نقل نہ کرنے دینے پر ویجی لنس افسر پر تشدد

الف نظامی

لائبریرین
نقل نہ کرنے دینے پر ویجی لنس افسر پر گھر واپسی پر تشدد
کراچی(اسٹاف رپورٹر)اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی کے تحت جاری امتحانات کے گیارہویں روز مہران ڈگری کالج فیڈرل بی ایریا کے ویجی لینس افسر کے ساتھ افسوسناک واقعہ پیش آیا جب انہیں امتحانی مرکز سے گھر واپس جاتے ہوئے تین نامعلوم افراد نے اس بات پر تشدد کا نشانہ بنایا کہ انہیں نقل کیوں نہیں کرنے دی گئی۔

یاد رہے اس سے قبل بھی اسی ویجی لینس افسر کو کچھ مشکوک لوگوں نے روکنے کی کوشش کی تھی لیکن فوری طور پر پولیس کے پہنچنے کے باعث فرارہوگئے تھے۔

چیئرمین انٹربورڈ پروفیسر نسیم احمد میمن نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے امتحانی عملے کے تحفظ کیلئے ایک مرتبہ پھر اعلیٰ سیکیورٹی حکام سے رابطہ کیا ہے تاکہ امتحانات کے پرامن انعقاد کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں کو ناکام بنایا جاسکے۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
چیئرمین انٹربورڈ پروفیسر نسیم احمد میمن نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے امتحانی عملے کے تحفظ کیلئے ایک مرتبہ پھر اعلیٰ سیکیورٹی حکام سے رابطہ کیا ہے تاکہ امتحانات کے پرامن انعقاد کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں کو ناکام بنایا جاسکے۔
انتہائی افسوسناک صورتحال ہے
نقل اور دھوکہ دہی کا رواج
بڑھتاہی جارہا ہے ۔۔
وقتاً فوقتاً امتحان کے سوال یا پرچے لیک ہونے کی بھی اطلاع ملتی
رہتی ہیں
سخت ترین قوانین بنانے کی ضرورت ہے ۔۔۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک وڈیو سے ظاہر ہوتا ہے کہ طلبہ کے ساتھ ساتھ طالبات بھی نقل کی دوڑ میں آگے اور کھلے عام نقل کرتی نظر آتی ہیں۔ ایک ٹی وی چینل کے ایجوکیشن رپورٹر نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ نقل مافیا اتنی مضبوط ہے کہ امتحانی مرکز اپنی مرضی سے طے کرنے، امتحان سے 24 گھنٹے پہلے پرچہ آؤٹ کرنے اور واٹس ایپ پر حل شدہ پرچہ فراہم کرنے، امتحانی کاپیوں کی جانچ پڑتال کے وقت نمبر بڑھانے کے علیحدہ علیحدہ نرخ مقرر ہیں۔
سندھ کے وزیر تعلیم کو چاہیے کہ اپنے کچھ دن امتحانی نظام کے رائج کرنے کے طریقہ کار کے لیے وقف کریں۔
 

جاسمن

لائبریرین
صرف سندھ کی بات نہیں رہی اب۔ پنجاب میں بھی صورتحال بہت بری ہوتی جا رہی ہے۔
آنکھوں دیکھا، کانوں سنا، مشاہدے، تجربے اتنے تلخ ہیں کہ بس!!!
 

سید رافع

محفلین
صرف سندھ کی بات نہیں رہی اب۔ پنجاب میں بھی صورتحال بہت بری ہوتی جا رہی ہے۔
آنکھوں دیکھا، کانوں سنا، مشاہدے، تجربے اتنے تلخ ہیں کہ بس!!!
یہ بہاول پور میں ایسا ہو گا یا لاہور اور اسلام آباد جیسے مرکزی شہروں میں بھی نقل کھلے عام ہو رہی ہے؟
 

