلو یار۔ ۔ ۔ چل دو۔ ۔ ۔ جانے کی کیا مصیبت ہے۔
مرزاشوکت :یوں ہی چل دیں ؟اس محلے میں چراغ تلے اندھیرا ہم نہیں دیکھ سکتے۔ بلکہ ہم کل امام صاحب کو بھی ساتھ لے لیں گے، پھر دیکھیں گے لوگ کس طرح محلے میں بدکاری کر سکتے ہیں۔ (کچھ سوچ کر) لیکن یار تم یونہی ڈر گئے۔ جتنا یہ آدمی، اچھل اچھل کر آتا ہے مجھے اتنا ہی دال میں کالا معلوم ہوتا ہے۔ یہ ان لوگوں کا ڈھنگ ہوتا ہے اور میری بات سنو۔
(کانوں میں کچھ کہتا ہے جو نفیس اور عذرا کو سنائی نہیں دیتا۔ )
نفیس :بے ہودہ لوگ ہیں، کب تک ان کی باتیں سنے جائے آدمی؟
عذرا :میں کہتی ہوں سن کر بھی کچھ نہیں سننا چاہئے۔ کسی کا منھ تھوڑے ہی باندھا جاتا ہے۔ چپکے سے سو جاؤ۔
نفیس :ہاں سو جاؤ۔
(آہستہ آہستہ دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے۔ )
لیکن یہ ہولے ہولے زنجیر ہلا رہا ہے کوئی
عذرا :وہی لوگ ہوں گے۔ ۔ ۔ اور ہوا کریں۔
نفیس :ہاں سو جاؤ۔
عذرا :لیکن مجھے نیند نہیں آتی۔
نفیس :تمہیں فکر کس بات کی ہے ؟گہنا پاترا اپنے پاس نہیں ہے۔ کواڑ بند ہی ہیں کھپ کھپا کر چلے جائیں گے۔
عذرا :خود مریں کھپیں۔ ہمیں ناحق پریشان کرتے ہیں۔ ۔ ۔ جب تک چلے نہ جائیں مجھے تو نیند آنے کی نہیں۔
نفیس :جو تمہارا مطلب ہے کہ فساد بپا کیا جائے تومیں اس کے حق میں نہیں ہوں۔ ۔ ۔ البتہ اسرار کرو گی توسر پھوڑنے کے لیے تیار ہوں۔ ۔ ۔
(اٹھنا چاہتا ہے۔ )
عذرا :نہیں نہیں۔ پڑے رہئے چپکے سے۔ میں تو یونہی کہہ رہی تھی کہ مجھے نیند نہیں آتی۔ آپ تو سارا دن دفتر میں کام کرتے کرتے تھک جاتے ہیں۔ آپ سو جائیں۔ ۔ ۔ (کچھ دیر بعد ڈر کر) میں کہتی ہوں جی۔ کواڑ ہل رہے ہیں جیسے کھل گئے ہیں۔
نفیس :ہیں۔ ۔ ۔ سنو!قدموں کی آوازیں آ رہی ہیں۔ گویا کوئی ڈیوڑھی میں کھڑا ہے، یا۔ ۔ ۔ اندر چلا آ رہا ہے۔ (بلند آواز)۔ ۔ ۔ کون ہے ؟
مرزا شوکت :ہم ہی ہیں صاحب۔ ۔ ۔ آپ کے محلہ دار بنواری لال اور مرزا شوکت۔ ۔ ۔
نفیس :آپ کیسے اندر چلے آئے۔ ۔ ۔ ؟آپ کو یہاں آنے کی اجازت کس نے دی؟۔ ۔ ۔
بنواری لال
گھبرا کے) ہم کیسے اندر چلے آئے ؟۔ ۔ ۔ ہم یونہی اندر چلے آئے۔
(کھسیانی ہنسی ہنستا ہے۔ )
مرزا شوکت :ہم آپ کے پڑوسی ہیں، ہمیں امام صاحب نے بھیجا ہے۔
نفیس :لیکن یہ کون سا وقت ہے یہاں آنے کا؟۔ ۔ ۔ اور میرے خیال میں دروازہ بند تھا جس کا مطلب ہے آپ دروازہ توڑ کر داخل ہوئے ہیں۔
(عذرا سہمی ہوئی نظر آتی ہے۔ )
