ندیم جاویدعثمانی
محفلین
ایمان و یقیں کی دولت سے
مالا مال تھا ماضی اپنا
بحشیت ایک قوم جانے جاتے تھے
زُبان خاص وعام تھے ہمارے قصے
لوگ اپنی تہذیب کے گُن بھی گاتے تھے
سجدہٴ شہادت نے ماتھوں کو سجا رکھا تھا
تختئی غازی نے سینوں کو چُھپارکھا تھا
یہاں قاسم تھا ، غزنوی بھی
یہاں محمود تھا ایاز بھی
یہاں پر سوچ تھی
قوتِ پرواز بھی
اور اب یہ منظر ہے
نفسا نفسی میں گنوائی
ایمان ویقیں کی دولت
اپنی کرنی سے داغدارہوئی
اپنے اجداد کی شُہرت
وقت کے ساتھ دوڑنے میں یہ خبر نہ ہوئی
کہاں ننگےپاوٴں ہوئے
کہاں پہ برہنہ بدن!
اور جس طرح اپنی تہذیب عُریاں ہوتی جارہی ہے
مُجھے اب یہ خوف لاحق ہے
ایسا نہ ہوکہیں ایک دن
جب ایک گُم شُدہ تہذیب کی صورت دریافت ہماری ہو
تو زمیں سے نکالے جانے کی صورت میں
ننگ وجود یہ قوم ساری ہو!
’ندیم جاوید عثمانی‘
مالا مال تھا ماضی اپنا
بحشیت ایک قوم جانے جاتے تھے
زُبان خاص وعام تھے ہمارے قصے
لوگ اپنی تہذیب کے گُن بھی گاتے تھے
سجدہٴ شہادت نے ماتھوں کو سجا رکھا تھا
تختئی غازی نے سینوں کو چُھپارکھا تھا
یہاں قاسم تھا ، غزنوی بھی
یہاں محمود تھا ایاز بھی
یہاں پر سوچ تھی
قوتِ پرواز بھی
اور اب یہ منظر ہے
نفسا نفسی میں گنوائی
ایمان ویقیں کی دولت
اپنی کرنی سے داغدارہوئی
اپنے اجداد کی شُہرت
وقت کے ساتھ دوڑنے میں یہ خبر نہ ہوئی
کہاں ننگےپاوٴں ہوئے
کہاں پہ برہنہ بدن!
اور جس طرح اپنی تہذیب عُریاں ہوتی جارہی ہے
مُجھے اب یہ خوف لاحق ہے
ایسا نہ ہوکہیں ایک دن
جب ایک گُم شُدہ تہذیب کی صورت دریافت ہماری ہو
تو زمیں سے نکالے جانے کی صورت میں
ننگ وجود یہ قوم ساری ہو!
’ندیم جاوید عثمانی‘