محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
نواز شریف کے خطاب پر سوشل میڈیا ردعمل: ’اے پی سی پیچھے رہ گئی، نواز شریف کی تقریر بہت آگے نکل گئی‘
20 ستمبر 2020
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
لندن میں زیرِ علاج پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اتوار کو حزب مخالف کی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس سے اپنی تقریر میں حکمراں جماعت تحریک انصاف اور ’انھیں لانے والوں‘ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ان کی تقریر سے قبل حکومتی نمائندوں کا موقف تھا کہ چونکہ سابق وزیراعظم ملک میں بدعنوانی کے کئی مقدمات میں مطلوب ہیں اور علاج کی غرض سے برطانیہ موجود ہیں اس لیے مقامی ذرائع ابلاغ کی جانب سے ان کی تقریر نشر کرنا غیر قانونی ہو گا۔ تاہم کئی چینلز اور سوشل میڈیا پر ان کی تقریر لائیو سٹریم کی گئی۔
پاکستان میں ماضی میں بھی الطاف حسین سمیت کئی سیاسی رہنماؤں کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی لگائی جا چکی ہے اور مریم نواز شریف کے جلسوں اور انٹرویوز کو بھی میڈیا پر نشر کرنے سے روکا جاتا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ٹی وی پر کون آئے گا، کیا پیمرا یہ فیصلہ کر سکتا ہے؟
اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں نواز شریف کے خطاب کا امکان
نواز شریف کی ٹوئٹر پر آمد: پہلا پیغام اور ردعمل
وزیراعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی روابط ڈاکٹر شہباز گل نے ایک ٹویٹ میں پاکستان کے ایک عدالتی فیصلے کے روشنی میں کہا کہ ’عدالت کے فیصلہ میں واضح ہے ایک مفرور مجرم نے اگر ویسے ہی حقوق استعمال کرنے ہیں جو کہ ایک آزاد، شریف شہری کے ہیں تو پھر اسے مفرور قرار کیا صرف فائلوں کی زینت بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’نواز شریف جیسے مجرم یہ حق نہیں رکھتے۔‘
،تصویر کا ذریعہTWITTER
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ایک کرپٹ، مصدقہ چور، مفرور اور جعلی بیمار کا خطاب ہو گا اور خود کو معزز پارلیمنٹیرین کہنے والے اس خطاب کو سنیں گے۔ کیا یہ پارلیمان کی اصل توہین نہیں؟‘
’صرف وہی لوگ سن سکتے ہیں ایک مجرم کا بھاشن جو خود بھی کرپٹ ہوں۔‘
شہباز گِل نے متنبہ کیا ہے کہ اگر نواز شریف نے اے پی سی سے خطاب کیا اور ان کا خطاب نشر ہوا تو پیمرا اور دیگر قانونی آپشن استعمال ہوں گے۔ ’سوشل میڈیا پر بھی مجرم، مجرم ہی رہتا ہے۔‘
جبکہ اس کے ردعمل میں مسلم لیگ ن کی رہنما مریم اورنگزیب نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’تین مرتبہ کے منتخب وزیر اعظم نواز شریف کو سلیکٹڈ کرپٹ ،نااہل نالائق چور حکومت کے مشوروں کی ضرورت نہیں۔میڈیا کو دھمکیاں عمران صاحب کی فسطائیت اور غنڈہ گردی کا ثبوت ہے۔ یہ ہے مغربی دنیا سے زیادہ میڈیا کی آزادی کا دعویٰ کرنے والے میڈیا کی آزادی کے چیمپین۔‘
،تصویر کا ذریعہ@MARRIYUM_A
سوشل میڈیا پر گردش کرتی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لندن میں کچھ صحافی نواز شریف سے اس خطاب سے متعلق سوال کر رہے ہیں۔
Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 1
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
نواز شریف نے خطاب میں کیا کہا؟
