نماز کا طریقہ صحیح احادیث کی روشنی میں

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
فاروق سرور صاحب ، شکریہ ادا کرنے پر شکریہ قبول فرمایے ،
آپ کی مطلوبہ معلومات کے سلسلے میں بھتیجے عبداللہ حیدر نے کافی کام کیا ہے ، کبھی کبھی اُن کی موجودگی یہاں ظاہر ہوتی ہے پس میں ان سے گذارش کروں گا کہ انہوں نے نماز نبوی علی صاحبھا الصلوۃ و السلام کے طریقہ کے بارے میں جو کچھ تیار کیا ہے اسے یہاں محفل میں ایک الگ دھاگے کی صورت میں نشر کریں ، اللہ ان کو جزائے خیر سے مالا مال فرمائے ،
السلام علیکم، درج بالا مراسلے میں دی گئی تجویز کے مطابق اس تھریڈ کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ موضوع مکمل ہونے تک قارئین سے تبصرے روکے رکھنے کی درخواست ہے۔ مضامین تیار ہونے کے ساتھ ہی ارسال کیے جاتے رہیں گے ان شاء اللہ۔ نماز شروع کرنے سے قبل قبلہ رخ ہونے ضروری ہے لہٰذا اسی سے آغاز کرتے ہیں۔
قبلے کی طرف منہ کرنے کی فرضیت:​
قبلہ رخ ہونا نماز کی شرط ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فرض اور نفل دونوں قسم کی نمازوں میں اپنا رخ کعبے کی جانب فرمایا کرتے تھے۔ ٹھیک طرح سے نماز ادا نہ کرنے والے ایک صحابی کو نماز کا طریقہ سکھاتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اس کا حکم بھی ارشاد فرمایا:
إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَأَسْبِغْ الْوُضُوءَ ثُمَّ اسْتَقْبِلْ الْقِبْلَةَ فَكَبِّر 1
جب تو نماز کے لیے کھڑا ہو تو( اچھے انداز سے) مکمل وضو کر، پھر قبلے کی طرف منہ کر اور تکبیر (تحریمہ) کہہ”

سواری پر نفل نماز میں استقبال قبلہ ضروری نہیں:
البتہ سفر میں قبلہ رخ ہوئے بغیر بھی سواری پر بیٹھے بیٹھے نفل یا وتر کی نماز ادا کرلینا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم دورانِ سفرسواری پر بیٹھ کرنفل اور وتر پڑھ لیا کرتے تھے خواہ اس کا رخ مشرق و مغرب یا کسی بھی طرف ہوتا۔2
قرآن کی یہ آیت اسی بارے میں اتری ہے۔3
فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ (سورۃ البقرۃ آیت 115)
“تو تم جدھر بھی رخ کرو، ادھر اللہ کا چہرہ ہے”۔
لیکن اگر سواری کو قبلہ رخ کرنا ممکن ہو تو نماز شروع کرنے سے پہلے کعبے کی طرف منہ کر لینا افضل ہے۔( اس لیے کہ) کبھی کبھار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز کے آٖغاز میں “اللہ اکبر” کہتے وقت اونٹنی سمیت قبلہ رخ ہو جاتے، اس کے بعداپنی نماز جاری رکھتے خواہ سواری کا رخ کسی بھی طرف پھر جاتا4 پھر سر کے اشارے سے رکوع و سجود ادا فرماتے اور سجدے کے لیے سر کو رکوع کی نسبت زیادہ جھکا لیتے تھے5۔ جمہور علماء کے نزدیک ہر قسم کے سفر میں سواری پر نفلی نماز پڑھنا جائز ہے خواہ وہ سفر اتنا تھوڑا ہی ہو کہ اس میں فرض نماز قصر نہ کی جا سکے۔

فرض نماز سواری پر جائز نہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فرض نماز سواری سے نیچے اتر کر اور قبلہ رخ ہو کر ادا فرماتے تھے اس لیے فرض نماز سواری پر بیٹھ کر پڑھنا جائز نہیں الا یہ کہ کوئی شرعی عذر ہو، مثلا ٹرین یا ہوائی جہاز میں سفر کے دوران اترنا ممکن نہ ہو اور نماز کا وقت نکل جانے کا ڈر ہو تو وہیں نماز ادا کر لینی چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔

شدیدخوف کی حالت میں نماز کیسے ادا کی جائے:
دشمن کی کثرت یا شدید خوف وغیرہ کی وجہ سے جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھی جا سکے تو جیسے بھی ممکن ہو نماز ادا کر لینی چاہیے، ایسے حالات میں سواری سے اترنے اور قبلہ رخ ہونے وغیرہ کی کچھ پابندی نہیں، فرض نماز خواہ سواریوں پر بیٹھے ادا کی جائے یا پیدل چلتے ہوئےپڑھی جائے اور رخ قبلہ کی جانب رہے یا نہ رہے بہرحال نماز ادا ہو جائے گی۔بلکہ سخت لڑائی میں تو سر کے اشارے سے بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے6فرمایا:
إذا اختلطوا فانما هو التكبير والاشارة بالرأس7
جب (فوجیں) گتھم گتھا ہو جائیں تو پھر بس تکبیر اور سرسے اشارہ (ہی نماز ادا کرنے کے لیے کافی) ہے”

قبلہ کی حدود
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اہل مدینہ کے لیے مشرق اور مغرب کے درمیان تمام سمت کو قبلہ قرار دیتے ہوئے فرمایا:
مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ 8
“مشرق اور مغرب کے درمیان تمام سمت قبلہ ہے”
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص خانہ کعبہ کو دیکھ رہا ہو اسے اپنا رخ ٹھیک ٹھیک اس کی جانب ہی کرنا چاہیے لیکن دور کے رہنے والوں کے لیے فقط درست سمت کا التزام ہی کافی ہے۔

قبلہ کی سمت معلوم کرنے میں غلطی ہونا
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی رفاقت میں تھے۔آسمان پر بادل چھا گیا تو قبلہ کے بارے میں ہمارا اختلاف ہو گیا۔ ہم نے درست سمت معلوم کرنے کی پوری کوشش کے بعدالگ الگ سمت میں نماز ادا کر لی اور اپنی اپنی سمت کو نشان زدہ کر دیا تا کہ صبح ہمیں معلوم ہو کہ کیا ہم نے قبلہ رخ نماز پڑھی ہے یا نہیں۔ صبح ہونے پر معلوم ہوا کہ ہم نے قبلہ کی سمت نماز ادا نہیں کی۔ ہم نے تمام واقعہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔انہوں نے ہمیں نمازلوٹانے کا حُکم نہیں دیا اور فرمایا:
قد أجزأت صلاتكم
تمہاری نماز ہو گئی”9

قبلے کی مختصر تاریخ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شروع میں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ یہ آیت نازل فرمائی:
قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَام(سورۃ البقرۃ آیت 144)
(اے محمد) ہم آپ کا آسمان کی طرف منہ پھیر پھیر کر دیکھنا دیکھ رہے ہیں۔ سو ہم آپ کو اسی قبلہ کی طرف جس کو آپ پسند کرتے ہیں منہ کرنے کا حکم دیں گے۔ تو اپنا منہ مسجد حرام (بیت اللہ) کی طرف پھیر لو
اس آیت کے نزول کے بعد اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز میں اپنا چہرہ مبارک خانہ کعبہ کی جانب کیا کرتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو کچھ لوگ قباء کے مقام میں صبح کی نماز ادا کر رہے تھے۔ اچانک ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی جانب سے ایک پیغام لانے والا آیا جس نے اعلان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر آج رات قرآن پاک کی آیت نازل ہوئی ہے جس میں کعبے کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ خبردار، تم بھی اپنا رخ اسی طرف کر لو۔ چنانچہ پہلے ان کا رخ شام کی جانب تھا، اس کے کہنے پر تمام نمازی گھوم کر قبلہ رخ ہو گئے اور امام بھی گھوم کر سامنے کی طرف آ گیا اور کعبے کی طرف رخ کر لیا۔10
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غلط سمت میں نماز پڑھتے ہوئے شخص کو نماز کے دوران ہی صحیح سمت کی خبر دی جا سکتی ہے اور اگر کسی کو دوران نماز پتہ چل جائے کہ وہ غلط سمت میں نماز پڑھ رہا ہے تو اسے چاہیے کہ اسی وقت اپنا رخ صحیح سمت میں کر لے۔
حوالہ جات:
1۔صحیح بخاری کتاب الاستئذان باب من رد فقال علیک السلام، صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ و انہ اذا لم یحسن الفاتحۃ
2۔صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب الوتر فی السفر، صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب جواز صلاۃ النافلۃ علی الدابۃ فی السفر حیث توجھت
3صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب جواز صلاۃ النافلۃ علی الدابۃ فی السفر حیث توجھت
4سنن ابی داؤدکتاب الصلاۃ باب التطوع علی الراحلۃ و الوتر، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 1225
5سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی الصلاۃ علی الدابۃ فی الطین و المطر، تفصیل کے لیے دیکھیے صفۃ صلاۃ النبی الکتاب الام ص 58
6صحیح البخاری کتاب تفسیر القرآن باب قولہ عز و جل فان خفتم فرجالا ا و رکبانا فاذا امنتم فاذکروا اللہ
7سنن البیہقی جلد 3 ص 255
8سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء ان ما بین المشرق و المغرب قبلۃ ، صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 342
9سنن دار قطنی کتاب الصلاۃ باب الاجتھاد فی القبلۃ و جواز التحری فی ذلک، ارواء الغلیل فی تخریج احادیث منار السبیل للالبانی حدیث نمبر 291
10صحیح البخاری کتاب الصلاۃ
 

میر انیس

لائبریرین
السلام علیکم، درج بالا مراسلے میں دی گئی تجویز کے مطابق اس تھریڈ کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ موضوع مکمل ہونے تک قارئین سے تبصرے روکے رکھنے کی درخواست ہے۔ مضامین تیار ہونے کے ساتھ ہی ارسال کیے جاتے رہیں گے ان شاء اللہ۔ نماز شروع کرنے سے قبل قبلہ رخ ہونے ضروری ہے لہٰذا اسی سے آغاز کرتے ہیں۔
قبلے کی طرف منہ کرنے کی فرضیت:​
قبلہ رخ ہونا نماز کی شرط ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فرض اور نفل دونوں قسم کی نمازوں میں اپنا رخ کعبے کی جانب فرمایا کرتے تھے۔ ٹھیک طرح سے نماز ادا نہ کرنے والے ایک صحابی کو نماز کا طریقہ سکھاتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اس کا حکم بھی ارشاد فرمایا:
إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلَاةِ فَأَسْبِغْ الْوُضُوءَ ثُمَّ اسْتَقْبِلْ الْقِبْلَةَ فَكَبِّر 1
جب تو نماز کے لیے کھڑا ہو تو( اچھے انداز سے) مکمل وضو کر، پھر قبلے کی طرف منہ کر اور تکبیر (تحریمہ) کہہ”

سواری پر نفل نماز میں استقبال قبلہ ضروری نہیں:
البتہ سفر میں قبلہ رخ ہوئے بغیر بھی سواری پر بیٹھے بیٹھے نفل یا وتر کی نماز ادا کرلینا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم دورانِ سفرسواری پر بیٹھ کرنفل اور وتر پڑھ لیا کرتے تھے خواہ اس کا رخ مشرق و مغرب یا کسی بھی طرف ہوتا۔2
قرآن کی یہ آیت اسی بارے میں اتری ہے۔3
فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ (سورۃ البقرۃ آیت 115)
“تو تم جدھر بھی رخ کرو، ادھر اللہ کا چہرہ ہے”۔
لیکن اگر سواری کو قبلہ رخ کرنا ممکن ہو تو نماز شروع کرنے سے پہلے کعبے کی طرف منہ کر لینا افضل ہے۔( اس لیے کہ) کبھی کبھار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز کے آٖغاز میں “اللہ اکبر” کہتے وقت اونٹنی سمیت قبلہ رخ ہو جاتے، اس کے بعداپنی نماز جاری رکھتے خواہ سواری کا رخ کسی بھی طرف پھر جاتا4 پھر سر کے اشارے سے رکوع و سجود ادا فرماتے اور سجدے کے لیے سر کو رکوع کی نسبت زیادہ جھکا لیتے تھے5۔ جمہور علماء کے نزدیک ہر قسم کے سفر میں سواری پر نفلی نماز پڑھنا جائز ہے خواہ وہ سفر اتنا تھوڑا ہی ہو کہ اس میں فرض نماز قصر نہ کی جا سکے۔

