جاسم محمد
محفلین
نواز شریف اور میر شکیل الرحمن میں کیا مماثلت ہے؟
20/07/2020 وجاہت مسعود
کل رات فون پر ایک حبیب عنبر دست سے بات ہو رہی تھی۔ اچانک انہوں نے مجھے ایک خوشگوار حیرت سے دوچار کر دیا۔ فرمایا، چند برس پہلے تک تم سے جان پہچان نہیں تھی۔ کسی مشترکہ دوست سے تمہارا تعارف چاہا تو انہوں نے علاوہ تمہاری دیگر ناقابل اشاعت خوبیوں کے یہ بھی بتایا کہ اس شخص کو “کیری لوگر بل” میں بہت موٹی رقم موصول ہوئی تھی۔ یہ اطلاع پا کر کئی ہفتوں سے چھائی میری اداسی یکایک دور ہو گئی۔ بجلی کا ستاون ہزار روپے کا واجب الادا بل بھول گیا۔ یہ کوفت بھی دور ہو گئی کہ کالم لکھنے کا خطیر مشاہرہ گزشتہ برس نومبر تک ہی بے باق ہو سکا ہے۔ نیز یہ کہ ٹیلی وژن چینلز نے ایک مدت سے میری کم علمی سے استفادہ ترک کر رکھا ہے۔ میں نے ایسے اطمینان سے سیگرٹ کا ایک طویل کش لیا جو شاید ونسٹن چرچل کو جرمنی کے ہتھیار ڈالنے کی خبر پا کر نصیب ہوا ہو گا۔ دیکھئے اگر نواز شریف اپنے بیٹے سے وصول نہ ہونے والی تنخواہ کی پاداش میں نااہل ہو سکتے ہیں، اگر میر شکیل الرحمن بغیر کسی مقدمے کے چار ماہ سے اسیری کے سزاوار ہو سکتے ہیں تو میں اس “موٹی رقم” کی بدولت بدعنوان کیوں نہیں ہو سکتا جس کا کوئی اور چھور ہی نہیں۔ ہماری تاریخ کے اس ہارے ہوئے لشکر کی وہ شان ہے کہ اس کے عقبی پیادے بھی ہراول کے رسالے جیسی عزت پاتے ہیں۔ نظیری نے کہا تھا، گریزد از صف ما ہر کہ مرد غوغا نیست۔ جو ظلم کے خلاف احتجاج کی ہمت نہیں رکھتا، وہ ہماری صفوں سے باہر نکل جائے۔
لکھنا محض وسیلہ روزگار نہیں، یہ اپنی قوم سے وابستگی کا وہ حلف ہے جسے صاحب ضمیر اٹھاتے ہیں۔ لکھنا وہ سہ پہلو منشور ہے جس سے چھن کر قلم کی روشنی رنگوں کی طیف مرتب کرتی ہے۔ رسول حمزہ توف نے “میرا داغستان” میں اپنی دھرتی کا حسن دستاویز کیا۔ یہ لکھنے کے منصب کا ایک پہلو ہے۔ دوسرا زاویہ اپنے بہترین ہم وطنوں کے ذکر سے اجتماعی شناخت کو وقار بخشنا ہے۔ دنیا کو بتانا چاہیے کہ ہمارا شاعر فیض احمد فیض، ہمارا مورخ خورشید کمال عزیز اور ہمارا ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی ہے۔ ہمارا سکالر احمد حسن دانی، ہمارا صحافی نثار عثمانی اور ہمارا درویش عبدالستار ایدھی ہے، ہماری بیٹی ملالہ یوسف زئی اور ہماری بہن عاصمہ جہانگیر ہے۔ اور یہ چند ناموں کا معاملہ نہیں، بھرے ہیں یہاں چار سمتوں سے دریا۔ لکھنے کا تیسرا زاویہ زمین کی مدح اور اہل زمین کی توصیف سے کہیں کٹھن امتحان ہے۔ ابنائے وطن کی محرومیوں، امکان کی رائیگانی اور ان سے ناانصافی کی نشاندہی کرنا۔ “ڈاکٹر ژواگو” لکھنے کی پاداش میں بورس پاسٹرناک پر کے جی بی کی آزمائش آئی تو بوڑھے مصنف نے کہا تھا، “میں نے یہی تو دکھایا ہے کہ میرا وطن کیسا خوبصورت ہے اور تم نے اسے برباد کر کے رکھ دیا”۔