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اے پی سی کے دوران اپنے طویل خطاب میں کہا کہ ’عمران خان ہمارا ہدف نہیں ہے۔ ہمارا مقابلہ عمران خان سے نہیں ہے۔ ہماری جدوجہد عمران خان کو لانے والوں کے خلاف ہے اور ان کے خلاف ہے جنھوں نے نااہل بندے کو لا کر بٹھایا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ 'ملک میں ریاست کے اندر ریاست ہے (نہیں بلکہ) اب معاملہ ریاست سے بالاتر ریاست تک پہنچ گیا ہے۔'
'ملک میں جمہوریت کمزور ہو گئی ہے اور عوام کی حمایت سے کوئی جمہوری حکومت بن جائے تو کیسے ان کے خلاف سازش ہوتی ہے اور قومی سلامتی کے خلاف نشان دہی کرنے پر انھیں غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔'
’آئین کے مطابق جمہوری نظام کی بنیاد عوام کی رائے ہے، جب ووٹ کی عزت کو پامال کیا جاتا ہے تو جمہوری عمل بے معنی ہو جاتا ہے، انتخابی عمل سے قبل یہ طے کر لیا جاتا ہے کہ کس کو ہرانا کس کو جتانا ہے، کس کس طرح سے عوام کو دھوکا دیا جاتا ہے، مینڈیٹ چوری کیا جاتا ہے۔‘
نواز شریف کے خطاب پر سوشل میڈیا ردِعمل
ٹوئٹر اور فیس بک پر سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خطاب پر ملا جلا ردعمل آیا ہے۔
سعید کوثر کا کہنا تھا کہ یہ نواز شریف کا خطاب تھا یا چارج شیٹ۔ 'پاکستان کی تاریخ میں آج تک کسی وزیر اعظم نے ان تلخ حقائق سے ایسے پردہ نہیں اٹھایا۔
،تصویر کا ذریعہTWITTER
حامد میر نے لکھا کہ اے پی سی میں نواز شریف نے وہ باتیں کہہ ڈالیں 'جو صرف ڈرائنگ روموں، چوکوں اور چراہوں میں ہو رہی تھیں۔'
انھوں نے یہ بھی کہا کہ: ’اے پی سی پیچھے رہ گئی، نواز شریف کی تقریر بہت آگے نکل گئی۔
مسلم لیگ ن کے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی تقریر بچوں کو نصاب میں پڑھائے جانے لائق ہے تاکہ اس ملک کی تاریخ آئندہ کے لیے درست ہو سکے۔
،تصویر کا ذریعہTWITTER
عاصمہ شیرازی نے لکھا کہ ’نواز شریف کے خطاب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے بیانیے پر قائم ہیں۔ اب اپوزیشن اس بیانیے پر کس حد تک آگے بڑھے گی دیکھنا اہم ہو گا۔‘
وزیر اعظم کے مشیر شہزاد اکبر نے کہا کہ 'ابھی قوم نے قوانین کے برعکس ایک سزا یافتہ اشتہاری مجرم کا لائیو بھاشن سنا۔'
،تصویر کا ذریعہTWITTER
صحافی کامران خان کے مطابق ’نواز لیگ (اور) پی پی پی پنجاب، سندھ اسمبلی (اور) قومی اسمبلی سے استعفے دیں۔
’نواز شریف پہلی فلائٹ سے اسلام آباد کر حکومت کو گرا سکتے ہیں تو گرادیں۔‘
اظہر مشوانی نے لکھا کہ ’نواز شریف کی تقریر بھی شاید کیلبری فونٹ میں لکھی گئی ہے۔ عمران خان نے اپنے 40 سال کا سپریم کورٹ میں ناصرف حساب دیا بلکہ منی ٹریل بھی دیا۔ کوئی قطری خط نہیں لے کر آیا۔‘
علی زیدی نے لکھا کہ ’کمال کی بات تو یہ ہے کہ ابھی بھی پرچی پڑھ رہا ہے۔‘ دوسری طرف صحافی مشبر زیدی نے لکھا کہ ’نواز شریف نے جو آج کہا ہے وہ پاکستانی سیاست کی حقیقت ہے کاش یہی بات اگر وہ پاکستان میں موجود اپنی قیادت کو سمجھا دیں۔‘
،تصویر کا ذریعہTWITTER
ویسے تو نواز شریف کی تقریر نشر کرنے کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے احکامات جاری کیے گئے تھے تاہم پاکستان کے کئی چینلز پر یہ خطاب نہ صرف نشر کیا گیا بلکہ اس کے ٹیکرز بھی جاری کیے گئے۔
صارف ملائکہ رضا نے ایک تصویر شیئر کی جس میں تمام نیوز چینلز کو یہ خطاب نشر کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔
انھوں نے اس تصویر کے ساتھ لکھا: ’آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہTWITTER
کچھ چینلز پر کئی جگہ یہ خطاب سینسر بھی کیا گیا اور تقریر میوٹ کی گئی لیکن اس دوران بھی نواز شریف کو بولتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔
کیا نواز شریف کی تقریر نشر کرنا غیر قانونی؟
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کے مطابق پاکستان میں میڈیا کے نگران ادارے پیمرا کے ضابطہ کار کے تحت ’مفرور مجرم میڈیا سے خطاب نہیں کر سکتا۔‘
انھوں نے اس حوالے سے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو بھی ہدایت جاری کی ہے کہ اسے ’سوشل میڈیا پر سزا یافتہ مجرم کا خطاب روکنا چاہیے۔‘
،تصویر کا ذریعہPTV
پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کوڈ آف کنڈکٹ 2015 کی کسی بھی شق میں ایسے شخص جس کا مقدمہ کسی عدالت میں زیر سماعت ہو یا جس کو عدالت نے سزا دے دی ہو، سے متعلق خبر نشر کرنے، ان پر کسی پروگرام میں بحث کرنے کی ممانعت نہیں ہے یا کم از کم اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔
پیمرا آرٹیکل تین (ایک) کی شق 10 کے تحت عدلیہ یا مسلح افواج کے خلاف جھوٹی خبر یا ایسا مواد نشر کرنے سے منع کیا گیا ہے جبکہ آرٹیکل چار کی شق 4 کے تحت عدالت میں زیر سماعت معاملات پر معلوماتی بنیادوں پر تو خبر یا پروگرام چلائے جا سکتے ہیں تاہم اس بات کا خیال رکھا جائے کہ یہ کسی بھی طرح مقدمے کی سماعت یا عدالتی کارروائی پر اثر انداز نہ ہوں۔
ان دونوں شقوں میں کسی مجرم یا ملزم کا موقف دکھانے سے نہیں روکا گیا ہے تو کیا حکومت کا ایسا کوئی اقدام پاکستانی آئین کے آرٹیکل 19 یعنی آزادی اظہار کے بنیادی حق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں۔
پیمرا آرڈیننس 2002 کی شق 5 کے تحت وفاقی حکومت کو پیمرا کو صرف پالیسی معاملات پر ہدایت جاری کر سکتی ہے۔ اس شق کے مطابق 'وفاقی حکومت، جب اور جس طرح ضروری سمجھے، پالیسی معاملات پر پیمرا کو ہدایات جاری کر سکے گی، پیمرا ان ہدایات پر عمل درآمد کا پابند ہو گا۔ اگر یہ سوال پیدا ہو کہ آیا کوئی معاملہ پالیسی کا معاملہ ہے یا نہیں تو اس معاملے میں وفاقی حکومت کا فیصلہ قطعی ہو گا۔'
بی بی سی نے اس حوالے سے پیمرا سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم ان کے ترجمان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
نواز شریف کی تقریر نشر کرنے والوں کے خلاف کیا کارروائی ہوسکتی ہے؟
ماضی میں متعدد مواقع ایسے ہیں کہ جب پیمرا نے کسی سیاسی رہنما کی تقریر نشر کرنے پر چینل کے خلاف کارروائی کی ہو۔
جولائی 2019 میں پیمرا نے تین نجی ٹی وی چینلز، 24 نیوز، اب تک نیوز اور کیپیٹل ٹی وی کی نشریات بند کر دی تھیں۔ چینلز کی اس بندش کے بارے میں کوئی واضح صورتحال سامنے نہ آنے کی وجہ سے ان قیاس آرائیوں نے جنم لیا تھا کہ نشریات مبینہ طور پر پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کے جلسے کی کوریج پر بند کی گئیں۔
پیمرا نے مریم نواز کی پریس کانفرنس دکھانے پر اب تک ٹی وی سمیت 21 ٹی وی چینلز کو نوٹسز بھی جاری کیے تھے۔ اس نوٹس میں پیمرا نے موقف اختیار کیا تھا کہ مریم نواز کی عدلیہ اور ریاستی اداروں کے خلاف تقریر کے حصے دکھا کر ان چینلز نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے۔
یاد رہے کہ سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی تقاریر نشر کرنے پر لاہور کی ہائی کورٹ نے پابندی لگائی تھی دی ہے۔ 2014 میں الطاف حسین کی جانب سے ٹیلیفونک خطاب میں رینجرز پر تنقید کی گئی تھی جس کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں اُن کے خلاف 100 سے زیادہ مقدمات درج ہوئے تھے۔
20 ستمبر 2020
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
لندن میں زیرِ علاج پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اتوار کو حزب مخالف کی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس سے اپنی تقریر میں حکمراں جماعت تحریک انصاف اور ’انھیں لانے والوں‘ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ان کی تقریر سے قبل حکومتی نمائندوں کا موقف تھا کہ چونکہ سابق وزیراعظم ملک میں بدعنوانی کے کئی مقدمات میں مطلوب ہیں اور علاج کی غرض سے برطانیہ موجود ہیں اس لیے مقامی ذرائع ابلاغ کی جانب سے ان کی تقریر نشر کرنا غیر قانونی ہو گا۔ تاہم کئی چینلز اور سوشل میڈیا پر ان کی تقریر لائیو سٹریم کی گئی۔
پاکستان میں ماضی میں بھی الطاف حسین سمیت کئی سیاسی رہنماؤں کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی لگائی جا چکی ہے اور مریم نواز شریف کے جلسوں اور انٹرویوز کو بھی میڈیا پر نشر کرنے سے روکا جاتا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
ٹی وی پر کون آئے گا، کیا پیمرا یہ فیصلہ کر سکتا ہے؟
اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس میں نواز شریف کے خطاب کا امکان
نواز شریف کی ٹوئٹر پر آمد: پہلا پیغام اور ردعمل
وزیراعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی روابط ڈاکٹر شہباز گل نے ایک ٹویٹ میں پاکستان کے ایک عدالتی فیصلے کے روشنی میں کہا کہ ’عدالت کے فیصلہ میں واضح ہے ایک مفرور مجرم نے اگر ویسے ہی حقوق استعمال کرنے ہیں جو کہ ایک آزاد، شریف شہری کے ہیں تو پھر اسے مفرور قرار کیا صرف فائلوں کی زینت بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’نواز شریف جیسے مجرم یہ حق نہیں رکھتے۔‘
،تصویر کا ذریعہTWITTER
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ایک کرپٹ، مصدقہ چور، مفرور اور جعلی بیمار کا خطاب ہو گا اور خود کو معزز پارلیمنٹیرین کہنے والے اس خطاب کو سنیں گے۔ کیا یہ پارلیمان کی اصل توہین نہیں؟‘
’صرف وہی لوگ سن سکتے ہیں ایک مجرم کا بھاشن جو خود بھی کرپٹ ہوں۔‘
شہباز گِل نے متنبہ کیا ہے کہ اگر نواز شریف نے اے پی سی سے خطاب کیا اور ان کا خطاب نشر ہوا تو پیمرا اور دیگر قانونی آپشن استعمال ہوں گے۔ ’سوشل میڈیا پر بھی مجرم، مجرم ہی رہتا ہے۔‘
جبکہ اس کے ردعمل میں مسلم لیگ ن کی رہنما مریم اورنگزیب نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’تین مرتبہ کے منتخب وزیر اعظم نواز شریف کو سلیکٹڈ کرپٹ ،نااہل نالائق چور حکومت کے مشوروں کی ضرورت نہیں۔میڈیا کو دھمکیاں عمران صاحب کی فسطائیت اور غنڈہ گردی کا ثبوت ہے۔ یہ ہے مغربی دنیا سے زیادہ میڈیا کی آزادی کا دعویٰ کرنے والے میڈیا کی آزادی کے چیمپین۔‘
،تصویر کا ذریعہ@MARRIYUM_A
سوشل میڈیا پر گردش کرتی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لندن میں کچھ صحافی نواز شریف سے اس خطاب سے متعلق سوال کر رہے ہیں۔
Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 1
Twitter پوسٹ کا اختتام, 1
نواز شریف نے خطاب میں کیا کہا؟
سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اے پی سی کے دوران اپنے طویل خطاب میں کہا کہ ’عمران خان ہمارا ہدف نہیں ہے۔ ہمارا مقابلہ عمران خان سے نہیں ہے۔ ہماری جدوجہد عمران خان کو لانے والوں کے خلاف ہے اور ان کے خلاف ہے جنھوں نے نااہل بندے کو لا کر بٹھایا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ 'ملک میں ریاست کے اندر ریاست ہے (نہیں بلکہ) اب معاملہ ریاست سے بالاتر ریاست تک پہنچ گیا ہے۔'
