نمبر دار کا نیلا: مابعد نوآبادیاتی سیاق ورداستعماری مطالعہ۔۔۔۔ محمد خرم یاسین

جناب خرم صاحب ناول ’’نمبردار کا نِیلا‘‘۔ پرلکھے آپ کے مضمون نے ناول کے دیباچے کا کام کیا جس کے سہارے ناول (اپنی مختصرضخامت کے باعث میرا جی چاہتا ہے میں اِسے ناولٹ ہی سمجھوں اور کہوں)کی کہانی اور اِس کے پیغام کو سمجھنا آسان ہوگیا۔میں عام طور پر کوئی بھی تحریرپڑھتے ہوئے اُس کے طرزِ بیان پر زیادہ توجہ دیتا ہوں اور مجھے وہیں سے بات کہنے کے نئے نئے ڈھنگ،محاوروں اور ضرب الامثال کے صحیح استعمال کے طریقے،لفظوں کو برتنے کے سلیقے ،منظر نامہ پیش کرنے کا ہنر اور محاکات دکھانے کافن سیکھنے کوملتا ہے ۔ایک اچھی تحریر ایک اچھے شعرکو بھی بعض اوقات پیچھے چھوڑ جاتی ہے ۔ اُردُو کے نثری ادب میں اِس قول کی تائید میں ان گنت مثالیں موجود ہیں ۔زیرِ نظر ناولٹ میں بھی یہ خوبی بدرجہ ٔ اُتم موجود ہے:
۱۔۔’’ سونے کے زیور ویسے کے ویسے ہی موجود ہیں، جو اُدھار لینے والوں نے ضمانت کے طور پر رکھوائے تھے اور جو سُود ادا نہ کرنے کے تاوان میں ڈوب گئے تھے اورٹھاکر اَووَل سنگھ کی دولت کے سمندر میں اُبھر آئے تھے۔‘‘
۲۔۔’’ ایک دِن ٹھاکر صاحب نے محسوس کیاکہ نِیلا اب اتنا بڑا اور طاقت ور ہوگیا ہے کہ رسی کی بندش کو صرف عادت کے طور پر فرماں برداری میں قبول کرتا ہے، ورنہ چاہے تو ایک ہی زقندمیں رسی اور رسی کے دوسرے سِرے پر کھڑے بھوندو کسان کو لے کر اُڑجائے۔‘‘
۳۔۔’’۔۔اُس پر انکشاف ہوا کہ آج رسی کا تناؤ گردن پر نہیں تھا۔ وہ اگلے دونوں پیر زمین پر مار کر اگلے دھڑے سے اُٹھااور نیم کے تنے پر اپنے سر سے ایک سُبک سی ٹکر ماری۔ یہ آزادی کے رقص کی پہلی تال تھی۔‘‘
۴۔۔’’ ایک طرف تو اُن کا ذہن کہہ رہا تھا کہ نیلے سے چھُٹکارا حاصل کرلو اور دوسری طرف کوئی چپکے چپکے کہہ رہا تھا کہ یہ ممکن نہیں ہے ۔ اُنھوں نے کان لگا کر سُناتو یہ دوسری آواز اُن کے سینے کے بائیں طرف سے آئی تھی۔‘‘
کردار نگاری:
مصنف نے کردار بیان کرنے میں بھی کمال کا ہنر دکھایا ہے ۔ مرکزی کردا ر ٹھاکر ،ٹھاکر کے دونوں لڑکے ،کمہار کی بیٹیاں بڑکی اور چھٹکی،بھیکو کا لڑکا ،ہیڈ ماسٹر صاحب اور سب سے بڑھ کر بے زبان جانور نیلا۔اِن کرداروں کو ڈھالنے اور پیش کرنے میں کہیں بھی غیر فطری رنگ اور ضرورت سے زیادہ روغن مجھے تو کہیں نظر نہیں آیا۔ حتیٰ کہ بڑکی نے منگنی ٹوٹنے اور منگیتر کا چھٹکی کی مِلک میں چلے جانے پر بظاہر کسی سخت اور شدید ردِ عمل کا مظاہرہ نہ کر کے اپنے کردار کو جس خوبی سے حقیقت کے مطابق رکھا وہ بھی خوب ہے مگر آیندہ کے ایک سین میں اُس کی روح کے زخم اور دل کی دھسک کو مصنف نے جس خوبصورتی سے عین فطری اور موثر انداز میں پیش کیا ہے وہ قابلِ داد ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’بڑکی آہستہ آہستہ رونے لگی۔کیا ہوا؟ بھابھی نے اچنبھے سے پوچھا۔ بڑکی نے اُس کے دونوں پیر ہاتھوں میں تھامے اور اُن پر اپنا سر رکھ کر بولی ،’’میرو یو وَن اونکار بابونے لوٹو اے۔‘‘
مصنف کی دیگر تصانیف ’’ڈار سے بچھڑے‘‘ بادِ صبا کا انتظار(افسانوں کے مجموعے)اور ناول ’’ْْ۔آخری سواریاں‘‘بھی زیر ِ نظر ناولٹ ’’ نمبر دار کا نِیلا ‘‘ کی طرح اعلیٰ پائے کی ہوں گی مگر اُن کا نام رہتی اُردُو تک زندہ رکھنے کے لیے ’’نمبردار کا نِِیلا ‘‘ ہی کافی ہے ، واہ!
رہتا سُخن سے نام قیامت تلک ہے ذوقؔ
اولاد سے رہے یہی دوپشت ، چار پشت​
جناب شکیل صاحب ! آداب ۔ آپ کے ذوقِ مطالعہ نے متاثر کیا اور مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ آ پ نے میرے ناقص مضمون سے تحریک لے کر اس ناول کا مطالعہ کیا۔ سدا سلامتی ہو۔ آمین۔ بہت شکریہ۔
 

