فرخ منظور
لائبریرین
ننھا مہمان
سارے گھر میں نو بہارِ زندگی لایا ہے تُو!
میرے ننھے میہماں کس دیس سے آیا ہے تُو؟
کس بہشتِ حُسن میں اب تک تھا کاشانہ ترا؟
میرے اُجڑے باغ میں کیوں کر ہوا آنا ترا؟
کس زباں میں چپکے چپکے گفتگو کرتا ہے تُو؟
کون جانے کس طرح کی ہاؤ ہُو کرتا ہے تُو؟
منزلِ ہستی سے پہلے کون سی منزل میں تھا؟
آج تک اے شمعِ محفل ، کہہ تو کس محفل میں تھا؟
اے گلِ معصوم ، اب تک تیرا گلشن تھا کہاں؟
طائرِ قدسی ادا ، تیرا نشیمن تھا کہاں؟
آرزو بن کر کسی سینے میں تُو خنداں رہا!
نکہتِ گُل تھا ، نقابِ غنچہ میں پنہاں رہا!
میری بیوی کی ترے رخسار میں رنگت ہے کیوں؟
اجنبی مہمان ہو کر اُس کا ہم صورت ہے کیوں؟
انجمستانِ لطافت کا تُو زندہ خواب ہے!
یا سپہرِ حُسن کا سیّارۂ شاداب ہے
تُو وہ جذبہ ہے جو دل سے چھن گیا، اور پاس ہے!
گم شدہ ارماں کا جیتا جاگتا احساس ہے!
دو دلوں کی التجا تعمیر ہو کر آ گئی
دو نگاہوں کی دعا تصویر ہو کر آ گئی
گرچہ پاسِ میہمانی و مروّت ہے مجھے!
اجنبی مہمان، لیکن اِک شکایت ہے مجھے!
تُو نے آ کر میری بیوی کی محبت چھین لی!
اُس کا دل چھینا مرے دل کی مسرّت چھین لی!
میرے گھر میں میہماں ہو کر تُو رہزن بن گیا!
اُس کا عاشق ، ہو گیا اور میرا دشمن بن گیا!
اب وہ پہلے کی طر ح مجھ پر فدا ہوتی نہیں
مجھ سے رہتی ہے جدا، تجھ سے جدا ہوتی نہیں
اف! یہ کیسا انقلاب آسمانی ہو گیا!
اس کا میرے پاس آنا اک کہانی ہو گیا!
چشمِ ظاہر کو نظر آتا ہے طفلِ سادہ تُو!
کس طرح میری رقابت پر ہؤا آمادہ تو؟
عشق کا پہلا سا اب اظہار وہ کرتی نہیں
مجھ سے پہلے کی طرح اب پیار وہ کرتی نہیں
تیرا آنا تھا کہ اس نے بے وفائی سیکھ لی
ایک گھر میں رہ کے بھی مجھ سے جدائی سیکھ لی
تیرے عشقِ سحر زا میں مبتلا رہنے لگی
ساتھ رہ کر بھی مرے مجھ سے جدا رہنے لگی
میرا بستر تھا جو اِک دن تیرا بستر ہو گیا
جو مقدّر تھا مرا ، تیرا مقدّر ہو گیا
تُو نے آ کر غاصبانہ قبضہ گھر پر کر لیا
گھر پہ قبضہ کیا کیا ہر دل مسخّر کر لیا
نوکروں کو بھی نہیں ہے میری راحت کا خیال
سب کے دل میں موجزن ہے تیری خدمت کا خیال
تُو نے آتے ہی بہارِ زندگانی لُوٹ لی
میری طفلی چھین لی، میری جوانی لُوٹ لی
اپنی ہستی کا خیال اور پاس اب باقی نہیں!
”میں بھی کچھ ہوں“ تھا جواِک احساس اب باقی نہیں
عہدِ پیری آ چلا فصلِ جوانی ختم ہے !
میرے رومانوں کی رنگیں داستانی ختم ہے!