عزیزان من، سرکاری بیانیے سے انحراف کئے بغیر لفظ کو توقیر نصیب نہیں ہوتی۔ ریاست کہیں کی بھی ہو، عوام سے ماورا ترجیحات اور مفادات کا قلعہ تعمیر کر لیتی ہے۔ اس فصیل میں نقب لگانا ہی افتادگان خاک کا مقسوم ہے۔ یہ طے ہے کہ محبت، تخلیق، تاریخ اور ضمیر کو شکست نہیں ہو سکتی۔ دشواری یہ ہے کہ یہ لڑائی نتیجے کی ضمانت لے کر نہیں لڑی جاتی۔ امکانات کے گھنے جنگل کی تاریک رات ہے اور بھیتر کی مدہم لو میں پیش قدمی کرنا ہے۔ گھات سے بچتے ہوئے راستہ بنانا ہے۔ ابھی وہ بندوق تیار نہیں ہوئی جو محبت کو مغلوب کر سکے، ابھی وہ بندوبست استوار نہیں ہو سکا جو تخلیق پہ بند باندھ سکے، ابھی وہ تجزیہ کار پیدا نہیں ہوا جو انصاف کو دفن کر سکے، ابھی وہ وہ لشکر مرتب نہیں ہو سکا جو ضمیر انسانی کو خاموش کر سکے۔ ہم اپنی سیاسی قوتوں کے ارتقا سے بے خبر نہیں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہماری صحافت نے بہت ابتدا میں سازش سے سمجھوتہ کر لیا تھا۔ اس فرد جرم کو ناموں کی بدنما فہرست سے بوجھل کرنا مشکل نہیں لیکن ایک عالی دماغ مدبر ویکلاف ہیول کی کتاب Power of the Powerless کا ایک اقتباس دیکھتے ہیں۔ اس نے لکھا، “انحراف اور مزاحمت کوئی پیشہ نہیں جسے ہم نوجوانی میں اختیار کر لیں۔ خارجی حالات کے ایک پیچیدہ تناظر میں ہمارا داخلی احساس ذمہ داری ہمیں اس راستے کی طرف لے جاتا ہے جہاں اقتدار کے سرچشموں سے تصادم ناگزیر ہو جاتا ہے۔ ہم تو اپنا فرض ادا کرنا چاہتے ہیں، اچانک معلوم ہوتا ہے کہ ہم تو ملک دشمن قرار پا چکے”۔
بس اسی روشنی میں سمجھیے کہ پچھلے 24 ماہ میں ہمارے ملک پر کیا گزری؟ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے لوگ فرشتے تو نہیں ہیں لیکن پیپلز پارٹی 2008ء میں 152 ارب ڈالر کے جی ڈی پی کو 2013ء میں 231 ارب ڈالر پر لے گئی۔ مسلم لیگ حکومت نے اسے 2018ء میں 314 ارب ڈالر پر چھوڑا۔ یہ کوئی معجزہ نہیں تھا، معیشت کی معمول کی نمو تھی۔ تحریک انصاف کی حکومت ایک برس میں اسے 278 ارب ڈالر پر لے آئی۔ کیوں؟ یہ سمجھنے کے لئے یاد کیجئے کہ ہمارے ایک بڑے ادبی نقاد نے جولائی 2017 میں تیسرے درجے کے ایک مغربی مصنف ماریو پوزو کے حوالے سے مافیا کا مطلب سمجھاتے ہوئے ہمیں بتایا تھا کہ ہر بڑی دولت کے پس پردہ ایک جرم ہوتا ہے۔ اب معلوم ہوا کہ ادبی نقاد کو مافیا، دولت اور جرم کے بارے میں اتنا ہی علم تھا جتنی خاکسار عبرانی زبان جانتا ہے۔ اب قوم کو اصل مافیا اور اس کی دولت کا حقیقی حجم معلوم ہو رہا ہے۔ کسی حد تک یہ اندازہ بھی ہو رہا ہے کہ حتمی جرم کسے کہتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ بیشتر ادبی نقاد ریاستی منصب سے سبک دوشی کے بعد ہماری تعلیم و تربیت سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ سیاست دان، صحافی اور دانشور کو یہ سہولت حاصل نہیں ہوتی۔ انہیں بہرصورت اپنا فرض ادا کرنا ہوتا ہے۔ اسی کشمکش میں انکشاف ہوتا ہے کہ وہ نااہل ہو چکے ہیں یا پرانے بدعنوان ہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں ایک نااہل لندن میں بیٹھا ہے اور ایک بدعنوان جیل کی ہوا کھا رہا ہے۔ استاذی قیوم نظر کیا خوب یاد ائے، مندر میں مسجد بنتی ہے، مسجد میں برہمن رہتا ہے۔