جاسمن

لائبریرین
جناب خرم صاحب ناول ’’نمبردار کا نِیلا‘‘۔ پرلکھے آپ کے مضمون نے ناول کے دیباچے کا کام کیا جس کے سہارے ناول (اپنی مختصرضخامت کے باعث میرا جی چاہتا ہے میں اِسے ناولٹ ہی سمجھوں اور کہوں)کی کہانی اور اِس کے پیغام کو سمجھنا آسان ہوگیا۔میں عام طور پر کوئی بھی تحریرپڑھتے ہوئے اُس کے طرزِ بیان پر زیادہ توجہ دیتا ہوں اور مجھے وہیں سے بات کہنے کے نئے نئے ڈھنگ،محاوروں اور ضرب الامثال کے صحیح استعمال کے طریقے،لفظوں کو برتنے کے سلیقے ،منظر نامہ پیش کرنے کا ہنر اور محاکات دکھانے کافن سیکھنے کوملتا ہے ۔ایک اچھی تحریر ایک اچھے شعرکو بھی بعض اوقات پیچھے چھوڑ جاتی ہے ۔ اُردُو کے نثری ادب میں اِس قول کی تائید میں ان گنت مثالیں موجود ہیں ۔زیرِ نظر ناولٹ میں بھی یہ خوبی بدرجہ ٔ اُتم موجود ہے:
۱۔۔’’ سونے کے زیور ویسے کے ویسے ہی موجود ہیں، جو اُدھار لینے والوں نے ضمانت کے طور پر رکھوائے تھے اور جو سُود ادا نہ کرنے کے تاوان میں ڈوب گئے تھے اورٹھاکر اَووَل سنگھ کی دولت کے سمندر میں اُبھر آئے تھے۔‘‘
۲۔۔’’ ایک دِن ٹھاکر صاحب نے محسوس کیاکہ نِیلا اب اتنا بڑا اور طاقت ور ہوگیا ہے کہ رسی کی بندش کو صرف عادت کے طور پر فرماں برداری میں قبول کرتا ہے، ورنہ چاہے تو ایک ہی زقندمیں رسی اور رسی کے دوسرے سِرے پر کھڑے بھوندو کسان کو لے کر اُڑجائے۔‘‘
۳۔۔’’۔۔اُس پر انکشاف ہوا کہ آج رسی کا تناؤ گردن پر نہیں تھا۔ وہ اگلے دونوں پیر زمین پر مار کر اگلے دھڑے سے اُٹھااور نیم کے تنے پر اپنے سر سے ایک سُبک سی ٹکر ماری۔ یہ آزادی کے رقص کی پہلی تال تھی۔‘‘
۴۔۔’’ ایک طرف تو اُن کا ذہن کہہ رہا تھا کہ نیلے سے چھُٹکارا حاصل کرلو اور دوسری طرف کوئی چپکے چپکے کہہ رہا تھا کہ یہ ممکن نہیں ہے ۔ اُنھوں نے کان لگا کر سُناتو یہ دوسری آواز اُن کے سینے کے بائیں طرف سے آئی تھی۔‘‘
کردار نگاری:
مصنف نے کردار بیان کرنے میں بھی کمال کا ہنر دکھایا ہے ۔ مرکزی کردا ر ٹھاکر ،ٹھاکر کے دونوں لڑکے ،کمہار کی بیٹیاں بڑکی اور چھٹکی،بھیکو کا لڑکا ،ہیڈ ماسٹر صاحب اور سب سے بڑھ کر بے زبان جانور نیلا۔اِن کرداروں کو ڈھالنے اور پیش کرنے میں کہیں بھی غیر فطری رنگ اور ضرورت سے زیادہ روغن مجھے تو کہیں نظر نہیں آیا۔ حتیٰ کہ بڑکی نے منگنی ٹوٹنے اور منگیتر کا چھٹکی کی مِلک میں چلے جانے پر بظاہر کسی سخت اور شدید ردِ عمل کا مظاہرہ نہ کر کے اپنے کردار کو جس خوبی سے حقیقت کے مطابق رکھا وہ بھی خوب ہے مگر آیندہ کے ایک سین میں اُس کی روح کے زخم اور دل کی دھسک کو مصنف نے جس خوبصورتی سے عین فطری اور موثر انداز میں پیش کیا ہے وہ قابلِ داد ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’بڑکی آہستہ آہستہ رونے لگی۔کیا ہوا؟ بھابھی نے اچنبھے سے پوچھا۔ بڑکی نے اُس کے دونوں پیر ہاتھوں میں تھامے اور اُن پر اپنا سر رکھ کر بولی ،’’میرو یو وَن اونکار بابونے لوٹو اے۔‘‘
مصنف کی دیگر تصانیف ’’ڈار سے بچھڑے‘‘ بادِ صبا کا انتظار(افسانوں کے مجموعے)اور ناول ’’ْْ۔آخری سواریاں‘‘بھی زیر ِ نظر ناولٹ ’’ نمبر دار کا نِیلا ‘‘ کی طرح اعلیٰ پائے کی ہوں گی مگر اُن کا نام رہتی اُردُو تک زندہ رکھنے کے لیےایک اکیلا ’’نمبردار کا نِِیلا ‘‘ ہی کافی ہے ، واہ!
رہتا سُخن سے نام قیامت تلک ہے ذوقؔ
اولاد سے رہے یہی دوپشت ، چار پشت​
واہ بھئی! آپ کا تبصرہ بہت اچھا لگا۔
 

جاسمن

لائبریرین
مجھے نہیں معلوم کہ کسی تبصرہ کرنے/تحقیق/تجزیہ کرنے والے نے اس جملے کا تجزیہ کیا ہے اور اگر کیا ہے تو کس طرح۔
"اُنھوں نے کان لگا کر سُناتو یہ دوسری آواز اُن کے سینے کے بائیں طرف سے آئی تھی۔‘‘
اس کا مطلب ہے کہ نمبردار صاحب بھی سینے میں ایک عدد دل رکھتے تھے اور اس میں نیلے کی محبت بستی تھی۔ ظالم بھی احساسات رکھتا ہے۔
 