بنواری :ہم نے دروازہ توڑا نہیں۔ ۔ ۔ بس دھکیلا تھا کہ وہ باہر آ گیا۔ بات یہ ہے کہ پرانے کواڑ ہیں۔ ۔ ۔
نفیس :آپ محلے دار ہوتے تو ہر گز ایسا نہ کرتے۔ آپ یقیناً چور ہیں۔ ۔ ۔ اور مداخلت بے جا کر رہے ہیں۔ آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اس وقت کسی شریف آدمی کے مکان پر اجازت کے بغیر چلے آئیں۔ میں نے کھڑکی سے آپ کی گفتگو سن لی تھی۔ ۔ ۔ میں ایک سرکاری ملازم ہوں اور اپنی بیوی کے ساتھ یہاں رہ رہا ہوں۔ ۔ ۔ میری بیوی ایک گرہستن ہے کوئی بھگائی ہوئی عورت نہیں، داشتہ نہیں۔ (قریب پڑی ہوئی لاٹھی اٹھا لیتا ہے۔ ) یہاں سے فوراً چلے جائیے ورنہ مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا۔
بنواری :دیکھئے صاحب، ہم یوں چلے جائیں گے، لیکن ہم آپ کی دھمکی سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔
مرزا شوکت :بابو صاحب۔ ۔ ۔ ہم سب معاملہ سمجھتے ہیں (ذرا درشت لہجے میں) آپ نے بہو بیٹیوں والے محلے میں یہ اڈا بنا رکھا ہے۔ محلے والے سب آپ کو جانتے ہیں۔ آپ ایسا ہر آدمی یوں اپنے آپ کو گرہستی ہی کہتا ہے۔
عذرا
گھبرائے ہوئے) اللہ مارو۔ اللہ کے قہر سے ڈرو۔ ہم گرہستی لوگ ہیں ہمیں یوں تو نہ بدنام کرو۔ ۔ ۔ تم لوگوں کے بھی کوئی ماں ہو گی، بہن ہو گی۔ اندازہ کرو اگر کوئی۔ ۔ ۔
مرزا شوکت :اجی ہم خوب سمجھتے ہیں یہ باتیں۔
بنواری :ہم یہاں تھوڑی دیر بیٹھنے کے لئے آئے تھے اور ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہ تھی۔
نفیس :میں کہتا ہوں چلے جاؤ یہاں سے نکل جاؤ ورنہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔
عذرا
نفیس کو روکتے ہوئے) خدا کے لیے۔ ۔ ۔ پروردگار لیے۔
بنواری اور مرزا شوکت: پہلے یہ لاٹھی رکھ دیجئے پھر ہم سے بات کیجئے۔
(دروازے سے پولیس انسپکٹر مائیکل اور ایک کانسٹبل داخل ہوتے ہیں۔ )
سب انسپکٹر مائیکل: ٹھہر جاؤ، رک جاؤ تم سب لوگ حراست میں ہو۔
نفیس
لاٹھی چھوڑ کر)مدد۔ ۔ ۔ مدد۔ میں کہیں کا نہ رہا انسپکٹر صاحب۔ (تقریباً روتے ہوئے۔ ) میں منھ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ مجھے اور میری بیوی کو حراست میں لے لیجئے ہم دونوں آپ کی حراست میں اس آزادی سے اچھے رہیں گے۔
عذرا :میں آپ کے پاؤں پڑتی ہوں انسپکٹر صاحب(جھکتی ہے) ہمیں اس مصیبت سے بچائیے۔ ہم بے گناہ ہیں۔
سب انسپکٹر مائیکل: دیکھئے خاموش رہئے۔ میرے پاؤں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔
کانسٹبل :یہ سب عیاری ہے انسپکٹر صاحب، ا ن سے پوچھئے کہ یہ کون آدمی ہیں۔
سب انسپکٹر مائیکل:پوچھنے کی کیا ضرورت ہے وہ تو صاف ظاہر ہے آج تک میں نے کسی مجرم۔
نفیس
وحشیانہ انداز میں) کون مجرم انسپکٹر صاحب میں مجرم ہوں اور میری بیوی۔ ۔ ۔
سب انسپکٹر مائیکل:نفیس صاحب آپ ہی ہیں۔
مرزا شوکت :جی ہاں، یہ انہی کی نفاست ہے۔
سب انسپکٹر مائیکل:آپ چپ رہئے۔
نفیس :نفیس میرا ہی نام ہے۔ ۔ ۔ لیکن میں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس کی رو سے میں مجرم گردانا جاؤں۔ یوں جیسا کہ میں نے غرض کیا آپ کی قید میں آنے کے لیے تیار ہوں۔
بنواری :جھگڑے کی نوبت یہی ہے جناب کہ بہو بیٹیوں کے اس محلے میں۔ ۔ ۔
سب انسپکٹر مائیکل:بکو مت!ان لوگوں کو میں تم سے زیادہ سمجھتا ہوں۔ یہ درست ہے ان لوگوں نے اس مکان کو فحاشی کا اڈہ بنا رکھا ہے۔ لیکن آپ اس وقت یہاں کیسے تشریف لائے ؟کیا آپ دن کے وقت ان لوگوں کو اخلاق کا سبق نہیں پڑھا سکتے تھے ؟
نفیس :فحاشی کا اڈہ۔ ۔ ۔ یہ آپ کہہ رہے ہیں ؟
مرزا شوکت :دن کے وقت؟۔ ۔ ۔ یہ آپ کیا فرما رہے ہیں ؟ہم لوگ دن بھر اپنے کام دھندے میں مشغول رہتے ہیں۔
کانسٹبل :دن کے وقت محلے دار انھیں کس طرح پکڑ سکتے ہیں ؟
سب انسپکٹر مائیکل:اگر اس کمرے میں محلہ داروں کے علاوہ کوئی اور شخص ہوتا جس کی بابت ان لوگوں کو تفصیلات نہ پتہ ہوتیں تو یہ لوگ مجرم لیکن اب یہ محلے دار بغیر کسی بین ثبوت کے اندر چلے آئے ہیں اور مداخلت بے جا کے مرتکب ہوئے ہیں۔
نفیس :جناب والا! میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔
عذرا :ہائے میرے اللہ۔ ۔ ۔
سب انسپکٹر مائیکل
نفیس اور عذرا سے) میں آپ سے بات کرتا ہوں (بنواری لال سے)آپ کا نام کیا ہے ؟
بنواری لال
ادھر ادھر دیکھ کر) میرا نام ہے لیکن میں تو۔ ۔ ۔
سب انسپکٹر مائیکل:میں آپ کو نگلے نہیں جا رہا ہوں۔ ۔ ۔ میں صرف نام پوچھ رہا ہوں، اتنا گھبرائیے مت۔
بنواری لال :میرا نام ب۔ ۔ ۔ بنواری لعل ہے۔
سب انسپکٹر مائیکل
مرزا شوکت سے) آپ کا اسم گرامی؟
مرزا شوکت :لیکن انسپکٹر صاحب ہمارا گناہ کیا ہے ؟طوائف کے دروازے تو خلق خدا کے لیے کھلے ہوتے ہیں۔ ہم جو اندر چلے آئے تو کیا جرم کیا۔ ۔ ۔ ؟
سب انسپکٹر مائیکل:خوب!۔ ۔ ۔ یہ خلق خدا کے الفاظ کا بھی خوب استعمال ہوا ہے۔ لیکن صاحب آپ تو محلے دار کی حیثیت سے تشریف لائے تھے تا کہ یہ اڈا اٹھوا کر محلے کے لوگوں کی بہو بیٹیوں کی آبرو بچائی ہے۔
