الف نظامی
لائبریرین
مسلم لیگ ن کا دور اقتدار ختم ہونے کو ہے۔ کیا آج ہم میں سے کسی کو یاد ہے اس جماعت نے گذشتہ انتخابات میں ہمارے ساتھ کون کون سے وعدے کیے تھے اور کیا ہم نے جاننے کی کوشش کی کہ ان وعدوں میں سے کتنے تھے جو پورے ہو سکے؟
مسلم لیگ نے میاں نواز شریف صاحب کے دستخطوں سے 2013 میں جو انتخابی منشور پیش کیا تھا اس میں کہا گیا تھا کہ ہماری اولین ترجیح معیشت کی بحالی ہو گی۔حقیقت یہ ہے کہ آج معیشت کا ستیا ناس ہو چکا ہے اور ان کا چہیتا وزیر خزانہ مفرور ہے ۔
اس منشور میں قوم سے کہا گیا کہ سابقہ حکومت بہت نا اہل ، بہت بری اور بد ترین حد تک کرپٹ تھی اب ہم آ گئے ہیں تو ایسا کچھ نہیں ہو گا ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکمرانوں کی نا اہلی اور بدترین حد تک کرپشن کے اب صرف قصے ہی عام نہیں عدالتیں ان پر فیصلے بھی دے چکی ہیں ۔ کچھ نا اہل ہو چکے، کچھ مفرور ہیں، اور باقی کا نامہ اعمال ایک ایک کر کے قوم کے سامنے آرہا ہے۔
منشور میں کہا گیا کہ اصلاحات کی سب سے زیادہ ضرورت ٹیکس وصولی کے نظام میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اس شعبے میں سب سے زیادہ اصلاحات کی ضرورت تھی تو آپ نے کیا اصلاحات کیں ؟ ایک مشکوک ایمنسٹی سکیم ؟ وہ بھی اس وقت جب اقتدار کی مدت ختم ہونے کو تھی ؟
منشور میں کہا گیاکہ حکومتوں کے منفی کردار کی وجہ سے لوگ ٹیکس نہیں دیتے کہ ان کی ٹیکس کی رقم حکمرانوں کی عیاشیوں کی نذر نہ ہو جائے اس لیے ہم عوام کا اعتماد بحال کریں گے ۔ یہ اعتماد یوں بحال ہوا کہ پھٹی آنکھوں سے لوگوں نے سنا کہ مفرور وزیر خزانہ کے اثاثوں میں 91 گنا اضافہ ہو گیا ۔ اب کیا لوگ اس لیے ٹیکس دیا کریں گے کہ حکمران خاندان عیاشیاں کرے اور آف شور کمپنیاں بنائے اور موج میلا کرے؟
منشور میں دعوی کیا گیا کہ منی لانڈرنگ کو روکیں گے ۔ نامہ اعمال یہ ہے کہ خود حکمران بد ترین منی لانڈرنگ کے کیسز بھگت رہے ہیں ۔ پورے ٹبر کے کیسز اس وقت نیب میں چل رہے ہیں اور نامہ اعمال کی روشنی میں حکمران خود بار بار فرما رہے ہیں معلوم نہیں اگلے دنوں میں کہاں ہوں ؟ اب صاحب مریخ پر تو جانے سے رہے جہاں جانے کا ڈر ہے وہ اڈیالہ جیل ہی ہو سکتی ہے۔
منشور میں قوم سے وعدہ کیا گیا کہ کالے دھن کو سفید بنانے کے تمام راستے بند کر دیے جائیں گے لیکن اقتدار میں آ کر واردات یہ ڈالی کہ ایمنسٹی سکیم کے ذریعے کالے دھن کو سفید کرانے کاچور دروازہ صدر مملکت کی مہربانیوں سے پارلیمان کو بائی پاس کر کے چوپٹ کھول دیا گیا کہ آئیے اپنا حرام کا مال لے آئیے اور اس کالے دھن کو سفید کرا لیجیے۔