فرض نماز سواری پر جائز نہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم فرض نماز سواری سے نیچے اتر کر اور قبلہ رخ ہو کر ادا فرماتے تھے اس لیے فرض نماز سواری پر بیٹھ کر پڑھنا جائز نہیں الا یہ کہ کوئی شرعی عذر ہو، مثلا ٹرین یا ہوائی جہاز میں سفر کے دوران اترنا ممکن نہ ہو اور نماز کا وقت نکل جانے کا ڈر ہو تو وہیں نماز ادا کر لینی چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔

شدیدخوف کی حالت میں نماز کیسے ادا کی جائے:
دشمن کی کثرت یا شدید خوف وغیرہ کی وجہ سے جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھی جا سکے تو جیسے بھی ممکن ہو نماز ادا کر لینی چاہیے، ایسے حالات میں سواری سے اترنے اور قبلہ رخ ہونے وغیرہ کی کچھ پابندی نہیں، فرض نماز خواہ سواریوں پر بیٹھے ادا کی جائے یا پیدل چلتے ہوئےپڑھی جائے اور رخ قبلہ کی جانب رہے یا نہ رہے بہرحال نماز ادا ہو جائے گی۔بلکہ سخت لڑائی میں تو سر کے اشارے سے بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے6فرمایا:
إذا اختلطوا فانما هو التكبير والاشارة بالرأس7
جب (فوجیں) گتھم گتھا ہو جائیں تو پھر بس تکبیر اور سرسے اشارہ (ہی نماز ادا کرنے کے لیے کافی) ہے”

قبلہ کی حدود
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اہل مدینہ کے لیے مشرق اور مغرب کے درمیان تمام سمت کو قبلہ قرار دیتے ہوئے فرمایا:
مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ 8
“مشرق اور مغرب کے درمیان تمام سمت قبلہ ہے”
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص خانہ کعبہ کو دیکھ رہا ہو اسے اپنا رخ ٹھیک ٹھیک اس کی جانب ہی کرنا چاہیے لیکن دور کے رہنے والوں کے لیے فقط درست سمت کا التزام ہی کافی ہے۔

قبلہ کی سمت معلوم کرنے میں غلطی ہونا
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی رفاقت میں تھے۔آسمان پر بادل چھا گیا تو قبلہ کے بارے میں ہمارا اختلاف ہو گیا۔ ہم نے درست سمت معلوم کرنے کی پوری کوشش کے بعدالگ الگ سمت میں نماز ادا کر لی اور اپنی اپنی سمت کو نشان زدہ کر دیا تا کہ صبح ہمیں معلوم ہو کہ کیا ہم نے قبلہ رخ نماز پڑھی ہے یا نہیں۔ صبح ہونے پر معلوم ہوا کہ ہم نے قبلہ کی سمت نماز ادا نہیں کی۔ ہم نے تمام واقعہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔انہوں نے ہمیں نمازلوٹانے کا حُکم نہیں دیا اور فرمایا:
قد أجزأت صلاتكم
تمہاری نماز ہو گئی”9

قبلے کی مختصر تاریخ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شروع میں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ یہ آیت نازل فرمائی:
قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَام(سورۃ البقرۃ آیت 144)
(اے محمد) ہم آپ کا آسمان کی طرف منہ پھیر پھیر کر دیکھنا دیکھ رہے ہیں۔ سو ہم آپ کو اسی قبلہ کی طرف جس کو آپ پسند کرتے ہیں منہ کرنے کا حکم دیں گے۔ تو اپنا منہ مسجد حرام (بیت اللہ) کی طرف پھیر لو
اس آیت کے نزول کے بعد اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز میں اپنا چہرہ مبارک خانہ کعبہ کی جانب کیا کرتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو کچھ لوگ قباء کے مقام میں صبح کی نماز ادا کر رہے تھے۔ اچانک ان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی جانب سے ایک پیغام لانے والا آیا جس نے اعلان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر آج رات قرآن پاک کی آیت نازل ہوئی ہے جس میں کعبے کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ خبردار، تم بھی اپنا رخ اسی طرف کر لو۔ چنانچہ پہلے ان کا رخ شام کی جانب تھا، اس کے کہنے پر تمام نمازی گھوم کر قبلہ رخ ہو گئے اور امام بھی گھوم کر سامنے کی طرف آ گیا اور کعبے کی طرف رخ کر لیا۔10
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غلط سمت میں نماز پڑھتے ہوئے شخص کو نماز کے دوران ہی صحیح سمت کی خبر دی جا سکتی ہے اور اگر کسی کو دوران نماز پتہ چل جائے کہ وہ غلط سمت میں نماز پڑھ رہا ہے تو اسے چاہیے کہ اسی وقت اپنا رخ صحیح سمت میں کر لے۔
حوالہ جات:
1۔صحیح بخاری کتاب الاستئذان باب من رد فقال علیک السلام، صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ و انہ اذا لم یحسن الفاتحۃ
2۔صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب الوتر فی السفر، صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب جواز صلاۃ النافلۃ علی الدابۃ فی السفر حیث توجھت
3صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب جواز صلاۃ النافلۃ علی الدابۃ فی السفر حیث توجھت
4سنن ابی داؤدکتاب الصلاۃ باب التطوع علی الراحلۃ و الوتر، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 1225
5سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی الصلاۃ علی الدابۃ فی الطین و المطر، تفصیل کے لیے دیکھیے صفۃ صلاۃ النبی الکتاب الام ص 58
6صحیح البخاری کتاب تفسیر القرآن باب قولہ عز و جل فان خفتم فرجالا ا و رکبانا فاذا امنتم فاذکروا اللہ
7سنن البیہقی جلد 3 ص 255
8سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء ان ما بین المشرق و المغرب قبلۃ ، صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 342
9سنن دار قطنی کتاب الصلاۃ باب الاجتھاد فی القبلۃ و جواز التحری فی ذلک، ارواء الغلیل فی تخریج احادیث منار السبیل للالبانی حدیث نمبر 291
10صحیح البخاری کتاب الصلاۃ

بعض دفعہ سفر اتنا لمبا ہوجاتا ہے اور سواری اپنے قابو میں بھی نہیں ہوتی جیسے جہاز پانی کا ہو یا ہوائی جہاز اور ٹرینیں تو اسکے لیئے کیا حکم ہے کیا ہر صورت میں سواری سے اترنا ہوگا یا کوئی چھوٹ ہے
 

وجی

لائبریرین
ایک سوال ہے وہ یہ کہ میں سفر میں ہوں اور میری ایک نماز غضا ہوگئی ہے تو سفر کے دوران مجھے قصر غضآ نماز ادا کرنی چاہیئے کہ پوری نماز ؟؟
اور یہ کہ اگر میں سفر سے واپس آچکا ہوں تو مجھے کیا پوری نماز غضا ادا کرنی چاہیئے کہ اب بھی قصر غضا ہی ادا کرنی ہے ؟؟
 
السلام علیکم، درج بالا مراسلے میں دی گئی تجویز کے مطابق اس تھریڈ کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ موضوع مکمل ہونے تک قارئین سے تبصرے روکے رکھنے کی درخواست ہے۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
دخل اندازی پر غصہ نہیں کرنا بھتیجے :mad::mad::mad:،
بھیتجے عبداللہ حیدر کی مذکورہ بالا درخواست کی بنا پر میں نے صرف شکریے کا بٹن دبانے پر اکتفاء کیا تھا ، لیکن بھائیو کی تشریف آوری نے مجھے حوصلہ دیا تو سب سے پہلے تو بھتیجے کا شکریہ ادا کرتا ہوں ، اور اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ انہیں علم نافع سے مالا مال فرمائے اور اپنا یہ مشروع ( پراجیکٹ ) پورا کرنے کی مکمل توفیق عطاء فرمائے ،
اور اس کے بعد بھائی میر انیس اور بھائی وجی سے گذارش کرتا ہوں کہ ان میں سے کوئی بھی بھائی اپنے سوالات کے لیے ایک الگ دھاگہ کھول لیں ، تا کہ اس دھاگے میں نماز کے طریقے کے بیان کا تسلسل ٹوٹنے نہ پائے ،
ان شاء اللہ سوالات والے دھاگے میں قران اور صحیح ثابت شدہ سنت مبارکہ کے مطابق جوابات مہیا کیے جائیں گے ،
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہر شر سے محفوظ رکھے ،
و السلام علیکم ۔
 
نماز کی نیت کا بیان
نماز ادا کرنے سے پہلے اس کی نیت کرنی ضروری ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فرمان ہے:
إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى (صحیح البخاری کتاب البدء الوحی، حدیث نمبر1)
"اعمال نیتوں کے ساتھ ہیں اور ہر آدمی کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی"

نیت کب کی جائے:
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے “روضۃ الطالبین” میں لکھا ہے کہ" نیت کا مطلب ارادہ کرنا ہے۔ نماز کی نیت تکبیر تحریمہ کہتے وقت کی جانی چاہیے یعنی نمازی اس وقت اپنے ذہن میں خیال کرے کہ وہ کون سی نماز ادا کرنے جا رہا ہے ، مثلا یہ کہ نماز کی رکعات کتنی ہیں اور وہ ظہر کی نماز ہے یانفل نماز ہے وغیرہ"۔1

زبان سے نیت کے الفاظ کہنا بدعت ہے:
زبان سے نیت کے الفاظ کہنا سنت مطہرہ سے ثابت نہیں ہے۔ لوگوں میں زبانی نیت کے جو کلمات مشہور ہیں مثلًا “نیت کی میں نے اس نماز کی، خاص واسطے اللہ تعالیٰ کے، منہ طرف کعبہ شریف” وغیرہ ان کے بدعت ہونے پر علماء کا اتفاق ہے۔ البتہ انہوں نےاس کے اچھا یا برا ہونے میں اختلا ف کیا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ عبادات میں کیا گیاہر اضافہ گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے دین میں نئی چیزیں نکالنے سےمنع کرتے ہوئے ہر بدعت سے بچنے کا حکم دیا ہے:
وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ (سنن النسائی الصغریٰ کتاب صلاۃ العیدین باب کیف الخطبہ، صحیح سنن نسائی حدیث نمبر 1578)
"اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ( یعنی جہنم) میں ہے"

تکبیر تحریمہ اورقیام کے مسائل
نماز شروع کرنے کے لیے نمازی اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک یا کانوں کی لو تک بلند کر کے “اللہ اکبر” کہے۔ اسے تکبیر تحریمہ کہتے ہیں۔ یہ نماز کے ارکان میں سے ہے یعنی اسے کہے بغیر نماز درست نہیں ہوتی۔