سید رافع

محفلین
انتہائی افسوسناک صورتحال ہے
نقل اور دھوکہ دہی کا رواج
بڑھتاہی جارہا ہے ۔۔
وقتاً فوقتاً امتحان کے سوال یا پرچے لیک ہونے کی بھی اطلاع ملتی
رہتی ہیں
سخت ترین قوانین بنانے کی ضرورت ہے ۔۔۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک وڈیو سے ظاہر ہوتا ہے کہ طلبہ کے ساتھ ساتھ طالبات بھی نقل کی دوڑ میں آگے اور کھلے عام نقل کرتی نظر آتی ہیں۔ ایک ٹی وی چینل کے ایجوکیشن رپورٹر نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ نقل مافیا اتنی مضبوط ہے کہ امتحانی مرکز اپنی مرضی سے طے کرنے، امتحان سے 24 گھنٹے پہلے پرچہ آؤٹ کرنے اور واٹس ایپ پر حل شدہ پرچہ فراہم کرنے، امتحانی کاپیوں کی جانچ پڑتال کے وقت نمبر بڑھانے کے علیحدہ علیحدہ نرخ مقرر ہیں۔
سندھ کے وزیر تعلیم کو چاہیے کہ اپنے کچھ دن امتحانی نظام کے رائج کرنے کے طریقہ کار کے لیے وقف کریں۔
آپ ان بچوں کے بارے میں کیا کہیں گی جو یونیورسٹی سے صحیح صحیح پڑھ کر فارغ ہو رہے ہیں؟ کیا وہ لائق ہیں؟ مجھے لگتا ہے کہ اعلی تعلیم اعلی ہنرمند پیدا نہیں کر رہی۔ چار پانچ سال اور چار چھ لاکھ زبردست ہنرمند پیدا کرنے چاہیں۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
صرف سندھ کی بات نہیں رہی اب۔ پنجاب میں بھی صورتحال بہت بری ہوتی جا رہی ہے۔
آنکھوں دیکھا، کانوں سنا، مشاہدے، تجربے اتنے تلخ ہیں کہ بس!!!
میرا بڑا بیٹا پنجاب گروپ آف کالج میں پڑھتا ہے۔ کچھ دنوں پہلے اس کے گیارہویں کے پیپر ہوئے۔ مجھے بتا رہا تھا کہ سب بچے نقل کر رہے ہوتے ہیں میں نے اسے سختی سے کہا کہ تمہارے نمبر چاہے کم آئیں لیکن نقل نہیں کرنی ۔
جو اس وقت تعلیمی اداروں کا حال ہے وہ ہمارے وقتوں میں تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ میں نے جس ہائی سکول میں پڑھا تھا اس میں چھوٹے بیٹے کو داخل کرایا کیونکہ ہمارے وقتوں میں اس کا بہت اچھا معیار تھا لیکن انتہائی ناقص کارکردگی کی وجہ سے ایک آدھ مہینے میں ہی بیٹے کا نام خارج کرانا پڑا۔۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
نقل کے ان رجحانات کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ہاں کے طلباء حصولِ علم کے اصل مقصد سے واقف ہی نہیں رہے ہیں۔

سرٹیفیکٹس اور ڈگری کے حصول کے لئے شارٹ کٹ تلاش کرنا کافی خطرناک رجحان ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام کی از سرِ نو تشکیل کی ضرورت ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
میرا بڑا بیٹا پنجاب گروپ آف کالج میں پڑھتا ہے۔ کچھ دنوں پہلے اس کے گیارہویں کے پیپر ہوئے۔ مجھے بتا رہا تھا کہ سب بچے نقل کر رہے ہوتے ہیں میں نے اسے سختی سے کہا کہ تمہارے نمبر چاہے کم آئیں لیکن نقل نہیں کرنی ۔

جب سب بچے نقل کر رہے ہوں تو پڑھنے والے بچوں کے ساتھ بڑی زیادتی ہوتی ہے۔

تعلیمی نظام کے کرتا دھرتا ، اس نظام میں بہتری کی لئے کچھ نہیں کرتے۔ نقل کی روک تھام کی کوشش کچھ خاص کارگر نہیں ہوتی۔ اصل کام تو یہ ہے کہ ان محرکات کو روکا جا سکے جن کی وجہ سے نقل کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
محمداحمد سید عاطف علی گُلِ یاسمیں سیما علی
کراچی میں نقل کرنے کا پرتشدد رجحان کب شروع ہوا؟
دفعہ 144 کے نفاذ کے اعلانات اور ڈپٹی کمشنر کے سخت پریس نوٹ اور فوٹو اسٹیٹ کی مشینوں کو بند کرنے کے انتظامی اقدامات سے نہ نقل رکے گی نہ ہی شفاف نظام قائم ہوگا،
اوپر سے طاقت ور ہی سب کچھ ہے
تشدد کا سلسلہ اندرون سندھ میں تو خاصا پرانا ہے پر پرنٹ
میڈیا
تک آنے نہیں دیا جاتا تھا
اب سوشل
میڈیا
نے انکو خاصہ بےنقاب کیا ہے
 