منشور میں قوم کو بتایا گیا کہ زرداری حکومت بہت کرپٹ حکومت تھی اس نے ملک پر قرضوں کا بوجھ لاد دیا ۔ یہ بتانے کے بعد قوم سے وعدہ کیا گیا کہ اگر ہماری حکومت بن گئی تو ہم قرضوں کے بوجھ کو کم کر دیں گے۔ لیکن ہوا کیا ؟ جب حکومت ملی تو قرض لینے کے ریکارڈ قائم کر دیے۔ جتنا قرض پاکستان کی پوری تاریخ میں لیا گیا تھا قریب قریب اتناقرض انہوں نے صرف چار سالوں میں لے لیا ۔ پہلے چار سالوں میں 35 بلین کا انہوں نے مزید قرض حاصل کر کے شرمناک ریکارڈ قائم کر دیا۔
منشور میں کہا گیا دیہی علاقوں اور چھوٹے شہروں سے بڑے شہروں میں انتقال آبادی کو روکنے کے لیے نئے شہر بسائے جائیں گے۔ کوئی ایک ایسا شہر بھی بسایاگیا ہو تو بتائیے۔یہ بھی کہا گیا کہ 500 گھروں پر مشتمل ایک ہزار بستیاں آباد کی جائیں گی ۔ یوں پانچ لاکھ گھرانوں کو اپنا گھر مل جائے گا ۔ ایک بھی ایسا گھر بنایا گیا ہو تو بتائیے۔ ڈھٹائی کا البتہ یہ عالم ہے کہ نا اہل ہو کر صاحب لاہور پہنچے تو ایک بار پھر نیم خواندہ قوم سے یہی وعدہ فرما دیا کہ اس دفعہ مجھے ووٹ دینا میں تمہارے لیے گھر بنادوں گا۔ معلوم نہیں یہ چالاک بہت ہیں یا عوام کو انور مسعود کی ’’ بھولی مجھ‘‘ سمجھتے ہیں ۔
منشور میں فرمایا گیا کہ عام انتخابات کے چھ ماہ کے اندر اندر مقامی حکومتیں قائم کر دی جائیں گی ۔ حقیقت یہ ہے کہ مقامی حکومتوں کے الیکشن بھی سپریم کورٹ کو حکم دینا پڑا تب جا کر ہوئے ۔ اور جب ہوئے تو وہاں بھی یہ اہتمام کیا گیا کہ عوام کا کوئی نمائندہ مئیر نہ بن سکے چنانچہ اسلام آباد میں بھی ایک درباری کو میئر بنا کر لوگوں پر مسلط کر دیا گیا۔
منشور میں فرمایا گیا ہم سادگی اختیار کریں گے۔ ہم وی آئی پی کلچر ختم کر دیں گے اور ہم ایوان صدر ۔ گورنروں اور وزرائے اعلی کی رہائشگاہوں کے اخراجات میں کمی کر دیں گے ۔ یہ وعدہ یوں پورا کیا گیا کہ کئی گھروں کو وزیر اعلی کا کیمپ آفس بنا یا گیا تا کہ کسی بھی گھر میں خرچہ اپنی جیب سے نہ کرنا پڑے ۔ اپنی رہائش گاہ کی حفاظت کے لیے صرف ایک سال میں 364 ملین کی اضافی رقم ھکومت پنجاب سے لے لی گئی ۔یہ رقم اس رقم کے علاوہ تھی جو بجٹ میں محل شریف کے لیے رکھی گئی تھی۔ اس سے قبل وزیر اعلی کی سیکیورٹی کے لیے گاڑیاں لینے کے لیے 54 ملین خرچ ہوئے ۔ موصوف کی ہیلی کاپٹر کی کہانیاں الگ ہیں ۔ سادگی کی یوں مثال قائم کی گئی کہ گھر کے باہر سرکاری خرچ پر بیس چیک پوسٹیں قائم کی گئیں ، 100 ایل ای ڈی لگائی گئیں ، حفاظتی کیمرے نصب کیے گئے ۔ وی آئی پی کلچر کے خاتمے کے لیے ساڑھے چار کلومیٹر طویل حفاظتی دیوار قائم کروا لی گئی ۔ نواز شریف ، شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کی سیکیورٹی کے لیے 2751 پولیس اہلکار متعین کیے گئے۔
