رکوع کرنے کا طریقہ
رکوع کے مسائل کی تفصیل میں جانے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ رکوع و سجود اطمینان اور سکون سے ادا کرنے کی اہمیت پر کچھ بات ہو جائے کیونکہ یہ ایسا مسئلہ ہے جس کی طرف سے عام طور پر غفلت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ احادیث میں بار بار رکوع و سجود پورے کرنے کا حکم دیا گیا ہے، یعنی انہیں ان کی ساری شرائط، آداب، سنتوں اور اطمینان کے ساتھ ادا کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو ٹھیک طریقے سے رکوع و سجود نہیں کر رہا تھا تو فرمایا:
لَوْ مَاتَ هَذَا عَلَى حَالِهِ هَذِهِ مَاتَ عَلَى غَيْرِ مِلَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَثَلُ الَّذِي لا يُتِمُّ رُكُوعَهُ ويَنْقُرُ فِي سُجُودِهِ ، مَثَلُ الْجَائِعِ يَأْكُلُ التَّمْرَةَ وَالتَّمْرَتَانِ لا يُغْنِيَانِ عَنْهُ شَيْئًا
"اگر یہ اسی حالت میں مر گیا تو محمد (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم) کی ملت پر نہیں مرے گا " پھر فرمایا: " جو آدمی رکوع پورا نہیں کرتا اور سجدے میں ٹھونگے مارتا ہے اس کی مثال اس بھوکے کی سی ہے جو ایک یا دو کھجوریں کھاتا ہے جو اسے کوئی فائدہ نہیں دیتیں" [1]
یہ بھی عمومًا دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ نمازی محض گھٹنوں کو ہاتھ لگا لینے کو کافی خیال کرتے ہوئے کمر کو گولائی دیتے ہوئے رکوع کرتے ہیں اور کمر سیدھی نہیں رکھتے۔ یہ ایک بڑی غلطی ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو رکوع میں کمر سیدھی نہیں کر رہا تھا تو ارشاد فرمایا:
يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَا يُقِيمُ صُلْبَهُ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ
"اے مسلمانوں کی جماعت! (سن لو کہ) اس شخص کی کوئی نماز نہیں ہے جو رکوع اور سجدوں میں اپنی کمر سیدھی نہیں کرتا"[2]
دوسری حدیث میں ہے:
لَا تُجْزِئُ صَلَاةُ الرَّجُلِ حَتَّى يُقِيمَ ظَهْرَهُ فِي الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ
"آدمی کی نماز اس وقت تک درست نہیں ہوتی جب تک وہ رکوع اور سجدوں میں اپنی کمر سیدھی نہ کرے"۔[3]
ان احادیث کی روشنی میں امام شافعی، امام اسحاق اور امام احمد رکوع و سجود میں کمر سیدھی نہ رکھنے والے شخص کی نماز کے باطل ہونے کے قائل ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ایک دفعہ اپنے صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا:
أَسْوَأُ النَّاسِ سَرِقَةً الَّذِي يَسْرِقُ صَلاَتَهُ
"لوگوں میں سب سے برا چوری کرنے والا وہ (شخص) ہے جو نماز کی چوری کرتا ہے"
صحابہ نے عرض کیا "اے اللہ کے رسول! نماز کی چوری کیسے کی جاسکتی ہے"؟
فرمایا:
لاَ يُتِمُّ رُكُوعَهَا وَلاَ سُجُودَهَا
"(نماز کی چوری یہ ہے کہ ) وہ اس کے رکوع اور سجدے پورے ( اطمینان اور آداب کے ساتھ) ادا نہیں کرتا"[4]
ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے نماز میں تین چیزوں سے منع فرمایا ہے:
عَنْ نَقْرَةٍ كَنَقْرَةِ الدِّيكِ وَإِقْعَاءٍ كَإِقْعَاءِ الْكَلْبِ وَالْتِفَاتٍ كَالْتِفَاتِ الثَّعْلَبِ
"
مرغ کے چونچ مارنے کی طرح ٹھونگے مارنے سے (یعنی جلدی جلدی سجدہ کرنے سے)۔
کتے کی طرح ہاتھ ٹیک کر بیٹھنے سے۔
اورلومڑی کی مانند(سراور آنکھیں) ادھر ادھر گھمانے سے۔[5]
ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک آدمی آیا اور جلدی جلدی نماز ادا کرنے کے بعد آ کر سلام عرض کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا:
ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ
"واپس جا کر (دوبارہ) نماز پڑھو، کیونکہ (حقیقت میں) تم نے نماز نہیں پڑھی"
انہوں نے پہلے جیسی نماز دوبارہ پڑھی اور آ کر سلام عرض کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے سلام کا جواب دیا اور پھر فرمایا کہ واپس جا کر نماز پڑھ، کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ تین مرتبہ ایسا ہی ہوا۔ تیسری دفعہ انہوں نے عرض کیا "اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے! میں اس سے بہتر نہیں پڑھ سکتا، مجھے نماز کا صحیح طریقہ سکھا دیجیے"۔ تب نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے انہیں بڑی تفصیل کے ساتھ نماز کا طریقہ سکھایا، پوری حدیث لکھنے کا یہ موقع نہیں ہے، اس لیے متعلقہ حصہ پیش کیا جاتا ہے۔ فرمایا:
إِنَّهُ لَا تَتِمُّ صَلَاةٌ لِأَحَدٍ مِنْ النَّاسِ حَتَّى يَتَوَضَّأَ ۔ ۔ ۔ ۔ ثُمَّ يَرْكَعُ حَتَّى تَطْمَئِنَّ مَفَاصِلُهُ
"لوگوں میں سے کسی کی بھی نماز اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک وہ وضو نہ کرے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس طرح رکوع کرے کہ ہر جوڑ اپنی جگہ پر اطمینان کے ساتھ بیٹھ جائے"[6]
اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے جمہور علماء نے ارکانِ نماز میں اطمینان اختیار کرنے کو واجب کہا ہے۔
صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے:
أَتِمُّوا الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ إِنِّي لَأَرَاكُمْ مِنْ بَعْدِ ظَهْرِي إِذَا مَا رَكَعْتُمْ وَإِذَا مَا سَجَدْتُمْ
"رکوع اور سجدے پورے کیا کرو، اس (ذات) کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں تم (صحابہ) کو (نماز پڑھانے کے دوران معجزاتی طور پر) اپنی پیٹھ پیچھے اس وقت دیکھ رہا ہوتا ہوں جب تم لوگ رکوع کرتے ہو اور سجدہ کرتے ہو"
ان اہم مباحث کو سمجھ لینے کے بعد اب رکوع کرنے کا سنت طریقہ پیش کیا جاتا ہے۔ رکوع کرنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ :
*
ہتھیلوں کو گھٹنوں کے اوپراس طرح رکھا جائے جیسے گھٹنوں کو ہاتھوں سے پکڑ رکھا ہو[7]۔
* انگلیاں کھلی ہوں ، انہیں آپس میں ملایا نہ جائے اور پنڈلیوں پر رکھا جائے[8]۔
* سر کمر کے برابر ہو، جھکا ہوا یا کمر سے بلند نہ ہو[9]۔
* کہنیاں پہلوؤں سے جدا ہوں اور بازو کمان کی طرح تنے ہوئے ہوں[10]۔ کہنیوں کو پہلو سے جدا رکھنے کا حکم مرد و عورت دونوں کے لیے یکساں ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا:
فإذا ركعت ، فضع راحتيك على ركبتيك ، ثم فرج بين أصابعك ، ثم أمكث حتى يأخذ كل عضو مأخذه[11]
"جب تو رکوع کرے تو اپنی ہتھیلیاں اپنے گھٹنوں پر رکھ، پھر اپنی انگلیوں کے درمیان فاصلہ پیدا کر، پھر (اس طرح سکون کے ساتھ ٹھہر) کہ ہر عضو اپنی جگہ پر قرار پکڑ لے"
* کمر بالکل سیدھی ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اپنی کمر کو پھیلا کر اس طرح رکوع فرماتے تھے کہ کمر مبارک بالکل سیدھی ہوتی تھی، احادیث میں اس کی کیفیت یوں بیان ہوئی ہے کہ اگر اس پر پانی بہایا جاتا تو وہ ٹھہر سکتا تھا[12]۔ رکوع میں کمر سیدھی رکھنے کا حکم اس حدیث میں بھی ملتا ہے:
فإذا ركعت فاجعل راحتيك على ركبتيك و امدد ظهرك و مكن لركوعك[13]
[1] ۔ صحیح الترغیب و الترھیب حدیث نمبر 528
[2] ۔ سنن ابن ماجہ کتاب اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب الرکوع فی الصلاۃ، صحیح و ضعیف سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 871
[3] ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من لا یقیم صلبہ فی الرکوع و السجود، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 801
[4] ۔ صحیح الترغیب و الترھیب حدیث نمبر 524
[5] ۔ صحیح الترغیب و الترھیب حدیث نمبر 555، مسند احمد مسند ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ۔ حسن لغیرہ
[6] ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من لا یقیم صلبہ فی الرکوع و السجود، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 803
[7] ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب افتتاح الصلاۃ، صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر 723
[8] ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب صلاۃ من لا یقیم صلبہ فی الرکوع و السجود، صحیح سنن ابی داؤد حدیث نمبر 809
[9] ۔ صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب ما یجمع صفۃ الصلاۃ و ما یفتتح بہ و صفۃ الرکوع
[10] ۔ سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب افتتاح الصلاۃ، صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر 723
[11] ۔ صحیح ابن حبان کتاب الصلاۃ باب صفۃ الصلاۃ
[12] ۔ مسند احمد مسند العشرۃ المبشرین بالجنۃ مسند علی بن ابی طالب، امام البانی نے کثرت طرق کی وجہ سے اسے صحیح قرار دیا ہے، دیکھیے اصل صفۃ صلاۃ النبی مجلد 2 ص 638
[13] ۔، صحیح و ضعیف الجامع الصغیر حدیث نمبر 324۔