نواز شریف کی واپسی ، عدالتی حکم اور سعودی حکومت

ساجد

محفلین
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں نواز شریف کو ایک بار پھر ملک بدر کر کے سعودی عرب کے شہر جدہ بھیج دیا گیا ہے۔ حکومتِ وقت کا مؤقف ہے کہ نواز شریف کی یہ ملک بدری اس معاہدے کے عین مطابق ہے جو انہوں نے سعودی حکومت کی ثالثی میں ،اب سے تقریبا 8 سال پہلے ، مشرف حکومت سے طے کیا ہے اور جس کی رُو سے وہ 10 سال کے لئیے پاکستان کی سیاست میں حصہ نہ لینے اور اور ان کے سمیت ان کے جلاوطن خاندان کا کوئی فرد پاکستان نہ آنے کا پابند ہے۔
اگرچہ اس معاہدے کی تفصیلات کبھی منظر عام پر نہیں لائی گئیں لیکن مشرف حکومت اکثر اس معاہدے کا ذکر کرتی رہی ہے۔ نواز شریف صاحب بھی لندن جانے سے قبل جتنا عرصہ سعودی عرب میں مقیم رہے اس معاہدے کے وجود یا عدم وجود اور پاکستان کی سیاسی صورت حال پر لب کشائی سے پہلو بچاتے رہے۔ مجھے خود تین مرتبہ ، مسجد نبوی میں ، میاں صاحب سے ملنے کا موقع ملا اور ان کو ہمیشہ سیاست سے متعلقہ پوچھے جانے والے سوالات کا رخ دوسرے موضوعات پر بدلتے پایا۔
10 ستمبر 2007 کو جب میاں صاحب نے اپنے اعلان کردہ پروگرام کے مطابق اسلام آباد ائر پورٹ پر قدم رکھا تو اس سے بہت دن پہلے سے ہی سعودی حکومت اور سعد الحریری ان کو پاکستان نہ جانے کا مشورہ دے چکے تھے۔ یہی وہ اہم نکتہ ہے جس کو سمجھنا ضروری ہے کہ سعودی حکومت کہ جو دوسرے ممالک کی سیاست اور پالیسیوں میں عدم مداخلت کا بہت اچھا ریکارڈ رکھتی ہے اور ہمیشہ سے پاکستان کی خیر خواہ رہی ہے اسے میاں صاحب کو پاکستان نہ جانے کا مشورہ دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور لبنان کے سعد الحریری جو ذاتی حیثیت میں بھی پرویز مشرف کے بہت اچھے دوست ہیں میاں صاحب کو کس بنیاد پر پاکستان جانے سے روکتے رہے؟ اور میاں صاحب جو لندن جانے کے بعد کسی بھی معاہدے کے وجود سے انکار کرتے رہے تھے ،اچانک ہی اپنا مؤقف بدلتے ہوئے معاہدے کے وجود کے اقراری کیسے ہو گئے ؟
ادھر پاکستان کی سپریم کورٹ نے جب ان کو پاکستان آنے کی اجازت دینے کا حکم جاری کیا ۔ساتھ ہی حکومتی مشینری میں آرڈیننسوں کی تیاری شروع ہوئی اور کچھ ایسا انتظام کرنے کی کوشش کی گئی کہ ان کو ڈرانے دھمکانے کا زیادہ سے زیادہ سامان کیا جائے۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ ان کو اسلام آباد ائر پورٹ پر ان کے خلاف قائم مقدمات اور الزامات کی فہرست دکھائی گئی اور ان پر عمل درآمد کے حکومتی ارادوں کا اظہار بھی کیا گیا۔
درون خانہ کیا ہوا ،حسب دستور پاکستانی عوام اور ذرائع ابلاغ کو اس سے بے خبر رکھا گیا۔ لیکن یہ خبر تو عام ہوئی کہ سعودی حکومت کے نمائندے بھی اس ملاقات میں موجود تھے کہ جب میاں صاحب کو واپس جدہ جانے کے لئیے کہا گیا۔ یہاں پھر وہی سوال ہمارے سامنے آتا ہے کہ سعودی حکومت جو پاکستان کی سیاست میں کبھی ٹانگ نہیں اڑاتی اس کے نمائندوں کو اس کام کے لئیے کیوں مدعو کیا گیا؟ اور ظاہر ہے کہ حکومت کی مرضی کے بغیر وہ اس ملاقات میں شرکت نہیں کر سکتے تھے۔ اور پھر چوہدری پرویز الہی کا کل کا بیان غور طلب ہے ۔ کہتے ہیں کہ اب میاں صاحب اپنی مرضی سے واپس نہیں آ سکیں گے کیوں کہ ان کا پاسپورٹ اب سعودی حکام کی تحویل میں رہے گا۔