جاسمن

لائبریرین
یہ بہاول پور میں ایسا ہو گا یا لاہور اور اسلام آباد جیسے مرکزی شہروں میں بھی نقل کھلے عام ہو رہی ہے؟
یہاں تو ظاہر ہے کہ میں خود اس نظام میں ہوں تو پتہ چلتا رہتا ہے لیکن وہاں بھی خدشہ ہے، کہ یہی کچھ ہو گا۔
یہ صرف نقل نہیں ہے۔ یہ اچھے نمبرز لینے کے، اپنے ادارے کے بچوں کو اچھے نمبرز لے کے دینے کا ایک ایسا سلسلہ ہے جو صرف نقل تک محدود نہیں ہے۔ پرچے آؤٹ کرنا۔ نمبرز لگوانا۔ پریکٹیکل میں پورے نمبرز لگوانا۔ پرچے کے پیچھے جانا۔ ممتحن تک پہنچ جانا۔
نیز میں آپ کے طلبہ کو اچھے نمبر دوں اور آپ میرے طلبہ کو اچھے نمبر دیں۔ امدادِ باہمی۔
پھر اساتذہ کی سالانہ رپورٹ مثبت تب ہی ہوتی ہے جب ان کے طلبہ کے نتائج اچھے ہوں۔ سو سب اپنے نتائج "ہر طریقے" سے بہتر بناتے ہیں۔
یہ نظام سکول سے جامعات تک جاری رہتا ہے۔ سروائیول کے لیے، داخلوں میں اضافے کے لیے، سالانہ مثبت رپورٹ کے لیے۔۔۔۔۔
پھر آپ کے ادارے کے نتائج بہت اعلیٰ ہیں کہ آپ نے اپنے بچوں کو داخلی امتحانات میں مکمل نمبر دیے ہیں۔ اب میں کیوں میرٹ پہ نمبر دوں؟ میرے ادارے میں داخلی امتحانات میں بچے فیل بھی ہیں، اچھے بھی ہیں، درمیانے بھی ہیں تو ؟ اپنے نتائج خراب کر لوں؟ آپ نے چالاکی سے سب کو پورے پورے نمبر دے دیے تو میں کیسے پیچھے رہوں؟
کسی دھاگے میں عثمان نے کچھ ملتے جلتے سوال کیے تھے۔ وہاں بھی میں نے دل کے پھپھولے پھوڑے تھے۔
امتحانات کے حوالے سے بھی میرے پاس بہت واقعات ہیں۔ میں نے آخری ڈیوٹی چھوڑی بلکہ چھڑوائی گئی۔ بہت تلخ واقعہ ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
کسی بھی معاشرے میں اخلاقی زوال آتا ہے تو کسی ایک شعبے تک محدود نہیں رہتا۔ ہم بحیثیت مجموعی زوال پزیر ہیں۔ یہ رفتار تیز سے تیز تر ہو رہی ہے۔ وہ لوگ، وہ ادارے جو پہلے نسبتاً بہتر تھے، "بڑوں" نے نجانے منصوبہ بندی کر کے یا "معصومیت" میں انھیں بھی اسی دلدل میں ڈال دیا ہے۔
آپ نے "ہانکا" دیکھا ہے کبھی؟
کبھی مرغیوں کو چاروں طرف سے گھیر کے کھڈے کھڈے کرتے دڑبے میں بند کیا ہے؟
ایسے لوگوں، ایسے اداروں کو چاروں طرف سے ہانکا لگا کے اس بدبودار نظام میں گھسیٹا جا رہا ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
دفعہ 144 کے نفاذ کے اعلانات اور ڈپٹی کمشنر کے سخت پریس نوٹ اور فوٹو اسٹیٹ کی مشینوں کو بند کرنے کے انتظامی اقدامات سے نہ نقل رکے گی نہ ہی شفاف نظام قائم ہوگا،
اوپر سے طاقت ور ہی سب کچھ ہے
تشدد کا سلسلہ اندرون سندھ میں تو خاصا پرانا ہے پر پرنٹ
میڈیا
تک آنے نہیں دیا جاتا تھا
اب سوشل
میڈیا
نے انکو خاصہ بےنقاب کیا ہے
بہت کچھ منظرِ عام پہ آتا ہے لیکن چند دن گزرتے ہیں اور گرد پڑتی جاتی ہے۔ ہمارا نظامِ انصاف بھی تو ناانصاف ہے۔
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
آپ ان بچوں کے بارے میں کیا کہیں گی جو یونیورسٹی سے صحیح صحیح پڑھ کر فارغ ہو رہے ہیں؟ کیا وہ لائق ہیں
بہت کم بچے لائق ہیں۔
جامعات محض ڈگریاں دے رہی ہیں۔ سمسٹر سسٹم اس قدر برا ہے ہماری جامعات میں کہ شاید ہی کہیں ہو۔ بچے اپنے مضامین میں قطعاً اچھے نہیں ہیں۔ بلکہ انھیں دوسرے مضامین کی شُدبُد تو کیا، اپنے مضامین کی شد بد بھی بہت کم ہوتی ہے۔
اب داخلوں کی تعداد بڑھانے سے مطلب ہے، بچوں کی قابلیت بڑھانے سے نہیں۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
آج کل کراچی میں نقل کی اجازت دینے پر کچھ جگہوں پر انوجی لیٹر پیسے کا تقاضا کرتے ہوئے پائے گئے ۔ہمارے کچھ رشتہ داروں نے یہ بتا یا ۔
ہماری خود کی بچی انٹر کے امتحان شیخ زید گرلز کالج یونیورسٹی روڈ میں دے رہی ہے ۔ آج بھی ایک پرچہ تھا ۔
وہ بتاتی ہے کہ تھوڑی بہت بچیاں آپس میں کچھ پوچھ لیتی ہیں ۔
مجھے کچھ نہیں پتہ چلتا کیوں کہ میں امتحان میں مصروف ہوتی ہوں ۔
ہم نے تو خود بھی یوں ہی کیا اور اپنے بچوں کو بھی یہی سکھایا لیکن پاکستان میں نہ جانے قانون اور اخلاق کو کب جگہ ملے گی ۔
مجھے یاد ہے دوران امتحان میرا پرچہ کچھ لڑکے آگے زبردستی دیکھا کرتے تھے ۔اور کچھ ٹیچرز بھی دیکھ کر دوسروں کو بتاتے تھے ۔یہ تیس پینتیس برس قبل کی بات ہے ۔
 