تکبیر تحریمہ کہنا ضروری ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنی نماز کا آغاز "اللہ اکبر"2 کہہ کر فرمایا کرتے تھے۔ ٹھیک طرح سے نماز ادا نہ کرنے والےایک صحابی کو نماز کا طریقہ سکھاتے ہوئے فرمایا تھا:
إِنَّهُ لا تَتِمُّ صَلاةٌ لأَحَدٍ مِنَ النَّاسِ حَتَّى يَتَوَضَّأَ فَيَضَعَ الْوُضُوءَ مَوَاضِعَهُ ، ثُمَّ يَقُولُ : اللَّهُ أَكْبَرُ (المعجم الکبیر للطبرانی حدیث نمبر4399)
"لوگوں میں سے کسی کی نماز اس وقت تک پوری نہیں ہوتی جب تک وہ اچھی طرح وضو کرنے کے بعد "اللہ اکبر" نہ کہہ لے"
جمہور علماء کے نزدیک اس حدیث کی روشنی میں نمازکا آغاز “اللہ اکبر” کے سوا دوسرے الفاظ (جیسے “الرحمٰن اکبر وغیرہ )سے نہیں کیا جا سکتا۔
دوسری حدیث میں ہے:
مِفْتَاحُ الصَّلَاةِ الطُّهُورُ وَتَحْرِيمُهَا التَّكْبِيرُ وَتَحْلِيلُهَا التَّسْلِيمُ (سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فرض الوضوء، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 139)
"طہارت (یعنی وضو) نماز کی کنجی ہے، اور تکبیر تحریمہ کہنا نماز کی حُرمت ہے (یعنی اس سے نماز کی حرمت کا آغاز ہو جاتا ہے اوروہ تمام کام حرام ہو جاتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے نماز میں منع فرمایا ہے) اور ( پھر نماز کے آخر پر)سلام کہنے سے حلال ہوتے ہیں"۔
یعنی جس طرح کسی عمارت میں داخلے کے لیے راستے میں حائل دورازہ کھولنا پڑتا ہے اسی طرح ناپاکی انسان اور نماز کے درمیان حائل ہوتی ہے جسے ختم کیے بغیر نماز کا آغاز نہیں کیا جا سکتا اوروضو اور طہارت وہ کنجی ہے جن کے ذریعے نمازی ناپاکی کے اس دروازے کو کھول کر نماز کا آغاز کر سکتا ہے۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں منع کیے گئے کاموں اس وقت تک ممنوع ہی رہتے ہیں جب تک نمازی سلام نہ پھیر دے، جمہور کا مذہب یہی ہے۔

امام اور مقتدی دونوں تکبیر تحریمہ کہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جب جماعت کرواتے توتکبیر تحریمہ کو بلند آواز سے کہا کرتے تھے تا کہ پیچھے موجود تمام نمازیوں تک آواز پہنچ جائے3۔جب کبھی آپ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم بیمار ہوتے تو ابو بکر رضی اللہ عنہ اونچی آواز سے تکبیر کہتے تا کہ لوگوں کو ان صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی تکبیر کی خبر ہو جائے4۔ امام اور مقتدی دونوں کو تکبیر تحریمہ کہنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
إذا قال الإمام : الله أكبر فقولوا : الله أكبر (احمد و البیہقی بسند صحیح، مسند احمد باقی مسند المکثرین مسند ابی سعید الخدری)
"جب امام "اللہ اکبر"کہے تو تم بھی "اللہ اکبر"کہاکرو"۔
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امام کی بیماری، نمازیوں کی کثرت یا کسی دوسرے عذر کی موجودگی میں موذن یا کسی دوسرے مقتدی کے لیے امام کے پیچھے پیچھے بلند آواز میں تکبیرات کہنا جائز ہے تا کہ تمام لوگوں تک آواز پہنچ سکے اوراس کا طریقہ یہ ہے کہ تکبیر بلند کرنے والا شخص امام کی تکبیر ختم ہونے کے فورًا بعد اپنی تکبیر شروع کرے ۔ البتہ اکیلے نماز پڑھنے والا شخص اپنی تکبیرات آہستہ ہی کہے گا۔

تکبیر تحریمہ کہتے وقت ہاتھ کیسے اٹھائے جائیں:
تکبیر تحریمہ کہتے وقت دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک5 اور بعض دفعہ کانوں (کی لو) تک بلندکرنا سنت ہے6۔ البتہ ایسا کرتے وقت کانوں کو چھونا سنت سے ثابت نہیں ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کبھی تو تکبیرتحریمہ کہنےکے ساتھ ہی ہاتھوں کو بلند فرما لیا کرتے تھے7 اور کبھی کبھار پہلے ہاتھ اٹھا لیتے اور پھر تکبیر کہتے اور کبھی تکبیر کہنے کے فورًا بعد ہاتھ اٹھاتے تھے8 لہذاکسی ایک سنت پر عامل ہونے کی بجائے ان تینوں طریقوں کو اپنی نمازوں میں ادل بدل کر اختیار کرنا چاہیے کیونکہ یہ سب حدیث سے ثابت ہیں۔
ہاتھ اٹھاتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہاتھوں کی انگلیوں کو فطری انداز میں کھلا رکھتے تھے یعنی ان کے درمیان جان بوجھ کر فاصلہ پیدا کرنے کی کوشش نہیں فرماتے تھے اور نہ ہی ان کو ملاتے تھے بلکہ اپنی اصل حالت میں چھوڑدیتے تھے 9۔

دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے اوپر رکھنے کا حکم:
تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھتے تھے10 یہ انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نےاپنے فرمان مبارک میں بتایا ہے:
إنا معشر الأنبياء أُمِرنَا أن نعجِّل إفطارنا و نؤخر سحورنا و نضع أيماننا على شمائلنا في الصلاة (صحیح الجامع الصغیر حدیث نمبر، 4050، صحیح ا بن حبان کتاب الصلاۃ باب صفۃ الصلاۃ
"ہم انبیاء کی جماعت کوافطار میں جلدی اور سحری میں تاخیرکرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ (حکم بھی دیا گیا ہے کہ) کہ ہم نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پررکھیں"۔
ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گذرے جو باہنے ہاتھ کو داہنے ہاتھ کے اوپر رکھ کر نماز ادا کر رہا تھا تو انہوں نے اس کے ہاتھ کو کھینچا اور دائیں کو بائیں کے اوپر کر کے رکھ دیا۔11
ہاتھ کیسے باندھے جائیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہمیشہ سینے پر ہاتھ باندھا کرتے تھے12 اور اس کی کیفیت یہ ہوتی کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پراس طرح رکھتے کہ وہ ہتھیلی کی پشت، جوڑ اور کلائی پر آ جائے13 اسی کا حکم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی دیا14۔ کبھی کبھار دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ کوتھام لیا کرتے تھے15۔ یہ دونوں اپنی جگہ الگ الگ سنت ہیں۔ افضل یہ ہے کہ کبھی بائیں ہتھیلی کی پشت، جوڑ اور کلائی پر دایاں ہاتھ رکھا جائے اور کبھی دائیں ہاتھ سے بائیں کو تھاما جائے تا کہ دونوں سنتوں پر عمل ہوتا رہے۔
نماز میں پہلوؤں پر ہاتھ رکھنے سے منع فرمایا 16 گیا ہے (کیونکہ) یہ صلیب پرستوں کا انداز ہے اور یہود و نصارٰی کی مشابہت اختیار کرنا مسلمانوں کے لیے ممنوع ہے۔17
حوالہ جات:
1 ۔ روضۃ الطالبین 1/224
2 ۔ صحیح مسلم بَاب مَا يَجْمَعُ صِفَةَ الصَّلَاةِ وَمَا يُفْتَتَحُ بِهِ وَيُخْتَمُ بِهِ وَصِفَةَ الرُّكُوعِ
3 ۔مسند احمد باقی مسند المکثرین مسند ابی سعید الخدری، المستدرک کتاب الامامۃ و و صلاۃ الجماعۃ باب حدیث عبدالوہاب، امام حاکم نے اسے صحیح کہا اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔
4 ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب من أسمع الناس تکبیر الامام، صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب ائتمام الماموم بالامام۔
5 ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب الیٰ این یرفع یدیہ
6 ۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب استحباب رفع الیدین حذو المنکبین مع تکبیرۃ الاحرام ،
7 ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب الیٰ این یرفع یدیہ
8 ۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب استحباب رفع الیدین حذو المنکبین مع تکبیرۃ الاحرام حدیث مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ
9 ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 753
10 ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب رفع الیدین فی الصلاۃ حدیث وائل بن حجر رضی اللہ عنہ۔ صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 727
11 ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب وضع الیمنیٰ علی الیسریٰ فی الصلاۃ حدیث عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، صحیح سنن ابن داؤد حدیث نمبر 755
12 ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب وضع الیمنٰی علی الیسریٰ ۔ صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 759۔صحیح ابن خزیمہ حدیث نمبر 479۔ مسند احمد بن حنبل مسند الانصار حدیث ھلب الطائی رضی اللہ۔
13 ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب رفع الیدین فی الصلاۃ حدیث وائل بن حجر رضی اللہ عنہ۔ صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 727
14 ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب وضع الیمنٰی علی الیسریٰ فی الصلاۃ حدیث سھل بن سعد رضی اللہ عنہ، الموطا امام مالک کتاب النداء للصلاۃ باب وضع الیدین احداھما علی الاخریٰ فی الصلاۃ
15 ۔ سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ حدیث نمبر 2247 جلد 5 ص 246۔ صحیح سنن نسائی حدیث نمبر 1031۔
16 ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب الرجل یصلی مختصرا۔صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 947
17 ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب فی التخصر و الاقعاء، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 903
 
سترے کے مسائل
سترے کی اہمیت اور وجوب

نمازی کے لیے واجب ہے کہ وہ نماز پڑھتے وقت اپنےآگے کوئی چیز رکھے اور اس کی آڑ لے کر نماز پڑھے تا کہ اگرکوئی شخص سامنے سے گزرنا چاہے تو اس کے دوسری جانب سے گزرجائے اور نمازی کے آگے سے گزرنے کی وجہ سے گناہگار نہ ہو۔ایسی چیز یا آڑ کو سترہ کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سترہ رکھ کر نماز ادا فرمایا کرتے تھے اوراس کے بالکل قریب اس طرح کھڑے ہوتے تھے کہ ان کے (سجدہ کرنے کی جگہ)اور (سترہ بنائی گئی) دیوار کےدرمیان تین ہاتھ کا فاصلہ ہوتا تھا1۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ سجدے کی جگہ اور دیوار کے درمیان صرف بکری کے گزرنے کی گنجائش ہوتی2۔

سترہ رکھنے کا حکم ہر نمازی کے لیے ہے خواہ وہ مسجد میں ہو یا مسجد سے باہر کسی جگہ پر نماز ادا کر رہا ہو۔ مسجد الحرام میں نماز پڑھنےوالوں کو بھی سترے کا التزام کرنا چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اپنے فرمان مبارک میں کسی بھی جگہ کو اس حکم سے مستثنٰی نہیں فرمایاہےجیساکہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔

[arabic]لاَ تُصَلِّ إِلاَّ إِلَى سُتْرَةٍ ، وَلاَ تَدَعْ أَحَدًا يَمُرُّ بَيْنَ يَدَيْكَ ، فَإِنْ أَبَى فَلْتُقَاتِلْهُ ؛ فَإِنَّ مَعَهُ الْقَرِينَ[/arabic]

(صحیح ابن خزیمہ جل دوم ص9 مطبوعۃ المکتب الاسلامی بیروت باب النھی عن الصلاۃ الی غیر سترۃ۔ (صحیح ابن خزیمہ1/93/1، بسند جید)

“تو کبھی بھی سترہ رکھے بغیر نماز نہ پڑھ اور (پھر) کسی کو اپنے آگے سے نہ گزرنے دے، اگر وہ (گزرنے والا) باز نہ آئے تو اس سے لڑ، کیونکہ اس کے ساتھ شیطان ہے”

سترے کے قریب کھڑے ہوکر نماز اد اکرنا شیطان کی وسوسہ اندازی سے بچنے کا سبب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:

[arabic]إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ إِلَى سُتْرَةٍ فَلْيَدْنُ مِنْهَا لَا يَقْطَعْ الشَّيْطَانُ عَلَيْهِ صَلَاتَهُ[/arabic] (صحیح سنن ابی داؤد حدیث695، والبزار(ص54۔زوائدہ)، و الحاکم و صححہ، و وافقہ الذھبی و النووی)

“جب تم میں سے کوئی (شخص) سترے کی طرف نماز پڑھے، تو اس کے قریب ہوجائے (تاکہ) شیطان (وسوسہ اندازی کر کے) اس کی نماز ( میں توجہ اور خشوع و خضوع ) نہ توڑ دے”