مجھے نہیں معلوم کہ کسی تبصرہ کرنے/تحقیق/تجزیہ کرنے والے نے اس جملے کا تجزیہ کیا ہے اور اگر کیا ہے تو کس طرح۔
"اُنھوں نے کان لگا کر سُناتو یہ دوسری آواز اُن کے سینے کے بائیں طرف سے آئی تھی۔‘‘
اس کا مطلب ہے کہ نمبردار صاحب بھی سینے میں ایک عدد دل رکھتے تھے اور اس میں نیلے کی محبت بستی تھی۔ ظالم بھی احساسات رکھتا ہے۔
یہ نیلے سے محبت نہیں، مفاد سے محبت ہے، طاقت سے محبت ہے اور اقتدار کی جنگ کے سب سے بڑے مہرے سے محبت ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
اگر ایسا ہے تو میں خود کو یہ کہنے میں حق بجانب محسوس کرتی ہوں کہ کسی بھی کردار کو "مکمل" ظالم دکھانا غلط ہے۔ ظالم سے ظالم شخص کا دل بھی کبھی کبھار بے غرض محبت محسوس کر سکتا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ وہ اس احساس کو خود ہی کچل دے۔
 

علی وقار

محفلین
اگر ایسا ہے تو میں خود کو یہ کہنے میں حق بجانب محسوس کرتی ہوں کہ کسی بھی کردار کو "مکمل" ظالم دکھانا غلط ہے۔ ظالم سے ظالم شخص کا دل بھی کبھی کبھار بے غرض محبت محسوس کر سکتا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ وہ اس احساس کو خود ہی کچل دے۔
کُلی طور پر ظالم کردار غیر فطری بھی معلوم ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ ناول نگار کی کمزوری شمار ہوتی ہے۔ میں خوش گمانی رکھتا ہوں کہ منجھے ہوئے ناول نگار نے ناول کے کلیدی کردار کی بنت کاری میں یہ بنیادی غلطی نہ کی ہو گی۔
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
یہ ناول 2006 کے شروع میں ہی اشرف نے مجھے دیا تھا، اسی وقت چھپ کر آیا تھا، اشرف ان دنوں علی گڑھ میں ہی انکم ٹیکس کمشنر کے بطور تعینات تھےاور اسی وقت میں نے ایک دھاگہ کھول دیا تھا محفل میں کہ اس کو برقیانے کا ڈول ڈالا جائے ۔
ویسے اسے واقعی ناولٹ کہنا چاہئے تھا لیکن اشرف نے بھی ناول ہی کہا ہے تو ہمیں بھی ناول ہی کہناچاہئے
 
اگر ایسا ہے تو میں خود کو یہ کہنے میں حق بجانب محسوس کرتی ہوں کہ کسی بھی کردار کو "مکمل" ظالم دکھانا غلط ہے۔ ظالم سے ظالم شخص کا دل بھی کبھی کبھار بے غرض محبت محسوس کر سکتا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ وہ اس احساس کو خود ہی کچل دے۔
ایسا نہیں کہ ٹھاکر اودل سنگھ کو خلائی مخلوق دکھایا گیا ہے لیکن اس کی نیلے سے محبت غیر فطری ہے اور درحقیقت وہ اس محبت میں اپنے اقتدار کے نشے کو دیکھتا ہے۔ ناول میں ایک جگہ نیلے میں اسے اپنے چھوٹے بیٹے کا عکس بھی نظر آتا ہے۔ آغاز دیکھیے تو وہ نیلے کے بھائی کو ٹکر مار مار کر مرنے دیتا ہے تاکہ اس کی طاقت اور فطرت کو دیکھ سکے، تب ہی وہ نیلے کو پالنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ یہاں نیلے سے اسے محبت نہیں ہے اور جب نیلا اس کی طاقت کی پہچان بنتا ہے تو وہ نیلے سے محبت کرتا ہے ، محض اپنے اقتدار اور جبریت کو برقرار رکھنے کے لیے۔ جب بڑکی اغوا ہوتی ہے تو اسے نیلے پر شدید غصہ آتا ہے لیکن جب معلوم ہوتا ہے کہ چھوٹا بیٹا ہی اس کے پیچھے ہے تو وہ نیلے کو پیار کرتا ہے، اس لیے نہیں کہ نیلے نے حفاظت نہ کی ، بلکہ اس لیے کہ نیلے نے درست جگہ حفاظت نہ کی۔اگر نیلا مشتعل ہوتا تو اس کے چھوٹے بیٹے کے بخیے ادھیڑ سکتا تھا۔مجھے ٹھاکر کی نیلے سے محبت ، غیر فطری ہی لگی اور اس میں غرض کا رنگ بہت گہرا ہے۔
 