کہا گیا ہر ادارے میں صرف اور صرف میرت پر تقرری ہو گی ۔ اب کوئی جائے اور سپریم کورٹ میں وہ اس کیس کی سماعت سنے جس میں میرٹ شریف پر آنے والے حضرات کی ہم نصابی سرگرمیوں کے قصے بد بو دے رہے ہیں ۔ کہا اداروں میں سیاسی مداخلت نہیں ہو گی لیکن یہاں سینکڑوں اداروں کا نام نوازز شریف رکھ دیا گیا۔یونیورسٹی بچی نہ سکول ، کالج بچا نہ ہسپتال۔لیہ میں یونیورسٹی کیمپس کا نام ایم پی اے کے ابا حضور کے نام پر رکھ دیا گیا ۔ نا اہل اور کرپٹ بیوروکریٹس کی سرپرستی کی گئی اور ان کے کرتوت روز سپریم کورٹ میں بے نقاب ہو رہے ہیں۔
منشور میں فرمایا گیا زلزلہ متاثرین کو پی پی پی ھکومت نے بحال نہیں کیا ۔ان کی موزوں بحالی کا یہ کام اب ہم کریں گے۔ انہوں نے جو کام کیا وہ چیف جسٹس کے دورہ بالاکوٹ سے کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ تعلیمی ایمر جنسی، یکساں نصاب تعلیم ، یونیورسٹیوں میں میرٹ پر وی سی صاحبان کی تعیناتی ، پی آئی اے کی بحالی ، پینے کے صاف پانی کی فراہمی ، ہر ضلع میں مکمل تشخیصی سہولیات کے حامل ہسپتال کا قیام ، تعزیرات پاکستان پر نظر ثانی اور فرسودہ قوانین کے خاتمے، ہزارہ ، بہاولپور اور جنوبی پنجاب کے نام سے تین نئے صوبوں کے قیام، سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کے حق، پانچ سالوں میں تمام تھانوں کو مثالی تھانے بنانے سمیت کتنے ہی وعدے تھے۔کوئی ایک بھی پورا ہوا ہو تو بتائیے۔
نواز شریف کو خداکا شکر ادا کرنا چاہیے وہ ایک نیم خواندہ سماج میں پیدا ہوئے جہاں سوال نہیں اٹھایا جاتا ۔ وہ کسی مہذب اور تعلیم یافتہ سماج میں پیدا ہوئے ہوتے تو کیا ہوتا ؟
عمران خان کو اب البتہ فکر کرنی چاہیے۔ کہیں وہ بھی آخری تجزیے میں نواز شریف جیسے ہی نہ نکلیں ۔ ناکام منتظم اور نامعتبر حکمران ۔
جس کی بہترین حکمت عملی جھوٹ اور پروپیگنڈا رہی ہو۔
جو گیارہ نکات انہوں نے پیش کیے ان میں سے نصف سے زیادہ وہی وعدے ہیں جو گذشتہ انتخابات میں نواز شریف نے کیے تھے۔یکساں نظام تعلیم ، ہیلتھ انشورنس، سستے گھر، زرعی ایمر جنسی ، پینے کے پانی کی فراہمی ، جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانا اور قرض کا بوجھ کم کرنا ۔ یہ سب وہ وعدے ہیں جو گذشتہ الیکشن میں مسلم لیگ ن کے منشور کا حصہ تھے۔