20/07/2020 وجاہت مسعود
کل رات فون پر ایک حبیب عنبر دست سے بات ہو رہی تھی۔ اچانک انہوں نے مجھے ایک خوشگوار حیرت سے دوچار کر دیا۔ فرمایا، چند برس پہلے تک تم سے جان پہچان نہیں تھی۔ کسی مشترکہ دوست سے تمہارا تعارف چاہا تو انہوں نے علاوہ تمہاری دیگر ناقابل اشاعت خوبیوں کے یہ بھی بتایا کہ اس شخص کو “کیری لوگر بل” میں بہت موٹی رقم موصول ہوئی تھی۔ یہ اطلاع پا کر کئی ہفتوں سے چھائی میری اداسی یکایک دور ہو گئی۔ بجلی کا ستاون ہزار روپے کا واجب الادا بل بھول گیا۔ یہ کوفت بھی دور ہو گئی کہ کالم لکھنے کا خطیر مشاہرہ گزشتہ برس نومبر تک ہی بے باق ہو سکا ہے۔ نیز یہ کہ ٹیلی وژن چینلز نے ایک مدت سے میری کم علمی سے استفادہ ترک کر رکھا ہے۔ میں نے ایسے اطمینان سے سیگرٹ کا ایک طویل کش لیا جو شاید ونسٹن چرچل کو جرمنی کے ہتھیار ڈالنے کی خبر پا کر نصیب ہوا ہو گا۔ دیکھئے اگر نواز شریف اپنے بیٹے سے وصول نہ ہونے والی تنخواہ کی پاداش میں نااہل ہو سکتے ہیں، اگر میر شکیل الرحمن بغیر کسی مقدمے کے چار ماہ سے اسیری کے سزاوار ہو سکتے ہیں تو میں اس “موٹی رقم” کی بدولت بدعنوان کیوں نہیں ہو سکتا جس کا کوئی اور چھور ہی نہیں۔ ہماری تاریخ کے اس ہارے ہوئے لشکر کی وہ شان ہے کہ اس کے عقبی پیادے بھی ہراول کے رسالے جیسی عزت پاتے ہیں۔ نظیری نے کہا تھا، گریزد از صف ما ہر کہ مرد غوغا نیست۔ جو ظلم کے خلاف احتجاج کی ہمت نہیں رکھتا، وہ ہماری صفوں سے باہر نکل جائے۔
لکھنا محض وسیلہ روزگار نہیں، یہ اپنی قوم سے وابستگی کا وہ حلف ہے جسے صاحب ضمیر اٹھاتے ہیں۔ لکھنا وہ سہ پہلو منشور ہے جس سے چھن کر قلم کی روشنی رنگوں کی طیف مرتب کرتی ہے۔ رسول حمزہ توف نے “میرا داغستان” میں اپنی دھرتی کا حسن دستاویز کیا۔ یہ لکھنے کے منصب کا ایک پہلو ہے۔ دوسرا زاویہ اپنے بہترین ہم وطنوں کے ذکر سے اجتماعی شناخت کو وقار بخشنا ہے۔ دنیا کو بتانا چاہیے کہ ہمارا شاعر فیض احمد فیض، ہمارا مورخ خورشید کمال عزیز اور ہمارا ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی ہے۔ ہمارا سکالر احمد حسن دانی، ہمارا صحافی نثار عثمانی اور ہمارا درویش عبدالستار ایدھی ہے، ہماری بیٹی ملالہ یوسف زئی اور ہماری بہن عاصمہ جہانگیر ہے۔ اور یہ چند ناموں کا معاملہ نہیں، بھرے ہیں یہاں چار سمتوں سے دریا۔ لکھنے کا تیسرا زاویہ زمین کی مدح اور اہل زمین کی توصیف سے کہیں کٹھن امتحان ہے۔ ابنائے وطن کی محرومیوں، امکان کی رائیگانی اور ان سے ناانصافی کی نشاندہی کرنا۔ “ڈاکٹر ژواگو” لکھنے کی پاداش میں بورس پاسٹرناک پر کے جی بی کی آزمائش آئی تو بوڑھے مصنف نے کہا تھا، “میں نے یہی تو دکھایا ہے کہ میرا وطن کیسا خوبصورت ہے اور تم نے اسے برباد کر کے رکھ دیا”۔
