منیر نیازی نواحِ وسعتِ میداں میں حیرانی بہت ہے

ش

شہزاد احمد

مہمان
نواحِ وسعتِ میداں میں حیرانی بہت ہے
دلوں میں اس خرابی سے پریشانی بہت ہے

کہاں سے ہے، کہاں تک ہے خبر اس کی نہیں ملتی
یہ دنیا اپنے پھیلاؤ میں ۔۔۔۔۔۔۔ انجانی بہت ہے

بڑی مشکل سے یہ جانا کہ ہجرِ یار میں رہنا
بہت مشکل ہے پر آخر میں آسانی بہت ہے

بسر جتنی ہوئی، بے کار و بے منزل زمانے میں
مجھے اس زندگانی پر ۔۔۔۔۔۔ پشیمانی بہت ہے

نکل آتے ہیں رستے خود بہ خود جب کچھ نہ ہوتا ہو
کہ مشکل میں ہمیں خوابوں کی ارزانی ۔۔۔بہت ہے

بہت رونق ہے بازاروں میں گلیوں اور محلوں میں
پر اس رونق سے شہرِ دل میں ویرانی بہت ہے
 

فلک شیر

محفلین
بڑی مشکل سے یہ جانا کہ ہجرِ یار میں رہنا
بہت مشکل ہے پر آخر میں آسانی بہت ہے
سبحان اللہ.............
منیر نیازی، پچھلی پیڑھی کے چند سچے شاعروں میں سے ایک...............بچے کی حیرانی اور فنکار پہ اترتا حرف اُس کے کلام میں یوں جمع ہے .............کہ بس............
...............سبحان اللہ
 
خوب غزل ہے۔ اور بحر کا استعمال بھی خوب کیا ہے۔
داد قبول اچھے انتخاب پر۔
محمد یعقوب آسی
محمد وارث
الف عین
محمد اسامہ سَرسَری

مزمل بھائی! اس بحر کا آخری رکن کہیں مفاعیلن ہے کہیں فعلن ہے، اس رعایت کو اصطلاحِ عروض میں کیا کہتے ہیں؟
 
نواحِ وسعتِ میداں میں حیرانی بہت ہے
دلوں میں اس خرابی سے پریشانی بہت ہے

کہاں سے ہے، کہاں تک ہے خبر اس کی نہیں ملتی
یہ دنیا اپنے پھیلاؤ میں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ انجانی بہت ہے

بڑی مشکل سے یہ جانا کہ ہجرِ یار میں رہنا
بہت مشکل ہے پر آخر میں آسانی بہت ہے

بسر جتنی ہوئی، بے کار و بے منزل زمانے میں
مجھے اس زندگانی پر ۔۔۔ ۔۔۔ پشیمانی بہت ہے

نکل آتے ہیں رستے خود بہ خود جب کچھ نہ ہوتا ہو
کہ مشکل میں ہمیں خوابوں کی ارزانی ۔۔۔ بہت ہے

بہت رونق ہے بازاروں میں گلیوں اور محلوں میں
پر اس رونق سے شہرِ دل میں ویرانی بہت ہے

بہت اچھی شراکت ہے۔
جزاکم اللہ خیرا۔
 
مزمل بھائی! اس بحر کا آخری رکن کہیں مفاعیلن ہے کہیں فعلن ہے، اس رعایت کو اصطلاحِ عروض میں کیا کہتے ہیں؟
آپ نے درست نشان دہی کی ہے جناب محمد اسامہ سَرسَری صاحب۔
اس غزل کے مطلع کے دونوں مصرعے اس بحر پر پورے اترتے ہیں:
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن فعولن (بحر ہزج مثمن محذوف)
تاہم کچھ اشعار کے پہلے مصرعے مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن (بحر ہزج مثمن سالم) میں ہے

اس فقیر کے نزدیک ایسا کرنا مستحسن نہیں ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ:
منیر نیازی ایک بڑا نام ہے اور یار لوگ نہ صرف سالم اور محذوف بحر کو مقابل لانے کے کئی جواز تلاش کر لیں گے، اور یہ فقیر اپنی اس ’’گستاخی‘‘ مطعون ٹھہرے گا۔ لہجے کی تلخی کے لئے معذرت خواہ ہوں مگر ایسا پہلے ہو چکا ہے۔
 
آپ نے درست نشان دہی کی ہے جناب محمد اسامہ سَرسَری صاحب۔
اس غزل کے مطلع کے دونوں مصرعے اس بحر پر پورے اترتے ہیں:
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن فعولن (بحر ہزج مثمن محذوف)
تاہم کچھ اشعار کے پہلے مصرعے مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن (بحر ہزج مثمن سالم) میں ہے

اس فقیر کے نزدیک ایسا کرنا مستحسن نہیں ہے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ:
منیر نیازی ایک بڑا نام ہے اور یار لوگ نہ صرف سالم اور محذوف بحر کو مقابل لانے کے کئی جواز تلاش کر لیں گے، اور یہ فقیر اپنی اس ’’گستاخی‘‘ مطعون ٹھہرے گا۔ لہجے کی تلخی کے لئے معذرت خواہ ہوں مگر ایسا پہلے ہو چکا ہے۔

بہت آداب استاد جی!
رہنمائی کا بہت شکریہ۔
جزاکم اللہ خیرا۔
 
Top