بی بی سی نے یہ لکھا ہے
بلوچستان میں فوجی کاروائی شروع ہوجانے کے بعد پاکستان میں حزب مخالف کی سیاسی جماعتیں اکثر یہ تبصرہ کرتی آئی ہیں کہ ان حالات سے مشرقی پاکستان کے حالات کی بو آتی ہے جو انیس سو اکہتر میں ملک سے الگ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا۔
تاہم جس طرح اب تک اسلام آباد کے ریاستی اداروں نے بلوچستان میں شدت پسند قوم پرست تحریک کے خلاف کاروائیاں کی ہیں وہ بنگلہ دیش میں کی گئی فوجی کاروائی سے خاصی مختلف ہے۔
بنگلہ دیش میں پاکستان فوج نے عسکریت پسند بنگالی قوم پرستوں کے خلاف تو کاروائی کی لیکن بنگال قوم پرست سیاسی قیادت کو ہاتھ نہیں لگایا۔ بنگالی رہنما مجیب الرحمن اگرتلہ سازش کیس میں جیل میں تھے لیکن جنرل یحییٰ خان نے انہیں قید سے رہا کردیا تھا۔
بلوچستان میں ایسا نہیں ہورہا۔ یہاں ریاستی اداروں نے عسکریت پسندوں سے صلح کی کوشش کی ہے۔ آئے دن ایسے مقامی بلوچ سرداروں کی خبریں آتی ہیں جنہوں نے عسکریت پسندوں کا ساتھ چھوڑ کر ہتھیار ڈال دیے ہیں۔
دوسری طرف، مشتبہ عسکریت پسندوں سے کوئی رعایت نہیں برتی گئی۔ انہیں عدالت جانے کی مہلت بھی نہیں دی جاتی۔ گزشتہ دو برسوں میں درجنوں بلوچ قوم پرست لاپتہ ہوچکے ہیں۔
اکبر بگٹی پر پہلے میزائیل کے ناکام حملہ اور اب ان کی ہلاکت سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ریاستی ادارے عسکری تحریک کا سرچشمہ سمجھے جانے والے بلوچ سیاسی قیادت کو معاف کرنے کے لیے تیار نہیں۔
گویا قوم پرست اور مرکز گریز تحریکوں کے مسلح کارکن ہی نہیں بلکہ اس تحریک کی مرکزی قیادت کا خاتمہ بھی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اکبر بگٹی اس نئی پالسی کا پہلا نشانہ کہے جاسکتے ہیں۔
لنک یہ ہے