پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں نواز شریف کو ایک بار پھر ملک بدر کر کے سعودی عرب کے شہر جدہ بھیج دیا گیا ہے۔ حکومتِ وقت کا مؤقف ہے کہ نواز شریف کی یہ ملک بدری اس معاہدے کے عین مطابق ہے جو انہوں نے سعودی حکومت کی ثالثی میں ،اب سے تقریبا 8 سال پہلے ، مشرف حکومت سے طے کیا ہے اور جس کی رُو سے وہ 10 سال کے لئیے پاکستان کی سیاست میں حصہ نہ لینے اور اور ان کے سمیت ان کے جلاوطن خاندان کا کوئی فرد پاکستان نہ آنے کا پابند ہے۔
اگرچہ اس معاہدے کی تفصیلات کبھی منظر عام پر نہیں لائی گئیں لیکن مشرف حکومت اکثر اس معاہدے کا ذکر کرتی رہی ہے۔ نواز شریف صاحب بھی لندن جانے سے قبل جتنا عرصہ سعودی عرب میں مقیم رہے اس معاہدے کے وجود یا عدم وجود اور پاکستان کی سیاسی صورت حال پر لب کشائی سے پہلو بچاتے رہے۔ مجھے خود تین مرتبہ ، مسجد نبوی میں ، میاں صاحب سے ملنے کا موقع ملا اور ان کو ہمیشہ سیاست سے متعلقہ پوچھے جانے والے سوالات کا رخ دوسرے موضوعات پر بدلتے پایا۔
10 ستمبر 2007 کو جب میاں صاحب نے اپنے اعلان کردہ پروگرام کے مطابق اسلام آباد ائر پورٹ پر قدم رکھا تو اس سے بہت دن پہلے سے ہی سعودی حکومت اور سعد الحریری ان کو پاکستان نہ جانے کا مشورہ دے چکے تھے۔ یہی وہ اہم نکتہ ہے جس کو سمجھنا ضروری ہے کہ سعودی حکومت کہ جو دوسرے ممالک کی سیاست اور پالیسیوں میں عدم مداخلت کا بہت اچھا ریکارڈ رکھتی ہے اور ہمیشہ سے پاکستان کی خیر خواہ رہی ہے اسے میاں صاحب کو پاکستان نہ جانے کا مشورہ دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور لبنان کے سعد الحریری جو ذاتی حیثیت میں بھی پرویز مشرف کے بہت اچھے دوست ہیں میاں صاحب کو کس بنیاد پر پاکستان جانے سے روکتے رہے؟ اور میاں صاحب جو لندن جانے کے بعد کسی بھی معاہدے کے وجود سے انکار کرتے رہے تھے ،اچانک ہی اپنا مؤقف بدلتے ہوئے معاہدے کے وجود کے اقراری کیسے ہو گئے ؟
ادھر پاکستان کی سپریم کورٹ نے جب ان کو پاکستان آنے کی اجازت دینے کا حکم جاری کیا ۔ساتھ ہی حکومتی مشینری میں آرڈیننسوں کی تیاری شروع ہوئی اور کچھ ایسا انتظام کرنے کی کوشش کی گئی کہ ان کو ڈرانے دھمکانے کا زیادہ سے زیادہ سامان کیا جائے۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ ان کو اسلام آباد ائر پورٹ پر ان کے خلاف قائم مقدمات اور الزامات کی فہرست دکھائی گئی اور ان پر عمل درآمد کے حکومتی ارادوں کا اظہار بھی کیا گیا۔
درون خانہ کیا ہوا ،حسب دستور پاکستانی عوام اور ذرائع ابلاغ کو اس سے بے خبر رکھا گیا۔ لیکن یہ خبر تو عام ہوئی کہ سعودی حکومت کے نمائندے بھی اس ملاقات میں موجود تھے کہ جب میاں صاحب کو واپس جدہ جانے کے لئیے کہا گیا۔ یہاں پھر وہی سوال ہمارے سامنے آتا ہے کہ سعودی حکومت جو پاکستان کی سیاست میں کبھی ٹانگ نہیں اڑاتی اس کے نمائندوں کو اس کام کے لئیے کیوں مدعو کیا گیا؟ اور ظاہر ہے کہ حکومت کی مرضی کے بغیر وہ اس ملاقات میں شرکت نہیں کر سکتے تھے۔ اور پھر چوہدری پرویز الہی کا کل کا بیان غور طلب ہے ۔ کہتے ہیں کہ اب میاں صاحب اپنی مرضی سے واپس نہیں آ سکیں گے کیوں کہ ان کا پاسپورٹ اب سعودی حکام کی تحویل میں رہے گا۔