مرزاشوکت
گھبرا کر)نہیں میرا مطلب ہے۔ ۔ ۔
سب انسپکٹر مائیکل:آپ اپنا نام بتائیے ؟
بنواری لعل
ڈرتے ہوئے) مرزا شوکت ہے۔
(مرزا شوکت غصہ سے بنواری لال کی طرف دیکھتا ہے۔ )
مرزا شوکت :لکھ لیجئے۔ میں کوئی ڈرتا تھوڑی ہوں۔ ہمیں امام صاحب نے بھیجا ہے تا کہ اس کی تحقیق کی جائے۔
سب انسپکٹر مائیکل:چلئے اس بات کی بھی تصدیق ہو جاتی ہے (کانسٹبل سے) سردار حسین انھیں باہر لے جاؤتا کہ دوسرے محلہ داروں کے ساتھ ان کی بھی گواہیاں پیش کی جائیں۔
مرزا شوکت :لیکن ایک بات کاخ یال رکھئے۔ ہم با عزت شہری ہیں اور ۔ ۔ ۔
سب انسپکٹر مائیکل:جی ہاں میں جانتا ہوں آپ تشریف لے جائیے۔
(کانسٹبل مرزا شوکت اور بنواری لال کو باہر لے جاتا ہے۔ )
(نفیس سے)۔ ۔ ۔ نفیس صاحب آپ کے آبائی گھر اور دفتر کا پتہ میرے پاس ہے۔ آپ پہلے جس جیوری ڈکشن میں رہتے تھے، وہاں تفتیش کی جا چکی ہے اس جگہ آپ کب سے رہ رہے ہیں۔
نفیس :عرصہ دو ماہ سے۔
سب انسپکٹر :نہیں آپ کو غالباً یہاں آئے دو ماہ اور چودہ دن ہوئے ہیں۔
عذرا :جی ہاں بس اتنے ہی دن ہوئے ہیں۔
سب انسپکٹر مائیکل
نفیس سے) جب آپ یہاں آئے تھے تو آپ کو پتہ نہیں تھا کہ اس مکان میں شمشاد بائی طوائف رہتی تھی؟
نفیس :نہیں صاحب میں بنا جانے بوجھے اسباب اٹھوا کر ادھر چلا آیا تب سے ہر روز یہی قصہ ہوتا ہے۔ کوئی نہ کوئی ہمارا دروازہ کھٹکھٹاتا ہی رہتا ہے اور محلے والوں کو ہم پر شک کرنے کا موقع دیتا ہے اور یہ چپقلش جاری ہے۔
سب انسپکٹر مائیکل:چپقلش سے آپ کاکیا مطلب ہے ؟
نفیس :یہی۔ ۔ ۔ نیا مکان تلاش کرنے اور نہ ملنے کی مرزا شوکت اور بنواری ایسے لوگوں کے ساتھ جھگڑنے کی۔ آج تک میں یہی سمجھتا آیا تھا کہ ہمیں اپنے ہی گنا ہوں کا حساب دینا ہوتا ہے لیکن نقل مکانی کے اس تجربے بے ثبات کر دیا کہ انسان اپنے بچوں، اپنے ماں باپ، اپنے بھائی بہن، بیوی کے کردار کا بھی ذمہ دار نہیں ہوتا بلکہ اپنے پڑوسیوں کے قول و فعل کے لیے بھی گردن زدنی ہے۔
عذرا :تمام دن ہمارا دروازہ بند رہتا ہے۔ ۔ ۔ ہم ڈر کے مارے کواڑ کھولتے ہی نہیں، آپ کواڑ دیکھ کر پتہ کر لیجئے کہ یہ لوگ دروازہ اکھاڑ کر اندر آئے ہیں یا نہیں۔ ۔ ۔ اور ہم کچھ نہیں کہنا چاہتے۔ ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ۔ ۔ جتنا ہم زیادہ بولتے ہیں اتنا ہی گناہگار معلوم ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ اگر آپ بھی ہمیں قصوروار سمجھتے ہیں تو جو سلوک آپ چاہیں کریں۔ ۔ ۔