کڑی سے کڑی ملاتے جائیے تو صورت حال کی پہلے سے زیادہ واضح تصویر ہمارے سامنے آتی ہے ۔ اس بات کو ماننے کے اب کافی سے زیادہ شواہد ہیں کہ میاں صاحب جس معاہدے کے وجود سے انکار کرتے رہے ہیں اس کا وجود ہے اور ابھی اس معاہدے کی مدت بھی باقی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی حکومت ثالث ہونے کے ناطے اپنی ذمہ داری کے عین مطابق میاں صاحب کو پاکستان نہ جانے کا مشورہ دیتی رہی۔ اور اگر پرویز الہی کے مذکورہ بیان کو ذہن میں رکھا جائے تو یہ بھی اسی خیال کو تقویت دیتا ہے۔
اب صورت حال کی پیچیدگی ملاحظہ فرمائیے کہ ایک طرف تو پاکستان کی عدالت عظمی ان کو پاکستان آنے کی اجازت دے چکی ہے اور اس فیصلے پر عمل کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ لیکن مشرف صاحب نے اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے وہی کیا جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ تنقید کی زد میں رہتے ہیں یعنی عقل کا استعمال کم سے کم۔
اور میاں صاحب کا مؤقف یہ ہے کہ جب عدالت مجھے اجازت دے چکی ہے تو حکومت مجھے گرفتار تو کر سکتی ہے لیکن ملک سے باہر زبردستی نہیں بھیج سکتی۔
تیسرا فریق ، یعنی سعودی حکومت اپنی ساکھ اور اصول کے ہاتھوں مجبور ہے کہ ایک ثالث ہونے کے ناطے معاہدے پر پورا پورا عمل کروائے۔ یاد رہے کہ سعودی حکومت پاکستانی عدالت عظمی کے فیصلے کی پابند نہیں ہے۔ اور اس معاملے میں ان پر الزام نہیں دیا جا سکتا۔ آج اس حکومت کا یہ فیصلہ اگرچہ ہم پاکستانیوں کو اپنی ہتک محسوس ہو رہا ہے لیکن انصاف سے سوچئیے تو یہ جزیرۃالعرب کے باسیوں کے تاریخی حوالے سے جانے والے ایفائے عہد کی ایک روشن مثال ہے۔
اس سارے قضیے میں سب سے طاقتور فریق یعنی حکومت پاکستان کی یہ ذمہ داری تھی کہ سپریم کورٹ کا حکم آنے کے بعد وہ عقل سے کام لیتی اور اپنی جگ ہنسائی کا سبب نہ بنتی۔ اگر حکومت ، سپریم کورٹ کے فیصلے کو دل سے مانتی تو سعودی حکومت سے نواز شریف کی واپسی کا خود سرکاری طور پر مطالبہ کرتی۔ نا کہ نواز شریف کو پھر سے جلا وطن کرنے کے لئیے ان سے مدد مانگتی۔ میاں صاحب کو گرفتار کر کے ان پر قائم مقدمات عدالت میں پیش کرتی۔ لیکن حکومت نے جس انداز سے قانون کی دھجیاں اڑائی ہیں وہ ہم سب کے لئیے لمحہ فکریہ ہے۔
اور پرویز الہی کے اس بیان پر سر پیٹنے کے سوا اور کیا کیا جا سکتا ہے کہ موصوف فرماتے ہیں میاں صاحب کو آپشن دیا گیا تھا کہ یا تو وہ سزا کے لئیے تیار ہو جائیں یا جلا وطنی قبول کر لیں۔ یعنی اب وطن عزیز میں یہ قانون ٹھہرا کہ آپ جیسا دل چاہے جرم کرو اور اگر سزا سے بچنا چاہتے ہو تو جلا وطن ہو جاؤ۔ اسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے ان لیڈروں کو پاکستان اور عوام کا کتنا غم ہے اور شاید اس "غم" کو مٹانے کے لئیے ہی یہ ملک و قوم کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں مشغول ہیں۔
کل کے واقعے کے بعد عوام کی نظریں ایک بار پھر سپریم کورٹ اور وکلاء کی طرف اٹھیں ہیں کہ حکومت کو شتر بے مہار بننے سے روکا جائے۔ اور عدالت کے فیصلوں پر عمل درآمد پر آمادہ کیا جائے۔​
 
