طاہر احمد خان
محفلین
سب سے پہلے تو میں اپنی کم مائیگی کا اعتراف کروں گا کہ نہ تو مجھے کوئی بڑے دانشور یا عالم ہونے کا دعویٰ ہے نہ میں نقاد ہوں اور نہ فلسفی ۔ میں تو صرف اردو اد ب کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہوں ۔اﷲتعالیٰ نے ایک حساس دل کے ساتھ کچھ تخلیقی صلاحیتیں مجھے عطا فرمائی ہیں ........ اچھی صورت،اچھی آواز او ر اچھے قدرتی مناظر مجھے متاثر کرتے ہیں۔میں ہمیشہ سے کثیر الاشواق رہا ہوں ، ہر قسم کے کھیلوں کا رسیا، ہر قسم کی محفلوں ، کھیل تماشوں ، میلے ٹھیلوں اور ہندؤں مسلمانوں کے تہواروں سے لطف لینا میرا مشغلہ رہا ہے ۔ چیزوں کو نزدیک سے جاننا مشاہدات کو اپنے اندر جذب کر نا۔ہر قسم کی کتابیں پڑھیں سماجی بھلائی کے کاموں میں حصہ لیا ۔
زندگی میں نا مساعد حالات سے بھی گزرنا پڑا‘لیکن اﷲ کا شکر ہر حال میں راضی برضا رہا ۔کسی نے کھلنڈرالڑکا کہا‘کسی نے کہا جذباتی ہوں ‘کسی نے کہا میری زندگی میں تضاد ہے ‘کسی نے کہا خوش باش اور خوش قسمت ہوں ۔دوستوں اور خاندان میں ہر دلعزیز‘عورتوں کے معاملے میں بہت ہی نرم دل‘نازک مزاج اور نازک اندام ‘سادہ طبعیت ‘مگر لباس میں اپ ٹو ڈیٹ کہ دیکھنے والے دیکھ کر خوش ہوں ‘سیر و سیاحت کا دلدادہ ‘جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے یا میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے ۔
ادب و شاعری سے دلچسپی بھی ابتدا سے ہی تھی ۔خود سے لکھنے میں سست ہوں ۔محترمہ قرۃ العین طاہرہ صاحبہ کہتی ہیں کہ :
’’فکشن وقت طلب مسئلہ ہے۔محنت چاہتا ہے ۔ ایک اچھی تخلیق انسان کے پورے لا شعور اور ذات کا حصہ بن کر اس کے اندر ہی اندر پکتی رہتی ہے ۔بنتی بگڑتی رہتی ہے ۔کانٹ چھانٹ ہوتی رہتی ہے اور اس عمل مین دن اور ہفتے نہیں ‘مہینے اور سال بھی لگ سکتے ہیں ۔‘‘
زندگی میں نا مساعد حالات سے بھی گزرنا پڑا‘لیکن اﷲ کا شکر ہر حال میں راضی برضا رہا ۔کسی نے کھلنڈرالڑکا کہا‘کسی نے کہا جذباتی ہوں ‘کسی نے کہا میری زندگی میں تضاد ہے ‘کسی نے کہا خوش باش اور خوش قسمت ہوں ۔دوستوں اور خاندان میں ہر دلعزیز‘عورتوں کے معاملے میں بہت ہی نرم دل‘نازک مزاج اور نازک اندام ‘سادہ طبعیت ‘مگر لباس میں اپ ٹو ڈیٹ کہ دیکھنے والے دیکھ کر خوش ہوں ‘سیر و سیاحت کا دلدادہ ‘جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے یا میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے ۔
ادب و شاعری سے دلچسپی بھی ابتدا سے ہی تھی ۔خود سے لکھنے میں سست ہوں ۔محترمہ قرۃ العین طاہرہ صاحبہ کہتی ہیں کہ :
’’فکشن وقت طلب مسئلہ ہے۔محنت چاہتا ہے ۔ ایک اچھی تخلیق انسان کے پورے لا شعور اور ذات کا حصہ بن کر اس کے اندر ہی اندر پکتی رہتی ہے ۔بنتی بگڑتی رہتی ہے ۔کانٹ چھانٹ ہوتی رہتی ہے اور اس عمل مین دن اور ہفتے نہیں ‘مہینے اور سال بھی لگ سکتے ہیں ۔‘‘