نماز کا طریقہ صحیح احادیث کی روشنی میں

الف عین

لائبریرین
یہ دھاگا آج ہی دیکھا، اب تک محض اسلامی پیغام سمجھ کر چھوڑ دے رہا تھا کہ یہاں محض مسلکی بحث ہو رہی ہو گی۔ لیکن یہاں تو مکمل ای بک کا مواد مل گیا۔ جزاک اللہ خیر عبد اللہ۔ بس اتنا اور بتا دو کہ اس ککا ماخذ کیا ہے، کس کتاب سے یہ ٹائپ کیا گیا ہے، تاکہ اس ماخذ کے حوالے سے ای بک بنائی جائے۔
 
مسئلہ رفع الیدین
رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے کھڑا ہوتے وقت ہاتھوں کو کندھوں یا کانوں تک اٹھانا سنت ہے۔ اسے رفع الیدین کہتے ہیں۔ اس کا ثبوت بکثرت اور تواتر کی حد کو پہنچی ہوئی احادیث سے ملتا ہے جنہیں صحابہ کی ایک بڑی جماعت نے روایت کیا ہے۔ ہم پہلے اس بارے میں صحیح احادیث بیان کرتے ہیں، اس کے بعد فقہاء کے اختلاف کا سبب اور دوسرے ضروری امور کی وضاحت شامل کی جائے گی ان شاء اللہ۔
پہلی حدیث:
عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا كَذَلِكَ أَيْضًا
صحیح البخاری کتاب الاذان باب رفع الیدین فی التکبیرۃ الاولی مع الافتتاح سواء،
“عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک بلند کیا کرتے تھے، اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی انہیں اسی طرح اٹھاتے تھے"
دوسری حدیث:
عَنْ أَبِي قِلَابَةَ أَنَّهُ رَأَى مَالِكَ بْنَ الْحُوَيْرِثِ إِذَا صَلَّى كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْهِ وَحَدَّثَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ هَكَذَا
(صحیح البخاری کتاب الاذان باب رفع الیدین اذا کبر و اذا رکع و اذا رفع، صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب استحباب رفع الیدین حذو المنکبین مع تکبیرۃ الاحرام)
ابو قلابہ کہتے ہیں کہ میں نے مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے نماز پڑھتے وقت تکبیر کہی اور ہاتھ اٹھائے، پھر رکوع کرتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت بھی ہاتھ اٹھائے اور بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے بھی (نماز میں) ایسا ہی کیا تھا"۔
تیسری حدیث:
وَائِلِ بْنِ حُجْرٍأَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ كَبَّرَ وَصَفَ هَمَّامٌ حِيَالَ أُذُنَيْهِ ثُمَّ الْتَحَفَ بِثَوْبِهِ ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ أَخْرَجَ يَدَيْهِ مِنْ الثَّوْبِ ثُمَّ رَفَعَهُمَا ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ فَلَمَّا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَفَعَ يَدَيْهِ
صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وضع یدہ الیمنٰی علی الیسرٰی بعد تکبیرۃ الاحرام)
“وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو دیکھا کہ انہوں نے نماز شروع کرتے وقت ہاتھ اٹھائے اور تکبیر کہی، ۔ ۔ ۔ ۔پھر رکوع کرنے کا ارادہ کیا تو اپنے ہاتھ چادر سے نکالے اور انہیں بلند کیا اور تکبیر کہی اور رکوع کیا، پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہتے وقت بھی دونوں ہاتھ اٹھائے"۔
چوتھی حدیث:
ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ نے دس صحابہ کے سامنے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم رکوع میں جاتے اور کھڑے ہوتے وقت رفع الیدین کرتے تھے اور ان سب نے اس بات کی تصدیق کی۔
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب افتتاح الصلاۃ، صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر 730)
پانچویں حدیث:
عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ وَيَصْنَعُ مِثْلَ ذَلِكَ إِذَا قَضَى قِرَاءَتَهُ وَأَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ وَيَصْنَعُهُ إِذَا رَفَعَ مِنْ الرُّكُوعِ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من ذکر انہ یرفع یدیہ اذا قام من الثنتین، صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر 744)
“علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جب فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے اور اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک بلند کرتے، اور جب قراءت سے فارغ ہو کر رکوع کرنے کا ارادہ کرتے تب اور رکوع سے اٹھتے وقت بھی اسی طرح ہاتھ اٹھاتے تھے"
چھٹی حدیث:
عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ وَإِذَا رَكَعَ
سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب رفع الیدین اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع، صحیح و ضعیف سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 866)
“انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نمازشروع کرتے وقت اور رکوع میں جاتے وقت ہاتھ اٹھایا کرتے تھے"۔
ساتویں حدیث:
عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ كَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا رَكَعَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ وَيَقُولُ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ
سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب رفع الیدین اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع، صحیح و ضعیف سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 868
“جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نماز شروع کرتے وقت، رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے اور کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے"۔
آٹھویں حدیث:
عَنْ أَبِى مُوسَى الأَشْعَرِىِّ قَالَ هَلْ أُرِيكُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ لِلرُّكُوعِ ثُمَّ قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ هَكَذَا فَاصْنَعُوا وَلاَ يَرْفَعُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ.
سنن الدار قطنی کتاب الصلاۃ باب ذکر التکبیر و رفع الیدین عند الافتتاح و الرکوع، اصل صفۃ صلاۃ جلد 2 ص 609
“ابو موسٰی الاشعری رضی اللہ عنہ نے (ایک دن) کہا "کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی نماز (جیسی نماز پڑھ کر) نہ دکھاؤں؟ پھر انہوں نے تکبیر کہی اور ہاتھ اٹھائے، پھر رکوع میں جاتے وقت ہاتھ اٹھائے، پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہا اور ہاتھ اٹھائے۔ پھر کہنے لگے "تم بھی اسی طرح کیا کرو"۔ اور دو سجدوں کےد رمیان انہوں نے ہاتھ نہیں اٹھائے تھے"۔
نویں حدیث:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ حِينَ يُكَبِّرُ وَيَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ وَحِينَ يَرْكَعُ وَحِينَ يَسْجُدُ
مسند احمد مسند المکثرین من الصحابہ مسند عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، اصل صفۃ صلاۃ جلد 1 ص 193
“ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز شروع کرتے وقت جب تکبیر کہتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اور رکوع اور سجدے میں بھی ایسا کرتے"
دسویں حدیث:
عن أبي بكر الصديق رضي الله عنه قال :صليت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلوة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع
السنن الکبریٰ للبیہقی جلد 2 ص 73۔ اصل صفۃ صلاۃ جلد 2 ص 610
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، وہ نماز شروع کرتے وقت، رکوع کرتے وقت، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھایا کرتےتھے"
 
یہ دس احادیث دس مختلف صحابہ نے روایت کی ہیں۔ ان میں دس ان صحابہ کو شامل کر لیا جائے جن کا ذکر ابو حمید رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ہے تو ان کی تعداد بیس ہو جاتی ہے۔پورے ذخیرہ احادیث میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک روایت کےسوا کوئی ایسی چیز صحیح سند کے ساتھ موجود نہیں ہے جو ان احادیث کے مخالف ہو۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک دن اپنے ساتھیوں سے فرمایا:
"کیا میں تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی نماز (جیسی نماز) نہ پڑھوں؟"
پھر انہوں نے نماز پڑھی اور پہلی دفعہ (تکبیر تحریمہ کہنے) کے بعدپھر (باقی نماز میں) ہاتھ نہیں اٹھائے"

اس حدیث کو امام احمد، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، طحاوی، بیہقی اور ابن حزم نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی اسے حسن اور امام ابن حزم صحیح کہتے ہیں جبکہ کچھ دوسرے محدثین عبداللہ بن مبارک، دار قطنی اور امام ابن حبان و غیرھم نے اسے ضعیف کہا ہے لیکن درست بات یہی ہے کہ سند کے اعتبار سے اس میں کوئی طعن نہیں ہے۔ اس کے تمام راوی صحیح مسلم کے راوی ہیں اور یہ روایت صحیح اور ثابت ہے۔
فقہاء کے درمیان اس مسئلے میں اصل اختلاف یہ واقع ہوا ہے کہ رفع الیدین اور ترک رفع الیدین میں افضل اور سنت کے قریب تر کون سا عمل ہے۔ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہا اللہ رفع الیدین کرنے کے قائل ہیں کیونکہ صحابہ کرام کی کثیر تعداد نے مختلف مواقع اور مختلف اوقات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے رفع الیدین کرنا بیان کیا ہےجس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم عمومًا اپنی نمازیں رفع الیدین کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ ابن عساکر کے بیان کے مطابق امام مالک بن انس رحمۃ اللہ علیہ نے بھی آخر میں رفع الیدین کرنے کو اختیار کر لیا تھا۔ جبکہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے اصحاب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی حدیث کو دلیل بناتے ہوئے رفع الیدین نہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

یہ وہ بنیادی سبب ہے جس کی وجہ سے ان ائمہ کے متبعین اور مقلدین کے درمیان طویل نزاع برپا ہوا ہے۔ دونوں طرف سےاپنے امام اور مسلک کے حق میں دلائل پیش کیے جاتے رہے ہیں۔بنظر انصاف دیکھا جائے تو ائمہ ثلاثہ کا موقف قوی تر معلوم ہوتا ہے کیونکہ رفع الیدین تواتر کی حد کو پہنچی ہوئی احادیث سے ثابت ہے جس کا انکار جاہل یا متعصب آدمی ہی کر سکتا ہے چنانچہ احناف میں بھی ایسے علماء موجود رہے ہیں جو رکوع میں جاتے اور کھڑے ہوتے وقت رفع الیدین کیا کرتے تھے۔ ان میں سب سےمشہور نام عصام بن یوسف رحمہ اللہ کا ہے جو امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تھے۔ البتہ متاخرین احناف کی جانب سے ایک عجیب و غریب دلیل یہ دی جاتی ہے کہ رفع الیدین کا حکم منسوخ ہو چکا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا آخری عمل ترک رفع الیدین کا تھا لہٰذا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی حدیث باقی تمام صحابہ کی روایات کو منسوخ کر دیتی ہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ تمام مسالک کے علماء کے ہاں طے شدہ اصول ہے کہ دو متعارض احادیث میں تطبیق ممکن ہو تو ان میں سے کوئی بھی ناسخ یا منسوخ نہیں ہوتی۔ رفع الیدین اور ترک رفع الیدین والی احادیث میں تطبیق یوں دی جا سکتی ہے کہ ممکن ہے دونوں باتیں ٹھیک ہوں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا عام معمول رفع الیدین کرنے کا معلوم ہوتا ہے کیونکہ اسے بیان کرنے والے بیسیوں صحابہ ہیں جبکہ نہ کرنے کی روایت صرف عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
دوم: علماء و فقہاء کا اصول ہے کہ اثبات نفی پر مقدم ہوتا ہے۔ یعنی اگر دو راویوں میں سے ایک کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے یہ کام کیا اور دوسرا کہے کہ نہیں کیا تو اس راوی کی بات پر عمل کیا جائے گا جس نے کام کرنے کا ذکر کیا ، کیونکہ عین ممکن ہے کہ جب وہ کام سر انجام دیا گیا تو دوسرا شخص وہاں موجود نہ ہو اور عدم اطلاع کی بنا پر نہ کرنے کو ٹھیک سمجھ بیٹھا ہو ۔ امام بخاری نے جزء رفع الیدین میں تفصیل کے ساتھ اس اصول کی وضاحت کی ہے۔ صحابہ کے اقوال کا معاملہ بھی اس سے ملتا جلتا ہے یعنی صحابہ کی ایک بڑی جماعت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے رفع الیدین کرنا بیان کیا ہے تو ان کا قول نہ کرنے والی روایت پر مقدم ہو گا۔
نسخ کا دعویٰ اس لیے بھی درست نہیں ہے کہ بعض خلفائے راشدین سمیت صحابہ کی کثیر تعداد سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی رفع الیدین کرنا ثابت ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو عبادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم دن میں پانچ مرتبہ سب کے سامنے ادا فرماتے تھے اس میں کوئی عمل منسوخ ہو جائے اور ایک صحابی کے سوا کسی دوسرے کو اس بات کا علم بھی نہ ہو سکے؟ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب دیکھتے کہ کوئی شخص رکوع میں جاتے اور اٹھتے ہوئے رفع الیدین نہیں کرتا تو کنکریاں مار کر اسے متوجہ کرتے تھے۔ ابو الحسن سندھی حنفی رحمہ اللہ سنن ابن ماجہ کی شرح میں لکھتے ہیں:
جن لوگوں نے رفع الیدین کا منسوخ ہونا بیان کیا ہے ان کا قول بلا دلیل ہے۔ اگر نسخ کا واقع ہونا تسلیم بھی کر لیا جائے تو وہ اس کے برعکس ہے جو وہ کہتے ہیں۔ کیونکہ مالک بن حویرث اور وائل بن حجر رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ساتھ عمر مبارک کے آخری دنوں میں نماز پڑھی تھی اور یہ دونوں صحابی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے نماز میں رفع الیدین کیا تھا۔ پس ان کی روایتوں سے آخر تک رفع الیدین کرنے اور نسخ کے قول کے غلط ہونے کی دلیل ملتی ہے۔۔۔ ۔ ۔۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ رفع الیدین کرنا اور نہ کرنا دونوں صحیح روایات سے ثابت ہے لیکن کرنے کی روایات زیادہ اور قوی تر ہیں"
علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ (دار العلوم دیوبند) نے بھی "فیض الباری" میں رفع الیدین منسوخ ہونے کے قول کو غلط قرار دیا ہے۔
لہٰذا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کی وجہ سے باقی تمام صحیح احادیث کو منسوخ کہہ دینا دلائل سے ثابت نہیں ہوتا۔ البتہ اس سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ رفع الیدین کرنا فرض نہیں سنت ہے۔ امام ابن حزم کہتے ہیں:
“اگر یہ حدیث موجود نہ ہوتی تو جھکتے (یعنی رکوع میں جاتے) وقت اور اٹھتے (یعنی رکوع سے کھڑے ہوتے) وقت رفع الیدین کرنا ہر نمازی پر فرض قرار پاتا، لیکن ابن مسعود رضی اللہ عنہ والی حدیث کیونکہ صحیح ہے اس لیے معلوم ہوا کہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ باقی مواقع پر رفع الیدین کرنا فرض نہیں بلکہ سنت اور مستحب ہے"