'ملک میں جمہوریت کمزور ہو گئی ہے اور عوام کی حمایت سے کوئی جمہوری حکومت بن جائے تو کیسے ان کے خلاف سازش ہوتی ہے اور قومی سلامتی کے خلاف نشان دہی کرنے پر انھیں غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔'
’آئین کے مطابق جمہوری نظام کی بنیاد عوام کی رائے ہے، جب ووٹ کی عزت کو پامال کیا جاتا ہے تو جمہوری عمل بے معنی ہو جاتا ہے، انتخابی عمل سے قبل یہ طے کر لیا جاتا ہے کہ کس کو ہرانا کس کو جتانا ہے، کس کس طرح سے عوام کو دھوکا دیا جاتا ہے، مینڈیٹ چوری کیا جاتا ہے۔‘
نواز شریف کے خطاب پر سوشل میڈیا ردِعمل
ٹوئٹر اور فیس بک پر سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خطاب پر ملا جلا ردعمل آیا ہے۔
سعید کوثر کا کہنا تھا کہ یہ نواز شریف کا خطاب تھا یا چارج شیٹ۔ 'پاکستان کی تاریخ میں آج تک کسی وزیر اعظم نے ان تلخ حقائق سے ایسے پردہ نہیں اٹھایا۔
،تصویر کا ذریعہTWITTER
حامد میر نے لکھا کہ اے پی سی میں نواز شریف نے وہ باتیں کہہ ڈالیں 'جو صرف ڈرائنگ روموں، چوکوں اور چراہوں میں ہو رہی تھیں۔'
انھوں نے یہ بھی کہا کہ: ’اے پی سی پیچھے رہ گئی، نواز شریف کی تقریر بہت آگے نکل گئی۔
مسلم لیگ ن کے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی تقریر بچوں کو نصاب میں پڑھائے جانے لائق ہے تاکہ اس ملک کی تاریخ آئندہ کے لیے درست ہو سکے۔
،تصویر کا ذریعہTWITTER
عاصمہ شیرازی نے لکھا کہ ’نواز شریف کے خطاب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے بیانیے پر قائم ہیں۔ اب اپوزیشن اس بیانیے پر کس حد تک آگے بڑھے گی دیکھنا اہم ہو گا۔‘
وزیر اعظم کے مشیر شہزاد اکبر نے کہا کہ 'ابھی قوم نے قوانین کے برعکس ایک سزا یافتہ اشتہاری مجرم کا لائیو بھاشن سنا۔'
،تصویر کا ذریعہTWITTER
صحافی کامران خان کے مطابق ’نواز لیگ (اور) پی پی پی پنجاب، سندھ اسمبلی (اور) قومی اسمبلی سے استعفے دیں۔
’نواز شریف پہلی فلائٹ سے اسلام آباد کر حکومت کو گرا سکتے ہیں تو گرادیں۔‘
اظہر مشوانی نے لکھا کہ ’نواز شریف کی تقریر بھی شاید کیلبری فونٹ میں لکھی گئی ہے۔ عمران خان نے اپنے 40 سال کا سپریم کورٹ میں ناصرف حساب دیا بلکہ منی ٹریل بھی دیا۔ کوئی قطری خط نہیں لے کر آیا۔‘
علی زیدی نے لکھا کہ ’کمال کی بات تو یہ ہے کہ ابھی بھی پرچی پڑھ رہا ہے۔‘ دوسری طرف صحافی مشبر زیدی نے لکھا کہ ’نواز شریف نے جو آج کہا ہے وہ پاکستانی سیاست کی حقیقت ہے کاش یہی بات اگر وہ پاکستان میں موجود اپنی قیادت کو سمجھا دیں۔‘
،تصویر کا ذریعہTWITTER
ویسے تو نواز شریف کی تقریر نشر کرنے کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے احکامات جاری کیے گئے تھے تاہم پاکستان کے کئی چینلز پر یہ خطاب نہ صرف نشر کیا گیا بلکہ اس کے ٹیکرز بھی جاری کیے گئے۔
صارف ملائکہ رضا نے ایک تصویر شیئر کی جس میں تمام نیوز چینلز کو یہ خطاب نشر کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔
انھوں نے اس تصویر کے ساتھ لکھا: ’آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہTWITTER
کچھ چینلز پر کئی جگہ یہ خطاب سینسر بھی کیا گیا اور تقریر میوٹ کی گئی لیکن اس دوران بھی نواز شریف کو بولتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔
کیا نواز شریف کی تقریر نشر کرنا غیر قانونی؟
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کے مطابق پاکستان میں میڈیا کے نگران ادارے پیمرا کے ضابطہ کار کے تحت ’مفرور مجرم میڈیا سے خطاب نہیں کر سکتا۔‘
انھوں نے اس حوالے سے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو بھی ہدایت جاری کی ہے کہ اسے ’سوشل میڈیا پر سزا یافتہ مجرم کا خطاب روکنا چاہیے۔‘
،تصویر کا ذریعہPTV
پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کوڈ آف کنڈکٹ 2015 کی کسی بھی شق میں ایسے شخص جس کا مقدمہ کسی عدالت میں زیر سماعت ہو یا جس کو عدالت نے سزا دے دی ہو، سے متعلق خبر نشر کرنے، ان پر کسی پروگرام میں بحث کرنے کی ممانعت نہیں ہے یا کم از کم اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔
پیمرا آرٹیکل تین (ایک) کی شق 10 کے تحت عدلیہ یا مسلح افواج کے خلاف جھوٹی خبر یا ایسا مواد نشر کرنے سے منع کیا گیا ہے جبکہ آرٹیکل چار کی شق 4 کے تحت عدالت میں زیر سماعت معاملات پر معلوماتی بنیادوں پر تو خبر یا پروگرام چلائے جا سکتے ہیں تاہم اس بات کا خیال رکھا جائے کہ یہ کسی بھی طرح مقدمے کی سماعت یا عدالتی کارروائی پر اثر انداز نہ ہوں۔
ان دونوں شقوں میں کسی مجرم یا ملزم کا موقف دکھانے سے نہیں روکا گیا ہے تو کیا حکومت کا ایسا کوئی اقدام پاکستانی آئین کے آرٹیکل 19 یعنی آزادی اظہار کے بنیادی حق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں۔
پیمرا آرڈیننس 2002 کی شق 5 کے تحت وفاقی حکومت کو پیمرا کو صرف پالیسی معاملات پر ہدایت جاری کر سکتی ہے۔ اس شق کے مطابق 'وفاقی حکومت، جب اور جس طرح ضروری سمجھے، پالیسی معاملات پر پیمرا کو ہدایات جاری کر سکے گی، پیمرا ان ہدایات پر عمل درآمد کا پابند ہو گا۔ اگر یہ سوال پیدا ہو کہ آیا کوئی معاملہ پالیسی کا معاملہ ہے یا نہیں تو اس معاملے میں وفاقی حکومت کا فیصلہ قطعی ہو گا۔'
بی بی سی نے اس حوالے سے پیمرا سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم ان کے ترجمان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
نواز شریف کی تقریر نشر کرنے والوں کے خلاف کیا کارروائی ہوسکتی ہے؟
ماضی میں متعدد مواقع ایسے ہیں کہ جب پیمرا نے کسی سیاسی رہنما کی تقریر نشر کرنے پر چینل کے خلاف کارروائی کی ہو۔
جولائی 2019 میں پیمرا نے تین نجی ٹی وی چینلز، 24 نیوز، اب تک نیوز اور کیپیٹل ٹی وی کی نشریات بند کر دی تھیں۔ چینلز کی اس بندش کے بارے میں کوئی واضح صورتحال سامنے نہ آنے کی وجہ سے ان قیاس آرائیوں نے جنم لیا تھا کہ نشریات مبینہ طور پر پاکستان مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کے جلسے کی کوریج پر بند کی گئیں۔
پیمرا نے مریم نواز کی پریس کانفرنس دکھانے پر اب تک ٹی وی سمیت 21 ٹی وی چینلز کو نوٹسز بھی جاری کیے تھے۔ اس نوٹس میں پیمرا نے موقف اختیار کیا تھا کہ مریم نواز کی عدلیہ اور ریاستی اداروں کے خلاف تقریر کے حصے دکھا کر ان چینلز نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے۔
یاد رہے کہ سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی تقاریر نشر کرنے پر لاہور کی ہائی کورٹ نے پابندی لگائی تھی دی ہے۔ 2014 میں الطاف حسین کی جانب سے ٹیلیفونک خطاب میں رینجرز پر تنقید کی گئی تھی جس کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں اُن کے خلاف 100 سے زیادہ مقدمات درج ہوئے تھے۔