جی بالکل۔ آئندہ انتخابات پاکستان کی تاریخ کے اہم ترین انتخابات ہوں گے۔ بس اللہ خیر ہی کرے!زرداری نے اپنے پتے کھیل لئے
نواز لیگ نے ابھی بہت سے پتے کھیلنے ہیں
وہ کہتے ہیں نا کہ '' سو سنار کی اور ایک لوہار کی ''
اس آنے والے الیکشن میں (جو کہ ابھی لیٹ ہیں،کیونکہ نگران سیٹ اپ کچھ دیر تک چلے گا) نواز لیگ اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دے گی
صد فی صد متفق! بہت ہی خوب تجزیہ کیا ہے پاکستانی سیاست اور اس سے وابستہ افراد پر۔ہمارے ہاں نہ تو نظریاتی سیاسی تنظیمیں ہیں نہ ہی نظریاتی سیاست۔
اگر کوئی نظریہ ہے تو وہ ہے نظریہ ضرورتِ ذاتی مفاد۔
جانے کب تک یہ لوٹے ادھر سے اُدھر اور اُدھر سے ادھر آتے رہیں گے۔
جادید ہاشمی جیسے نظریاتی لیڈر نے جب تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کی تو انہوں نے ایک بار بھی نہیں کہا کہ اُنہیں تحریکِ انصاف کے نظریات سے اتفاق ہے۔ انہوں نے گر کہا تو بس اتنا کہ اُنہیں ن لیگ میں اہمیت نہیں دی گئی۔ پھر باقی لوگوں سے آپ کیا اُمید رکھ سکتے ہیں۔
بس ان سب پارٹیوں کو اقتدار کی ہوس ہے اور ان میں سے کوئی بھی حکومت کو "ذمہ داری" نہیں سمجھتا۔ شاید اسی لئے ہر پارٹی اقتدار کی طرف ہی نظریں لگائے بیٹھی ہے۔
سچی بات تو یہی ہے کہ پاکستان میں حکومت "ذمہ داری" نہیں ہے بلکہ "عیاشی" کا ذریعہ ہے۔
بالکل صحیح کہا آپ نے۔ ہمارے ہاں نظامِ حکمرانی کے بگاڑ کی ایک بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ یہاں لوگ کسی نظریے کو نہیں بلکہ ذاتی مفاد کو اہمیت دیتے ہیں اور اسی کے تحت یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ انہوں نے کب کس سیاسی جماعت کی حمایت کرنی ہے۔ جرنیلوں نے جب بھی اقتدار پر قابض ہونے کے لئے جمہوریت پر شب خون مارا انہیں سیاسی جماعتوں میں سے ہی ایسے سیاسی بچے جمورے وافر تعداد میں مل گئے جنہیں وزارتوں کی ڈُگڈُگی دکھا کر نچایا جاسکتا تھا۔پچھلے دنوں جب نواز لیگ کے بہت سے کارکن پارٹی چھوڑ کر جا رہے تھے تب نواز لیگ نے وقت آنے پر اپنے کارڈز دکھانے کی بات کی تھی۔ اور وہ یہی تھا۔ ویسے یہ ہمارا ملک ہی ہے جہاں اتنی آسانی سے پارٹی بدلی بھی جا سکتی ہے اور نئی جگہ جا کر اچھی خاصی حیثیت بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ وجہ یہ کہ سیاست ہمارے یہاں 'سروس' نہیں بلکہ 'پیشہ' ہے اسی لئے ذاتی مفاد اکلوتی ترجیح ہوتی ہے۔
ایک صاحب جن کو سونامی خان بھی کہا جاتا ہے، انہوں نے بھی اپنی پارٹی میں دوسری پارٹیوں سے "موتی" چنے اور ہر بار یہی فرماتے رہے کہ ہم نے فلاں پارٹی کی وکٹ گرا دی ۔۔۔ جب اُن کا یہ حال ہے تو پھر ن لیگیوں کو کون پوچھے!
سونامی خان نے ٹکٹ تو نہیں بانٹے۔۔ نہ ہی اس طرح بانٹے گا۔
یہاں تبدیلی کا نعرہ لگانے والا ہر شخص ایسے ہی کرتا ہے۔ 67ء میں پیپلز پارٹی بھی تبدیلی کے نعرے کے ساتھ ہی وجود میں آئی تھی اور 46 برس میں جو تبدیلی وہ لائی ہے وہ آپ کے اور ہمارے سامنے ہے۔ ہمارے ہاں غیرسیاسی اس طرح سے قابض ہیں پورے سیاسی منظرنامے پر کہ ان کی مرضی کے بغیر کسی بھی سیاسی جماعت کا کچھ کر پانا ممکن ہی نہیں اور ہمارے ہاں آج تک کوئی ایک بھی سیاستدان اتنے بڑے قد کاٹھ کا پیدا ہی نہیں ہوپایا جو ان عناصر کی مدد اور اعانت کے بغیر کچھ کرنے کے قابل ہوسکے یا ان عناصر کو بےنقاب کرنے کی جرات کرسکے۔ٹکٹ تو ابھی رسمی طور پر کسی نے بھی نہیں بانٹے ۔۔۔ سونامی میاں کیا شاہ محمود قریشی اور مخدوم جاوید ہاشمی کو ٹکٹ نہیں دیں گے؟ تیس اکتوبر 2011ء کو عوام نے جس فرد کو تبدیلی کی علامت کے طور پر شناخت کیا تھا، وہ بھی روایتی سیاست کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر رہ گیا ہے ۔۔۔