یہاں پاکستان میں سعودی آمریت جب پریس کانفرنس کررہی تھی، تو ایک صحافی نے سوال میں سپریم کورٹ کے کیس کا حوالہ دیا۔۔۔ جس پر جواب ملا کہ معاہدہ پہلے ہوا تھا یا سپریم کورٹ کا فیصلہ پہلے آیا تھا؟
یعنی کہ جو چیز پہلے ہوتی ہے وہ مقدم ہوتی ہے۔۔۔۔۔ ایسا ہے تو پھر یہ ایک نیا ہی اصول وضع کیا ہے شہزادہ صاحب نے۔۔۔ آج تک تو یہی ہوتا ہے کہ بعد کا حکم، گذشتہ کو موخر یا منسوخ کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ (شریعت کا اور قانون کا دستور تو یہی ہے۔۔۔۔۔۔۔)
خدا جانے!
 

ساجد

محفلین
یہاں پاکستان میں سعودی آمریت جب پریس کانفرنس کررہی تھی، تو ایک صحافی نے سوال میں سپریم کورٹ کے کیس کا حوالہ دیا۔۔۔ جس پر جواب ملا کہ معاہدہ پہلے ہوا تھا یا سپریم کورٹ کا فیصلہ پہلے آیا تھا؟
یعنی کہ جو چیز پہلے ہوتی ہے وہ مقدم ہوتی ہے۔۔۔۔۔ ایسا ہے تو پھر یہ ایک نیا ہی اصول وضع کیا ہے شہزادہ صاحب نے۔۔۔ آج تک تو یہی ہوتا ہے کہ بعد کا حکم، گذشتہ کو موخر یا منسوخ کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ (شریعت کا اور قانون کا دستور تو یہی ہے۔۔۔۔۔۔۔)
خدا جانے!
چھوٹے بھائی ،
حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا اطلاق سعودی حکومت پر نہیں ہوتا۔ اور یہ معاہدہ بھی سپریم کورٹ کی وساطت سے نہیں ہوا تھا۔ اس لئیے ہمیں اس معاہدے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو ان کی الگ الگ حیثیت میں دیکھنا ہو گا۔ دُنیا کے کسی بھی ملک میں اگر تحویلِ مجرماں کا بھی معاملہ درپیش ہو تو اس کے لئیے متعلقہ ملک کی عدالت کے حکم کی کاپی مہیا کرانا پڑتی ہے اور حکومت کی حکومت سے بات ہوتی ہے۔ یہاں تو معاملہ اتنا سنگین بھی نہیں تھا لیکن نیت کی خرابی نے اسے خراب کر دیا۔
اور عمار بھائی ، شریعت کی بات الگ ہے۔ اب تو اس میں بھی ردو بدل کی گنجائش نہیں کہ کہ شارع اسلام نے اسے حتمی شکل میں اللہ کے احکامات کے مطابق ہم تک پہنچا دیا ہے۔
تبھی تو میں نے لکھا ہے کہ مشرف صاحب کو اگر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرنے میں دلچسپی ہوتی تو وہ سعودی حکومت سے جلا وطنی کے لئیے مدد مانگنے کی بجائے نواز شریف کی واپسی کے لئیے معاہدے کو ختم کرنے کے لئیے بات کرتے۔ اور یہ کام مشکل بھی نہ تھا کیوں کہ میاں صاحب تو پہلے ہی سے پاکستان آنے کے لئیے تیار تھے اور سعودی حکومت کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا اگر جنرل صاحب بھی ایک فریق ہونے کے ناطے ان سے معاہدہ ختم کرنے کو کہتے۔
جب ہم خود ہی اپنا گریبان دوسروں کے ہاتھ میں دے دیں تو پھر نتیجہ تو یہی نکلتا ہے نا جو ہمارے سامنے ہے۔ سعودیہ کے طرزِ حکومت اور سیاسی نظام کو اس میں گھسیٹنا زیادتی ہے
۔
 