کس چیز کو سترہ بنایا جا سکتا ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم مسجد میں نماز پڑھتے وقت کبھی کبھار ستون کے قریب کھڑے ہو کر اسے سترہ بنا لیتے اور نماز ادا فرماتے تھے3 اور جب کبھی ایسے کھلے میدان میں نماز ادا فرماتے جہاں کوئی چیز سترہ بنانے کے لیے موجود نہ ہوتی تو اپنے سامنے نیزہ گاڑ لیتے پھر اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے اور صحابہ کرام ان (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کے پیچھے نماز ادا کرتے4۔ کبھی کبھار اپنی سواری کو سامنے بٹھا کر اس کے پہلو کی طرف کھڑے ہو کر نماز ادا فرماتے5۔ البتہ اونٹوں کے باڑے میں نماز ادا کرنے سے منع فرمایا6۔ اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کو سترہ بنا کر بھی نماز ادا فرمائی7۔ ایک مرتبہ ایک درخت کو سترہ بنایا8 اور کبھی اس بستر کی طرف منہ کر کے نماز ادا فرماتے جس پر ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا چادر اوڑھے لیٹی ہوتی تھیں9۔ سترے کی مقدار کا تعین کرتے ہوئے فرمایا:

[arabic]إِذَا وَضَعَ أَحَدُكُمْ بَيْنَ يَدَيْهِ مِثْلَ مُؤْخِرَةِ الرَّحْلِ فَلْيُصَلِّ وَلَا يُبَالِ مَنْ مَرَّ وَرَاءَ ذَلِكَ [/arabic](صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب سترۃ المصلی )

“جب تم میں سے کوئی (شخص) نماز ادا کرتے وقت اپنے سامنے اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کے بقدر( اونچائی) میں کوئی چیز رکھ لے تو نماز پڑھ لیا کرے اور کچھ پرواہ نہ کرے کہ اس (کے سترے کے) دوسری جانب کون گزر رہا ہے”


اس حدیث سے جہاں سترے کی کم از کم اونچائی معلوم ہوتی ہے وہیں اس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ زمین پر خط کھینچ کر اسے سترہ قرار دینا درست نہیں ہے۔سنن ابی داؤد میں جو حدیث اس بارے میں آئی ہے وہ ضعیف ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ کسی بھی آڑ بننے والی چیز کو سترہ بنایا جا سکتا ہےبشرطیکہ ہ وہ زمین کے ساتھ لگی ہو اور اس کی کم سے کم اونچائی اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کے برابر (تقریبًا ڈیڑھ بالشت) ہو۔ زمین میں لاٹھی گاڑ کر اسے سترہ بنایا جا سکتا ہے، درخت، ستون،اور پہلو کی طرف سے سواری کے جانور کو بھی سترے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔بیٹھے یا لیٹے ہوئے شخص کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز ادا کی جا سکتی ہے خواہ وہ سامنے لیٹی ہوئی اپنی بیوی ہی ہو، لیکن کچھ علماء نےتوجہ منتشر ہونے کے ڈر سے بیوی کوسترہ بنانے کو ناپسند کیا ہے۔

نمازی اور سترے کے درمیان سے گزرنے والے کو روکنا:

نمازی اورسترے کے درمیان سے گزرنے والے کو سختی کےساتھ روکنا چاہیے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنے اور سترے کے درمیان کسی چیز کو نہیں گزرنے دیتے تھے۔ نا سمجھ بچے یا جانور وغیرہ کو روکنے کے لیے نماز میں چند قدم آگے بڑھنے کی بھی اجازت ہے۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے کہ ایک بکری دوڑتی ہوئی آئی اور سامنے سے گزرنے کی کوشش کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے جلدی فرمائی اور (سترے والی) دیوار کے قریب ہو گئے (تاکہ بکری کے گزرنے کا راستہ نہ رہے) یہاں تک کہ اپنا بطن مبارک دیوار سے لگا دیا10۔ اس پر بکری کو ان (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کے پیچھے سے گزرنا پڑا۔

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرض نماز پڑھائی تو نماز میں اپنا ہاتھ آگے کر کے پھر پیچھے کر لیا۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد صحابہ نے عرض کیا “اے اللہ کے رسول! کیا نماز میں کوئی نیا حکم آ گیا ہے”؟ فرمایا:
[arabic]
لاَ إِلاَّ أَنَّ الشَّيْطَانَ أَرَادَ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَىَّ فَخَنَقْتُهُ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ لِسَانِهِ عَلَى يَدِى وَايْمُ اللَّهِ لَوْلاَ مَا سَبَقَنِى إِلَيْهِ أَخِى سُلَيْمَانُ لاَرْتُبِطَ إِلَى سَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِى الْمَسْجِدِ حَتَّى يُطِيفَ بِهِ وِلْدَانُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ(فَمَنْ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ لَا يَحُولَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ أَحَدٌ فَلْيَفْعَلْ)[/arabic]

(سنن الدار قطنی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی اعتراض الشیطان للمصلی لیفسد علیہ الصلاۃ، اسے امام احمد، اور طبرانی نے بھی صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے)

“نہیں، بلکہ (بات یہ ہے کہ) شیطان میرےسامنے سے گزرنا چاہتا تھا تو میں اس کا گلا گھونٹ دیا، یہاں تک کہ میں نے اس کی زبان کی ٹھنڈک اپنے ہاتھ پر محسوس کی۔اللہ کی قسم! اگر میرے بھائی سلیمان (علیہ السلام) نے (جنات کو ماتحت رکھنے میں) سبقت نہ کی ہوتی تو اسے مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ باندھ دیا جاتا اور اہل مدینہ کے بچے اسے بازاروں میں پھراتے۔ پس تم میں سے جو کوئی استطاعت رکھتا ہو کہ اس کے اور قبلے (کی سمت میں اس کے آگے) سے کوئی چیز نہ گزرے تو اسے ضرور ایسا کرنا چاہیے11”

دوسری حدیث میں یہی حکم اس طرح ہے کہ:
[arabic]
إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ إِلَى شَيْءٍ يَسْتُرُهُ مِنْ النَّاسِ فَأَرَادَ أَحَدٌ أَنْ يَجْتَازَ بَيْنَ يَدَيْهِ فَلْيَدْفَعْ فِي نَحْرِهِ ( وليدرأ ما استطاع) ( وفي رواية : فليمنعه مرتين ) فَإِنْ أَبَى فَلْيُقَاتِلْهُ فَإِنَّمَا هُوَ شَيْطَانٌ [/arabic]
( صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب منع المار بین یدی المصلی )

“جب تم میں سے کوئی (شخص) لوگوں (کے گزرنے) سے (بچنے) کے لیے سترہ رکھ کر نماز پڑھے پھر اس کے (اور سترے کے درمیان) سامنے سے کوئی گزرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ اس کی گردن سے پکڑ کر اسے پیچھے دھکیل دےاور پوری قوت سے اسے ہٹائے۔( ایک رویت میں ہے کہ دوبار اس کو ہاتھ سے روکے) اگر وہ نہ رکے تو اس سے جھگڑا کرے کیونکہ وہ شیطان ہے”

نمازی کے آگے سے گزرنے کا گناہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:

[arabic]لَوْ يَعْلَمُ الْمَارُّ بَيْنَ يَدَيْ الْمُصَلِّي مَاذَا عَلَيْهِ لَكَانَ أَنْ يَقِفَ أَرْبَعِينَ خَيْرًا لَهُ مِنْ أَنْ يَمُرَّ بَيْنَ يَدَيْهِ[/arabic] (صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب اثم المار بین یدی المصلی )

“اگر نمازی کے آگے سے گزرنے والا جان لے کہ اس پر (کتنا گناہ) ہے و وہ چالیس (سال) کھڑا رہنے کو آگے سے گزرنے سے بہتر سمجھے”

سترے کی غیرموجودگی میں نماز توڑنے والی چیزیں:

اگر کوئی شخص سترہ رکھے بغیر نماز پڑھ رہا ہو اور اس کے سامنے سے بالغ عورت، گدھا یا سیاہ کتا گزر جائے تو اس کی نماز ٹوٹ جائے گی۔ البتہ بیوی سامنے لیٹی ہو تو اسے سترہ بنا کر نماز پڑھنے سے نماز نہیں ٹوٹتی۔ گویا نماز ٹوٹنے کا تعلق گزرنے سے ہے لیٹنے سے نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
[arabic]
يَقْطَعُ الصَّلَاةَ إِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَ يَدَيْ الرَّجُلِ مِثْلُ مُؤَخِّرَةِ الرَّحْلِ الْمَرْأَةُ وَالْحِمَارُ وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ قَالَ قُلْتُ مَا بَالُ الْأَسْوَدِ مِنْ الْأَحْمَرِ قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا سَأَلْتَنِي فَقَالَ الْكلْبُ الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ [/arabic]
(مسلم و ابو داؤد)

“اگر نمازی کے سامنے اونٹ کی کاٹھی کی پچھلی لکڑی کے بقدر اونچا سترہ نہ ہو تو (بالغ) عورت، گدھے اور سیاہ کتے کے سامنے سے گزر جانے پر اس کی نماز ٹوٹ جائے گی۔ ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے سیاہ کتے کو خاص کرنے کی وجہ پوچھی تو فرمایا “سیاہ کتا شیطان ہوتا ہے”

اس حدیث میں نماز ٹوٹنے سے مراد نماز باطل ہونا ہے یعنی اس کو دوبارہ پڑھنا ضروری ہے۔
امام نے اپنے آگے سترہ رکھا ہو تو وہ مقتدیوں کو الگ سے سترہ رکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ ان کے لیے امام کا سترہ ہی کافی ہے، یعنی ایسی صورت میں مقتدیوں کے سامنے سےگزرنے پر ان کی نماز فاسد نہیں ہوتی۔(اصل صفۃ صلاۃ ص 135)

قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کی ممانعت:

قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے خواہ وہ انبیاء علیہم السلام میں سے کسی کی قبر ہی کیوں نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فرمان ذی شان ہے:

[arabic]لَا تُصَلُّوا إِلَى الْقُبُورِ وَلَا تَجْلِسُوا عَلَيْهَا [/arabic](مسلم و ابوداؤد، و ابن خزیمہ (1/95/ 2)

“قبروں کی طرف منہ کر کے نمازمت ادا کرو اور نہ ان پر بیٹھو”

حوالہ جات:
1۔صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ بین السواری فی غیر جماعۃ۔ صحیح سنن نسائی حدیث 749، ابن سعد (1/253)، و ھو مخرج فی “الارواء” (543)

2۔ صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب قدر کم ینبغی ان یکون بین المصلی و السترۃ، و رواہ مسلم ایضًا

3۔ صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ الی الاسطوانۃ، مسلم، بیہقی، احمد۔

4۔ صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب الصلاۃ الی الحربۃ یوم العید، مسلم، ابن ماجہ

5۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب سترۃ المصلی، احمد

6۔ صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 348۔ سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی الصلاۃ فی مرانض الغنم و اعطان الابل

7۔ صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ الی الراحلۃ و البعیر و الشجر و الرحل، مسلم و ابن خزیمہ (92/2) و احمد

8۔ مسند احمد مسند العشرۃ المبشرین بالجنۃ و من مسند علی ابن ابی طالب

9۔ صحیح البخاری کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ الی السریر

10 ۔ صحیح ابن خزیمہ جلد دوم ص 20 مطبوعۃ المکتب الاسلامی بیروت (باب بَابُ النَّهْيِ عَنِ الصَّلاَةِ إِلَى غَيْرِ سُتْرَةٍ.)