سب انسپکٹر مائیکل:آج کا واقعہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ۔ ۔ میں سب معاملہ کی جانچ پڑتال کر چکا ہوں۔ آپ بے حد شریف ہیں اور یہی آپ کا جرم ہے۔ ۔ ۔ (نفیس سے)کل آپ تھانے میں تشریف لائیے نفیس صاحب اور نیک چلنی کی ضمانت داخل کیجئے۔ ۔ ۔
نفیس :نیک چلنی کی ضمانت؟
عذرا :نیک چلنی کی ضمانت؟۔ ۔ ۔ (روکر) میرے اللہ۔
نفیس :انسپکٹر صاحب!۔ ۔ ۔ مجھے بد چلن ہی سمجھ لیجئے لیکن میں نیک چلنی کی ضمانت نہیں داخل کر سکوں گا۔ اس سے پہلے رشتہ داروں میں یہ بات نہیں پھیلی پھر ان میں بھی پھیل جائے گی۔ آپ مجھے گرفتار کیوں نہیں کر لیتے ؟میں حاضر ہوں (دونوں ہاتھ بڑھا دیتا ہے) میرے پاس کوئی ضامن نہیں۔ اس محلہ میں میرا کوئی واقف نہیں۔ کوئی ہمدرد نہیں۔
(عذرا بدستور رو رہی ہے۔ )
سب انسپکٹر مائیکل:آپ سمجھتے نہیں ہیں۔ ۔ ۔ صرف ایک کاغذی کاروائی مکمل کرنی ہے اگر کوئی ضامن نہ ملا تو میں آپ کو مہیا کر دوں گا۔ ۔ ۔ آپ محلے والوں سے ڈریں نہیں۔ ۔ ۔ میں آپ کی پوزیشن کو خوب سمجھتا ہوں مجھے آج سے اپنا ہی سمجھئے۔
نفیس :یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں انسپکٹر صاحب ہم آپ کے قابل نہیں ہیں۔ ۔ ۔ آپ نہیں جانتے ہم آپ کے کتنے ممنون ہیں۔
سب انسپکٹر مائیکل:آپ خوف نہ کھائیے میں ہر طرح سے آپ کی مدد کرنے کو تیار ہوں۔ ۔ ۔ (عذرا سے)میری بیوی بھی آپ کی طرح گانے بجانے کا شوق رکھتی ہے۔ (نفیس سے)کیا آپ دونوں پیر کے روز میرے ساتھ چائے پی سکتے ہیں ؟
عذرا :ہم آپ کے بہت شکر گزا رہیں۔ آپ ان محلے والوں سے ہماری خلاصی کرا دیجئے۔ آپ کو بڑا ثواب ہو گا۔ ۔ ۔ مجھے خود آپ کی بیگم صاحبہ سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہو گیا ہے، آپ جب چاہیں گے ہم آپ کے گھر پہنچ جائیں گے۔
سب انسپکٹر مائیکل
قدرے گھبرا کر) چائے گھر پر ممکن نہ ہو سکے گی۔ ۔ ۔ دیکھئے نا ذرا میری بیوی بیمار رہتی ہیں۔ چائے باہر پی سکیں گے کہیں۔ ۔ ۔ پھر سیر تماشا ہو جائے گا، بہرحال میں عرض کروں گا، کل آپ تھانے تشریف لا رہے ہیں ؟میں چلتا ہوں۔ خدا حافظ!
(جاتا ہے۔ )
نفیس :جی ہاں کل صبح ضرور حاضر ہو جاؤں گا۔ ۔ ۔ خدا حافظ!
(وقفہ)
نیک چلنی کی ضمانت۔ ۔ ۔ چائے کی دعوت۔ ۔ ۔ کہیں اس سے بڑا گڑھا تو نہیں کھودا جا رہا ہے ؟
عذرا :میں کیا جانوں۔ ۔ ۔ ہائے میرے اللہ!
پردہ