ہاں نا بڑے بھائی! غلطی یہ ہے کہ ہم نے اپنے معاملات میں دوسروں کو زبردستی شامل کرلیا ہے۔۔۔۔۔۔۔!
پرویزی حکومت کا یہ انتہائی گرا ہوا اقدام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔! یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ ہم لوگوں کا سیاسی شعور کتنا بلند ہے اور حکومت سیاسی مقابلہ سے کتنا ڈرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ بہرحال! آمر پھر آمر ہوتا ہے۔
 

ساجد

محفلین
ہاں نا بڑے بھائی! غلطی یہ ہے کہ ہم نے اپنے معاملات میں دوسروں کو زبردستی شامل کرلیا ہے۔۔۔۔۔۔۔!
پرویزی حکومت کا یہ انتہائی گرا ہوا اقدام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔! یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ ہم لوگوں کا سیاسی شعور کتنا بلند ہے اور حکومت سیاسی مقابلہ سے کتنا ڈرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ بہرحال! آمر پھر آمر ہوتا ہے۔
ہاں ، عمار ،
آپ ٹھیک کہتے ہو ہم نے اپنی حرکتوں سے ہی اپنا توا لگا رکھا ہے پوری دنیا میں۔
بالکل ، آمریت سب سے برا سیاسی نظام ہے اور ہمیں مشرف کی من مانیوں سے اس کا تجربہ بھی ہو چکا ہے۔ لیکن اس نظام کو سہارا کس نے دے رکھا ہے؟ انہی نام نہاد جمہوری لیڈروں نے جن کے نزدیک ذاتی مفادات کا حصول کسی بھی قیمت پر روا ہے۔
اور اپنی سب سے بڑی جمہوریت کی علمبردار محترمہ بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لئیے مناسب وقت کے انتظار میں ہیں۔​
 