11 ۔ مسند احمد کی روایت میں اس آخری جملے کا اضافہ ہے۔ دیکھیے مسند احمد باقی مسند المکثرین مسند ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ
 
عبد اللہ حیدر صاحب، سلام

آپ جو کچھ لکھ رہے ہیں وہ آپ کی اپنی فہم ہے نا کہ سنت رسول سے کوئی حکم۔ احادیث کا عربی متن یا کم از کم اردو متن ساتھ ساتھ فراہم کیجئے، جس طرح قرآن کا عربی متن اور اس کو ترجمہ ساتھ ساتھ لکھا گیا تھا بطور حوالہ۔ اس کے بغیر یہ صرف اور صرف ایک پڑھنے والے کا بیان ہے ، اصل سنت رسول فراہم کئے بغیر بغیر حدیث فہمی اور نتیجہ خیزی پر کوئی اعتراض نہیں‌کیا جاسکتا۔ صرف حوالہ دے دینا کافی نہیں، مکمل سنت رسول کا متن ضروری ہے۔

یہ بھی ضروری ہے کہ یہ سنت رسول اکرم کے قول و فعل سے ثابت ہو۔ کہ رسول اللہ صلعم نے کہا بھی ہو اور اصحابہ نے دیکھا بھی ہو۔ ایسا نہ ہو کہ صرف ہولی کارپوریشن آف اسلام کے بیان ہوں کہ زید نے دیکھا اور بکر نے دیکھا۔ رسول اکرم کی زبان سے ادا ہوا قول اور کیا ہوا عمل ہی سنت رسول ہے۔ نماز کے طریقہ کے حدیث سے ثبوت کے لئے لازمی ہے کہ زید بکر کا اپنا مشاہدہ اور بیان نا ہو بلکہ رسول اکرم کا اپنا بیان ہو اور پھر صحابہ کرام کا مشاہدہ۔

والسلام
 
دعائے استفتاح کا بیاں
تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد جب نمازی ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جائے تو دعائے استفتاح پڑھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اس موقع پر مختلف دعائیں پڑھتے اور اللہ سبحانہ و تعالٰی کی حمد، پاکیزگی اور تعریف بیان فرماتے۔ دعائے استفتاح پڑھناضروری ہے کیونکہ نماز ٹھیک طرح سے ادا نہ کرنے والے ایک صحابی کو نماز کا درست طریقہ سکھاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اس کا حکم دیا تھا اور فرمایا تھا:
لَا تَتِمُّ صَلَاةٌ لِأَحَدٍ مِنْ النَّاسِ حَتَّى يَتَوَضَّأَ فَيَضَعَ الْوُضُوءَ يَعْنِي مَوَاضِعَهُ ثُمَّ يُكَبِّرُ وَيَحْمَدُ اللَّهَ جَلَّ وَعَزَّ وَيُثْنِي عَلَيْهِ وَيَقْرَأُ بِمَا تَيَسَّرَ مِنْ الْقُرْآنِ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع و السجود، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 857)
"لوگوں میں سے کسی کی نماز اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک وہ اچھی طرح وضو کر کے تکبیر تحریمہ نہ کہے اور جب تک اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اوربڑائی بیان نہ کرے اور جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتا ہے وہ نہ پڑھ لے"

درج ذیل دعاؤں میں سے کوئی بھی دعااس موقع پر پڑھی جا سکتی ہے۔ ان میں سے بعض دعاؤں کو نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نفل نمازوں میں پڑھا کرتے تھے۔انہیں فرض نماز میں پڑھنا بھی اگرچہ جائز ہے لیکن امام کو جماعت کرواتے وقت لمبی دعائیں پڑھنے سے اجتناب کرنا چاہیے تا کہ مقتدیوں پر مشقت نہ ہو۔

پہلی دعا:
أَللّٰهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَّ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ أَللّٰهُمَّ نَقِّنِيْ مِنْ خَطَايَايَ كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ أَللّٰهُمَّ اغْسِلْنِي مِنْ خَطَايَايَ بِالْمَاءِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ
(صحیح البخاری کتاب الاذان باب ما یقول بعد التکبیر، صحیح مسلم کتاب المساجد باب ما یقال بین تکبیرۃ الاحرام و القراءۃ، صحیح سنن نسائی حدیث نمبر1039، ارواء الغلیل حدیث8۔ متن میں مذکور الفاظ سنن نسائی کے ہیں)
"اے اللہ! میرے اور میری خطاؤں کے درمیان دوری ڈال دے جیسے تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان دوری رکھی ہے۔ اے اللہ! مجھے خطاؤں سے اس طرح پاک کر دے جیسے سفید کپڑا میل سے پاک کیا جاتا ہے ۔ اے اللہ! میری خطائیں (اپنی مغفرت کے )پانی، برف اور اولوں سے دھو ڈال"۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اس دعا کو فرض نمازوں میں پڑھا کرتے تھے۔

دوسری دعا:
وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا مُسْلِمًا وََّمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِكِينَ ۔ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ۔ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ ۔ اللَّهُمَّ أَنْتَ الْمَلِكُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْت ۔ سُبْحَانَكَ وَبِحَمْدِكَ ۔ أَنْتَ رَبِّي وَأَنَا عَبْدُكَ ۔ ظَلَمْتُ نَفْسِي وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي جَمِيعًا إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ ۔ وَاهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ ۔ وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا لَا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ ۔ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي يَدَيْكَ وَالشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ ۔ ۔وَالْمَهْدِيُّ مَنْ هَدَيْتَ ۔ أَنَا بِكَ وَإِلَيْكَ ۔ لَا مَنْجَا وَلَا مَلْجَأ مَنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ ۔ تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ ۔ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ
(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین و قصرھا باب الدعاء فی صلاۃ اللیل و قیامہ، مسند احمد، صحیح ابن حبان، مستخرج ابی عوانۃ، السنن الکبرٰی للنسائی۔ یہاں تمام روایات کے الفاظ جمع کرکے بیان کیے گئے ہیں)
"میں نے یکسو اور فرمانبردار ہو کر اپنا چہرہ اس ذات کی طرف کیا جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ بلاشبہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا، میرا مرنا اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔اس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے اللہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والوں میں سے ہوں۔ اللہ! تو بادشاہ ہے تیرے سوا کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں۔ تو پاک اور حمد کے لائق ہے۔ تو میرا رب ہے اور میں تیرا بندہ ہوں (یعنی تیرے سوا میں کسی کی عبادت نہیں کرتا)۔ میں نے اپنی جان پر ظلم کیا، اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں، تو میرے سارے گناہ معاف فرما دے۔تیرے سوا کوئی نہیں جو گناہوں کو معاف کر سکے۔ مجھے اچھے اخلاق کی توفیق عطا فرما، تیرے سوا کوئی بھی اس کی توفیق نہیں دے سکتا۔اور مجھ سے برے اخلاق کو دور رکھ، تیرے سوا ان کو دور رکھنے والا بھی کوئی نہیں۔اللہ! میں (تیرے دربار میں) حاضر ہوں تمام بھلائیاں تیرے ہاتھ میں ہیں ۔ اور شرکی نسبت تیری طرف نہیں کی جا سکتی ۔ جسے تو ہدایت عطا فرما دے حقیقت میں وہی ہدایت یافتہ ہے۔ میں تیرے ساتھ ہوں اور تیری طرف ہی میرا لوٹنا ہے۔ تجھ سے بھاگ کر نجات پانے اور پناہ ڈھونڈنے کی کوئی جگہ سوائے تیرے ہی پاس ہونے کے کہیں اور کوئی نہیں ہے۔ تیری ذات بابرکت اور بلند و بالا ہے۔ میں تجھ سے مغفرت کا طلب گار ہوں اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں"

تیسری دعا:
سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرَكَ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من رأی الاستفتاح بسبحانک اللھم و بحمدک حدیث عائشۃ رضی اللہ عنہا، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 776)
"اے اللہ! تو پاک ہے،( ہم )تیری حمد کے ساتھ (تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں)۔ تیرا نام بڑی برکت والا ہے اور تیری بزرگی بلند ہے۔ اور تیرے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
إن أحب الكلام إلى الله أن يقول العبد سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ 2598۔ سنن النسائی)
"اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ ترین کلام یہ ہے کہ بندہ کہے سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك

چوتھی دعا:
سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ وَتَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرَكَ ۔ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ۔ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ۔ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ۔ اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا ۔ اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا ۔ اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من رأی الاستفتاح بسبحانک اللھم و بحمدک، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 775)
"اے اللہ! تو پاک ہے،( ہم )تیری حمد کے ساتھ (تیری پاکیزگی بیان کرتے ہیں)۔ تیرا نام بڑی برکت والا ہے اور تیری بزرگی بلند ہے۔ اور تیرے سوا کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں ہے، اللہ کےسوا کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں ہے، اللہ کےسوا کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں ہے، اللہ کےسوا کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں ہے۔اللہ بہت بڑا ہے سب سے بڑا، اللہ بہت بڑا ہے سب سے بڑا، اللہ بہت بڑا ہے سب سے بڑا"۔
نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم یہ دعا رات کی نفلی نماز میں پڑھتے تھے۔

پانچویں دعا:
اللَّهُ أَكْبَرُ كَبِيرًا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا وَسُبْحَانَ اللَّهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا
(صحیح مسلم المساجد و مواضع الصلاۃ باب ما یقال بین التکبیرۃ الاحرام و القراءۃ)
"اللہ سب سے بڑا ہے۔ بہت بڑا۔ اس کے لیے حمد و شکر ہے بہت زیادہ۔ وہ (ہر عیب سے) پاک ہے۔ صبح و شام ہم اس کی پاکیزگی بیان کرتے ہیں"
ایک صحابی نے ان کلمات سے نماز کا آغاز کیا تو نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
عَجِبْتُ لَهَا فُتِحَتْ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ
(صحیح مسلم المساجد و مواضع الصلاۃ باب ما یقال بین التکبیرۃ الاحرام و القراءۃ)
"اِن الفاظ کو (اللہ کی طرف سے اتنا )پسند کیا گیا کہ ان کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے گئے"

چھٹی دعا:
الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ
(صحیح مسلم المساجد و مواضع الصلاۃ باب ما یقال بین التکبیرۃ الاحرام و القراءۃ)
"تمام تعریف اور حمد اللہ کے لیے ہے، بکثرت ، پاکیزہ اور برکت دی گئی (حمد اور تعریف)۔
ایک صحابی نے ان کلمات کے ساتھ اپنی نماز کا آغاز کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
لَقَدْ رَأَيْتُ اثْنَيْ عَشَرَ مَلَكًا يَبْتَدِرُونَهَا أَيُّهُمْ يَرْفَعُهَا
(صحیح مسلم المساجد و مواضع الصلاۃ باب ما یقال بین التکبیرۃ الاحرام و القراءۃ)
"میں نے بارہ فرشتوں کو دیکھا جو اس کوشش میں تھے کہ کون پہلے ان الفاظ کواوپر (اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی بارگاہ میں لے جانے کے لیے) اُٹھاتا ہے"۔

ساتویں دعا:
أَللّٰهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَيِّمُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ مَلِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيْهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ الْحَقُّ وَوَعْدُكَ حَقٌّ وَقَوْلُكَ حَقٌّ وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ وَالْجَنَّةُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ وَالسَّاعَةُ حَقٌّ وَالنَّبِيُّونَ حَقٌّ وَمُحَمَّدٌ حَقٌّ اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ وَبِكَ خَاصَمْتُ وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ أَنْتَ رَبُّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيْرُ فَاغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهٖ مِنِّيْ أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ أَنْتَ إِلٰهِیْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِكَ
(صحیح البخاری کتاب التوحید باب قول اللہ تعالیٰ و ھو الذی خلق السماوات والارض، صحیح مسلم صلاۃ المسافرین و قصرھا باب الدعاء فی صلاۃ الیل و قیامہ، ابو عوانہ، ابو داؤد، وابن نضر، وا لدارمی۔ یہاں امام البانی نے ان تمام روایات میں مذکور الفاظ کو جمع کر دیا ہے)
"اے اللہ! حمد وشکر تیرے ہی لیے ہے۔ تو نور ہے آسمانوں اور زمین کا اور ان کے درمیان جو کچھ ہے ان کا بھی۔حمد و شکرتیرے لیے ہے تو قائم رکھنے والا ہے آسمانوں اور زمین کو اور ان کے درمیان جو کچھ ہے اس کو بھی۔ اور حمد و شکر تیرے ہی لیے ہے، تو رب ہے آسمانوں اور زمین کا اور ان کے درمیان جو کچھ ہے ان کا بھی۔اور تیرے لیے حمد و شکر ہے، تیری ذات برحق ہے، تیرا وعدہ سچا ہے، تیری باتیں حق ہیں، (قیامت کے دن) تیری ملاقات حق ہے، جنت اور جہنم برحق ہیں، انبیاء برحق تھے اور محمد (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) برحق (سچے نبی)ہیں، قیامت (کا آنا) برحق ہے۔ اے اللہ! میں نے خود کو تیرا مطیع کر دیا، میں تجھ پر ایمان لایا، تجھ پر توکل کیا، تیری ہی طرف میں رجوع کرتا ہوں، تیری ہی مدد سے میں جھگڑا کرتا ہوں اورتیرے ہی فیصلے کا طلبگار رہتا ہوں۔ پس تو میرے اگلے ،پچھلے، پوشیدہ اور ظاہر تمام گناہوں کو معاف فرما دے۔ تو ہی اول ہے تو ہی آخر ہے، تو ہی میرا معبود ہے، تیرے سوا کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور نیکی کرنے اور برائی سے بچنے کی طاقت (عطا کرنا بھی) تیرے سوا کسی کے بس میں نہیں"۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم یہ دعا رات کے نوافل میں پڑھا کرتے تھے۔