کڑی سے کڑی ملاتے جائیے تو صورت حال کی پہلے سے زیادہ واضح تصویر ہمارے سامنے آتی ہے ۔ اس بات کو ماننے کے اب کافی سے زیادہ شواہد ہیں کہ میاں صاحب جس معاہدے کے وجود سے انکار کرتے رہے ہیں اس کا وجود ہے اور ابھی اس معاہدے کی مدت بھی باقی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی حکومت ثالث ہونے کے ناطے اپنی ذمہ داری کے عین مطابق میاں صاحب کو پاکستان نہ جانے کا مشورہ دیتی رہی۔ اور اگر پرویز الہی کے مذکورہ بیان کو ذہن میں رکھا جائے تو یہ بھی اسی خیال کو تقویت دیتا ہے۔
اب صورت حال کی پیچیدگی ملاحظہ فرمائیے کہ ایک طرف تو پاکستان کی عدالت عظمی ان کو پاکستان آنے کی اجازت دے چکی ہے اور اس فیصلے پر عمل کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ لیکن مشرف صاحب نے اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے وہی کیا جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ تنقید کی زد میں رہتے ہیں یعنی عقل کا استعمال کم سے کم۔
اور میاں صاحب کا مؤقف یہ ہے کہ جب عدالت مجھے اجازت دے چکی ہے تو حکومت مجھے گرفتار تو کر سکتی ہے لیکن ملک سے باہر زبردستی نہیں بھیج سکتی۔
تیسرا فریق ، یعنی سعودی حکومت اپنی ساکھ اور اصول کے ہاتھوں مجبور ہے کہ ایک ثالث ہونے کے ناطے معاہدے پر پورا پورا عمل کروائے۔ یاد رہے کہ سعودی حکومت پاکستانی عدالت عظمی کے فیصلے کی پابند نہیں ہے۔ اور اس معاملے میں ان پر الزام نہیں دیا جا سکتا۔ آج اس حکومت کا یہ فیصلہ اگرچہ ہم پاکستانیوں کو اپنی ہتک محسوس ہو رہا ہے لیکن انصاف سے سوچئیے تو یہ جزیرۃالعرب کے باسیوں کے تاریخی حوالے سے جانے والے ایفائے عہد کی ایک روشن مثال ہے۔
اس سارے قضیے میں سب سے طاقتور فریق یعنی حکومت پاکستان کی یہ ذمہ داری تھی کہ سپریم کورٹ کا حکم آنے کے بعد وہ عقل سے کام لیتی اور اپنی جگ ہنسائی کا سبب نہ بنتی۔ اگر حکومت ، سپریم کورٹ کے فیصلے کو دل سے مانتی تو سعودی حکومت سے نواز شریف کی واپسی کا خود سرکاری طور پر مطالبہ کرتی۔ نا کہ نواز شریف کو پھر سے جلا وطن کرنے کے لئیے ان سے مدد مانگتی۔ میاں صاحب کو گرفتار کر کے ان پر قائم مقدمات عدالت میں پیش کرتی۔ لیکن حکومت نے جس انداز سے قانون کی دھجیاں اڑائی ہیں وہ ہم سب کے لئیے لمحہ فکریہ ہے۔
اور پرویز الہی کے اس بیان پر سر پیٹنے کے سوا اور کیا کیا جا سکتا ہے کہ موصوف فرماتے ہیں میاں صاحب کو آپشن دیا گیا تھا کہ یا تو وہ سزا کے لئیے تیار ہو جائیں یا جلا وطنی قبول کر لیں۔ یعنی اب وطن عزیز میں یہ قانون ٹھہرا کہ آپ جیسا دل چاہے جرم کرو اور اگر سزا سے بچنا چاہتے ہو تو جلا وطن ہو جاؤ۔ اسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے ان لیڈروں کو پاکستان اور عوام کا کتنا غم ہے اور شاید اس "غم" کو مٹانے کے لئیے ہی یہ ملک و قوم کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں مشغول ہیں۔