سید رافع

محفلین
کسی بھی معاشرے میں اخلاقی زوال آتا ہے تو کسی ایک شعبے تک محدود نہیں رہتا۔ ہم بحیثیت مجموعی زوال پزیر ہیں۔ یہ رفتار تیز سے تیز تر ہو رہی ہے۔ وہ لوگ، وہ ادارے جو پہلے نسبتاً بہتر تھے، "بڑوں" نے نجانے منصوبہ بندی کر کے یا "معصومیت" میں انھیں بھی اسی دلدل میں ڈال دیا ہے۔
آپ نے "ہانکا" دیکھا ہے کبھی؟
کبھی مرغیوں کو چاروں طرف سے گھیر کے کھڈے کھڈے کرتے دڑبے میں بند کیا ہے؟
ایسے لوگوں، ایسے اداروں کو چاروں طرف سے ہانکا لگا کے اس بدبودار نظام میں گھسیٹا جا رہا ہے۔
یہ تو امتحان خداوندی ہے۔ لفنگے اپنی محنت کر رہے ہیں آپ لوگوں کے ساتھ مل کر اپنی محنت کریں۔ دنیا دارالامتحان ہے۔
 

سید رافع

محفلین
آج کل کراچی میں نقل کی اجازت دینے پر کچھ جگہوں پر انوجی لیٹر پیسے کا تقاضا کرتے ہوئے پائے گئے ۔ہمارے کچھ رشتہ داروں نے یہ بتا یا ۔
ہماری خود کی بچی انٹر کے امتحان شیخ زید گرلز کالج یونیورسٹی روڈ میں دے رہی ہے ۔ آج بھی ایک پرچہ تھا ۔
وہ بتاتی ہے کہ تھوڑی بہت بچیاں آپس میں کچھ پوچھ لیتی ہیں ۔
مجھے کچھ نہیں پتہ چلتا کیوں کہ میں امتحان میں مصروف ہوتی ہوں ۔
ہم نے تو خود بھی یوں ہی کیا اور اپنے بچوں کو بھی یہی سکھایا لیکن پاکستان میں نہ جانے قانون اور اخلاق کو کب جگہ ملے گی ۔
مجھے یاد ہے دوران امتحان میرا پرچہ کچھ لڑکے آگے زبردستی دیکھا کرتے تھے ۔اور کچھ ٹیچرز بھی دیکھ کر دوسروں کو بتاتے تھے ۔یہ تیس پینتیس برس قبل کی بات ہے ۔
کراچی کے نویں دسویں کے امتحانات جو کہ پچھلے ماہ ہوئے، سندھی بولنے والے لڑکے اور لڑکیوں کے لیے VIP روم تھے۔ سارے سینٹر کے ہر کمرے سے سندھی بولنے والے لڑکے اور لڑکیوں کو VIP روم میں منتقل کیا جاتا جہاں وہ کتابوں اور اساتذہ کی مدد سے پرچے حل کرتے ہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
ایسے لوگوں، ایسے اداروں کو چاروں طرف سے ہانکا لگا کے اس بدبودار نظام میں گھسیٹا جا رہا ہے۔
باکل درست کہا آپ نے
بالکل لوگون کو ہانکا جارہاہے
ابھی ہماری ایک جاننے والی ڈاکٹر ہیں انکے
سرٹیفکیٹ
کھو گئے کسی جگہ جمع کرنے تھے وہ سعودی عرب میں کسی سےپاکستان میں کہا ری ایشوکروانے
تو کل ہیبات ہوئی اسقدر افسوس ہو جو صاحب کام کروا رہے ہیں یعنی جئنوین
سر ٹیفکٹ ری ایشو تو دو لاکھ روپے لے رہے افسوس صد افسوس جنکی اصل فیس کچھ ہزار ہوگی 🥲🥲🥲🥲🥲🥲
 
Top