نمکین غزل: ان کا مزاج رُخ پہ دِکھائی نہیں دیا: محمد خلیل الرحمٰن

غزل
ان کا مزاج رُخ پہ دِکھائی نہیں دِیا
پِھر اس کے بعد کچھ بھی ٹِپائی نہیں دِیا
برسوں کے بعد اُن سے ملاقات ہوگئی
پر اس کے بعد کچھ بھی سنائی نہیں دِیا
تنہائی وقتِ وصل میسر تھی دوستو!
لیکن ہمیں تو کچھ بھی سُجھائی نہیں دِیا
اُس حسنِ بے مثال کی دیکھی تھی اِک جھلک
اُس دِن کے بعد کچھ بھی دِکھائی نہیں دِیا
جیتا عُدو ہے آج پر ایسے کہ آپ کو
محفل میں غیر کوئی دِ کھائی نہیں دِیا
محمد خلیل الرحمٰن
 

شمشاد

لائبریرین
تنہائی وقتِ وصل میسر تھی دوستو!
لیکن ہمیں تو کچھ بھی سُجھائی نہیں دِیا
:( :( :(
 
بیت الغزل کو تو شمشاد بھائی تاڑ گئے۔ اب ہم یہ پوچھ لیتے ہیں کہ ٹپائی دینا کیا ہوتا ہے؟ یہ لفظ ہمارے لئے اجنبی ہے۔


اُس حسنِ بے مثال کی دیکھی تھی اِک جھلک
اُس دِن کے بعد وہ تو دِکھائی نہیں دِیا
اس کا مصرع ثانی ہم نے روانی میں کچھ یوں پڑھا: "اس دن کے بعد کچھ بھی دکھائی نہیں دیا"۔ لیکن بعد میں احساس ہوا تو دہرایا۔ :) :) :)
 
بیت الغزل کو تو شمشاد بھائی تاڑ گئے۔ اب ہم یہ پوچھ لیتے ہیں کہ ٹپائی دینا کیا ہوتا ہے؟ یہ لفظ ہمارے لئے اجنبی ہے۔
یہ دراصل کراچی کی سلینگ میں سمجھ میں آنا یا نظر آناکے لیے استعمال ہوتا ہے اور اکثر نہ کے ساتھ منفی معنیٰ میں۔واللہ اعلم
 
شمشاد بھائی سا شریر بھی کوئی ہوگا؟
آپ کی اجازت ہو تو دوسرے مصرع کو آپ کی تصحیح کے مطابق کرلیں؟ بہت ہی اعلیٰ جناب ابن سعید بھائی۔

اجی قبلہ اجازت وغیرہ کے تکلفات کی چنداں ضرورت نہیں۔ ہم تو آزاد مصدر فلسفے میں یقین رکھتے ہیں لہٰذا اگر شاعر ہوتے (جو کہ اتفاق سے نہیں ہیں) تو بھی ہمارے سارے اشعار کاپی لیفٹ کے تحت شائع ہوتے۔ آپ کو ہماری بے ساختہ پیوندکاری پسند ہے تو اسے استعمال کر لیں۔ آپ نے جس مصرع سے گرہ لگائی ہے وہ بھی لا جواب ہے۔ بس اس میں یہ تخیل ہے کہ ان کے دیکھنے کے بعد آنکھیں خیرہ ہو گئیں جبکہ آپ کے مصرعے میں ان کی جدائی کا ذکر ہے۔ واضح رہے کہ ہم نے کوئی تصحیح نہیں کی ہے۔ :) :) :)
 

محمد وارث

لائبریرین
واہ واہ واہ، کیا خوب نمکین غزل ہے خلیل صاحب، اور نمکین بھی ایسی کہ فشارِ خون بڑھنے کی بجائے کم ہوتا ہے۔ :)

اور خاکسار دعا گو ہے کہ اگلی بار آپ کو "کچھ سجھائی" دے جائے۔ :)
 

مغزل

محفلین
کیا کہنے خلیل صاحب ’’ ٹپائی ‘‘ کا استعمال غزل کا حسن دو آتشہ کرگیا ہے ۔۔ ہاہہاہاہا بہت عمدہ لاجواب نمکینیاتی غزل ہے ۔۔۔ پر یہ اصلاح سخن میں نہیں ہونی چاہیے ۔ اجازت ہو تو۔۔ متنقلی کا عمل جاری کیا جائے :angel:
 
واہ واہ واہ، کیا خوب نمکین غزل ہے خلیل صاحب، اور نمکین بھی ایسی کہ فشارِ خون بڑھنے کی بجائے کم ہوتا ہے۔ :)

اور خاکسار دعا گو ہے کہ اگلی بار آپ کو "کچھ سجھائی" دے جائے۔ :)
جناب آپ کو غزل پسند آئی اِدھر ہمارا ڈھیروں خون بڑھ گیا جس کی بناء پر ضرور بلند فشارِ خون کی صورتِ حال ہوگی۔
’’سجھائی دینے والی‘‘ دعا کی بھی خوب کہی۔ اللہ آپ کی دعاؤں میں اثر دے اور ہمیں عقل و سمجھ عطا فرمائے۔;)
 
کیا کہنے خلیل صاحب ’’ ٹپائی ‘‘ کا استعمال غزل کا حسن دو آتشہ کرگیا ہے ۔۔ ہاہہاہاہا بہت عمدہ لاجواب نمکینیاتی غزل ہے ۔۔۔ پر یہ اصلاح سخن میں نہیں ہونی چاہیے ۔ اجازت ہو تو۔۔ متنقلی کا عمل جاری کیا جائے :angel:
محمود بھائی! غزل کی پسندیدگی پر شکریہ قبول فرمائیے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں تو ضرور اسے منتقل فرمادیجیے۔
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔:notworthy:
 

میر انیس

لائبریرین
:great:
لیکن ہمیں تو کچھ بھی سُجھائی نہیں دِیا
ارے بھائی دِیا ساتھ رکھنا تھا نا۔ اس لوڈ شیڈنگ کا بیڑا غرق ہو ۔
 

الف عین

لائبریرین
اچھے جا رہے ہو خلیل، اب معلوم ہوا کہ کبھی کبھار ہی نہیں، باقاعدہ نمکین کی دکان سجا رکھی ہے!!
 
اچھے جا رہے ہو خلیل، اب معلوم ہوا کہ کبھی کبھار ہی نہیں، باقاعدہ نمکین کی دکان سجا رکھی ہے!!
جزاک اللہ استادِ محترم۔ پسندیدگی کا شکریہ۔
لوگ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر پتھر پھینکتے ہیں، ہم نمک کی دکان پر بیٹھ کر پتھر کھاتے ہیں۔
شورِ پندِ ناصح نے زخم پر چھڑکا نمک
 
نمکین ہی سہی غزل تو اچھی کہہ لیتے ہیں آپ
ٹِپائی کا کیا مطلب ہے ؟؟

آداب عرض ہے۔ حسنِ نظر ہے آپ کا۔

یہ دراصل کراچی کی سلینگ میں سمجھ میں آنا یا نظر آناکے لیے استعمال ہوتا ہے اور اکثر نہ کے ساتھ منفی معنیٰ میں۔واللہ اعلم
 
Top