کل کے واقعے کے بعد عوام کی نظریں ایک بار پھر سپریم کورٹ اور وکلاء کی طرف اٹھیں ہیں کہ حکومت کو شتر بے مہار بننے سے روکا جائے۔ اور عدالت کے فیصلوں پر عمل درآمد پر آمادہ کیا جائے۔
اگرچہ اس معاہدے کی تفصیلات کبھی منظر عام پر نہیں لائی گئیں لیکن مشرف حکومت اکثر اس معاہدے کا ذکر کرتی رہی ہے۔ نواز شریف صاحب بھی لندن جانے سے قبل جتنا عرصہ سعودی عرب میں مقیم رہے اس معاہدے کے وجود یا عدم وجود اور پاکستان کی سیاسی صورت حال پر لب کشائی سے پہلو بچاتے رہے۔ مجھے خود تین مرتبہ ، مسجد نبوی میں ، میاں صاحب سے ملنے کا موقع ملا اور ان کو ہمیشہ سیاست سے متعلقہ پوچھے جانے والے سوالات کا رخ دوسرے موضوعات پر بدلتے پایا۔
10 ستمبر 2007 کو جب میاں صاحب نے اپنے اعلان کردہ پروگرام کے مطابق اسلام آباد ائر پورٹ پر قدم رکھا تو اس سے بہت دن پہلے سے ہی سعودی حکومت اور سعد الحریری ان کو پاکستان نہ جانے کا مشورہ دے چکے تھے۔ یہی وہ اہم نکتہ ہے جس کو سمجھنا ضروری ہے کہ سعودی حکومت کہ جو دوسرے ممالک کی سیاست اور پالیسیوں میں عدم مداخلت کا بہت اچھا ریکارڈ رکھتی ہے اور ہمیشہ سے پاکستان کی خیر خواہ رہی ہے اسے میاں صاحب کو پاکستان نہ جانے کا مشورہ دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور لبنان کے سعد الحریری جو ذاتی حیثیت میں بھی پرویز مشرف کے بہت اچھے دوست ہیں میاں صاحب کو کس بنیاد پر پاکستان جانے سے روکتے رہے؟ اور میاں صاحب جو لندن جانے کے بعد کسی بھی معاہدے کے وجود سے انکار کرتے رہے تھے ،اچانک ہی اپنا مؤقف بدلتے ہوئے معاہدے کے وجود کے اقراری کیسے ہو گئے ؟
ادھر پاکستان کی سپریم کورٹ نے جب ان کو پاکستان آنے کی اجازت دینے کا حکم جاری کیا ۔ساتھ ہی حکومتی مشینری میں آرڈیننسوں کی تیاری شروع ہوئی اور کچھ ایسا انتظام کرنے کی کوشش کی گئی کہ ان کو ڈرانے دھمکانے کا زیادہ سے زیادہ سامان کیا جائے۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ ان کو اسلام آباد ائر پورٹ پر ان کے خلاف قائم مقدمات اور الزامات کی فہرست دکھائی گئی اور ان پر عمل درآمد کے حکومتی ارادوں کا اظہار بھی کیا گیا۔
درون خانہ کیا ہوا ،حسب دستور پاکستانی عوام اور ذرائع ابلاغ کو اس سے بے خبر رکھا گیا۔ لیکن یہ خبر تو عام ہوئی کہ سعودی حکومت کے نمائندے بھی اس ملاقات میں موجود تھے کہ جب میاں صاحب کو واپس جدہ جانے کے لئیے کہا گیا۔ یہاں پھر وہی سوال ہمارے سامنے آتا ہے کہ سعودی حکومت جو پاکستان کی سیاست میں کبھی ٹانگ نہیں اڑاتی اس کے نمائندوں کو اس کام کے لئیے کیوں مدعو کیا گیا؟ اور ظاہر ہے کہ حکومت کی مرضی کے بغیر وہ اس ملاقات میں شرکت نہیں کر سکتے تھے۔ اور پھر چوہدری پرویز الہی کا کل کا بیان غور طلب ہے ۔ کہتے ہیں کہ اب میاں صاحب اپنی مرضی سے واپس نہیں آ سکیں گے کیوں کہ ان کا پاسپورٹ اب سعودی حکام کی تحویل میں رہے گا۔
