بھیا یہی بات ہم بہت پہلے کر چکے ہیں جو آپ اب کر رہے ہیں اور اسی لیے کہہ رہے بار بار کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں۔ یہ نہ ہو آپ کا انجام بھی وہی نکلے جو ماضی کی حکومتوں کا نکلا۔ لیکن شاید آپ سمجھتے ہیں کہ آپ ان سے مختلف ہیں اور ایسا وقت نہیں آئے گا تو یہ آپ کی بھول ہے۔ تاریخ چیخ چیخ کے کہہ رہی ہے کہ مجھے مت دہراؤ لیکن اقتدار ایسی میٹھی شے ہے کہ اس کے نشے میں مست ہو کر تاریخ کی چیخیں سنائی نہیں دیتیں اور آنکھ اس وقت کھلتی ہے جب اس لذت سے باہر نکلتے ہیں مگر افسوس اس وقت پھر ماضی کی غلطیاں یاد آتی ہیں جو آج کل پیپلز پارٹی اور نواز شریف کو یاد آ رہی ہیں۔
بھائی آپ کی بات اصولا درست ہے۔ اور مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار بھی نہیں کہ موجود حکومت اسٹیبلشمنٹ کے کندھے پر چڑھ کر آئی ہے۔ البتہ ماضی کی حکومتوں کے برعکس اس حکومت کے سربراہ عمران خان کے اقتدار میں آنے کے مقاصد مختلف ہیں۔
فوج کو اب اس بات کا ادراک ہو چکا ہے کہ اس نے پچھلے دس سال سول حکومتوں کو کافی حد تک فری ہینڈ دے کر ملک کی معیشت کی بینڈ بجائی ہے۔
آئینی طور پر بھی دو سول حکومتیں اپنی مدت پوری کر چکی ہیں۔ فوج نے بھی مارشل لا نہیں لگایا۔ لیکن یہ ملک جس خراب معاشی و مالیاتی حالت میں فوج مخالف جمہوریے چھوڑ کر گئے وہ کسی سے ڈھکا چھپا بھی نہیں۔
اسی لئے عمران خان کو اقتدار کی چابیاں پکڑائی گئی ہیں کہ پچھلی حکومتوں کا گند صاف کرو۔ ہمارا بجٹ بحال کرو۔ ملک کی معیشت اور مالی حوالے سے ریفارم کرو۔ تاکہ دنیا کو پتا لگے کہ اس ملک کا کوئی والی وارث بھی ہے۔ وگرنہ پچھلی حکومتوں نے اسے دیوالیہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
اب بالفرض عمران خان اس مقصد میں ناکام بھی ہو جاتے ہیں تو ان کو یا ان کی جماعت کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ عمران خان کا مقصد حیات اقتدار سے چمڑے رہنا نہیں تھا۔ ان کو صرف ایک موقع چاہیے تھا جو فوج نے فراہم کر دیا۔ باقی کا سارا بوجھ اب ان کی 5 سالہ پرفارمنس پر ہے