یہ ایک اہم نکتہ ہے جسے نظر انداز کرنے کی وجہ سے متاخرین احناف اور شافعیہ کے درمیان سخت اختلاف برپا ہوا ہے۔ نوبت ایں جا رسید کہ فریقین نے ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے کو مکروہ تحریمی تک کہہ ڈالا۔ اس قسم کے خیالات نے امت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں بڑا گھناؤنا کردار ادا کیا ہے۔ صحابہ کرام، تابعین اور ائمہ مجتہدین میں بھی فروعی اختلافات موجود تھے لیکن ان میں سے کسی کے بارے میں نقل نہیں کیا گیا کہ اس نے اجتہادی مسئلے میں اختلاف کی وجہ سے دوسروں کی اقتدا میں نماز پڑھنی چھوڑ دی ہو۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ اہل سنت کے چار مشہور مسالک (حنفی،شافعی، حنبلی، مالکی) میں بہت سےایسے فقہی معاملات میں اختلاف پایا جاتا ہے جن میں ایک مسلک کے ہاں وضو ٹوٹ جاتا ہے اور دوسرے کے ہاں نہیں ٹوٹتا تو کیا وہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا:
نَعَمْ تَجُوزُ صَلَاةُ بَعْضِهِمْ خَلْفَ بَعْضٍ كَمَا كَانَ الصَّحَابَةُ وَالتَّابِعُونَ لَهُمْ بِإِحْسَانِ وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنْ الْأَئِمَّةِ الْأَرْبَعَةِ يُصَلِّي بَعْضُهُمْ خَلْفَ بَعْضٍ مَعَ تَنَازُعِهِمْ فِي هَذِهِ الْمَسَائِلِ الْمَذْكُورَةِ وَغَيْرِهَا . وَلَمْ يَقُلْ أَحَدٌ مِنْ السَّلَفِ إنَّهُ لَا يُصَلِّي بَعْضُهُمْ خَلْفَ بَعْضٍ وَمَنْ أَنْكَرَ ذَلِكَ فَهُوَ مُبْتَدِعٌ ضَالٌّ مُخَالِفٌ لِلْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَإِجْمَاعِ سَلَفِ الْأُمَّةِ وَأَئِمَّتِهَا . وَقَدْ كَانَ الصَّحَابَةُ وَالتَّابِعُونَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ : مِنْهُمْ مَنْ يَقْرَأُ الْبَسْمَلَةَ وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يَقْرَؤُهَا وَمِنْهُمْ مَنْ يَجْهَرُ بِهَا وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يَجْهَرُ بِهَا وَكَانَ مِنْهُمْ مَنْ يَقْنُتُ فِي الْفَجْرِ وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يَقْنُتُ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَتَوَضَّأُ مِنْ أَكْلِ لَحْمِ الْإِبِلِ وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يَتَوَضَّأُ مِنْ ذَلِكَ وَمَعَ هَذَا فَكَانَ بَعْضُهُمْ يُصَلِّي خَلْفَ بَعْضٍ : مِثْلَ مَا كَانَ أَبُو حَنِيفَةَ وَأَصْحَابُهُ وَالشَّافِعِيُّ وَغَيْرُهُمْ يُصَلُّونَ خَلْفَ أَئِمَّةِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مِنْ الْمَالِكِيَّةِ وَإِنْ كَانُوا لَا يَقْرَءُونَ الْبَسْمَلَةَ لَا سِرًّا وَلَا جَهْرًا وَصَلَّى أَبُو يُوسُفَ خَلْفَ الرَّشِيدِ وَقَدْ احْتَجَمَ وَأَفْتَاهُ مَالِكٌ بِأَنَّهُ لَا يَتَوَضَّأُ فَصَلَّى خَلْفَهُ أَبُو يُوسُفَ وَلَمْ يُعِدْ . وَكَانَ أَحْمَد بْنُ حَنْبَلٍ يَرَى الْوُضُوءَ مِنْ الْحِجَامَةِ وَالرُّعَافِ فَقِيلَ لَهُ : فَإِنْ كَانَ الْإِمَامُ قَدْ خَرَجَ مِنْهُ الدَّمُ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ . تُصَلِّي خَلْفَهُ ؟ فَقَالَ : كَيْفَ لَا أُصَلِّي خَلْفَ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ وَمَالِكٍ
“جی ہاں، ان کا ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے، صحابہ، تابعین اور ان کے بعد آنے والے ائمہ اربعہ کے درمیان ان (فقہی) مسائل وغیرہ میں اختلاف پایا جاتا تھا لیکن وہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔ سلف میں سے کسی نے دوسرے کی اقتداء میں نماز ادا کرنے سے ادا کرنے انکار نہیں کیا۔ جو شخص اس حقیقت کا انکار کرتا ہے وہ بدعتی اور گمراہ ہے اور سلف اور ائمہ کے اجماع کی مخالفت کرنے والا ہے۔ صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد آنے والوں میں ایسے لوگ بھی تھے جو (نماز میں سورت فاتحہ) سے قبل بسم اللہ پڑھتے تھے اور ایسے بھی تھے جو نہیں پڑھتے تھے، بلند آواز سے بسم اللہ پڑھنے والے بھی تھے اور آہستہ آواز میں پڑھنے والے بھی۔ فجر کی نماز میں (ہمیشہ) قنوت کرنے والے بھی تھے اور نہ کرنے والے بھی تھے۔۔ ۔ ۔ ۔ ایسے لوگ بھی تھے جو اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جانے کے قائل تھے اور وہ بھی تھے جو اونٹ کا گوشت کھا کر وضو نہیں دہراتے تھے۔ یہ ساری باتیں ہوتی تھیں، لیکن اس کے باوجود وہ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھ لیتے تھے۔ مثلاامام ابوحنیفہ، ان کے ساتھی اور امام شافعی وغیرہ اہل مدینہ کے پیچھے نماز پڑھ لیتے تھے جو مالکی مسلک کے پیروکار تھے اور (سورت فاتحہ سے قبل) بسم اللہ بالکل بھی نہیں پڑھتے تھے (جبکہ ان کے پیچھےنماز پڑھنے والےائمہ کے نزدیک پڑھنی چاہیے)۔ایک دفعہ امام ابو یوسف نے ہارون الرشید کے پیچھے اس حال میں نماز پڑھی کہ اس نے پچھنے لگوائے تھے اور امام مالک کے فتوے پر عمل کرتے ہوئے نیا وضو نہیں کیا، (امام ابو یوسف اس عمل سے وضو ٹوٹ جانے کے قائل تھے لیکن انہوں نے اس کے پیچھے نماز پڑھ لی اور) بعد میں بھی نہیں دہرائی۔امام احمد بھی پچھنے لگوانے سے وضو ٹوٹ جانے کے قائل تھے، ان سے کسی نے پوچھا "اگر (مالکی) امام خون نکلنے کے بعد نیا وضو کیے بغیر نماز پڑھائے تو کیا آپ اس کے پیچھے نماز پڑھ لیں گے (کیونکہ آپ کا کہنا ہے کہ اسے دوبارہ وضو کرنا ہو گا جبکہ امام مالک آپ کی بات تسلیم نہیں کرتے)؟ تو جواب میں انہوں نے کہا "(اختلاف اپنی جگہ لیکن ) یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں سعید بن المسیب اور مالک بن انس جیسے لوگوں کے پیچھے نماز نہ پڑھوں"؟
شیخ الاسلام نے اس کے بعد مفصل بحث کی ہےکہ اگرکسی فقہی مسئلے میں امام اور مقتدی کا مسلک مختلف ہو تو دونوں کی نماز درست ہو گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امام اپنے علم کے مطابق اجتہاد کر کے یا کسی دوسرے مجتہد کے اجتہاد پر عمل کر کے سنت کی پیروی کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس کوشش کے دوران کبھی تو وہ صحیح قول کو پا لیتا ہے اور کبھی درست فیصلہ نہیں کر پاتا۔ بالفرض وہ غلطی کر رہا ہو تب بھی اس کی نماز کا مقتدیوں کی نماز پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
يُصَلُّونَ لَكُمْ فَإِنْ أَصَابُوا فَلَكُمْ وَإِنْ أَخْطَئُوا فَلَكُمْ وَعَلَيْهِمْ
“صحیح البخاری کتاب الاذان باب اذا لم یتم الامام و اثم من خلفہ
“وہ (یعنی امام) تمہارے لیے نماز پڑھاتے ہیں، پھر اگر وہ درست (طریقے پر عمل پیرا) رہیں تو (اس کا اجر) تمہارے لیے بھی ہے اور ان کے لیے بھی، اور اگر وہ خطا کریں تو تمہارے لیے (اجر) ہے اور (خطا کا وبال) ان پر ہے"۔
 
