امجد علی راجا
محفلین
محمد خلیل الرحمن بھائی کی فرمائش پر
مفلسی کے دور میں اک گھر کا جو کھایا نمک
عمر اس در پر گزاری، اس قدر بھایا نمک
"باس کی بیٹی" سے شادی کے لئے مجبور تھا
لے گیا آغوشِ الفت میں مجھے کالا نمک
میرے آنے کی خوشی میں وہ تو پاگل ہو گئی
ڈال دی سالن میں چینی، کھیر میں ڈالا نمک
لنچ کا وعدہ تھا مجھ سے، لے گیا اس کو کزن
اس طرح ظالم نے زخموں پر مرے چھڑکا نمک
سالیوں نے سامنے رکھ دی تھی "مصری" کی پلیٹ
شرم کے مارے وہ دلہا کھا گیا سارا نمک
اس کو دے دے کر صدائیں دکھ گیا میرا گلہ
اور غراروں کے لئے اس نے فقط پھینکا نمک
ہے فشارِ خون بڑھنے کا سبب بیگم میری
اس لئے بیگم کا میں نے نام ہے رکھا نمک
بیگم اور معشوق میں نمکین سا اک فرق ہے
اک طرف پھانکا نمک ہو، اک طرف چکھا نمک
عاشقوں کو قدر اس کی آ گئی پھینٹی کے بعد
جب ٹکوروں کے لئے زخموں پہ تھا رکھا نمک