محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
غزل
ان کا مزاج رُخ پہ دِکھائی نہیں دِیا
پِھر اس کے بعد کچھ بھی ٹِپائی نہیں دِیا
برسوں کے بعد اُن سے ملاقات ہوگئی
پر اس کے بعد کچھ بھی سنائی نہیں دِیا
تنہائی وقتِ وصل میسر تھی دوستو!
لیکن ہمیں تو کچھ بھی سُجھائی نہیں دِیا
اُس حسنِ بے مثال کی دیکھی تھی اِک جھلک
اُس دِن کے بعد کچھ بھی دِکھائی نہیں دِیا
جیتا عُدو ہے آج پر ایسے کہ آپ کو
محفل میں غیر کوئی دِ کھائی نہیں دِیا
محمد خلیل الرحمٰن