ساجداقبال

محفلین
سعودی عرب کا مداخلت نہ کرنا۔۔۔۔اس بات سے میں بالکل متفق نہیں۔ سعودی عرب لمبے عرصے سے پاکستانی کے اندرونی فیصلوں پر اثر انداز ہوتا رہا ہے۔۔۔۔اس کا ثبوت وہ انداز گفتگو ہے جو مقرن بن عبدالعزیز نے اپنایا۔ اس معاملے میں سعودی عرب نے اسی وقت مداخلت شروع کر دی تھی جب شجاعت عظیم کے زریعے سعودی عرب سے راوبط کے بعد نواز شریف کی جلاوطنی طے پائی۔ کیا وہ مداخلت نہیں تھی؟ کیا سعودی ارباب اختیار اتنے بیوقوف ہیں کہ وہ اپنے اس فیصلے کے مضمرات کا سوچے بغیر ایسا کریں؟
حقیقت یہ ہے کہ ہم ماضی میں سعودی حکومت کے چھوٹے بڑے احسانات کی قیمت چکا رہے ہیں اور مستقبل میں بھی ہم چکاتے رہینگے۔۔۔ شاہ فیصل کو چھوڑ کر سعودی عرب کے حکمران ہمیشہ خود غرض رہے ہیں۔
 

ساجد

محفلین
سعودی عرب کا مداخلت نہ کرنا۔۔۔۔اس بات سے میں بالکل متفق نہیں۔ سعودی عرب لمبے عرصے سے پاکستانی کے اندرونی فیصلوں پر اثر انداز ہوتا رہا ہے۔۔۔۔اس کا ثبوت وہ انداز گفتگو ہے جو مقرن بن عبدالعزیز نے اپنایا۔ اس معاملے میں سعودی عرب نے اسی وقت مداخلت شروع کر دی تھی جب شجاعت عظیم کے زریعے سعودی عرب سے راوبط کے بعد نواز شریف کی جلاوطنی طے پائی۔ کیا وہ مداخلت نہیں تھی؟ کیا سعودی ارباب اختیار اتنے بیوقوف ہیں کہ وہ اپنے اس فیصلے کے مضمرات کا سوچے بغیر ایسا کریں؟
حقیقت یہ ہے کہ ہم ماضی میں سعودی حکومت کے چھوٹے بڑے احسانات کی قیمت چکا رہے ہیں اور مستقبل میں بھی ہم چکاتے رہینگے۔۔۔ شاہ فیصل کو چھوڑ کر سعودی عرب کے حکمران ہمیشہ خود غرض رہے ہیں۔
ساجد اقبال ،
آپ بالکل درست فرما رہے ہیں۔ رونا تو اسی بات کا ہے کہ یہ مداخلت ہماری دعوتوں اور حد سے زیادہ جذباتیت کا نتیجہ ہے۔ ان نا اہل جرنیلوں اور "عوامی لیڈر" نے ان کو ثالث مانا تو تب ہی وہ ہمیں ہماری اوقات دکھانے پر قادر ہوئے۔ اور پھر میاں صاحب کی پاکستان آمد پر اگر مشرف ان کو پھر سے دعوتیں نہ بھیجتے تو وہ کیوں آتے؟
جو کچھ ہوامیں بھی ، آپ ہی کی طرح ، اس پر خوش نہیں لیکن حقیقت کو تسلیم کئیے بغیر چارہ بھی نہیں۔ اور اس پورے معاملے کے بعد ہماری آنکھیں کھل جانی چاہئیں کہ کیا ہم ایک زندہ اور آزاد قوم کہلائے جانے کے قابل ہیں؟​
 

ظفری

لائبریرین
ساجد صاحب آپ نے بہت ہی جاندار تجزیہ کیا ہے ۔ اور حقائق بھی کچھ اسی نوعیت کے ہیں کہ اس ساری کہانی کا مرکز ایک معاہدہ ہی تھا ۔ جو نواز شریف اور ایک سعودی اہم شخصیت کے مابین طے پایا ۔ اس ضمن میں اپنی طرف سے کچھ اضافے کی جسارت کروں گا ۔