یہ ناول 2006 کے شروع میں ہی اشرف نے مجھے دیا تھا، اسی وقت چھپ کر آیا تھا، اشرف ان دنوں علی گڑھ میں ہی انکم ٹیکس کمشنر کے بطور تعینات تھےاور اسی وقت میں نے ایک دھاگہ کھول دیا تھا محفل میں کہ اس کو برقیانے کا ڈول ڈالا جائے ۔
ویسے اسے واقعی ناولٹ کہنا چاہئے تھا لیکن اشرف نے بھی ناول ہی کہا ہے تو ہمیں بھی ناول ہی کہناچاہئے
ماشا اللہ۔ اشرف صاحب سے ملاقات ہو تو میرا سلام کہیے گا،اور بتائیے گا کہ الحمدللہ اس کاجایزہ لے کر کئی جگہوں پر یپش بھی کیا ہے۔ ان کے دوسرے ناول آخری سواریاں پر کام کر رہا ہوں۔ جلد ہی ان شا اللہ آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔
 

جاسمن

لائبریرین
یہ ناول 2006 کے شروع میں ہی اشرف نے مجھے دیا تھا، اسی وقت چھپ کر آیا تھا، اشرف ان دنوں علی گڑھ میں ہی انکم ٹیکس کمشنر کے بطور تعینات تھےاور اسی وقت میں نے ایک دھاگہ کھول دیا تھا محفل میں کہ اس کو برقیانے کا ڈول ڈالا جائے ۔
ویسے اسے واقعی ناولٹ کہنا چاہئے تھا لیکن اشرف نے بھی ناول ہی کہا ہے تو ہمیں بھی ناول ہی کہناچاہئے
اسے کہیں ناویلا بھی کہا گیا ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
کُلی طور پر ظالم کردار غیر فطری بھی معلوم ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو یہ ناول نگار کی کمزوری شمار ہوتی ہے۔ میں خوش گمانی رکھتا ہوں کہ منجھے ہوئے ناول نگار نے ناول کے کلیدی کردار کی بنت کاری میں یہ بنیادی غلطی نہ کی ہو گی۔
یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا کسی کردار کے سب پہلو دکھائے جانے چاہئیں؟
دکھائے جا سکتے ہیں؟
اگر ناول کی بنت میں کسی پہلو کی ضرورت نہیں پڑتی تو اسے دکھانا چاہیے؟
 
