ناعمہ عزیز
لائبریرین
صفحہ نمبر 90
دل در سخنَ محمدی بند
اے پور علی زبو علی چند
چوں دیدہ راہ میں نداری
قاید قرشیًً نہ از بخاری !
اقبال نئی نسل کی بے ہمتی اور اسکی اخلاقی پستی کا ذمہ دار موجودہ نظام تعلیم کو قرار دیتے ہیں ، جس کے ہاں اخلاق پر کوئی زور نہیں اور نہ تربیت کا کچھ خیال ہے ، وہ کہتے ہیں کہ آجکل کے نوجوانوں کےدل سوز دروں سے خالی اور ان کی نظریں غیر عفیف ہیں ، تعلیم یافتہ نوجوانوں کی زبان بہت تیز ہے ، لیکن اس کی آنکھوں میں اشک ندامت اور دل میں خوف و خشیت ذرا بھی نہیں :-
جو آنکھ کہ ہے سرمہ افرنگ سے روشن
پرکار و سخن سازہے نم ناک نہیں ہے
وہ ان سب باتوں کے لئے کالجوں اور یونیورسٹیوں کو مورد الزام قرار دیتےہیں جنھوں نے نوجوانوں کو اپنے جال میں جکڑ رکھا ہے ، اور ان کی فطرت مسخ کرکے رکھ دی ہے ،، وہ دوسرا ذمہ دار حد سے بڑھی ہوئی "عقلیت " کو بھی سمجھتے ہیں ، جو اولوالعزمیوں اور پُر خطر راہوں سے روکتی اور ہر قدم پر مصلحت سنجی اور عاقبت بینی کا بہانہ تراشتی رہتی ہے ۔
اقبال کی نگاہ میں اس ذہنی انحطاط کی ایک وجہ حد سے بڑٰھی ہوئی مادہ پرستی اور اسباب طلبی ، اور عہدوں ، ملازمتوں ، اور اونچی کوسیوں کو تعلیم کا مقصد سمجھنا بھی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ بے مقصد افراد کے لئے علم دوائے نافع نہیں ستم قاتل و قاطع ہے ، اور ایسی رزق سے سے موت بہتر ہے :-
اے طائر لا ہوتی ! اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پروازمیں کوتاہی
دل در سخنَ محمدی بند
اے پور علی زبو علی چند
چوں دیدہ راہ میں نداری
قاید قرشیًً نہ از بخاری !
اقبال نئی نسل کی بے ہمتی اور اسکی اخلاقی پستی کا ذمہ دار موجودہ نظام تعلیم کو قرار دیتے ہیں ، جس کے ہاں اخلاق پر کوئی زور نہیں اور نہ تربیت کا کچھ خیال ہے ، وہ کہتے ہیں کہ آجکل کے نوجوانوں کےدل سوز دروں سے خالی اور ان کی نظریں غیر عفیف ہیں ، تعلیم یافتہ نوجوانوں کی زبان بہت تیز ہے ، لیکن اس کی آنکھوں میں اشک ندامت اور دل میں خوف و خشیت ذرا بھی نہیں :-
جو آنکھ کہ ہے سرمہ افرنگ سے روشن
پرکار و سخن سازہے نم ناک نہیں ہے
وہ ان سب باتوں کے لئے کالجوں اور یونیورسٹیوں کو مورد الزام قرار دیتےہیں جنھوں نے نوجوانوں کو اپنے جال میں جکڑ رکھا ہے ، اور ان کی فطرت مسخ کرکے رکھ دی ہے ،، وہ دوسرا ذمہ دار حد سے بڑھی ہوئی "عقلیت " کو بھی سمجھتے ہیں ، جو اولوالعزمیوں اور پُر خطر راہوں سے روکتی اور ہر قدم پر مصلحت سنجی اور عاقبت بینی کا بہانہ تراشتی رہتی ہے ۔
اقبال کی نگاہ میں اس ذہنی انحطاط کی ایک وجہ حد سے بڑٰھی ہوئی مادہ پرستی اور اسباب طلبی ، اور عہدوں ، ملازمتوں ، اور اونچی کوسیوں کو تعلیم کا مقصد سمجھنا بھی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ بے مقصد افراد کے لئے علم دوائے نافع نہیں ستم قاتل و قاطع ہے ، اور ایسی رزق سے سے موت بہتر ہے :-
اے طائر لا ہوتی ! اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پروازمیں کوتاہی