کڑی سے کڑی ملاتے جائیے تو صورت حال کی پہلے سے زیادہ واضح تصویر ہمارے سامنے آتی ہے ۔ اس بات کو ماننے کے اب کافی سے زیادہ شواہد ہیں کہ میاں صاحب جس معاہدے کے وجود سے انکار کرتے رہے ہیں اس کا وجود ہے اور ابھی اس معاہدے کی مدت بھی باقی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی حکومت ثالث ہونے کے ناطے اپنی ذمہ داری کے عین مطابق میاں صاحب کو پاکستان نہ جانے کا مشورہ دیتی رہی۔ اور اگر پرویز الہی کے مذکورہ بیان کو ذہن میں رکھا جائے تو یہ بھی اسی خیال کو تقویت دیتا ہے۔
اب صورت حال کی پیچیدگی ملاحظہ فرمائیے کہ ایک طرف تو پاکستان کی عدالت عظمی ان کو پاکستان آنے کی اجازت دے چکی ہے اور اس فیصلے پر عمل کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ لیکن مشرف صاحب نے اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے وہی کیا جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ تنقید کی زد میں رہتے ہیں یعنی عقل کا استعمال کم سے کم۔
اور میاں صاحب کا مؤقف یہ ہے کہ جب عدالت مجھے اجازت دے چکی ہے تو حکومت مجھے گرفتار تو کر سکتی ہے لیکن ملک سے باہر زبردستی نہیں بھیج سکتی۔
تیسرا فریق ، یعنی سعودی حکومت اپنی ساکھ اور اصول کے ہاتھوں مجبور ہے کہ ایک ثالث ہونے کے ناطے معاہدے پر پورا پورا عمل کروائے۔ یاد رہے کہ سعودی حکومت پاکستانی عدالت عظمی کے فیصلے کی پابند نہیں ہے۔ اور اس معاملے میں ان پر الزام نہیں دیا جا سکتا۔ آج اس حکومت کا یہ فیصلہ اگرچہ ہم پاکستانیوں کو اپنی ہتک محسوس ہو رہا ہے لیکن انصاف سے سوچئیے تو یہ جزیرۃالعرب کے باسیوں کے تاریخی حوالے سے جانے والے ایفائے عہد کی ایک روشن مثال ہے۔
اس سارے قضیے میں سب سے طاقتور فریق یعنی حکومت پاکستان کی یہ ذمہ داری تھی کہ سپریم کورٹ کا حکم آنے کے بعد وہ عقل سے کام لیتی اور اپنی جگ ہنسائی کا سبب نہ بنتی۔ اگر حکومت ، سپریم کورٹ کے فیصلے کو دل سے مانتی تو سعودی حکومت سے نواز شریف کی واپسی کا خود سرکاری طور پر مطالبہ کرتی۔ نا کہ نواز شریف کو پھر سے جلا وطن کرنے کے لئیے ان سے مدد مانگتی۔ میاں صاحب کو گرفتار کر کے ان پر قائم مقدمات عدالت میں پیش کرتی۔ لیکن حکومت نے جس انداز سے قانون کی دھجیاں اڑائی ہیں وہ ہم سب کے لئیے لمحہ فکریہ ہے۔
اور پرویز الہی کے اس بیان پر سر پیٹنے کے سوا اور کیا کیا جا سکتا ہے کہ موصوف فرماتے ہیں میاں صاحب کو آپشن دیا گیا تھا کہ یا تو وہ سزا کے لئیے تیار ہو جائیں یا جلا وطنی قبول کر لیں۔ یعنی اب وطن عزیز میں یہ قانون ٹھہرا کہ آپ جیسا دل چاہے جرم کرو اور اگر سزا سے بچنا چاہتے ہو تو جلا وطن ہو جاؤ۔ اسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے ان لیڈروں کو پاکستان اور عوام کا کتنا غم ہے اور شاید اس "غم" کو مٹانے کے لئیے ہی یہ ملک و قوم کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں مشغول ہیں۔
کل کے واقعے کے بعد عوام کی نظریں ایک بار پھر سپریم کورٹ اور وکلاء کی طرف اٹھیں ہیں کہ حکومت کو شتر بے مہار بننے سے روکا جائے۔ اور عدالت کے فیصلوں پر عمل درآمد پر آمادہ کیا جائے۔