پرویز مشرف کے شخصیت اس معاملے میں کتنی ہی متنازعہ کیوں نہ ہو مگر وہ بھی اس معاہدے کی تکون کا ایک حصہ ہیں ۔ نواز شریف سزا پاچکے تھے جب یہ سعودی شخصیت درمیان میں آئی اور پھر جنرل مشرف نے اس سعودی شخصیت کوضامن بنا کر اس شرط پر اس سزا میں ردوبدل کیا کہ نواز شریف پاکستان دس سال تک نہیں آئیں گے اور نہ ہی پاکستان کی سیاست میں کوئی کردار ادا کریں گے ۔ یہ شرط نواز شریف کے سامنے اس سعودی شخصیت کے حوالے سے رکھی گئی ۔ جسے نواز شریف نے بخوشی قبول کر لیا ۔ بات واضع ہے کہ سعودی شخصیت نے اس معاہدے میں ایک ضامن کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کیا ۔ اور نواز شریف نے بھی دس سال تک پاکستان نہ آنے اور پاکستان کی سیاست میں کوئی کردار ادا نہ کرنے کی اس شرط کو تسلیم کیا اور جنرل مشرف نے اس معاہدے میں اس بااثر سعودی شخصیت کو اس معاہدے کا ضامن مانتے ہوئے نواز شریف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دی ۔ بات ختم ہوگئی ۔

معاملہ جب بگڑا جب اس ملک میں مفاد پرستوں کے ٹولوں نے نواز شریف کو پاکستان دوبارہ آنے پر اکسایا کہ گذشتہ آٹھ سالوں‌ میں وہ حکومتی سرائے میں اپنی کوئی جگہ بنانے میں ناکام رہے تھے ۔ لہذا کچھ لوگ بینظیر کی طرف نکل گئے اور کچھ نواز شریف کی طرف اور مفاد پرستوں کا ایک ٹولہ پرویز مشرف کے دربار میں پہلے ہی سے موجود تھا ۔ لہذا ان مفاد پرستوں کو ٹولوں نے نواز شریف کو مجبور کیا کہ وہ اپنا کیا گیا معاہدہ نہ صرف توڑیں بلکہ پاکستان آکر ان کے لیئے لوٹ مار کا کوئی راستہ کھولیں ۔ لہذا اس کھنچاتانی میں نواز شریف اپنے معاہدے سے پھر گئے اور پاکستان آگئے ۔ مشرف جی نے اس سعودی شخصیت سے رابطہ کیا اور اس کو اس معاہدے میں اپنے ضامن ہونے کے کردار کو ادا کرنے کا کہا ۔ چنانچہ سعودی حکام اسلام آباد ائیر پورٹ پہنچے اور نواز شریف کو معاہدے کا تقدس رکھنے پر اصرار کیا ۔ نواز شریف کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ واپس جائیں یا پھر کوٹ لکھپت یا لانڈھی جیل ۔ سو انہوں نے سعودی جانے میں عافیت سمجھی ۔

سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا ہے وہ ایک شہری کے حقوق کو سامنے رکھ کر دیا ہے اگر اس معاہدے کو اخلاقی رو سے سپریم کورٹ بھی دیکھتی تو وہ بھی نواز شریف کو اس معاہدے کی پاسداری کا اخلاقی وقار قائم رکھنے کو کہتی ۔ لہذا ایسا کہنا کہ سعودی حکومت کا پاکستان کے معاملے میں مداخلت کرنا غلط ہے یہ بلکل منفی رویہ ہے ۔ کچھ تو ایسے عوامل رہیں ہونگے کہ سعودی حکومت کو اس معاملے میں پاکستان کے دو فریقوں میں سے کسی ایک نے تو اس معاملے میں مداخلت کا کہا ہوگا ۔ جس کے نتیجے میں یہ معاہدہ طے پایا ۔ مگر ایک بات طے ہے کہ سعودی حکومت اس واقعے کے بعد اب کبھی بھی اس طرح کے پاکستانی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی ۔ :)
 

