نوادرات کی سمگلنگ

F@rzana

محفلین
اقوام متحدہ کی تنظیم برائے تعلیم، سائنس اور ثقافت ’یونیسکو‘ کا کہنا ہے کہ وہ پاکستانی حکومت کے ساتھ مل کر پاکستان کے راستے افعان نوادرات کی اسمگلنگ روکنے کے لیے ایک اہم منصوبہ شروع کر نے والی ہے۔

یونیسکو کے نائب ڈائریکٹر جنرل منیر بوشیناکی نےاسلام آباد میں پاکستانی وزیر ثقافت ایس کے ٹریسلر کے ساتھ ملاقات کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ یہ منصوبہ کیمبوچیا میں جنگ کے بعد شروع کیے جانے والے اقوام متحدہ کے منصوبے کے طرز پر ہوگا۔

کمپوچیا میں جنگ کے بعد تھائی لینڈ کے راستے بے شمار نوادرات اسمگل کر کے ملک سے باہر بھیج دی گئی تھیں۔ ان نوادرات میں گوتم بدھ کے بہت سے مجسمے شامل تھے جن کے لیے بقول مسٹر بوشیناکی دنیا میں بہت سے نجی خریدار موجود تھے۔

مسٹر بوشیناکی نے بتایا کہ افغانستان میں خانہ جنگی اور طالبان دور حکومت کے بعد افغانستان کے نودرات کو بھی بری طرح لوٹا گیا۔

انہوں نے کہا کہ کابل کے عجائب گھر میں سے تقریباً ساٹھ فیصد نوادرات غائب ہیں اور یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ ان کو طالبان نے تباہ کردیا تھا یہ پھر ان کو اسمگل کر کے آگے بیچ دیا گیا ۔

انہوں نے مزید بتایا کہ افغانستان میں اس وقت بھی آثار قدیمہ کے مقامات پر غیر قانونی کھدائی جاری ہے اور نوادرات کو لوٹا جارہا ہے۔

مسٹر بوشیناکی کابل میں افعانستان کے ثقافتی ورثے کی تباہی پر یونیسکو کے ایک کانفرنس میں شریک ہونے کے بعد پاکستان پہنچے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی وزیر ثقافت سے ان کی بات چیت بہت مفید رہی اور نوادرات کا غیر قانونی کاروبار کو روکنے کے لیے پاکستان یونیسکو کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔

پاکستان میں یونیسکو کے پروگرام کا اہم حصہ تعلیم اور معلومات فراہم کرنے پر مبنی ہوگا جن میں شہریوں کو تاریخ اور ثقافتی ورثے کی اہمیت کے بارے میں بتایا جائے گا تاکہ ان کو معلوم ہو سکے کہ نوادرات اور ثقافتی عجوبے لوٹنے سے لوگ اپنے ہے ماضی کو تباہ کر رہے ہیں۔

مسٹر بوشیاناکی نے کہا کہ تھائی لینڈ اور کمبوچیا میں اسکولوں، ورکشاپوں اور ریڈیو اور ٹیلی وژن کے ذریعے یہ معلومات فراہم کی گئی تھی اور ایسا ہی طریقہ اب پاکستان میں بھی اختیار کیا جائے گا۔

“بشکریہ بی بی سی “
 

F@rzana

محفلین
منصوبہ

پاکستان میں موجود قدیم گندھارا تہذیب سے تعلق رکھنے والے نوادرات کی تفصیل مرتب کرنے کے لیے ایک جامع منصوبہ آئندہ ماہ شروع کیا جا رہا ہے۔ حکام کے مطابق اس تفصیل سے ان قیمتی نوادرات کی چوری روکنے میں مدد ملے گی۔
صوبہ سرحد کا آثار قدیمہ اور عجائب گھر کا محکمہ تقریبا ایک کڑوڑ روپے سے زائد کی لاگت سے اپریل میں اس ایک سالہ منصوبہ پر کام کا آغاز کرے گا۔ اس منصوبے کے لیے اسے اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو کی مدد بھی حاصل ہے۔

محمکہ کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر احسان علی نے سنیچر کے روز پشاور میں صحافیوں کو اس اہم منصوبے کے بارے میں بریفینگ دیتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے کی ضرورت اس لیے محسوس کی گئی کہ ابھی تک پاکستان بھر میں مختلف مقامات پر اور عجائب گھروں میں موجود گندھارا تہذیب کے نوادرات اور کا کوئی باقاعدہ جامع کمپوٹرازڈ ریکارڈ موجود نہیں۔

ان سے پوچھا کہ اس ڈاٹا سے فائدہ کیا ہوگا تو انہوں نے بتایا کہ اس سے تحقیق کرنے والوں اور چوری سے بچاؤ میں مدد ملے گی۔

قدیم گندھارا تہذیب پاکستان میں دریائے سندھ کے مغرب اور دریائے کابل کے شمال میں پشاور سے لے کر سوات اور دیر جبکہ افغانستان میں بامیان تک پھیلی ہوی تھی۔

اس تہذیب کے نوادرات دیکھنے کے لیے ہر سال ہزاروں غیرملکی سیاح اور محقق پشاور کا رخ کرتے رہتے ہیں۔

“بشکریہ بی بی سی “
 
Top