واہ بھئی! آپ کا تبصرہ بہت اچھا لگا۔
آپ کی تعریف سے دل بڑھا، بہت شکریہ ۔ میں ناول کے پلاٹ پر بھی کچھ لکھنا چاہتا تھا پھر بوجوہ ایسانہ کیا اور قلم برداشتہ اپنے مطالعے کا حاصل لکھ کر Enter--keyدبا دی تھی۔کیونکہ خرم صاحب نے واقعی بڑی محنت ، عرق ریزی اوردیدہ کاوی سے اِس ناول کا اُردُو کے عصری ادب میں مرتبہ اور مقام متعین کرنے کے لیے وہ تحقیقی مقالہ سپردِ قلم کیا تھا۔اور میں نے اسے کتاب کا مقدمہ اور دیباچہ اِس لیے تصورکیا کہ میں نے جو نسخہ ڈاؤن لوڈ کیا وہ 94صفحات پر مشتمل تھا جس میں دیباچہ، مقدمہ یا پیش لفظ نام کی کوئی شے نہیں تھی، صفحہ ایک سے ناول شروع ہوا اور 94پر تمام ہوگیا۔
ابھی کچھ دیر پہلے ’’آخری سواریاں‘‘ڈاؤن لوڈ کیا ہے ۔اسے پڑھ لوں تو ان شاء اللہ حاصلِ مطالعہ عرض کروں گا اور کوشش کررہا ہوں مصنف کے افسانوں کے مجموعے کسی ویب سائیٹ سے مل جائیں چاہے قیمتاً تو وہ بھی پڑھ لوں تو اُن پر بھی تبصرہ لے کر حاضر ہوں گا۔
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا کسی کردار کے سب پہلو دکھائے جانے چاہئیں؟
دکھائے جا سکتے ہیں؟
اگر ناول کی بنت میں کسی پہلو کی ضرورت نہیں پڑتی تو اسے دکھانا چاہیے؟
کلیدی کردار کا تذکرہ اسی لیے کیا ہے جاسمن صاحبہ۔
 
آپ کی تعریف سے دل بڑھا، بہت شکریہ ۔ میں ناول کے پلاٹ پر بھی کچھ لکھنا چاہتا تھا پھر بوجوہ ایسانہ کیا اور قلم برداشتہ اپنے مطالعے کا حاصل لکھ کر Enter--keyدبا دی تھی۔کیونکہ خرم صاحب نے واقعی بڑی محنت ، عرق ریزی اوردیدہ کاوی سے اِس ناول کا اُردُو کے عصری ادب میں مرتبہ اور مقام متعین کرنے کے لیے وہ تحقیقی مقالہ سپردِ قلم کیا تھا۔اور میں نے اسے کتاب کا مقدمہ اور دیباچہ اِس لیے تصورکیا کہ میں نے جو نسخہ ڈاؤن لوڈ کیا وہ 94صفحات پر مشتمل تھا جس میں دیباچہ، مقدمہ یا پیش لفظ نام کی کوئی شے نہیں تھی، صفحہ ایک سے ناول شروع ہوا اور 94پر تمام ہوگیا۔
ابھی کچھ دیر پہلے ’’آخری سواریاں‘‘ڈاؤن لوڈ کیا ہے ۔اسے پڑھ لوں تو ان شاء اللہ حاصلِ مطالعہ عرض کروں گا اور کوشش کررہا ہوں مصنف کے افسانوں کے مجموعے کسی ویب سائیٹ سے مل جائیں چاہے قیمتاً تو وہ بھی پڑھ لوں تو اُن پر بھی تبصرہ لے کر حاضر ہوں گا۔
بہت شکریہ ، جزاک اللہ خیرا!
آپ ضرور کچھ نہ کچھ لکھیے۔ میں نے کل ہی آخری سواریاں کا مطالعہ مکمل کیا۔ میں چاہوں گا کہ ہم اس حوالے سے ضرور گفتگو کریں، کیوں کہ میں اس پر فوراً کچھ لکھنے کا خواہاں ہوں۔ آپ کا مطالعہ یقینا ً اس ضمن میں فائدہ بخش ہوگا۔ یہ ناول واحد متکلم کی صورت میں ہے اور مصنف ماضی سے حال تک مختلف مناظر بیان کرتا جاتا ہے۔ کچھ اہم نکات اس میں نوٹ کیے ہیں، ان شا اللہ لکھ لوں تو آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
 