آٹھویں دعا:
اللَّهُمَّ رَبَّ جَبْرَائِيلَ وَمِيكَائِيلَ وَإِسْرَافِيلَ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنْ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ
(صحیح مسلم صلاۃ المسافرین و قصرھا باب الدعاء فی صلاۃ الیل و قیامہ)
"اے اللہ! جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل کے رب! آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے والے! پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والے! تو ہی اپنے بندوں کے درمیان اس چیز کا فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔ حق کے بارے میں جو اختلاف کیا گیا ہے اس میں مجھے اپنے حُکم سے (درست بات کی) ہدایت عطا فرما، بے شک تو جس کو چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دے دیتا ہے"۔

نویں دعا:
بعض دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم رات کی نفل نماز میں تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد دس دفعہ اللہ اکبر، دس دفعہ الحمدللہ، دس دفعہ سبحان اللہ، دس دفعہ لا الٰہ الا اللہ اور دس دفعہ استغفراللہ کہتے پھر دس دفعہ ہی یہ دعا فرماتے:
أَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ وَاهْدِنِيْ وَارْزُقْنِيْ وَعَافِنِيْ
"اللہ! میری مغفرت فرمادے، مجھے ہدایت دے اور مجھے رزق اور عافیت عطا فرما"
پھر دس مرتبہ یہ دعا فرماتے تھے:
أَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَعُوذُ بِكَ مِنَ الضِّيْقِ يَوْمَ الْحِسَابِ
(صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 1356، مسند احمد، مصنف ابن ابی شیبۃ)
"اللہ! میں تجھ سے تیری پناہ مانگتا ہوں قیامت کے دن کی تنگی سے "

دسویں دعا:
رات کی نفلی نمازشروع کرنے کا ایک اور طریقہ جو سنت مطہرہ سے ملتا ہے یہ ہے کہ تین دفعہ اَللہُ أَ کْبَر کہ کر درج ذیل دعا پڑھی جائی:
ذُو الْمَلَكُوتِ وَالْجَبَرُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب ما یقول الرجل فی رکوعہ و سجودہ، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 874، و رواہ الطیالسی ایضا)
"(اللہ) بادشاہت، غلبہ، کبریائی اور عظمت کا مالک (ہے)"۔
 
عبد اللہ حیدر صاحب، سلام

آپ جو کچھ لکھ رہے ہیں وہ آپ کی اپنی فہم ہے نا کہ سنت رسول سے کوئی حکم۔ احادیث کا عربی متن یا کم از کم اردو متن ساتھ ساتھ فراہم کیجئے، جس طرح قرآن کا عربی متن اور اس کو ترجمہ ساتھ ساتھ لکھا گیا تھا بطور حوالہ۔ اس کے بغیر یہ صرف اور صرف ایک پڑھنے والے کا بیان ہے ، اصل سنت رسول فراہم کئے بغیر بغیر حدیث فہمی اور نتیجہ خیزی پر کوئی اعتراض نہیں‌کیا جاسکتا۔ صرف حوالہ دے دینا کافی نہیں، مکمل سنت رسول کا متن ضروری ہے۔

یہ بھی ضروری ہے کہ یہ سنت رسول اکرم کے قول و فعل سے ثابت ہو۔ کہ رسول اللہ صلعم نے کہا بھی ہو اور اصحابہ نے دیکھا بھی ہو۔ ایسا نہ ہو کہ صرف ہولی کارپوریشن آف اسلام کے بیان ہوں کہ زید نے دیکھا اور بکر نے دیکھا۔ رسول اکرم کی زبان سے ادا ہوا قول اور کیا ہوا عمل ہی سنت رسول ہے۔ نماز کے طریقہ کے حدیث سے ثبوت کے لئے لازمی ہے کہ زید بکر کا اپنا مشاہدہ اور بیان نا ہو بلکہ رسول اکرم کا اپنا بیان ہو اور پھر صحابہ کرام کا مشاہدہ۔

والسلام
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
اللہ کرے صاحبء نصیحت اپنے بارے میں بھی اپنی اس نصیحت پر عمل پیرا ہو سکیں ، اور اللہ تعالیٰ انہیں توفیق دے کہ یہ بات کو سمجھ سکیں ، اور انہیں وہ سب کچھ نظر آجائے جو موجود تو ہے لیکن انہیں سجھائی نہیں دیا ،
چونکہ ان مقصد صرف اعتراض کرنا ہے جیسا کہ انہوں نے اپنے اس منقولہ بالا مراسلے میں اعتراف کیا ہے اس لیے ان سے گذارش ہے کہ وہ حسب سابق اپنا بتایا ہوا یہ کام کریں ان شاء اللہ اہل بصیر ت کو سب سمجھ آ رہا ہو گا ، اور آپ کے اعتراضات سے اور بھی کچھ مزید سمجھ آ جائے گا ،
اور براہ مہربانی موضوع کے تسلسل کو مت توڑیے ، عبداللہ کے مضمون کی تکمیل تسلسل سے ہونے دیجیے ، اگر آپ اعتراض کرنے میں صبر نہیں کر سکتے تو کوئی اور دھاگہ کھول لیجیے ، بڑی مہربانی ہو گی ،
و السلام علیکم ۔
 
قیام کے مسائل

قیام کے مسائل
قارئین کرام! اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:
[arabic]وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ[/arabic] (44)
(اے نبی) ہم نے آپ کی طرف (یہ) ذکر (یعنی قرآن) نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کے لیے اس چیز کو واضح کر دیں جو ان کی طرف نازل کی گئی ہے اور تاکہ وہ غور کریں
اس آیت سے ان لوگوں کے قول کی تردید ہوتی ہے جو احادیث رسول کو “بولی کارپوریشن آف اسلام” کہہ کر ٹھٹھا اڑاتے ہیں۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ذمے محض پیغام رسانی ہی نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے کلام کا شارح بنا کر بھیجا تھا۔ اس بات کو نماز کے ایک اہم رکن “قیام” کی مثال سے سمجھتے ہیں جس سےمعلوم ہو گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے احکامات کی کس طرح تشریح اور عملی تفسیر بیان فرمائی۔قرآن مجید میں قیام کرنے کا حکم اس آیت میں دیا گیا ہے:
[arabic] وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ [/arabic](البقرۃ238 )
“اور اللہ کے سامنے ادب سے کھڑے رہا کرو”۔
پورے قرآن مجید میں اس اجمال کی کوئی تفصیل بیان نہیں ہوئی کہ قیام کس طرح کرنا ہے، رکوع و سجدے سے پہلے کرنا ہے یابعد میں، اور کیا اس کی فرضیت تمام نمازوں کے لیے ہے وغیرہ۔ان جیسے مسائل کے لیے بہرحال حدیث رسول کی طرف ہی رجوع کرنا پڑتا ہے ذیل میں اہم مسائل کا تذکرہ صحیح احادیث کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔
فرض نماز میں قیام کی فرضیت:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
[arabic]حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَمَا عَلَّمَكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ [/arabic](البقرۃ 238،239)
سب نمازوں کی حفاظت کرو اور (خاص طور پر) بیچ والی نماز کی1۔ اور اللہ کے سامنے ادب سے کھڑے رہا کرو۔پھر اگر تم خوف کی حالت میں ہو تو پیادے یا سوار جس حال میں ہو (نماز پڑھ لو)۔ پھر جب امن ہو جائے تو اللہ کو اسی طریقے سے یاد کرو جس طریقے سے اس نے تمہیں سکھایا ہے جو تم پہلے نہیں جانتے تھے”
علماء نے اس آیت کی روشنی میں فرض نماز میں قیام کے لازمی ہونے پر امت کا اجماع نقل کیا ہے۔ فرض نماز پڑھنے والا امام ہو یا مقتدی یا منفرد (یعنی اکیلے نماز پڑھنے والا) کسی کے لیے بھی عذر کےبغیر فرض نماز بیٹھ کر ادا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ البتہ اگر امام کسی وجہ سے کھڑے ہو کر نماز پڑھانے پر قادر نہ ہو تو مقتدی بھی اس کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھیں گے۔ فرمان رسول ہے :
[arabic]وَإِذَا صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا وَإِذَا صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا أَجْمَعُونَ[/arabic] (صحیح البخاری کتاب الاذان باب انما جعل الامام لیوتم بہ)
"جب (امام) کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو اور جب وہ (کسی عذر کی بنا پر) بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم سب بھی (اس کےپیچھے) بیٹھ کر نماز ادا کرو”
اس آیت مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سخت لڑائی یا شدید خوف وغیرہ کے موقع پر قیام کرنا ممکن نہ ہو تو کھڑے کھڑے یا سواری پر بیٹھ کر یا جیسے بھی ممکن ہو نماز ادا کر لینی چاہیے۔ اس کا ذکر پیچھے استقبال قبلہ کے ذیل میں گزر چکا ہے ۔
نفل نمازبیٹھ کر پڑھی جا سکتی ہے
فرائض کے برعکس نوافل بیٹھ کر بھی پڑھے جا سکتے ہیں چاہے کوئی عذر موجود نہ ہو لیکن بیٹھ کر نفل پڑھنے سے آدھا اجر ملتا ہے۔ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں:
[arabic]مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي سُبْحَتِهِ قَاعِدًا حَتَّى كَانَ قَبْلَ وَفَاتِهِ بِعَامٍ[/arabic]
(صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب جواز النافلۃ قائما و قاعدا۔ ۔۔ )
“میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو وفات سے ایک سال پہلے تک رات کے نوافل بیٹھ کر ادا کرتے ہوئے نہیں دیکھا”
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے عمر مبارک کے آخری سال بیٹھ کر نوافل ادا فرمائے ہیں اس لیے نفل نماز طاقت رکھنے کے باوجود بیٹھ کر بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ امام نوویؒ نے صحیح مسلم کی شرح میں اس کے جواز پر علماء کا اجماع نقل کیا ہے۔ نوافل میں قیام کے ضروری نہ ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم دورانِ سفرقیام کیے بغیرسواری پر تشریف فرما ہوتے ہوئے نوافل پڑھ لیا کرتے تھے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
[arabic]كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسَبِّحُ عَلَى الرَّاحِلَةِ قِبَلَ أَيِّ وَجْهٍ تَوَجَّهَ وَيُوتِرُ عَلَيْهَا غَيْرَ أَنَّهُ لَا يُصَلِّي عَلَيْهَا الْمَكْتُوبَةَ [/arabic](صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب ینزل للمکتوبۃ، صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب جواز صلاۃ النافلۃ علی الدابۃ فی السفر۔ ۔)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم رات کے نوافل اور وتر سواری پر بیٹھ کر ادا کر لیتے تھے چاہے اس کا رخ کسی بھی طرف ہوتا، البتہ فرض نماز اس پر بیٹھ کر نہیں پڑھتے تھے”
جاری ہے
 
جزاکما اللہ خیرا عبداللہ حیدر بھائی اور عادل سھیل بھائی مستند و معیاری مضمون پڑھ کر بہت خوشی ہوئی