رکوع کرنے کا طریقہ
رکوع کرنے کا طریقہ
رکوع کے مسائل کی تفصیل میں جانے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ رکوع و سجود اطمینان اور سکون سے ادا کرنے کی اہمیت پر کچھ بات ہو جائے کیونکہ یہ ایسا مسئلہ ہے جس کی طرف سے عام طور پر غفلت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ احادیث میں بار بار رکوع و سجود پورے کرنے کا حکم دیا گیا ہے، یعنی انہیں ان کی ساری شرائط، آداب، سنتوں اور اطمینان کے ساتھ ادا کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو ٹھیک طریقے سے رکوع و سجود نہیں کر رہا تھا تو فرمایا:
لَوْ مَاتَ هَذَا عَلَى حَالِهِ هَذِهِ مَاتَ عَلَى غَيْرِ مِلَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَثَلُ الَّذِي لا يُتِمُّ رُكُوعَهُ ويَنْقُرُ فِي سُجُودِهِ ، مَثَلُ الْجَائِعِ يَأْكُلُ التَّمْرَةَ وَالتَّمْرَتَانِ لا يُغْنِيَانِ عَنْهُ شَيْئًا
"اگر یہ اسی حالت میں مر گیا تو محمد (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کی ملت پر نہیں مرے گا " پھر فرمایا: " جو آدمی رکوع پورا نہیں کرتا اور سجدے میں ٹھونگے مارتا ہے اس کی مثال اس بھوکے کی سی ہے جو ایک یا دو کھجوریں کھاتا ہے جو اسے کوئی فائدہ نہیں دیتیں" [1]
یہ بھی عمومًا دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ نمازی محض گھٹنوں کو ہاتھ لگا لینے کو کافی خیال کرتے ہوئے کمر کو گولائی دیتے ہوئے رکوع کرتے ہیں اور کمر سیدھی نہیں رکھتے۔ یہ ایک بڑی غلطی ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو رکوع میں کمر سیدھی نہیں کر رہا تھا تو ارشاد فرمایا:
يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَا يُقِيمُ صُلْبَهُ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ
"اے مسلمانوں کی جماعت! (سن لو کہ) اس شخص کی کوئی نماز نہیں ہے جو رکوع اور سجدوں میں اپنی کمر سیدھی نہیں کرتا"[2]
دوسری حدیث میں ہے:
لَا تُجْزِئُ صَلَاةُ الرَّجُلِ حَتَّى يُقِيمَ ظَهْرَهُ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ
"آدمی کی نماز اس وقت تک درست نہیں ہوتی جب تک وہ رکوع اور سجدوں میں اپنی کمر سیدھی نہ کرے"۔[3]
ان احادیث کی روشنی میں امام شافعی، امام اسحاق اور امام احمد رکوع و سجود میں کمر سیدھی نہ رکھنے والے شخص کی نماز کے باطل ہونے کے قائل ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ایک دفعہ اپنے صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا:
أَسْوَأُ النَّاسِ سَرِقَةً الَّذِي يَسْرِقُ صَلاَتَهُ
"لوگوں میں سب سے برا چوری کرنے والا وہ (شخص) ہے جو نماز کی چوری کرتا ہے"
صحابہ نے عرض کیا "اے اللہ کے رسول! نماز کی چوری کیسے کی جاسکتی ہے"؟
فرمایا:
لاَ يُتِمُّ رُكُوعَهَا وَلاَ سُجُودَهَا
"(نماز کی چوری یہ ہے کہ ) وہ اس کے رکوع اور سجدے پورے ( اطمینان اور آداب کے ساتھ) ادا نہیں کرتا"[4]
ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے نماز میں تین چیزوں سے منع فرمایا ہے:
عَنْ نَقْرَةٍ كَنَقْرَةِ الدِّيكِ وَإِقْعَاءٍ كَإِقْعَاءِ الْكَلْبِ وَالْتِفَاتٍ كَالْتِفَاتِ الثَّعْلَبِ
"مرغ کے چونچ مارنے کی طرح ٹھونگے مارنے سے (یعنی جلدی جلدی سجدہ کرنے سے)۔
کتے کی طرح ہاتھ ٹیک کر بیٹھنے سے۔
اورلومڑی کی مانند(سراور آنکھیں) ادھر ادھر گھمانے سے۔[5]
ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک آدمی آیا اور جلدی جلدی نماز ادا کرنے کے بعد آ کر سلام عرض کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا:
ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ
"واپس جا کر (دوبارہ) نماز پڑھو، کیونکہ (حقیقت میں) تم نے نماز نہیں پڑھی"
انہوں نے پہلے جیسی نماز دوبارہ پڑھی اور آ کر سلام عرض کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے سلام کا جواب دیا اور پھر فرمایا کہ واپس جا کر نماز پڑھ، کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ تین مرتبہ ایسا ہی ہوا۔ تیسری دفعہ انہوں نے عرض کیا "اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! میں اس سے بہتر نہیں پڑھ سکتا، مجھے نماز کا صحیح طریقہ سکھا دیجیے"۔ تب نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے انہیں بڑی تفصیل کے ساتھ نماز کا طریقہ سکھایا، پوری حدیث لکھنے کا یہ موقع نہیں ہے، اس لیے متعلقہ حصہ پیش کیا جاتا ہے۔ فرمایا:
إِنَّهُ لَا تَتِمُّ صَلَاةٌ لِأَحَدٍ مِنْ النَّاسِ حَتَّى يَتَوَضَّأَ ۔ ۔ ۔ ۔ ثُمَّ يَرْكَعُ حَتَّى تَطْمَئِنَّ مَفَاصِلُهُ
"لوگوں میں سے کسی کی بھی نماز اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک وہ وضو نہ کرے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس طرح رکوع کرے کہ ہر جوڑ اپنی جگہ پر اطمینان کے ساتھ بیٹھ جائے"[6]
اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے جمہور علماء نے ارکانِ نماز میں اطمینان اختیار کرنے کو واجب کہا ہے۔
صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے:
أَتِمُّوا الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنِّي لَأَرَاكُمْ مِنْ بَعْدِ ظَهْرِي إِذَا مَا رَكَعْتُمْ وَإِذَا مَا سَجَدْتُمْ
"رکوع اور سجدے پورے کیا کرو، اس (ذات) کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں تم (صحابہ) کو (نماز پڑھانے کے دوران معجزاتی طور پر) اپنی پیٹھ پیچھے اس وقت دیکھ رہا ہوتا ہوں جب تم لوگ رکوع کرتے ہو اور سجدہ کرتے ہو"
ان اہم مباحث کو سمجھ لینے کے بعد اب رکوع کرنے کا سنت طریقہ پیش کیا جاتا ہے۔ رکوع کرنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ :
*ہتھیلوں کو گھٹنوں کے اوپراس طرح رکھا جائے جیسے گھٹنوں کو ہاتھوں سے پکڑ رکھا ہو[7]۔
* انگلیاں کھلی ہوں ، انہیں آپس میں ملایا نہ جائے اور پنڈلیوں پر رکھا جائے[8]۔
* سر کمر کے برابر ہو، جھکا ہوا یا کمر سے بلند نہ ہو[9]۔
* کہنیاں پہلوؤں سے جدا ہوں اور بازو کمان کی طرح تنے ہوئے ہوں[10]۔ کہنیوں کو پہلو سے جدا رکھنے کا حکم مرد و عورت دونوں کے لیے یکساں ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
فإذا ركعت ، فضع راحتيك على ركبتيك ، ثم فرج بين أصابعك ، ثم أمكث حتى يأخذ كل عضو مأخذه[11]
"جب تو رکوع کرے تو اپنی ہتھیلیاں اپنے گھٹنوں پر رکھ، پھر اپنی انگلیوں کے درمیان فاصلہ پیدا کر، پھر (اس طرح سکون کے ساتھ ٹھہر) کہ ہر عضو اپنی جگہ پر قرار پکڑ لے"
* کمر بالکل سیدھی ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنی کمر کو پھیلا کر اس طرح رکوع فرماتے تھے کہ کمر مبارک بالکل سیدھی ہوتی تھی، احادیث میں اس کی کیفیت یوں بیان ہوئی ہے کہ اگر اس پر پانی بہایا جاتا تو وہ ٹھہر سکتا تھا[12]۔ رکوع میں کمر سیدھی رکھنے کا حکم اس حدیث میں بھی ملتا ہے:
فإذا ركعت فاجعل راحتيك على ركبتيك و امدد ظهرك و مكن لركوعك[13]


[1] ۔ صحیح الترغیب و الترھیب حدیث نمبر 528

[2] ۔ سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب الرکوع فی الصلاۃ، صحیح و ضعیف سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 871

[3] ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من لا یقیم صلبہ فی الرکوع و السجود، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 801

[4] ۔ صحیح الترغیب و الترھیب حدیث نمبر 524

[5] ۔ صحیح الترغیب و الترھیب حدیث نمبر 555، مسند احمد مسند ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ۔ حسن لغیرہ

[6] ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من لا یقیم صلبہ فی الرکوع و السجود، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 803

[7] ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب افتتاح الصلاۃ، صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر 723

[8] ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع و السجود، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 809

[9] ۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب ما یجمع صفۃ الصلاۃ و ما یفتتح بہ و صفۃ الرکوع

[10] ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب افتتاح الصلاۃ، صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر 723

[11] ۔ صحیح ابن حبان کتاب الصلاۃ باب صفۃ الصلاۃ

[12] ۔ مسند احمد مسند العشرۃ المبشرین بالجنۃ مسند علی بن ابی طالب، امام البانی نے کثرت طرق کی وجہ سے اسے صحیح قرار دیا ہے، دیکھیے اصل صفۃ صلاۃ النبی مجلد 2 ص 638

[13] ۔، صحیح و ضعیف الجامع الصغیر حدیث نمبر 324۔
 
رکوع کے اذکار رکوع کے اذکار
احادیث مبارکہ میں کئی قسم کی دعائیں اور اذکار مذکور ہیں جنہیں رکوع میں پڑھا جا سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے یہ دعائیں اور اذکار مختلف مواقع پر رکوع میں پڑھے ہیں۔ البتہ اس بات کی کوئی صراحت نہیں ملتی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے کبھی ایک وقت میں ایک سے زائد دعاؤں کو اکٹھا کر کے بھی پڑھا ہو، چنانچہ اس بارے میں علماء کی رائے مختلف ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب "الاذکار" میں کہتے ہیں کہ ان دعاؤں کو جمع کر کے پڑھنا جائز ہے جبکہ علامہ صدیق حسن خان نے "نزل الابرار" میں موقف اختیار کیا ہے کہ جمع کرنے کی کوئی دلیل میسر نہیں اس لیے ایک وقت میں ایک ہی دعا پڑھی جائے کیونکہ سنت کی پیروی کرنا اپنے فہم سے کوئی نئی چیز نکالنے سے بہتر ہے۔ بظاہر یہی موقف مضبوط اور درست معلوم ہوتا ہے۔ رکوع کے اذکار اور دعائیں یہ ہیں:
سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ (تین مرتبہ یا اس سے زیادہ) [1]۔ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے رات کے نوافل میں اس ذکر کی اتنی تکرار کی تھی کہ رکوع اور قیام تقریبًا برابر ہو گئے تھے جبکہ اس رات قیام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے سورۃ البقرۃ، سورۃ النساء اور سورۃ آل عمران تینوں ایک رکعت میں پڑھی تھیں۔[2]
سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ وَبِحَمْدِهِ (تین دفعہ)[3]
سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِكَةِ وَالرُّوحِ [4]
سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي [5]
اللَّهُمَّ لَكَ رَكَعْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ أنت ربي سخَشَعَ لَكَ سَمْعِي وَبَصَرِي وَمُخِّي وَعِظَامِي وَعَصَبِي وما استقلَّت به قدمي لله رب العالمين [6]