دیکھنا اب یہ ہے کہ عمران کو اگر حکومت ملتی ہے تو ان کا نامہ اعمال نواز شریف سے کتنا مختلف ہوتا ہے۔ اقوال زریں تو نواز شریف نے بھی یہی سنائے تھے۔
مسلم لیگ نے میاں نواز شریف صاحب کے دستخطوں سے 2013 میں جو انتخابی منشور پیش کیا تھا اس میں کہا گیا تھا کہ ہماری اولین ترجیح معیشت کی بحالی ہو گی۔حقیقت یہ ہے کہ آج معیشت کا ستیا ناس ہو چکا ہے اور ان کا چہیتا وزیر خزانہ مفرور ہے ۔
اس منشور میں قوم سے کہا گیا کہ سابقہ حکومت بہت نا اہل ، بہت بری اور بد ترین حد تک کرپٹ تھی اب ہم آ گئے ہیں تو ایسا کچھ نہیں ہو گا ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکمرانوں کی نا اہلی اور بدترین حد تک کرپشن کے اب صرف قصے ہی عام نہیں عدالتیں ان پر فیصلے بھی دے چکی ہیں ۔ کچھ نا اہل ہو چکے، کچھ مفرور ہیں، اور باقی کا نامہ اعمال ایک ایک کر کے قوم کے سامنے آرہا ہے۔
منشور میں کہا گیا کہ اصلاحات کی سب سے زیادہ ضرورت ٹیکس وصولی کے نظام میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اس شعبے میں سب سے زیادہ اصلاحات کی ضرورت تھی تو آپ نے کیا اصلاحات کیں ؟ ایک مشکوک ایمنسٹی سکیم ؟ وہ بھی اس وقت جب اقتدار کی مدت ختم ہونے کو تھی ؟
منشور میں کہا گیاکہ حکومتوں کے منفی کردار کی وجہ سے لوگ ٹیکس نہیں دیتے کہ ان کی ٹیکس کی رقم حکمرانوں کی عیاشیوں کی نذر نہ ہو جائے اس لیے ہم عوام کا اعتماد بحال کریں گے ۔ یہ اعتماد یوں بحال ہوا کہ پھٹی آنکھوں سے لوگوں نے سنا کہ مفرور وزیر خزانہ کے اثاثوں میں 91 گنا اضافہ ہو گیا ۔ اب کیا لوگ اس لیے ٹیکس دیا کریں گے کہ حکمران خاندان عیاشیاں کرے اور آف شور کمپنیاں بنائے اور موج میلا کرے؟
منشور میں دعوی کیا گیا کہ منی لانڈرنگ کو روکیں گے ۔ نامہ اعمال یہ ہے کہ خود حکمران بد ترین منی لانڈرنگ کے کیسز بھگت رہے ہیں ۔ پورے ٹبر کے کیسز اس وقت نیب میں چل رہے ہیں اور نامہ اعمال کی روشنی میں حکمران خود بار بار فرما رہے ہیں معلوم نہیں اگلے دنوں میں کہاں ہوں ؟ اب صاحب مریخ پر تو جانے سے رہے جہاں جانے کا ڈر ہے وہ اڈیالہ جیل ہی ہو سکتی ہے۔
منشور میں قوم سے وعدہ کیا گیا کہ کالے دھن کو سفید بنانے کے تمام راستے بند کر دیے جائیں گے لیکن اقتدار میں آ کر واردات یہ ڈالی کہ ایمنسٹی سکیم کے ذریعے کالے دھن کو سفید کرانے کاچور دروازہ صدر مملکت کی مہربانیوں سے پارلیمان کو بائی پاس کر کے چوپٹ کھول دیا گیا کہ آئیے اپنا حرام کا مال لے آئیے اور اس کالے دھن کو سفید کرا لیجیے۔