(اختر شیرانی)
سارے گھر میں نو بہارِ زندگی لایا ہے تُو!
میرے ننھے میہماں کس دیس سے آیا ہے تُو؟
کس بہشتِ حُسن میں اب تک تھا کاشانہ ترا؟
میرے اُجڑے باغ میں کیوں کر ہوا آنا ترا؟
کس زباں میں چپکے چپکے گفتگو کرتا ہے تُو؟
کون جانے کس طرح کی ہاؤ ہُو کرتا ہے تُو؟
منزلِ ہستی سے پہلے کون سی منزل میں تھا؟
آج تک اے شمعِ محفل ، کہہ تو کس محفل میں تھا؟
اے گلِ معصوم ، اب تک تیرا گلشن تھا کہاں؟
طائرِ قدسی ادا ، تیرا نشیمن تھا کہاں؟
آرزو بن کر کسی سینے میں تُو خنداں رہا!
نکہتِ گُل تھا ، نقابِ غنچہ میں پنہاں رہا!
میری بیوی کی ترے رخسار میں رنگت ہے کیوں؟
اجنبی مہمان ہو کر اُس کا ہم صورت ہے کیوں؟
انجمستانِ لطافت کا تُو زندہ خواب ہے!
یا سپہرِ حُسن کا سیّارۂ شاداب ہے
تُو وہ جذبہ ہے جو دل سے چھن گیا، اور پاس ہے!
گم شدہ ارماں کا جیتا جاگتا احساس ہے!
دو دلوں کی التجا تعمیر ہو کر آ گئی
دو نگاہوں کی دعا تصویر ہو کر آ گئی
گرچہ پاسِ میہمانی و مروّت ہے مجھے!
اجنبی مہمان، لیکن اِک شکایت ہے مجھے!
تُو نے آ کر میری بیوی کی محبت چھین لی!
اُس کا دل چھینا مرے دل کی مسرّت چھین لی!
میرے گھر میں میہماں ہو کر تُو رہزن بن گیا!
اُس کا عاشق ، ہو گیا اور میرا دشمن بن گیا!
اب وہ پہلے کی طر ح مجھ پر فدا ہوتی نہیں
مجھ سے رہتی ہے جدا، تجھ سے جدا ہوتی نہیں
اف! یہ کیسا انقلاب آسمانی ہو گیا!
اس کا میرے پاس آنا اک کہانی ہو گیا!
چشمِ ظاہر کو نظر آتا ہے طفلِ سادہ تُو!
کس طرح میری رقابت پر ہؤا آمادہ تو؟
عشق کا پہلا سا اب اظہار وہ کرتی نہیں
مجھ سے پہلے کی طرح اب پیار وہ کرتی نہیں
تیرا آنا تھا کہ اس نے بے وفائی سیکھ لی
ایک گھر میں رہ کے بھی مجھ سے جدائی سیکھ لی
تیرے عشقِ سحر زا میں مبتلا رہنے لگی
ساتھ رہ کر بھی مرے مجھ سے جدا رہنے لگی
میرا بستر تھا جو اِک دن تیرا بستر ہو گیا
جو مقدّر تھا مرا ، تیرا مقدّر ہو گیا
تُو نے آ کر غاصبانہ قبضہ گھر پر کر لیا
گھر پہ قبضہ کیا کیا ہر دل مسخّر کر لیا
نوکروں کو بھی نہیں ہے میری راحت کا خیال
سب کے دل میں موجزن ہے تیری خدمت کا خیال
تُو نے آتے ہی بہارِ زندگانی لُوٹ لی
میری طفلی چھین لی، میری جوانی لُوٹ لی
اپنی ہستی کا خیال اور پاس اب باقی نہیں!
”میں بھی کچھ ہوں“ تھا جواِک احساس اب باقی نہیں
عہدِ پیری آ چلا فصلِ جوانی ختم ہے !
میرے رومانوں کی رنگیں داستانی ختم ہے!
(اختر شیرانی)
آخری تدوین: