جناب خرم صاحب ناول ’’نمبردار کا نِیلا‘‘
۔ پرلکھے آپ کے مضمون نے ناول کے دیباچے کا کام کیا جس کے سہارے ناول (اپنی مختصرضخامت کے باعث میرا جی چاہتا ہے میں اِسے ناولٹ ہی سمجھوں اور کہوں)کی کہانی اور اِس کے پیغام کو سمجھنا آسان ہوگیا۔میں عام طور پر کوئی بھی تحریرپڑھتے ہوئے اُس کے طرزِ بیان پر زیادہ توجہ دیتا ہوں اور مجھے وہیں سے بات کہنے کے نئے نئے ڈھنگ،محاوروں اور ضرب الامثال کے صحیح استعمال کے طریقے،لفظوں کو برتنے کے سلیقے ،منظر نامہ پیش کرنے کا ہنر اور محاکات دکھانے کافن سیکھنے کوملتا ہے ۔ایک اچھی تحریر ایک اچھے شعرکو بھی بعض اوقات پیچھے چھوڑ جاتی ہے ۔ اُردُو کے نثری ادب میں اِس قول کی تائید میں ان گنت مثالیں موجود ہیں ۔زیرِ نظر ناولٹ میں بھی یہ خوبی بدرجہ ٔ اُتم موجود ہے:
۱۔۔’’ سونے کے زیور ویسے کے ویسے ہی موجود ہیں، جو اُدھار لینے والوں نے ضمانت کے طور پر رکھوائے تھے اور جو سُود ادا نہ کرنے کے تاوان میں ڈوب گئے تھے اورٹھاکر اَووَل سنگھ کی دولت کے سمندر میں اُبھر آئے تھے۔‘‘
۲۔۔’’ ایک دِن ٹھاکر صاحب نے محسوس کیاکہ نِیلا اب اتنا بڑا اور طاقت ور ہوگیا ہے کہ رسی کی بندش کو صرف عادت کے طور پر فرماں برداری میں قبول کرتا ہے، ورنہ چاہے تو ایک ہی زقندمیں رسی اور رسی کے دوسرے سِرے پر کھڑے بھوندو کسان کو لے کر اُڑجائے۔‘‘
۳۔۔’’۔۔اُس پر انکشاف ہوا کہ آج رسی کا تناؤ گردن پر نہیں تھا۔ وہ اگلے دونوں پیر زمین پر مار کر اگلے دھڑے سے اُٹھااور نیم کے تنے پر اپنے سر سے ایک سُبک سی ٹکر ماری۔ یہ آزادی کے رقص کی پہلی تال تھی۔‘‘
۴۔۔’’ ایک طرف تو اُن کا ذہن کہہ رہا تھا کہ نیلے سے چھُٹکارا حاصل کرلو اور دوسری طرف کوئی چپکے چپکے کہہ رہا تھا کہ یہ ممکن نہیں ہے ۔ اُنھوں نے کان لگا کر سُناتو یہ دوسری آواز اُن کے سینے کے بائیں طرف سے آئی تھی۔‘‘
کردار نگاری:
مصنف نے کردار بیان کرنے میں بھی کمال کا ہنر دکھایا ہے ۔ مرکزی کردا ر ٹھاکر ،ٹھاکر کے دونوں لڑکے ،کمہار کی بیٹیاں بڑکی اور چھٹکی،بھیکو کا لڑکا ،ہیڈ ماسٹر صاحب اور سب سے بڑھ کر بے زبان جانور نیلا۔اِن کرداروں کو ڈھالنے اور پیش کرنے میں کہیں بھی غیر فطری رنگ اور ضرورت سے زیادہ روغن مجھے تو کہیں نظر نہیں آیا۔ حتیٰ کہ بڑکی نے منگنی ٹوٹنے اور منگیتر کا چھٹکی کی مِلک میں چلے جانے پر بظاہر کسی سخت اور شدید ردِ عمل کا مظاہرہ نہ کر کے اپنے کردار کو جس خوبی سے حقیقت کے مطابق رکھا وہ بھی خوب ہے مگر آیندہ کے ایک سین میں اُس کی روح کے زخم اور دل کی دھسک کو مصنف نے جس خوبصورتی سے عین فطری اور موثر انداز میں پیش کیا ہے وہ قابلِ داد ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’بڑکی آہستہ آہستہ رونے لگی۔کیا ہوا
؟ بھابھی نے اچنبھے سے پوچھا
۔ بڑکی نے اُس کے دونوں پیر ہاتھوں میں تھامے اور اُن پر اپنا سر رکھ کر بولی ،’’میرو یو وَن اونکار بابونے لوٹو اے۔‘‘
مصنف کی دیگر تصانیف ’’ڈار سے بچھڑے‘‘ بادِ صبا کا انتظار(افسانوں کے مجموعے)اور ناول ’’ْْ
۔آخری سواریاں‘‘بھی زیر ِ نظر ناولٹ ’’ نمبر دار کا نِیلا ‘‘ کی طرح اعلیٰ پائے کی ہوں گی مگر اُن کا نام رہتی اُردُو تک زندہ رکھنے کے لیےایک اکیلا ’’نمبردار کا نِِیلا ‘‘ ہی کافی ہے ، واہ
!
رہتا سُخن سے نام قیامت تلک ہے ذوقؔ
اولاد سے رہے یہی دوپشت ، چار پشت