ساجداقبال

محفلین
یم کورٹ نے جو فیصلہ دیا ہے وہ ایک شہری کے حقوق کو سامنے رکھ کر دیا ہے اگر اس معاہدے کو اخلاقی رو سے سپریم کورٹ بھی دیکھتی تو وہ بھی نواز شریف کو اس معاہدے کی پاسداری کا اخلاقی وقار قائم رکھنے کو کہتی ۔
سپریم کورٹ میں قانون اور آئین کے فیصلے ہوتے ہیں۔ آپ کی یہ بات تو کھلم کھلا نظریہ ضرورت کی طرفداری ہے۔ کیا پھر آپ وہ فیصلے بھی اخلاقی طور پر تسلیم کرینگے جو سرحد و پنچاب کی پنچائتوں میں ونی اور دوسری الا بلا کی صورت میں ہوتے ہیں۔ کیا سپریم کورٹ کو وہ فیصلے بھی ”اخلاقی“ طور پر تسلیم کر لینے چاہیے؟؟؟
 

ظفری

لائبریرین
آپ کی یہ بات تو کھلم کھلا نظریہ ضرورت کی طرفداری ہے۔


حسنِ اتفاق ہے کہ آج ہی میں نے نظریہ اور ریاست پر اپنی آخری پوسٹ کی ہے ۔ اور ایک لمبی تہمید کے بعد صرف ایک یہی لفظ " نظریہ ضرورت " پر اپنا نقطعہِ نظر پیش کیا ہے ۔ امید ہے آپ وہاں اپنی تائید و تنقید سے نوازیں گے ۔

اور دوسرے سوالوں کے جوابات انشاءاللہ پھر کسی وقت دینے کی کوشش کروں‌گا ۔ :)
 

Dilkash

محفلین
سعودی عرب نےدنیا کے سارے مسلمانوں کو اپنے نظریات کی لاٹھی سے ھانکا ہے۔۔افعانستان میں جتنے بھی مذھبی گروپوں اور فرقوں کی کی اپس میں لڑائیاں ہوتی ارہی ہیں ،اسی سعودی حکومت کی وجہ سے ہیں۔
بر صغیر اور وسطی اشیا میں زیادہ تر مسلمان حنفی سنی یا اھل تشہیہ طریقت کے پیروکار تھے۔ لیکن جب سے سعودی حکومت نے تیل کا پیسہ استعمال میں لانا شروع کیا ہے ۔
ہر جگہ فتنے ہی فتنے سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ (یاد رہے میں سلفیوں کا مخالف نہیں ہوں)

ھماری ہردور ِ حکومت کے سربراھان سعودی بادشاہوں کے گٹھنے چھو لیتے ہیں۔
اسکی آسان وجہ مفت کی تیل اور بے حساب ریالوں کی پیش کش ہیں۔

ہر سال پاکستان کی حکومت کو خفیہ طور پر اربوں ریال مفت دئیے جاتے ہیں۔
لھذا عقیدت زر میں پھر دخل در معقولات برداشت کرنا ہی پڑے گی۔

جب نواز شریف صاحب بے گناہ درون زندان کر دئے گئے تو انکے فرزند جن سے اس بندہء ناچیز کی بھی تھوڑی بہت جان پہچان ہے ھر جگہ ھر در پر پہنچ کر اپنے والد صاحب کی جان بچانے کی خاطرعام و خاص لوگوں کی( عرب سربراھان مملکت) منتیں کیں۔۔۔کیونکہ اس سے پہلے ذولفقار علی بھٹو صاحب کی مثال سامنے تھی۔لہذا جیسے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا چاہیے ۔اور انکو پتہ بھی تھا کہ عربوں کا اج کل پاکستانی حکومتوں پر کتنا اثر و رسوخ ہے ،دوسری اہم بات جب نواز شریف نے امریکی مخالفت کے باوجود ایٹمی دہماکہ کیا تھا تو ان ہی عرب سربراھان نے انکو ایسا کرنے کا کہا تھا اور انکو ہر مشکل میں ساتھ دینے کی یقین دھانی کروائی تھی۔کیونکہ نواز شریف کو معلوم تھا کہ ہماری فوج امریکی پٹھو ہے اور جنرل ضیا کی طرح بھٹو جیسا سلوک انکے ساتھ کیا جاسکتا ہے