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سنت مبارکہ کو پڑھ کر خوش ہونے والے بھائی بشیر احمد صاحب اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو بھی بہترین اجر عطا فرمائے ،
بہت شکریہ میرے محترم بھائی ،
یہ محنت تو بھتیجے عبداللہ حیدر کی ہے ، اللہ انہیں اور زیادہ خیر کی توفیق عطا فرمائے ، میں بھی یہاں آپ کی طرح صرف ایک قاری ہی ہوں ،
آپ کی محبت اور حوصلہ افزائی پر ایک دفعہ پھر شکریہ ادا کرتا ہوں ، و السلام علیکم۔
 
مریض کے لیے بیٹھ کر نماز ادا کرنے کی اجازت
مریض کھڑا ہونے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو وہ بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے مرض الموت میں بیٹھ کر نماز ادا فرمائی تھی۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ:
[arabic]أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ قَاعِدًا[/arabic] (سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء اذا صلی الامام قاعدا فصلوا قعودا، صحیح سنن ترمذی حدیث نمبر 362)
“نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے (مرض الموت میں) ابو بکر (رضی اللہ عنہ) کے پیچھے بیٹھ کر نماز ادا فرمائی تھی”

ایسا ہی ایک واقعہ اس سے پہلے بھی پیش آیا تھا جب مرض کی تکلیف کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے بیٹھ کر نماز پڑھائی تو صحابہ رضی اللہ عنہم پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، اس پرنبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ بیٹھ گئے۔ نماز ختم ہونے کے بعد فرمایا :
[arabic]إِنْ كِدْتُمْ آنِفًا لَتَفْعَلُونَ فِعْلَ فَارِسَ وَالرُّومِ يَقُومُونَ عَلَى مُلُوكِهِمْ وَهُمْ قُعُودٌ فَلَا تَفْعَلُوا ائْتَمُّوا بِأَئِمَّتِكُمْ إِنْ صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا وَإِنْ صَلَّى قَاعِدًا فَصَلُّوا قُعُودًا[/arabic](صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب ائتمام الماموم بالامام)
“تم فارسیوں اور رومیوں جیسا کام کرنے کے قریب تھے، وہ اپنے بادشاہوں کے سامنے کھڑے رہتے ہیں جبکہ بادشاہ بیٹھے ہوتے ہیں۔ تم اس طرح مت کرو۔ اپنے امام کی اقتدا کرو ، اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور اگر وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز ادا کرو”

اسی بارے میں ایک اور حدیث عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے بواسیر کی تکلیف تھی۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے دریافت کیا (کیا مجھے بیٹھ کر نماز ادا کرنے کی اجازت ہے؟) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا :
[arabic]صَلِّ قَائِمًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقَاعِدًا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَعَلَى جَنْبٍ[/arabic] (صحیح البخاری کتاب الجمعۃ باب اذا لم یطق قاعدا صلی علی جنب)
کھڑے ہو کر نماز ادا کرو، اس کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر پڑھ لو، اور یہ بھی نہ ہو سکے تو لیٹ کر نماز ادا کر سکتے ہو

دوسری روایت میں ہے کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں “میں نے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے اس شخص کے بارے میں سوال کیا جو بیٹھ کر نماز ادا کرتا ہے” تو فرمایا
[arabic]مَنْ صَلَّى قَائِمًا فَهُوَ أَفْضَلُ وَمَنْ صَلَّى قَاعِدًا فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَائِمِ وَمَنْ صَلَّى نَائِمًا فَلَهُ نِصْفُ أَجْرِ الْقَاعِدِ[/arabic](سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب صلاۃ القاعد علی النصف من صلاۃ القائم، صحیح سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1231)
جس نے کھڑے ہو کر نماز ادا کی تو وہ افضل ہے، اور جس نے بیٹھ کر ادا کی اسے قیام کرنے والے کی نسبت آدھا اجر ملے گا، اور جس نے لیٹے ہوئے نماز پڑھی اس کے لیے بیٹھ کر نماز پڑھنے والے سے نصف اجر ہے”۔

انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ “رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم گھر سے نکلے تو دیکھا کہ کچھ لوگ مرض کی وجہ سے بیٹھ کر نماز ادا کررہے ہیں۔ تو فرمایا :
[arabic]صَلَاةُ الْقَاعِدِ عَلَى النِّصْفِ مِنْ صَلَاةِ الْقَائِمِ[/arabic](سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب صلاۃ القاعد علی النصف من صلاۃ القائم، صحیح سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 1230)
“بیٹھ کر نماز ادا کرنے والے کو قیام کرنے والے کی نسبت آدھا اجر ملے گا”


(جاری ہے)
 
اب تک ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ بہت ساری غیر مربوط یعنی ڈسکنکٹڈ روایات سے یہ بتایا جارہا ہے کہ مختلف اوقات میں رسول اکرم نے کیا فرمایا ۔ ان تمام روایات سے اب تک نماز پڑھنے کا طریقہ سامنے نہیں آیا ہے۔

یہ الگ الگ احکامات ہیں‌جن میں‌سے نماز پڑھنے سے متعلق کچھ احکامات کا ماخذ آپ اللہ کے فرمان قرآن حکیم دیکھ سکتے ہیں۔ اب تک یہاں‌ایک بھی روایت ایسی نہیں‌پیش کی گئی جو ترتیب سے قیام، رکوع و سجدہ کی تعلیم دیتے ہو اور شروع سے آخر تک کیا پڑھنا ہے اس کی ترتیب وار تعلیم دیتی ہو۔ اب تک ایسی روایات پیش کی گئی ہیں جن کے بارے میں‌ یہ بھی نہیں ‌پتہ کہ ان روایات کی وقت میں‌ترتیب کیا ہے ۔

نماز کی سنت جاریہ اور اللہ تعالی کے قرآن حکیم میں‌فرمان کے بغیر صرف ان روایات سے نماز پڑھنے کا طریقہ واضح تو کیا اس کے بنیادی ڈھانچہ کا سراغ بھی نہیں ملتا۔ کہ کس عمل کے بعد کونسا عمل کرنا ہے اور کس عمل میں اللہ تعالی کا کونسا حکم بجا لانا ہے۔

والسلام
 
اب تک ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ بہت ساری غیر مربوط یعنی ڈسکنکٹڈ روایات سے یہ بتایا جارہا ہے کہ مختلف اوقات میں رسول اکرم نے کیا فرمایا ۔ ان تمام روایات سے اب تک نماز پڑھنے کا طریقہ سامنے نہیں آیا ہے۔
میں نے موضوع کے شروع میں عرض کیا تھا کہ سلسلہ مکمل ہونے کے بعد کوئی سوال تشنہ رہ جائے تو بتائیے گا۔ "ڈسکنکٹد روایات" کونسی ہوتی ہیں یہ ایک الگ مراسلے میں بتا دیں تو ہم جیسوں کو بھی شاید سمجھ آ جائے۔اس سے ملتی جلتی اصطلاح "حدیث منقطع" علم حدیث‌ میں‌ملتی ہے لیکن جو حدیثیں یہاں لکھی گئی ہیں ان میں سے کوئی بھی "منقطع" نہیں‌ہے۔ شاید آپ نے "ابن حجار اثقلینی" کی طرح یہ لفظ بھی کسی انگریزی ویب سائٹ پر دیکھ لیا ہو گا۔
یہ الگ الگ احکامات ہیں‌جن میں‌سے نماز پڑھنے سے متعلق کچھ احکامات کا ماخذ آپ اللہ کے فرمان قرآن حکیم دیکھ سکتے ہیں۔ اب تک یہاں‌ایک بھی روایت ایسی نہیں‌پیش کی گئی جو ترتیب سے قیام، رکوع و سجدہ کی تعلیم دیتے ہو اور شروع سے آخر تک کیا پڑھنا ہے اس کی ترتیب وار تعلیم دیتی ہو۔ اب تک ایسی روایات پیش کی گئی ہیں جن کے بارے میں‌ یہ بھی نہیں ‌پتہ کہ ان روایات کی وقت میں‌ترتیب کیا ہے ۔
والسلام
اس سے قبل کہیں کہہ چکا ہوں کہ اس طرح کے بے سروپا اعتراضات وہی آدمی کر سکتا ہے جو محض مخالفت برائے مخالفت کرنا چاہتا ہو۔ ایسا ہی مطالبہ میں بھی آپ سے کر چکا ہوں کہ قرآن مجید کی کوئی ایک آیت پیش کر دیں جس میں شروع سے آخر تک نماز کا طریقہ ترتیب سے بیان کیا گیا ہو۔
 
بیٹھ کر نماز پڑھنے کے سلسلے میں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر مریض زمین پر سجدہ کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو کوئی اونچی چیز سامنے رکھ کر اس پر سجدہ کرنا ٹھیک نہیں بلکہ ایسی صورت میں سر کے اشارے سے رکوع و سجود کرنےچاہئیں۔
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کسی مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو دیکھا کہ وہ تکیے پر نماز ادا کر رہا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اسے اٹھا کر پرے کر دیا۔ پھر اس نے لکڑی کے تختے پر نماز ادا کرنی چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اسے بھی پرے کر دیا۔ اور فرمایا :
[arabic]صل على الارض ان استطعت والا فاوم ايماء واجعل سجودك اخفض من ركوعك[/arabic]
(سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ حدیث نمبر 323، السنن الکبریٰ للبیہقی جلد2 ص 306)
اگر طاقت ہو تو زمین پر نماز ادا کرو، ورنہ اشارے سے ادا کرو اور سجدہ کرتے وقت (سر کو) رکوع کی نسبت زیادہ جھکا لو”

کشتی اور ہوائی جہاز وغیرہ میں نماز کیسے پڑھی جائے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے کشتی میں نماز ادا کرنے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو فرمایا:
[arabic]صَلِّ فيها قائماً إلا أن تخاف الغرق[/arabic]
(سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ حدیث نمبر 3777، صحیح الجامع الصغیر للالبانی حدیث نمبر 7225، سنن الدار القطنی کتاب الصلاۃ باب صفۃ الصلاۃ فی السفر و الجمع بین الصلاتین)
“اس میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ، سوائے اس کے کہ تجھے غرق ہونے کا ڈر ہو”
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص قیام کر سکتا ہو اس کے لیے کشتی یا ہوائی جہاز وغیرہ میں بیٹھ کر نماز ادا کرنا درست نہیں ہے۔

دورانِ قیام ٹیک لگانا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی عمر مبارک جب زیادہ ہو گئی تو انہوں نے نماز پڑھنے کی جگہ میں ایک ستون رکھ لیا تھاجس پر نماز پڑھتے وقت ٹیک لگا لیا کرتے تھے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب الرجل یعتمد فی الصلاۃ علی عصا، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 948 )
اسوہ حسنہ کی اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے بوڑھے، کمزور یا مریض آدمی کے لیے عصا یا دیوار وغیرہ کا سہارا لے کر نوافل پڑھنا جائز ہے۔

رات کے نوافل میں کیسے قیام کیا جائے۔
اوپر ذکر گزر چکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم حیات مبارکہ کے آخری سال میں رات کے نوافل بیٹھ کر اور کھڑے ہو کر دونوں طرح سے پڑھتے تھے۔ایسے میں اگر کھڑے ہو کر قراءت فرماتے تو قیام سے رکوع کی حالت میں جاتے۔ اور جب بیٹھ کر قراءت کرتے تو رکوع بھی بیٹھے ہوئے ہی کیا کرتے تھے ۔ (صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب جواز النافلۃ قائما و قاعدا و فعل بعض الرکعۃ قائما و بعضھا۔۔)
لیکن یہ مستقل معمول نہ تھا بلکہ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ بیٹھ کر نماز ادا فرماتے، پھر جب قراءت سے تیس یا چالیس کے قریب آیات باقی ہوتیں تو کھڑے ہو کر ان کی تلاوت فرماتے پھر رکوع اور سجدے میں چلے جاتے اور دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے۔ (صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب جواز النافلۃ قائما و قاعدا و فعل بعض الرکعۃ قائما و بعضھا۔۔۔)۔ لہٰذا نمازی کو اختیار ہے کہ اپنی سہولت کے مطابق دونوں میں سے جس طریقے کو چاہے اختیار کر لے۔
بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کے لیے چوکڑی مار کر بیٹھنا مستحب ہے۔ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ:
[arabic]رأيت النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يصلي متربعاً[/arabic]
(سنن النسائی الصغریٰ کتاب قیام اللیل و تطوع النھار باب کیف صلاۃ القاعد، صحیح سنن نسائی حدیث نمبر 1661)
“میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو چوکڑی کی حالت میں نماز پڑھتے دیکھا”۔
 