عزیزان من، سرکاری بیانیے سے انحراف کئے بغیر لفظ کو توقیر نصیب نہیں ہوتی۔ ریاست کہیں کی بھی ہو، عوام سے ماورا ترجیحات اور مفادات کا قلعہ تعمیر کر لیتی ہے۔ اس فصیل میں نقب لگانا ہی افتادگان خاک کا مقسوم ہے۔ یہ طے ہے کہ محبت، تخلیق، تاریخ اور ضمیر کو شکست نہیں ہو سکتی۔ دشواری یہ ہے کہ یہ لڑائی نتیجے کی ضمانت لے کر نہیں لڑی جاتی۔ امکانات کے گھنے جنگل کی تاریک رات ہے اور بھیتر کی مدہم لو میں پیش قدمی کرنا ہے۔ گھات سے بچتے ہوئے راستہ بنانا ہے۔ ابھی وہ بندوق تیار نہیں ہوئی جو محبت کو مغلوب کر سکے، ابھی وہ بندوبست استوار نہیں ہو سکا جو تخلیق پہ بند باندھ سکے، ابھی وہ تجزیہ کار پیدا نہیں ہوا جو انصاف کو دفن کر سکے، ابھی وہ وہ لشکر مرتب نہیں ہو سکا جو ضمیر انسانی کو خاموش کر سکے۔ ہم اپنی سیاسی قوتوں کے ارتقا سے بے خبر نہیں ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہماری صحافت نے بہت ابتدا میں سازش سے سمجھوتہ کر لیا تھا۔ اس فرد جرم کو ناموں کی بدنما فہرست سے بوجھل کرنا مشکل نہیں لیکن ایک عالی دماغ مدبر ویکلاف ہیول کی کتاب Power of the Powerless کا ایک اقتباس دیکھتے ہیں۔ اس نے لکھا، “انحراف اور مزاحمت کوئی پیشہ نہیں جسے ہم نوجوانی میں اختیار کر لیں۔ خارجی حالات کے ایک پیچیدہ تناظر میں ہمارا داخلی احساس ذمہ داری ہمیں اس راستے کی طرف لے جاتا ہے جہاں اقتدار کے سرچشموں سے تصادم ناگزیر ہو جاتا ہے۔ ہم تو اپنا فرض ادا کرنا چاہتے ہیں، اچانک معلوم ہوتا ہے کہ ہم تو ملک دشمن قرار پا چکے”۔
بس اسی روشنی میں سمجھیے کہ پچھلے 24 ماہ میں ہمارے ملک پر کیا گزری؟ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے لوگ فرشتے تو نہیں ہیں لیکن پیپلز پارٹی 2008ء میں 152 ارب ڈالر کے جی ڈی پی کو 2013ء میں 231 ارب ڈالر پر لے گئی۔ مسلم لیگ حکومت نے اسے 2018ء میں 314 ارب ڈالر پر چھوڑا۔ یہ کوئی معجزہ نہیں تھا، معیشت کی معمول کی نمو تھی۔ تحریک انصاف کی حکومت ایک برس میں اسے 278 ارب ڈالر پر لے آئی۔ کیوں؟ یہ سمجھنے کے لئے یاد کیجئے کہ ہمارے ایک بڑے ادبی نقاد نے جولائی 2017 میں تیسرے درجے کے ایک مغربی مصنف ماریو پوزو کے حوالے سے مافیا کا مطلب سمجھاتے ہوئے ہمیں بتایا تھا کہ ہر بڑی دولت کے پس پردہ ایک جرم ہوتا ہے۔ اب معلوم ہوا کہ ادبی نقاد کو مافیا، دولت اور جرم کے بارے میں اتنا ہی علم تھا جتنی خاکسار عبرانی زبان جانتا ہے۔ اب قوم کو اصل مافیا اور اس کی دولت کا حقیقی حجم معلوم ہو رہا ہے۔ کسی حد تک یہ اندازہ بھی ہو رہا ہے کہ حتمی جرم کسے کہتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ بیشتر ادبی نقاد ریاستی منصب سے سبک دوشی کے بعد ہماری تعلیم و تربیت سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ سیاست دان، صحافی اور دانشور کو یہ سہولت حاصل نہیں ہوتی۔ انہیں بہرصورت اپنا فرض ادا کرنا ہوتا ہے۔ اسی کشمکش میں انکشاف ہوتا ہے کہ وہ نااہل ہو چکے ہیں یا پرانے بدعنوان ہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں ایک نااہل لندن میں بیٹھا ہے اور ایک بدعنوان جیل کی ہوا کھا رہا ہے۔ استاذی قیوم نظر کیا خوب یاد ائے، مندر میں مسجد بنتی ہے، مسجد میں برہمن رہتا ہے۔