6۔ اللهم ! لك ركعت ، وبك آمنت ، ولك أسلمت ، وعليك توكلت ، أنت ربي ، خشع سمعي وبصري ، ودمي ولحمي ، وعظمي وعصبي ؛ لله ربِّ العالمين [7]
7۔ سُبْحَانَ ذِي الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَكُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ [8]


[1] ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب ما یقول الرجل فی رکوعہ و سجودہ۔ صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 815

[2] ۔ صحیح مسلم صلاۃ المسافرین و قصرھا باب استحباب تطویل القراءۃ فی صلاۃ اللیل

[3] ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب ما یقول الرجل فی رکوعہ و سجدہ، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 828

[4] ۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب ما یقال فی الرکوع و السجود

[5] ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب الدعاء فی الرکوع

[6] ۔ اصل صفۃ صلاۃ النبی 2 ص 664۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب ما یستفتح بہ الصلاۃ من الدعاء

[7] ۔ اصل صفۃ صلاۃ النبی 2 ص 665

[8] ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب ما یقول الرجل فی رکوعہ و سجودہ، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 817
 
جب آپ رکوع میں تسبیحات اور اذکار وغیرہ پڑھنے سے فارغ ہو جائیں تو سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہتے ہوئے اطمینان کے ساتھ اٹھیں اور انگلیوں کو فطری انداز میں کھلا رکھتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو کانوں یا کندھوں تک بلند کریں[1] ۔ پھر ہاتھوں کو باندھے بغیر سیدھے کھڑے ہو جائیں اور رَبَّنَالَكَ الْحَمْدُ یا کوئی دوسرا مسنون ذکر پڑھیں جن کا ذکر آگے آ رہا ہے۔رکوع کے بعد سیدھے کھڑے ہونا نماز کے ارکان میں سے ایک رکن ہے۔ اسے قومہ کہا جاتا ہے جبکہ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کو تسمیع اور رَبَّنَالَكَ الْحَمْدُ کو تحمید کہتے ہیں۔

تسمیع و تحمید کی فضیلت:
نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ اور رَبَّنَالَكَ الْحَمْدُ کہنے کی بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے۔ ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ يَسْمَعُ اللَّهُ لَكُمْ فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَالَ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب التشھد، صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر ۹۷۲)
" جب(امام) سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہے تو (اس کے بعد)تم سب (مقتدی) اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ کہا کرو، اللہ تمہاری دعا قبول فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی زبانی کہہ چکا ہے کہ جس نے اللہ کے حمد بیان کی، اللہ نے اس کی سن لی"

ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ اس بارے میں یہ فرمان رسول بیان کرتے ہیں:
إِذَا قَالَ الْإِمَامُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ قَوْلُهُ قَوْلَ الْمَلَائِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ
(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب التسمیع و التحمید و التأمین)
" جب امام سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہے تو تم(اس کے بعد) اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ کہا کرو کیونکہ (فرشتے اس وقت یہی کہتے ہیں پس) جس کا قول فرشتوں کے قول سے مل گیا اس کے پچھلے(صغیرہ) گناہ معاف کر دیے گئے"
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ امام کے تسمیع کہنے سے پہلے فرشتے تحمید نہیں کہتے اس لیے تم بھی ایسا نہ کرو بلکہ امام کے سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہنے کے بعد اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ کہا کرو۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امام صرف سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ اور مقتدی صرف رَبَّنَالَكَ الْحَمْدُ کہے کیونکہ ان دونوں کے کہنے کا وجوب دوسرے دلائل سے معلوم ہے جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔

تسمیع و تحمید کےمسائل:
ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ يُكَبِّرُ حِينَ يَقُومُ ثُمَّ يُكَبِّرُ حِينَ يَرْكَعُ ثُمَّ يَقُولُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ حِينَ يَرْفَعُ صُلْبَهُ مِنْ الرُّكُوعِ ثُمَّ يَقُولُ وَهُوَ قَائِمٌ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ
(صحیح البخاری کتاب الأذان باب التکبیر اذا قام من السجود، صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب اثبات التکبیر فی کل خفض و رفع)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم جب نماز کے لیے اٹھتے تو کھڑے ہو کر تکبیر کہتے، پھر تکبیر کہہ کر رکوع میں جاتے، پھر سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہتے ہوئے رکوع سےکمر اٹھاتے اور جب(سیدھے) کھڑے ہو جاتے تو پھر رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ کہا کرتے تھے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنی نماز میں تسمیع و تحمید دونوں کہا کرتے تھے اس لیے صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي (اس طرح نماز پڑھو جیسے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو)[2] کے عمومی حکم کے پیش نظر امام، مقتدی اور اکیلے نماز پڑھنے والے غرض ہر نمازی کو سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ اور رَبَّنَالَكَ الْحَمْدُ دونوں کلمات کہنے چاہئیں جس کا طریقہ یہ ہوکہ رکوع سے اٹھنے کے لیے حرکت کرنے کے ساتھ ہی سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہا جائے اور کھڑے ہونے تک اسے ختم کر لیا جائے، پھر اطمینان سے کھڑے ہو کر رَبَّنَالَكَ الْحَمْدُ کہا جائے۔تسمیع و تحمید کہنے کے وجوب [3] کی دوسری دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا یہ فرمان ہے:
إِنَّهُ لَا تَتِمُّ صَلَاةٌ لِأَحَدٍ مِنْ النَّاسِ حَتَّى يَتَوَضَّأَ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ثُمَّ يَقُولُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ حَتَّى يَسْتَوِيَ قَائِمًا
(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع و السجود۔ صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر ۸۵۷)
" لوگوں میں کسی کی بھی نماز اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک وہ وضو نہ کرلے ۔ ۔ ۔ ۔(اور)پھر سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہتے ہوئےبالکل سیدھا کھڑا ہو جائے"
امام شافعی، امام احمد اور حنفیہ میں امام محمد، ابویوسف اور امام طحاوی نے بھی تسمیع و تحمید دونوں کلمات کہنے کو اختیار کیا ہے۔

قومے کی کم سے کم مقدار:
قومے سے متعلق دوسرا انتہائی اہم مسئلہ اسے اطمینان اور سکون سے ادا کرنے کا ہے جس کی کم سے کم مقدار یہ ہے کہ نمازی اتنی دیر تک کھڑا رہے کہ کمر کے تمام مہرے اور ہڈیاں اپنی اپنی جگہ پر واپس آ کر ٹھہر جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ہے:
فَإِذَا رَفَعْتَ رَأْسَكَ فَأَقِمْ صُلْبَكَ حَتَّى تَرْجِعَ الْعِظَامُ إِلَى مَفَاصِلِهَا
(مسند احمد مسند الکوفیین حدیث رفاعۃ بن رافع رضی اللہ عنہ۔ صحیح و ضعیف الجامع الصغیر حدیث نمبر ۳۲۴)
"جب تو (رکوع سے )اپنا سر اٹھائے تو اپنی کمر سیدھی کر، یہاں تک کہ(کمر کی ہڈیاں) اپنے اپنے جوڑوں پر واپس ہو جائیں"
نماز کی درستگی کے لیے یہ کم سے کم تقاضا ہے جسے پورا نہ کرنے والے شخص کی نماز نامکمل رہتی ہے[4] اوراس نامکمل نماز کی اللہ تعالیٰ کے ہاں کیا وقعت ہوتی ہے اس کا ذکر ایک دوسرے فرمان رسول میں ملتا ہے:
لَا يَنْظُرُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى صَلَاةِ عَبْدٍ لَا يُقِيمُ فِيهَا صُلْبَهُ بَيْنَ رُكُوعِهَا وَسُجُودِهَا
(مسند احمد مسند المدنیین حدیث طلق بن علی، السلسلۃ الصحیحۃ حدیث نمبر ۲۵۳۶)
"اللہ عز و جل اس بندے کی نماز کی طرف دیکھتا بھی نہیں ہے (جس کو ادا کرنے والا ) اس کے رکوع و سجود کے درمیان اپنی کمر سیدھی نہیں کرتا"
ظاہر ہے ایسی نماز کی قبولیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جسے دیکھنا بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو پسند نہ ہو۔ اس لیے نمازیوں کو اس رکن کی ادائیگی میں جلدی کرنے سے بچنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ ان کی ساری محنت برباد ہو جائے اور وہ اللہ عز و جل کی ناراضی کے مستحق بن جائیں۔