بہت شکریہ ، جزاک اللہ خیرا!
آپ ضرور کچھ نہ کچھ لکھیے۔ میں نے کل ہی آخری سواریاں کا مطالعہ مکمل کیا۔ میں چاہوں گا کہ ہم اس حوالے سے ضرور گفتگو کریں، کیوں کہ میں اس پر فوراً کچھ لکھنے کا خواہاں ہوں۔ آپ کا مطالعہ یقینا ً اس ضمن میں فائدہ بخش ہوگا۔ یہ ناول واحد متکلم کی صورت میں ہے اور مصنف ماضی سے حال تک مختلف مناظر بیان کرتا جاتا ہے۔ کچھ اہم نکات اس میں نوٹ کیے ہیں، ان شا اللہ لکھ لوں تو آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
ضرور!
ان شاء اللہ بہت جلد میں بھی اِس ناول کے مطالعے کا حاصل یہاں تحریر کروں گا مگر ایک بات اور بھی حیرت و استعجاب کا باعث ہے ، وہ یہ کہ مشرقِ وسطیٰ کے حالات کہ ایک مدت سے جن کی خونیں تفصیلات سے اخبارت سُرخ ہیں ،وہ بھی انہی ناولوں اور خاص طور پر ’’تنہائی کے سوسال ‘‘ کا موضوعِ خاص ہیں مگر آپ کے جاوداں مقالوں میں یہ زندہ اور سامنے کے واقعات بطور امثال موجود نہیں ۔ اسرائیل کی بدمعاشی اور اِسے قائم رکھنے کے لیے امریکہ اور برٹن جیسی عظیم طاقتوں کی پشت پناہی وہ بھی اِس انداز میں جیسے ان کے منہ پر ہاتھ ،آنکھوں پر پٹی اور کنپٹی پر پستول جمی ہو۔۔۔۔۔دنیا کی یہ واحد ناجائز ریاست آگ اور خون کا کھیل کھیل رہی ہے اور عالمی زبانوں سے کسی ایک زبان کے لٹریچر میں اُس کی اِن بیہمانہ کارروائیوں کا احوال استعاروں میں تو ہوگا مگرکھل کر بیان میں نہیں آتا ۔۔۔ کیاعالمی دانش بھی ۔۔۔۔نورِ خورشید سے سہم کر ۔۔۔۔استعمار کی طوفانی پھونکوں سے گل شدہ شمعوں کی اُسی قطار میں ہے ، جو دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔۔۔۔۔ایسی ایسی بوجھل ،دورازکار اور عام آدمی کی سمجھ سے بالاسیاسی بلکہ استیصالی اصطلاحات میں الجھے ان حقائق ناموں کو عام آدمی کیسے سمجھے۔۔۔۔ کیا یہ بھی واقعات کو غیاب میں رکھنے کی ایک روش نہیں ۔۔۔۔؟
یہ سوچ کر کہ کبھی تو جواب آئے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔میں اُس کے در پہ کھڑا رہ گیا صدا کرکے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
میں محمد خرم یاسین کو مشورہ دوں گا کہ پہلے قاضی عبد الستار کے افسانے اور ناول پڑھیں اور ان پر کچھ لکھیں۔ قاضی صاحب کے تاریخی ناولوں کو چھوڑ کر دوسرے ناول، تو اس ماحول کی مکمل گرفت ہو گی جس کو لے کر اشرف آگے بڑھے ہیں۔قاضی صاحب کے زیر اثر جو میں نے بھی ناولٹ شروع کیا تھا، جو یہاں بھی شامل ہے، سمت میں
 
میں @محمد خرم یاسین کو مشورہ دوں گا کہ پہلے قاضی عبد الستار کے افسانے اور ناول پڑھیں اور ان پر کچھ لکھیں۔ قاضی صاحب کے تاریخی ناولوں کو چھوڑ کر دوسرے ناول، تو اس ماحول کی مکمل گرفت ہو گی جس کو لے کر اشرف آگے بڑھے ہیں۔قاضی صاحب کے زیر اثر جو میں نے بھی ناولٹ شروع کیا تھا، جو یہاں بھی شامل ہے
استادِ محترم ،لنک عنایت فرمائیں ۔
 
میں محمد خرم یاسین کو مشورہ دوں گا کہ پہلے قاضی عبد الستار کے افسانے اور ناول پڑھیں اور ان پر کچھ لکھیں۔ قاضی صاحب کے تاریخی ناولوں کو چھوڑ کر دوسرے ناول، تو اس ماحول کی مکمل گرفت ہو گی جس کو لے کر اشرف آگے بڑھے ہیں۔قاضی صاحب کے زیر اثر جو میں نے بھی ناولٹ شروع کیا تھا، جو یہاں بھی شامل ہے، سمت میں
جی ان شا اللہ میں ضرور پڑھوں گا۔ بہت شکریہ۔ جزاک اللہ خیرا۔
 
شکیل صاحب بہت شکریہ آپ نے اس اہم موضوع کی جانب توجہ دلائی۔ اس ضمن میں ایک دو گزارشات ہیں:
اول تو یہ کہ میرے مقالات چوں کہ جامعات کے ان رسائل میں شایع ہوتے ہیں جو ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے متصدقہ ہیں، اس لیے ان میں غیر جذبات نثر اور اسلوبِ تحقیق اپناتا ہوں اور محض انھی موضوعاتِ ادب کو زیر بحث لاتا ہوں جو شایع شدہ ہیں ۔ ان رسائل میں کئی قسم کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور میں خود چوں کہ لاہور گیریژن یونیورسٹی کے مصدقہ مجلے نورِ تحقیق کے بیس رسائل میں معاون مدیر رہا ہوں اس لیے مجھے معلوم ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی اس سلسلے میں کیا ہدایات ہیں۔ ان ہدایات سے باہر نکلیں تو رسائل غیر مصدقہ ہوجاتے ہیں۔ یوں کہہ لیجیے کہ اس ضمن میں کچھ پابندیوں کا سامنا ہے۔
دوم یہ کہ چوں کہ اسرائیل ایسی دہشت گرد ریاست کے ظلم و بربریت کے خلاف اردو ادب میں ، بالخصوص ادبِ عالیہ میں ادبی تحاریر نہ ہونے کے برابر ہیں، اس لیے ان پر قلم اٹھانا ناممکن ہوجاتا ہے۔ آخری مرتبہ ایک ناول خدا اور محبت یا شاید عبداللہ کا دوسرا حصہ پڑھتے ہوئے مجھے حاشم ندیم کے اسرائیلی کے خلاف کچھ مواد ملا تھا لیکن وہ بہت کم تھا، تحقیق و تنقید کا پیٹ نہیں بھرتا تھا ۔ تو جب تک اس ضمن میں ادب تخلیق نہیں ہوتا ، اس پر تحقیق و تنقید کا سلسلہ جاری نہیں کیا جاسکتا۔
ایک بات میں ضمنا بھی عرض کروں گا کہ نمبردار کا نیلا اور تنہائی کے سو سال، ا ن دونوں ناولوں کے حوالے سے تحریر کردہ مضامین میں میں نے نوآبادیات، استعمار، مابعد نوآبادیات کے مسائل کو اجاگر کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ بال خصوص تنہائی کے سوسال جس کا زمان و مکان ٹرانس امریکن ریاستوں یا لاطینی امریکہ ہے، اس کا موازنہ برصغیر کے حالات سے کرتے ہوئے معنی خیز نتائج برآمد کیے ہیں۔ جب تک کسی ملک کی جارحیت کے حوالے سے ادب ہی تخلیق نہیں ہوگا تو اس پر کس طرح تحقیق و تنقید کا در وا کیا جاسکتا ہے، یہ سوال بہرحال موجود ہے۔
اب بات یہ ہے کہ جب ہمارا اجتماعی شعور تیس سیکنڈ کی ان دلچسپ اور رنگین ویڈیوز تک محدود ہوتا جارہا ہے جس میں ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت حسینہ مطلوبہ گیتوں پر رقص کرتی دکھائی دیتی ہے اور قوم تیزی سے اگلے ٹک ٹاک ویڈیو کی جانب بڑھتی ہے، ایسے میں کمرشل لکھاری اور ان کے چھاپنے والے ادارے کس طرح ان موضوعات پر لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرسکتے ہیں ، یا ان کی تحاریر کو چھاپ سکتے ہیں جسے پڑھنے والے قارئین ہی میسر نہ رہے ہوں۔

شکیل احمد خان23
 
Top