منشور میں قوم کو بتایا گیا کہ زرداری حکومت بہت کرپٹ حکومت تھی اس نے ملک پر قرضوں کا بوجھ لاد دیا ۔ یہ بتانے کے بعد قوم سے وعدہ کیا گیا کہ اگر ہماری حکومت بن گئی تو ہم قرضوں کے بوجھ کو کم کر دیں گے۔ لیکن ہوا کیا ؟ جب حکومت ملی تو قرض لینے کے ریکارڈ قائم کر دیے۔ جتنا قرض پاکستان کی پوری تاریخ میں لیا گیا تھا قریب قریب اتناقرض انہوں نے صرف چار سالوں میں لے لیا ۔ پہلے چار سالوں میں 35 بلین کا انہوں نے مزید قرض حاصل کر کے شرمناک ریکارڈ قائم کر دیا۔
منشور میں کہا گیا دیہی علاقوں اور چھوٹے شہروں سے بڑے شہروں میں انتقال آبادی کو روکنے کے لیے نئے شہر بسائے جائیں گے۔ کوئی ایک ایسا شہر بھی بسایاگیا ہو تو بتائیے۔یہ بھی کہا گیا کہ 500 گھروں پر مشتمل ایک ہزار بستیاں آباد کی جائیں گی ۔ یوں پانچ لاکھ گھرانوں کو اپنا گھر مل جائے گا ۔ ایک بھی ایسا گھر بنایا گیا ہو تو بتائیے۔ ڈھٹائی کا البتہ یہ عالم ہے کہ نا اہل ہو کر صاحب لاہور پہنچے تو ایک بار پھر نیم خواندہ قوم سے یہی وعدہ فرما دیا کہ اس دفعہ مجھے ووٹ دینا میں تمہارے لیے گھر بنادوں گا۔ معلوم نہیں یہ چالاک بہت ہیں یا عوام کو انور مسعود کی ’’ بھولی مجھ‘‘ سمجھتے ہیں ۔
منشور میں فرمایا گیا کہ عام انتخابات کے چھ ماہ کے اندر اندر مقامی حکومتیں قائم کر دی جائیں گی ۔ حقیقت یہ ہے کہ مقامی حکومتوں کے الیکشن بھی سپریم کورٹ کو حکم دینا پڑا تب جا کر ہوئے ۔ اور جب ہوئے تو وہاں بھی یہ اہتمام کیا گیا کہ عوام کا کوئی نمائندہ مئیر نہ بن سکے چنانچہ اسلام آباد میں بھی ایک درباری کو میئر بنا کر لوگوں پر مسلط کر دیا گیا۔
منشور میں فرمایا گیا ہم سادگی اختیار کریں گے۔ ہم وی آئی پی کلچر ختم کر دیں گے اور ہم ایوان صدر ۔ گورنروں اور وزرائے اعلی کی رہائشگاہوں کے اخراجات میں کمی کر دیں گے ۔ یہ وعدہ یوں پورا کیا گیا کہ کئی گھروں کو وزیر اعلی کا کیمپ آفس بنا یا گیا تا کہ کسی بھی گھر میں خرچہ اپنی جیب سے نہ کرنا پڑے ۔ اپنی رہائش گاہ کی حفاظت کے لیے صرف ایک سال میں 364 ملین کی اضافی رقم ھکومت پنجاب سے لے لی گئی ۔یہ رقم اس رقم کے علاوہ تھی جو بجٹ میں محل شریف کے لیے رکھی گئی تھی۔ اس سے قبل وزیر اعلی کی سیکیورٹی کے لیے گاڑیاں لینے کے لیے 54 ملین خرچ ہوئے ۔ موصوف کی ہیلی کاپٹر کی کہانیاں الگ ہیں ۔ سادگی کی یوں مثال قائم کی گئی کہ گھر کے باہر سرکاری خرچ پر بیس چیک پوسٹیں قائم کی گئیں ، 100 ایل ای ڈی لگائی گئیں ، حفاظتی کیمرے نصب کیے گئے ۔ وی آئی پی کلچر کے خاتمے کے لیے ساڑھے چار کلومیٹر طویل حفاظتی دیوار قائم کروا لی گئی ۔ نواز شریف ، شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کی سیکیورٹی کے لیے 2751 پولیس اہلکار متعین کیے گئے۔
کہا گیا ہر ادارے میں صرف اور صرف میرت پر تقرری ہو گی ۔ اب کوئی جائے اور سپریم کورٹ میں وہ اس کیس کی سماعت سنے جس میں میرٹ شریف پر آنے والے حضرات کی ہم نصابی سرگرمیوں کے قصے بد بو دے رہے ہیں ۔ کہا اداروں میں سیاسی مداخلت نہیں ہو گی لیکن یہاں سینکڑوں اداروں کا نام نوازز شریف رکھ دیا گیا۔یونیورسٹی بچی نہ سکول ، کالج بچا نہ ہسپتال۔لیہ میں یونیورسٹی کیمپس کا نام ایم پی اے کے ابا حضور کے نام پر رکھ دیا گیا ۔ نا اہل اور کرپٹ بیوروکریٹس کی سرپرستی کی گئی اور ان کے کرتوت روز سپریم کورٹ میں بے نقاب ہو رہے ہیں۔
منشور میں فرمایا گیا زلزلہ متاثرین کو پی پی پی ھکومت نے بحال نہیں کیا ۔ان کی موزوں بحالی کا یہ کام اب ہم کریں گے۔ انہوں نے جو کام کیا وہ چیف جسٹس کے دورہ بالاکوٹ سے کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ تعلیمی ایمر جنسی، یکساں نصاب تعلیم ، یونیورسٹیوں میں میرٹ پر وی سی صاحبان کی تعیناتی ، پی آئی اے کی بحالی ، پینے کے صاف پانی کی فراہمی ، ہر ضلع میں مکمل تشخیصی سہولیات کے حامل ہسپتال کا قیام ، تعزیرات پاکستان پر نظر ثانی اور فرسودہ قوانین کے خاتمے، ہزارہ ، بہاولپور اور جنوبی پنجاب کے نام سے تین نئے صوبوں کے قیام، سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کے حق، پانچ سالوں میں تمام تھانوں کو مثالی تھانے بنانے سمیت کتنے ہی وعدے تھے۔کوئی ایک بھی پورا ہوا ہو تو بتائیے۔
نواز شریف کو خداکا شکر ادا کرنا چاہیے وہ ایک نیم خواندہ سماج میں پیدا ہوئے جہاں سوال نہیں اٹھایا جاتا ۔ وہ کسی مہذب اور تعلیم یافتہ سماج میں پیدا ہوئے ہوتے تو کیا ہوتا ؟
عمران خان کو اب البتہ فکر کرنی چاہیے۔ کہیں وہ بھی آخری تجزیے میں نواز شریف جیسے ہی نہ نکلیں ۔ ناکام منتظم اور نامعتبر حکمران ۔
جس کی بہترین حکمت عملی جھوٹ اور پروپیگنڈا رہی ہو۔
جو گیارہ نکات انہوں نے پیش کیے ان میں سے نصف سے زیادہ وہی وعدے ہیں جو گذشتہ انتخابات میں نواز شریف نے کیے تھے۔یکساں نظام تعلیم ، ہیلتھ انشورنس، سستے گھر، زرعی ایمر جنسی ، پینے کے پانی کی فراہمی ، جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانا اور قرض کا بوجھ کم کرنا ۔ یہ سب وہ وعدے ہیں جو گذشتہ الیکشن میں مسلم لیگ ن کے منشور کا حصہ تھے۔
دیکھنا اب یہ ہے کہ عمران کو اگر حکومت ملتی ہے تو ان کا نامہ اعمال نواز شریف سے کتنا مختلف ہوتا ہے۔ اقوال زریں تو نواز شریف نے بھی یہی سنائے تھے۔