سنت مطہرہ سے ایک جھلک
قومے میں اطمینان اور سکون اختیار کرنے کے بارے میں صرف زبانی حکم ہی نہیں ملتے بلکہ سنت مطہرہ میں اس کی عملی صورت بھی امت کے سامنے رکھ دی گئی ہے۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ نماز نبوی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جتنی دیر رکوع فرماتے تھے قریبًا اتنی ہی دیر رکوع کے بعد کھڑے رہتے اور اتنی ہی دیر دو سجدوں کے درمیان بیٹھتے تھے [5] اور بعض دفعہ تو رکوع کے بعد اتنی دیر تک کھڑے رہتے کہ دیکھنے والا گمان کرتا کہ آپ سجدہ کرنا بھول گئے ہیں[6] ۔ ایک مرتبہ رات کو تہجد کی نماز میں رکوع سے کھڑے ہونے کے بعد اتنی دیر تک لِرَبِّيَ الْحَمْدُ کی تکرار کرتے رہے جتنی دیر میں سورۃ البقرۃ پڑھی جا سکتی ہے[7] ۔
یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس طرح کی طوالت انفرادی نمازوں میں ہونی چاہیے۔ اگر کوئی شخص امامت کروا رہا ہو تو اسے ہلکی نماز پڑھانے کا حکم ہے جس کی تفصیل اس کتاب میں پیچھے گزر چکی ہے۔

حوالہ جات:

[1 ۔ اس کی تفصیل پیچھے ۔مسئلہ رفع الیدین ۔ کے تحت گزر چکی ہے۔
[2] ۔ صحیح البخاری کتاب الأذان باب الأذان للمسافر اذا کانوا جماعۃ و الاقامۃ و کذلک بعرفۃ
[3] ۔ تمام المنۃ فی التعلیق علی فقہ السنۃ للامام الالبانی ص ۱۹۱
[4] ۔ اس کی دلیل اوپر تسمیع و تحمید کے مسائل کے آخر میں گزر چکی ہے۔
[5] ۔ صحیح البخاری کتاب الأذان باب الطمأنینۃ حین یرفع رأسہ من الرکوع
[6] ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب الطمأنینۃ حین یرفع رأسہ من الرکوع
[7] ۔سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب ما یقول الرجل فی رکوعہ و سجودہ۔ صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر ۸۷۴
 
احادیث مبارکہ میں ایسے بہت سے اذکار موجود ہیں جنہیں تسمیع یعنی سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَه کہنے کے بعد پڑھا جا سکتا ہے۔ اصطلاح میں انہیں تحمید کہا جاتا ہے۔نمازی کو اختیار ہے چاہے تو ان میں سے کسی ایک کو ایک بارپڑھنے کے بعد رکوع کر لے اور چاہے تو ایک سے زیادہ بار پڑھنے کے بعد رکوع میں جائے۔ ایک سے زیادہ اذکار کو ملا کر پڑھنا بھی جائز ہے۔ ان کی تفصیل درج ذیل ہے:
۱۔ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ
(صحیح البخاری کتاب الأذان باب اقامۃ الصف من تمام الصلاۃ)
۲۔ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ
(صحیح البخاری کتاب الأذان باب انما جعل الأمام لیوتم بہ)
۳۔ اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ
(صحیح البخاری کتاب الأذان باب انما فضل اللھم ربنا لک الحمد)
۴۔ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ
(صحیح البخاری کتاب الأذان باب ما یقول الأمام و من خلفہ اذا رفع رأسہ من الرکوع)
۵۔ اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْءُ السَّمَاوَاتِ وَمِلْءُ الْأَرْضِ وَمِلْءُ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ
(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب ما یقول اذا رفع رأسہ من الرکوع)
۶۔اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَاوَاتِ وَمِلْءَ الْأَرْضِ وَمِلْءَ مَا بَيْنَهُمَا وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ
(صحیح مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا باب الدعاء فی صلاۃ اللیل و قیامہ)
۷۔ اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْءُ السَّمَاوَاتِ وَمِلْءُ الْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَمِلْءُ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ أَهْلَ الثَّنَاءِ وَالْمَجْدِ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ
(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب ما یقول اذا رفع رأسہ من الرکوع)
۸۔ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْءُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمِلْءُ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ أَهْلَ الثَّنَاءِ وَالْمَجْدِ أَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ وَكُلُّنَا لَكَ عَبْدٌ اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ
(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب ما یقول اذا رفع رأسہ من الرکوع)
۹۔ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ
(صحیح البخاری کتاب الأذان باب فضل اللھم ربنالک الحمد)
۱۰۔ لِرَبِّيَ الْحَمْدُ
(سنن أبی داؤد کتاب االصلاۃ باب ما یقول الرجل فی رکوعہ و سجودہ، صحیح و ضعیف سنن أبی داؤد حدیث نمبر ۸۷۴)
ایک ضروری وضاحت:
نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز پڑھاتے وقت سمع اللہ لمن حمدہ بلند آواز سے کہتے تھے جس کی وجہ سے صحابہ کرام اس سنت سے بخوبی واقف تھے اور صلوا کما رأیتمونی أصلی (اس طرح نماز پڑھو جس طرح مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو) کے عمومی حکم پر عمل کرتے ہوئے وہ بھی رکوع سے اٹھتے وقت سمع اللہ لمن حمدہ کہا کرتے تھے لیکن خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے بتائے بغیر کسی کو معلوم نہیں ہو سکتا تھا کہ اس کے بعد آپ آہستہ آواز میں کیا پڑھتے ہیں اس لیے امت کو اس کی خبر دیتے ہوئےفرمایا:
إِذَا قَالَ الْإِمَامُ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ قَوْلُهُ قَوْلَ الْمَلَائِكَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ
(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب التسمیع و التحمید و التأمین)
جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم اللھم ربنا لک الحمد کہو کیونکہ (اس وقت) جس کا قول فرشتوں کے قول سے مل گیا اس کے پچھلے (صغیرہ) گناہ معاف کر دیے جائیں گے
اس حدیث سے کچھ علماء کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ امام صرف سمع اللہ لمن حمدہ اور مقتدی صرف ربنا لک الحمد کہے لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔ امام اور مقتدی دونوں کو یہ کلمات پڑھنے چاہئیں۔ حدیث کے درست مفہوم کی طرف ہم نے اشارہ کر دیا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اس حدیث سے کچھ علماء کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ امام صرف سمع اللہ لمن حمدہ اور مقتدی صرف ربنا لک الحمد کہے لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔ امام اور مقتدی دونوں کو یہ کلمات پڑھنے چاہئیں۔ حدیث کے درست مفہوم کی طرف ہم نے اشارہ کر دیا ہے۔

تو آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہوا کہ امام اور مقتدی دونوں کو سمع اللہ لم حمدہ اور ربنا لک الحمد کہنا چاہیے؟
 
قومے سے سجدے میں جانے کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ اکبر کہتے ہوئے زمین کی طرف جھکیں، پہلے اپنے ہاتھوں کو ٹکائیں، جب جسم قدرے اعتدال میں آ جائے تو گھٹنوں کو بڑے آرام اور ادب سے زمین کے ساتھ لگا دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ہے:
إِذَا سَجَدَ أَحَدُكُمْ فَلَا يَبْرُكْ كَمَا يَبْرُكُ الْبَعِيرُ، وَلْيَضَعْ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ
"جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اس طرح نہ بیٹھے جیسے اونٹ ( گھٹنے گرا کر دھم سے) بیٹھتا ہے (بلکہ نمازی کو) چاہیے کہ اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے (زمین پر) رکھے"1
سجدے کے لیے تکبیر کہتے وقت کبھی کبھار ہاتھوں کو کانوں تک اٹھانا مسنون ہے۔ مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو دیکھا کہ انہوں نے نماز میں رکوع کرتے وقت، رکوع سے اٹھتے ہوئے ، سجدہ کرتے وقت اور سجدے سے سر اٹھاتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو کانوں کی لو تک بلندفرمایا 2۔
اسی مفہوم کی احادیث وائل بن حجرؓ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہما سے بھی منقول ہیں 3۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سجدے میں جاتے وقت اور سجدوں کےد رمیان ہمیشہ ہاتھ نہیں اٹھایا کرتے تھے کیونکہ زیادہ تر صحابہ کرامؓ نے صرف رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے کھڑے ہوتے وقت رفع الیدین کرنا بیان کیا ہے جس کی تفصیل مسئلہ رفع الیدین میں گزر چکی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1 ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب کیف یضع رکبتیہ قبل یدیہ، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 789
2 ۔ مسند احمد بن حنبل مسند المکیین حدیث مالک بن حویرث۔ أصل صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم، صحیح علی شرط مسلم (2 / 707) :
3 ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے أصل صفة صلاة النبي صلى الله عليه وسلم (2 / 706)
 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
جزاک اللہ خیرا ، بھتیجے ، اللہ تبارک و تعالیٰ مزید خیر کی ہمت دے ، و السلام علیکم۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہاں پر تو امام سمع اللہ ھو لم حمدہ اونچی آواز میں اور ربنا لک الحمد آہستہ کہتا ہے جبکہ مقتدی صرف ربنا لک الحمد آہستہ آواز میں پڑھتے ہیں۔
 