میں نے موضوع کے شروع میں عرض کیا تھا کہ سلسلہ مکمل ہونے کے بعد کوئی سوال تشنہ رہ جائے تو بتائیے گا۔ "ڈسکنکٹد روایات" کونسی ہوتی ہیں یہ ایک الگ مراسلے میں بتا دیں تو ہم جیسوں کو بھی شاید سمجھ آ جائے۔اس سے ملتی جلتی اصطلاح "حدیث منقطع" علم حدیث‌ میں‌ملتی ہے لیکن جو حدیثیں یہاں لکھی گئی ہیں ان میں سے کوئی بھی "منقطع" نہیں‌ہے۔ شاید آپ نے "ابن حجار اثقلینی" کی طرح یہ لفظ بھی کسی انگریزی ویب سائٹ پر دیکھ لیا ہو گا۔

اس سے قبل کہیں کہہ چکا ہوں کہ اس طرح کے بے سروپا اعتراضات وہی آدمی کر سکتا ہے جو محض مخالفت برائے مخالفت کرنا چاہتا ہو۔ ایسا ہی مطالبہ میں بھی آپ سے کر چکا ہوں کہ قرآن مجید کی کوئی ایک آیت پیش کر دیں جس میں شروع سے آخر تک نماز کا طریقہ ترتیب سے بیان کیا گیا ہو۔

ترتیب کا مطالبہ وہ شخص کرے جس کے پاس کوئی چیز مقابلہ میں ترتیب میں ہو۔ یہ بے سرو پا الزا م نہیں۔ یہ سارا متن بے سرو پا ہے۔ ایک زمانے سے دعوی تھا کہ طریقہ نماز حدیث‌ کی کتب میں‌ہے۔ ان روایات میں قطعاً نماز کا وہ طریقہ نظر نہیں آتا جس طریقہ سے مسلمان نماز پڑھتے ہیں۔ گویا یہ دعوی بھی روایتی دھاندلے بازی تھی۔ نہ ان روایات کے زمانے کا پتہ ہے اور نہ ہی یہ معلوم کہ یہ ہدایات ترتیب وار ادا کی گئی تھیں۔ اب تک کئی احکامات ایسے ہیں جن میں‌ حد درجہ تضاد ہے۔ بہر حال ہم منتظر ہے آپ اس کتاب کا حوالہ بھی دے دیجئے جہاں سے یہ متن کاپی کررہے ہیں۔

آپ الفاظ کی جنگ مجھ سمیت سب سے جیت سکتے ہیں۔ کیا اپنے آپ سے بھی یہ جنگ جیت سکیں گے؟

والسلام
 
ترتیب کا مطالبہ وہ شخص کرے جس کے پاس کوئی چیز مقابلہ میں ترتیب میں ہو۔ یہ بے سرو پا الزا م نہیں۔ یہ سارا متن بے سرو پا ہے۔ ایک زمانے سے دعوی تھا کہ طریقہ نماز حدیث‌ کی کتب میں‌ہے۔ ان روایات میں قطعاً نماز کا وہ طریقہ نظر نہیں آتا جس طریقہ سے مسلمان نماز پڑھتے ہیں۔ گویا یہ دعوی بھی روایتی دھاندلے بازی تھی۔ نہ ان روایات کے زمانے کا پتہ ہے اور نہ ہی یہ معلوم کہ یہ ہدایات ترتیب وار ادا کی گئی تھیں۔ اب تک کئی احکامات ایسے ہیں جن میں‌ حد درجہ تضاد ہے۔ بہر حال ہم منتظر ہے آپ اس کتاب کا حوالہ بھی دے دیجئے جہاں سے یہ متن کاپی کررہے ہیں۔

آپ الفاظ کی جنگ مجھ سمیت سب سے جیت سکتے ہیں۔ کیا اپنے آپ سے بھی یہ جنگ جیت سکیں گے؟

والسلام
آپ کسی جگہ لکھ چکے ہیں کہ کتب احادیث کے بارے میں آپکا علم "ساڑھے تین کتب" پر محیط ہے۔ آپ کا یہ مراسلہ قطعٓا غیر متعلق اور سلسلہ کلام منقطع کرنے کی کوشش معلوم ہوتا ہے ورنہ "ساڑھے تین کتب" پڑھ کر احادیث میں نماز کی ترتیب نہ ہونے کا حتمی فیصلہ صادر نہ کرتے۔ قارئین کرام! معذرت چاہتا ہوں کہ ان صاحب کی بے جا مداخلت کی وجہ سے مجھے اپنے مرتب کردہ خاکے کے برخلاف نماز کی ترتیب والی حدیث پہلے ذکر کرنی پڑ رہی ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
[arabic]إِنَّهُ لَا تَتِمُّ صَلَاةٌ لِأَحَدٍ مِنْ النَّاسِ حَتَّى يَتَوَضَّأَ فَيَضَعَ الْوُضُوءَ يَعْنِي مَوَاضِعَهُ ثُمَّ يُكَبِّرُ وَيَحْمَدُ اللَّهَ جَلَّ وَعَزَّ وَيُثْنِي عَلَيْهِ وَيَقْرَأُ بِمَا تَيَسَّرَ مِنْ الْقُرْآنِ ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُ أَكْبَرُ ثُمَّ يَرْكَعُ حَتَّى تَطْمَئِنَّ مَفَاصِلُهُ ثُمَّ يَقُولُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ حَتَّى يَسْتَوِيَ قَائِمًا ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُ أَكْبَرُ ثُمَّ يَسْجُدُ حَتَّى تَطْمَئِنَّ مَفَاصِلُهُ ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُ أَكْبَرُ وَيَرْفَعُ رَأْسَهُ حَتَّى يَسْتَوِيَ قَاعِدًا ثُمَّ يَقُولُ اللَّهُ أَكْبَرُ ثُمَّ يَسْجُدُ حَتَّى تَطْمَئِنَّ مَفَاصِلُهُ ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ فَيُكَبِّرُ[/arabic]
"لوگوں میں سے کسی کی نماز اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک وہ
اچھی طرح وضو نہ کرلے
پھر تکبیرکہے اور اللہ جل و عز کی حمد اور تعریف بیان کرے۔
اور آسانی سے جو قرآن پڑھ سکتا ہو وہ پڑھے
پھر اللہ اکبر کہہ کر رکوع کرے یہاں تک کہ اس کے جوڑ قرار پا جائیں (یعنی جو اعضاء حرکت میں تھے وہ اپنی اپنی جگہ ٹھہر جائیں)
پھر "سمع اللہ لمن حمدہ" کہہ کر بالکل سیدھا کھڑا ہو جائے
پھر اللہ اکبر کہہ کر سجدہ کرے یہاں تک کہ اس کے جوڑ قرار پکڑ لیں۔
پھر اللہ اکبر کہے اور اپنے سر اٹھا کر بالکل سیدھا ہو کر بیٹھ جائے
پھر اللہ اکبر کہہ کر سجدہ کرے یہاں تک کہ اس کے جوڑ اطمینان پا جائیں (یعنی سکون سے اپنی اپنی جگہ ٹھہر جائیں)
پھر اپنا سر اٹھائے اور تکبیر کہے۔

سابقہ تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے مجھے گمان ہوتا ہے کہ اب کوئی نیا اعتراض پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:
[arabic]طالب الحق يكفيه دليل وصاحب الهوي لا يكفيه الف دليل[/arabic]
"طالب حق کے لیے ایک دلیل بھی کافی ہوتی ہے اور صاحب ھوی کو ہزار دلیلیں بھی مطمئن نہیں کر سکتیں"
سو طالبین حق کے لیے اس حدیث کے بیس حوالہ جات فراہم کیے جاتے ہیں۔ اللہ نے جس کی قسمت میں ہدایت لکھی ہو گی اسے سمجھ آ جائے گی اور جو کوئی امریکی گود میں پرورش پانے والی فکر اپنانا چاہے تو اس تفصیل کے بعد اس کے لیے ہم دعا سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔
حوالہ جات:
1۔ صحیح البخاری کتاب الاستئذان باب من رد فقال علیک السلام
2۔ مسند احمد باقی مسند المکثرین مسند ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ
3۔ مسند الطیالسی، مسند رفاعۃ البدری
4۔ مصنف عبد الرزاق کتاب الصلاۃ باب الرجل یصلی صلاۃ لا یکملھا
5۔ مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الصلاۃ باب فی الرجل ینقص صلاتہ۔ ۔۔
6۔ سنن الدارمی کتاب الصلاۃ باب فی الذی لا یتم الرکوع و السجود
7۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وجوب قراءۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ
8۔ سنن ابن ماجہ کتاب الصلاۃ والسنۃ فیھا باب اتمام الصلاۃ
9۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع و السجود
10۔ سنن ترمذی کتاب الصلاۃ باب ما جاء فی وصف الصلاۃ
11۔ مسند البزار مسند ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ
12۔ سنن النسائی الصغرٰی کتاب السھو باب اقل ما یجزی من عمل الصلاۃ
13۔ مسند ابی یعلی مسند شھر بن حوشب عن ابی ھریرۃ حدیث اذا قمت الی الصلاۃ فکبر۔ ۔ ۔
14۔ صحیح ابن خزیمہ جلد اول صفحہ 235 حدیث نمبر 461
15۔ مستخرج ابی عوانہ باب فی الصلاۃ بین الاذان و الاقامۃ فی صلاۃ المغرب و غیرہ
16۔ صحیح ابن حبان کتاب الصلاۃ باب صفۃ الصلاۃ
17۔ المعجم الکبیر للطبرانی حدیث نمبر 4396 جلد دوم ص 414
18۔ سنن الدار قطنی کتاب الطھارۃ باب وجوب غسل القدمین و العقبین
19۔ المستدرک للحاکم کتاب الامامۃ و صلاۃ الجماعۃ
20۔ شعب الایمان للبیہقی کتاب الصلاۃ باب تحسین الصلاۃ

 
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
جزاک اللہ خیراً ، بھتیجے ، اللہ تعالیٰ مزید خیر کی ہمت عطاء فرمائے ، اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سنت مبارکہ کو نشر کرنے اور سنت کے مخالفین کے فلسفوں کو توڑنے کی مزید طاقت عطاء فرمائے ،
سب سے پہلے آپ کے مضمون میں دخل اندازی پر معذرت خواہ ہوں ،
اور اس کے بعد گذارش یہ کرنا چاہتا ہوں آپ اپنے مضمون کو اس کی ترتیب کے مطابق پیش کرتے چلیے اور جو صاحب اپنے """ خلاف قران """ فلسفوں میں سے دھواں اٹھتے دیکھ کر صبر نہیں کر پاتے ، اپنی """ خلاف قران """ قران فہمی کی حقیقت آشکار ہونا برداشت نہیں کر پاتے ، اپنے جہالت پر مبنی دعووں کی قلعی کھلتے ہوئے دیکھ کر بات کو منتشر کرنا چاہتے ہیں ، ان کے مراسلات کو نظر انداز کیجیے ،
ان شاء اللہ جیسے جیسے آپکے اس مضمون یا کتاب کے حصے سامنے آتے جائیں گے ، ان شاء اللہ تعالیٰ حق مزید واضح ہوتا جائے گا ، اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا نُور اور خوشبو چہار سُو پھیلں گے ، باذن اللہ تعالیٰ ،
اُس کے بعد بھی اگر کوئی اُس کے """ دستور """ پر عمل کرتے ہوئے اعتراض برائے اعتراض کرے گا تو ان شاء اللہ تعالیٰ حسب سابق ، اور ہمارے دستور کے مطابق ہم اللہ کے کلام اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی صحیح ثابت شدہ سنت مبارکہ کے دلائل کے ساتھ جواب دیں گے ، اور ہدایت دینے والا صرف اور صرف اللہ ہی ہے ، و السلام علیکم۔
 
Top