لھذا جب حالات تقریباوہی سامنے آنا شروع ہوئے تو نواز شریف نے ان لوگوں کو درمیان میں انے کیلئے پکارا۔۔وہ لوگ ائے نواز شریف کی جان بخشی ہوئی۔۔۔۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ظالم اور مظلوم کون ہیں؟؟؟۔۔کیا ظالم کیساتھ جان بچانے کے لئے اگر کوئی معاہدہ ھوا بھی تو اسے ظالم کی گناہ کا کفارہ جان کر ظالم کی جیت اور بریت اور مظلوم کی بے بسی کو انکی سزا پرمحمول کیا جاسکتا ہے؟؟؟؟۔۔
ظالم ہر حال میں ظالم ہے جب تک ظلم کا ارتکاب کرتا ہے۔

نوازشریف ایک قیدی تھا اور قیدی کی معاہدے کی اھمیت کیا ہو سکتی ہے؟؟؟؟



ٍ
 

زینب

محفلین
آپ صیح کیہ رہے ہیں دل کش۔۔۔۔۔۔۔حکومت اور نوازشریف کے معاہدے کے بدلے سعودہ حکومت پاکستان کو سستا تیل فراہم کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔
 

زینب

محفلین
آپ حیران نا ہوں ظفری جی یہ بات معاہدے میں شامل تھی کہ سعودیہ پاکستان کو سستا تیل دے گا نواز شریف کو رہا کیا جائے تو۔۔۔۔۔۔۔۔
 

Dilkash

محفلین
آپ صیح کیہ رہے ہیں دل کش۔۔۔۔۔۔۔حکومت اور نوازشریف کے معاہدے کے بدلے سعودہ حکومت پاکستان کو سستا تیل فراہم کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔

میں اگر چہ ایک غریب ادمی ہوں ،لیکن ان (سیاستدانوں اور فوجیوں) لوگوں کے قریب رہتا ہوں۔۔بعض وقت ایسے سوال بھی پوچھتا ہوں کہ اچھی خاصی گرمی ہوجاتی ہے،،لیکن کیا کروں؟؟؟
کیونکہ میں۔۔۔۔۔۔
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند۔
 

Dilkash

محفلین
آپ حیران نا ہوں ظفری جی یہ بات معاہدے میں شامل تھی کہ سعودیہ پاکستان کو سستا تیل دے گا نواز شریف کو رہا کیا جائے تو۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سارے معاملات میں تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو۔۔

لوگوں کو کیا معلوم کہ ہمارے ہاں کس قسم کی سیاست کھیلی جاتی ہے؟؟؟
میں سمجھتا ہوں کہ سیاست کے نام پر ظلم اور بربریت کی ایک عفریت ہے۔۔جیسے کسی بھی نظام کا نام نہیں دیا جاسکتا۔

اصلی سیاسی لوگ اس ملک کے سربراہ کھبی بھی نہیں بن سکتے۔۔اپکے سامنے۔۔ٹوبہ ٹیک سنگھ ایم حمزہ ۔۔۔نواب زادہ نصراللہ خان، ولی خان، عبدالستار نیازی، اصغر خان کی مثالیں موجود ہیں۔۔
 

زینب

محفلین
ویسے تازہ خبر کے مطابق صدر کے 2 عہدوں سے مطلق جو درخواستیں سپریم کورٹ میں داخل ہیں ان کی سماعت کے لیےع 9 رکنی بینچ تشکیل پا چکا ہے۔۔۔۔اور سربرہ رانا بھگوان داس ہیں۔مازے کی بات اس بینچ میں چیف جسٹس صاحب نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔بھلا کیوں:confused:
 
Top