(نماز کے بارے میں ان مضامین کا سلسلہ کچھ وجوہات کی بنا پر تعطل کا شکار ہے، آئندہ مضامین کی ترتیب میں کچھ بے ربطی ہو سکتی ہے)
دو سجدوں کے درمیان بیٹھنے کا بیان
دوسجدوں کے درمیان کچھ دیر کے لیے بیٹھنے کو فقہی اصطلاح میں "جلسہ" کہا جاتا ہے۔ اس کی کم سے کم مقدار یہ ہے کہ سجدے سے اٹھ کر بالکل سیدھا بیٹھ جائیں یہاں تک کہ تمام اعضاء اپنی جگہ پر واپس آ کر ٹھہر جائیں[1]۔ اکثر نمازی اسے بڑی جلدی کے ساتھ ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، سجدہ اولیٰ سے اٹھ کر بیٹھتےبھی نہیں اور درمیان ہی سے دوسرے سجدے میں چلے جاتے ہیں۔ یہ بڑی غلطی کی بات ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ایسا کرنے والے کی نماز کو نامکمل بتلایا ہے[2]۔

ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سجدے سے اٹھ کر بڑے اطمینان اور ادب کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے۔ جسم اطہر کا ہر عضو اور ہڈی کا ہر جوڑ اپنی جگہ پر آ کر قرار پکڑ لیتا تھا [3]۔ دوسرے سجدے میں جانے کے لیے جلدی نہیں فرماتے تھے بلکہ جتنی دیر سجدے میں لگاتے اتنی ہی دیر دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھ جایا کرتے تھے[4]۔ کبھی تواتنی دیر بیٹھے رہتے کہ دیکھنے والا خیال کرتا شایدآپ دوسرے سجدے میں جانا بھول گئے ہیں[5]۔ اس موقع پراپنے رب کے حضور یوں دعا گو ہوتے:
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَاجْبُرْنِي، وَارْفَعْنِي، وَاهْدِنِي، وَعَافِنِي، وَارْزُقْنِي [6]
للہ! مجھے معاف کردے، مجھ پر رحم فرما، مجھے درست کر دے، مجھے رفعت عطا فرما، مجھے ہدایت(میں اضافہ اور استقامت) دے، مجھے عافیت نصیب کر اور مجھے رزق عطا فرما"

اورکبھی اس کی بجائے یوں فرمایا کرتے:
رَبِّ اغْفِرْ لِي، رَبِّ اغْفِرْ لِي [7]
"اے میرے رب! مجھے معاف فرما دے، میرے رب! میری مغفرت فرما دے"

یہ دعائیہ کلمات رات کے نوافل یعنی تہجد میں پڑھنا احادیث میں صراحت کے ساتھ منقول ہے لیکن فرائض وغیرہ میں پڑھنے یا نہ پڑھنے کے بارے میں کوئی بات نہیں ملتی۔ بظاہر فرائض میں انہیں پڑھنا بھی درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ فرض اور نفل نماز کے طریقے اور اذکار میں فرق کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ ائمہ میں امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق اور امام طحاوی فرض اور نفل دونوں میں انہیں پڑھنے کے جواز کے قائل ہیں اور یہی اقرب الی الصواب ہے ان شاء اللہ۔
حوالہ جات:
[1] ۔ سنن ابی داؤد کتاب تفریع استفتاح الصلاۃ باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع و السجود، صحیح سنن ابن داؤد حدیث 804
[2] ۔ سنن ابی داؤد کتاب تفریع استفتاح الصلاۃ باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع و السجود، صحیح سنن ابن داؤد حدیث 804
[3] ۔ سنن ابی داؤد کتاب تفریع استفتاح الصلاۃ باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع و السجود، صحیح سنن ابی داؤد حدیث 720
[4] ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب المکث بن السجدتین حدیث عن البراء رضی اللہ عنہ
[5] ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب المکث بن السجدتین حدیث عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ
[6] ۔ یہ سات کلمات سنن ابن ماجہ، ابی داؤد، مسند احمد وغیرہ کی مختلف روایات میں آئے ہیں، تفصیلی حوالہ جات کے لیے اصل صفۃ صلاۃ النبی دیکھیے۔
[7] ۔ سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب ما یقول بین السجدتین
 
دوسرا سجدہ اور جلسہ استراحت
"جلسہ" کے بعد دوسرے سجدے میں جانے کے لیے تکبیر کہیں[1]۔ اس موقع پر کبھی کبھار رفع الیدین کرنا بھی درست ہے[2]۔ دوسرے سجدے کا طریقہ پہلے سجدے کی طرح ہی ہے۔ اس میں بھی وہی تسبیحات اور دعائیں پڑھی جا سکتی ہیں جن کا ذکر پہلے سجدے کے تحت گزر چکا ہے۔پھر "اللہ اکبر" کہتے ہوئے سجدے سے اٹھیں[3]۔ اس مقام پر بھی تکبیر کہتے وقت کبھی کبھی رفع الیدین کیا جا سکتا ہے[4]۔ اب اگر نماز کی پہلی یا تیسری رکعت ہے تو اگلی رکعت میں کھڑے ہونے سے پہلے تھوڑی دیر اپنے بائیں پاؤں پر اعتدال کے ساتھ بیٹھ جائیں (جیسے تشہد میں بیٹھتے ہیں) یہاں تک کہ تمام اعضاء اور جوڑ اپنی جگہ پر آ کر ٹک جائیں[5]۔ اسے جلسہ استراحت کہتے ہیں اور یہ سنت ہے[6] پھر دوسری رکعت میں کھڑے ہونے کے لیے اپنے ہاتھ مٹھی کی صُورت میں زمین پر ٹکا کر ان کا سہارا لے کر کھڑے ہوں۔ مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
فَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ السَّجْدَةِ الثَّانِيَةِ فِي أَوَّلِ الرَّكْعَةِ اسْتَوَى قَاعِدًا، ثُمَّ قَامَ فَاعْتَمَدَ عَلَى الْأَرْضِ[7]
"جب (نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) پہلی رکعت میں دوسرے سجدے سے سر اٹھاتے تو سیدھے بیٹھ جاتے، پھر زمین پر ہاتھوں (کی مٹھی ) پر ٹیک لگا کر اٹھتے"
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ہاتھوں پر ٹیک لگانے کاطریقہ یوں بتایا ہے کہ ہاتھوں یوں بند کیا جائے جیسے آٹا گوندھنے کے لیے بند کرتے ہیں ۔ وہ بیان کرتے ہیں:
رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْجِنُ فِي الصَّلَاةِ[8]
"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو دیکھا کہ وہ نماز میں (اپنے ہاتھوں کو )آٹا گوندھنے کی طرح (مُٹھی کی صُورت میں زمین پرٹِکا کر اگلی رکعت کے لیے اٹھا )کرتے"۔
نئی رکعت کے آغاز میں سورۃ الفاتحہ پڑھنے سے پہلے آہستہ آواز میں (سرًا) تعوذ اور بسملہ پڑھنے کے مسئلے پر فقہاء کرام کی مختلف آراء ہیں۔ قرآن و حدیث کے عمومی دلائل کو دیکھتے ہوئے انہیں پڑھ لینے کا موقف زیادہ درست معلوم ہوتا ہے۔ امام النووی، امام ابن حزم اور احناف میں امام ابویوسف اور اما م محمد رحمہم اللہ نے اسی بات کو اختیار کیا ہے[9]۔
حوالہ جات:
[1] ۔ سنن ابی داؤد ابواب تفریع استفتاح الصلاۃ باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع و السجود۔ صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 803
[2] ۔ سنن النسائی کتاب التطبیق باب رفع الیدین للسجود، اصل صفۃ صلاۃ النبی جلد 2 ص 707
[3] ۔ سنن ابی داؤد ابواب تفریع استفتاح الصلاۃ باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع و السجود۔ صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 803
[4] ۔ سنن ابی داؤد ابواب تفریع استفتاح الصلاۃ باب رفع الیدین فی الصلاۃ۔ صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 714)
[5] ۔ السنن الکبریٰ للبیہقی جماع ابواب صفۃ الصلاۃ باب فی جلسۃ الاستراحۃ حدیث عن ابی حمید الساعدی رضی اللہ عنہ۔ اصل صفۃ صلاۃ النبی جلد 3 ص 818
[6] ۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب من استوی قاعدا فی وتر من صلاتہ ثم نھض
[7]۔ سنن النسائی کتاب التطبیق باب الاعتماد علی الارض عند النھوض
[8]۔ المعجم الاوسط للطبرانی باب العین من اسمہ علی، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ حدیث نمبر 2674
[9] ۔ اس مسئلے کے دلائل کی تفصیل کے لیے دیکھیے اصل صفۃ صلاۃ النبی جلد 3 ص 824
 

عدیل منا

محفلین
عبداللہ حیدر صاحب!
اللہ تعالٰی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے (آمین)
سلسلہ کلام توڑنے پر معذرت چاہتا ہوں۔ آپنے جو کچھ لکھا صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں (جو کے میں پوری اسٹڈی کر چکا ہوں) حرف بہ حرف ایسا ہی بیان فرمایا گیا ہے۔ امام کے پیچھےسورت الفاتحہ پڑھنے کی بھی بہت تاکید ہے مگر پھر آگے چل کرکچھ ایسی احادیث بھی نظر سے گزریں جن میں یہ فرمایا گیا کہ جب میں پڑھ رہا ہوں تو خاموش رہا کرو کہ مجھے پڑھنے میں دکت ہوتی ہے۔ (یعنی امام کے پیچھے سورت فاتحہ ترک کرنے کا حکم)
دعاؤں میں ذیل میں دی گئی دعا "ربنا و لک الحمد" کے بعد ایک صحابی نے پڑھی تھی جو کہ آپ نے شاید غلطی سے تکبیر تحریمہ کے بعد کی دعاؤں شامل کردیا۔
چھٹی دعا:
الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ
 
جزاک اللہ عبداللہ حیدر بھائی ۔
پوسٹ تو بہت پرانا ہے ۔اور مکمل بھی نہیں ہے ۔ پتہ نہیں عبداللہ بھائی اس کو بھول چکے ہیں غالباً
عبداللہ حیدر صاحب!
اللہ تعالٰی آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے (آمین)
سلسلہ کلام توڑنے پر معذرت چاہتا ہوں۔ آپنے جو کچھ لکھا صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں (جو کے میں پوری اسٹڈی کر چکا ہوں) حرف بہ حرف ایسا ہی بیان فرمایا گیا ہے۔ امام کے پیچھےسورت الفاتحہ پڑھنے کی بھی بہت تاکید ہے مگر پھر آگے چل کرکچھ ایسی احادیث بھی نظر سے گزریں جن میں یہ فرمایا گیا کہ جب میں پڑھ رہا ہوں تو خاموش رہا کرو کہ مجھے پڑھنے میں دکت ہوتی ہے۔ (یعنی امام کے پیچھے سورت فاتحہ ترک کرنے کا حکم)
عن انس رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی باصحابہ فلما قضی صلوٰتہ اقبل علیہم بوجہہ فقال اتقرءون فی صلوٰتکم خلف الامام والامام یقرا فسکتوا فقال لہا ثلاث مرات فقال قائل اوقائلون انا لنفعل قال فلا تفعلوا ولیقرا احدکم فاتحۃ الکتاب فی نفسہ۔ ( کتاب القرات، ص: 48، 49، 50، 55، جزءالقراۃ دہلی، ص: 28 )
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نماز پڑھائی۔ نماز پوری کرنے کے بعد آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا۔ جب امام پڑھ رہا ہو توتم بھی اپنی نماز میں امام کے پیچھے پڑھتے ہو؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خاموش ہوگئے۔ تین بار آپ نے یہی فرمایا۔ پھر ایک سے زیادہ لوگوں نے کہا، ہاں! ہم ایسا کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ایسا نہ کرو۔ تم میں سے ہر ایک صرف سورۃ فاتحہ آہستہ پڑھا کرے۔

’فانتہی الناس عن القراة الخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ابوہریرہ کا ہی قول ہے۔ لیکن اس میں یہ نہیں ہے کہ ’’لوگ ہر قسم کی قرات سے رک گئے‘‘ بلکہ الفاظ یہ ہیں کہ ’’لوگ قرات سے رک گئے‘‘ اور دونوں لفظوں میں واضح فرق ہے ۔
مطلب یہ ہو گا کہ لوگ مابعد الفاتحہ کی قرات سے رک گئے ، دلیل اس کی یہ ہے کہ نبیﷺنے مقتدیوں کو جہری نمازوں میں ما بعد الفاتحہ کی قرات سے منع کیا ہے اور فاتحہ کی قرات کا جہری نمازوں میں بھی حکم دیا ہے۔ تو لوگ اس سے رکے جس سے انہیں روکا گیا تھا ۔ اور وہ تھا فاتحہ کے بعد قرات کرنا ، نہ کہ فاتحہ پڑھنے سے باز آ گئے تھے جس کے پڑھنے کا انہیں حکم دیا گیا تھا ! اور عام کی بنا خاص پر ہوتی ہے ، کیا آپ دیکھتے نہیں کہ نبیﷺنے سورج کے طلوع وغروب کے وقت نماز سے منع فرمایا لیکن اس کے باوجود آپﷺ نے فرمایا : جس نے سورج طلوع ہونے سے پہلے ایک رکعت پا لی۔(الحدیث)
تو نہی عام ہے اور حدیث ’’من ادرک رکعة‘‘ الخ خاص ہے ، لہٰذا عام کی بنیاد خاص پر رکھی گئی ۔

اور سب سے اہم بات یہ کہ خاموشی سے ہرگز یہ مراد نہیں ہوتا ہے کہ آہستہ آواز یعنی دل میں بھی نہ پڑھے ۔
حدثنا موسى بن إسماعيل، قال حدثنا عبد الواحد بن زياد، قال حدثنا عمارة بن القعقاع، قال حدثنا أبو زرعة، قال حدثنا أبو هريرة، قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسكت بين التكبير وبين القراءة إسكاتة ۔ قال أحسبه قال هنية ۔ فقلت بأبي وأمي يا رسول الله، إسكاتك بين التكبير والقراءة ما تقول قال ‏"‏ أقول اللهم باعد بيني وبين خطاياى كما باعدت بين المشرق والمغرب، اللهم نقني من الخطايا كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس، اللهم اغسل خطاياى بالماء والثلج والبرد ‏"‏‏.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، انھوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا ، انھوں نے کہا کہ ہم سے عمارہ بن قعقاع نے بیان کیا ، انھوں نے کہا کہ ہم سے ابوزرعہ نے بیان کیا ، انھوں نے کہا کہ ہم سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ، انھوں نے فرمایا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر تحریمہ اور قرات کے درمیان تھوڑی دیر چپ رہتے تھے ۔ ابوزرعہ نے کہا میں سمجھتا ہوں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یوں کہا یا رسول اللہ ! آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں ۔ آپ اس تکبیر اور قرات کے درمیان کی خاموشی کے بیچ میں کیا پڑھتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ میں پڑھتا ہوں اللهم باعد بيني وبين خطاياي، كما باعدت بين المشرق والمغرب، اللهم نقني من الخطايا كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس، اللهم اغسل خطاياي بالماء والثلج والبرد ( ترجمہ ) اے اللہ ! میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنی دوری کر جتنی مشرق اور مغرب میں ہے ۔ اے اللہ ! مجھے گناہوں سے اس طرح پاک کر جیسے سفید کپڑا میل سے پاک ہوتا ہے ۔ اے اللہ ! میرے گناہوں کو پانی ، برف اور اولے سے دھو ڈال ۔
صحیح بخاری صفۃ الصلوٰۃ حدیث نمبر : 744
 
دوسری رکعت پڑھنے کا طریقہ

دوسری رکعت کے شروع میں آہستہ آواز میں تعوذ اور بسملہ پڑھنے کے بعد سورۃ الفاتحہ پڑھی جائے گی ۔ پہلی رکعت کی طرح دوسری رکعت میں بھی اس کا پڑھنا واجب ہے۔ البتہ دوسری رکعت کے شروع میں دعائے استفتاح نہیں پڑھی جائے گی۔ ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا نَهَضَ فِي الثَّانِيَةِ اسْتَفْتَحَ بِالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَلَمْ يَسْكُتْ
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جب دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے تو الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سے قراءت کا آغاز کرتے اور (پہلی رکعت میں دعائے استفتاح پڑھنے کے لیے جیسا سکوت کیا جاتا ہے ویسا) سکوت (دوسری رکعت کے شروع میں) نہیں فرمایا کرتے تھے" [1]
سورۃ الفاتحہ پڑھنے کے بعد کوئی دوسری سورت یا قرآن مجید میں سے جتنا بھی آسانی سے پڑھا جا سکے پڑھ لیں[2] البتہ یہ خیال رہے کہ دوسری رکعت کو پہلی رکعت کی نسبت مختصر رکھنا مسنون ہے[3]۔پھر پہلی رکعت کی طرح رکوع، قومہ اور دونوں سجدے اداکریں [4]۔

حوالہ جات:
[1]۔ (المستدرك على الصحيحين للحاكم کتاب الطھارۃ ، و من کتاب الامامۃ و صلاۃ الجماعۃ حدیث نمبر 782۔صحیح مسلم کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ باب ما یقال بین تکبیرۃ الاحرام و القراءۃ)
[2]۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب امر النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم الذی لا یتم رکوعہ بالاعادہ حدیث نمبر 793
[3]۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب یقرا ت الاخریین بفاتحۃ الکتاب حدیث 776
[4]۔ صحیح البخاری کتاب الاذان باب امر النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم الذی لا یتم رکوعہ بالاعادہ حدیث نمبر
793
 
Top