تاسف نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کی سترہویں برسی

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

حسان خان

لائبریرین
آج بروز ۲۱ نومبر پاکستان کی پاک سرزمین سے ابھرنے والے واحد نوبل انعام یافتہ شخص ڈاکٹر عبدالسلام کی سترہویں برسی ہے۔

اپنے ملک اور اپنی قوم سے محبت کرنے والے ہر شخص کو عہد کرنا چاہیے کہ وہ پاکستان میں عصری تعلیم کو عام کرنے کی کوشش کرے گا تاکہ ہمارے ملک میں ایسے کئی اہلِ علم پرورش پائیں جو دنیا بھر میں پاکستان کی نمائندگی کریں اور ہم اقوامِ عالم کی صف میں بطور ایک متمدن، مہذب اور تعلیم یافتہ قوم کے اپنا سر فخر سے اونچا کر سکیں۔۔۔ #پاکستان‌زندہ‌باد

Dr._Abdus_Salam_Scientists_of_Pakistan.jpg
 

رانا

محفلین
جزاک اللہ حسان بھائی۔
اس موقعے پر آپ نے ملک و قوم سے محبت کرنے والے ہر شخص کو جو پیغام دیا ہے کہ وطن عزیز میں عصری تعلیم کے لئے ہر ممکن کوشش کرنے کا تہیہ کرلیں یہی ہمارا آج سب سے بڑا مقصد ہونا چاہئے کہ اس کے بغیر ہم اقوام عالم میں اپنا مقام حاصل نہیں کرسکتے۔ اس دن کے حوالے سے اور آپ کے اس پیغام کے حوالے سے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے ایک لیکچر سے کچھ اقتباسات یہاں شیئر کررہا ہوں۔ یہ لیکچر ڈاکٹر صاحب نے 11 جنوری 1961 کو ڈھاکہ میں آل پاکستان سائنس کانفرنس کے تیرھویں سالانہ اجلاس کے موقعہ پر دیا، ان کے اس لیکچر کا موضوع تھا ’’ٹیکنالوجی اور پاکستان پر غربت کا حملہ۔‘‘ اس میں سے چند پیراگراف یہاں شئیر کررہا ہوں۔

ڈاکٹر عبدالسلام نے اپنی تقریر میں کہا:
’’اب سے تین سو پچاس سال قبل اکبر کے ہندوستان، شاہ عباس کے ایران اور انگلینڈ کی ملکہ الزبتھ اول کے ادوار میں اگر معیار زندگی کا موازنہ کریں تو اس میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا۔ پھر جلد ہی یورپ میں زراعت اور صنعت میں ترقی شروع ہوگئی جس سے خوشحالی پیدا ہوئی۔ یہ سائنسی علم پر دسترس کا نتیجہ تھا۔‘‘

’’اقتصادی افزائش کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے ہنر مندی اور سرمایہ کی فراہمی دو بنیادی شرائط ہیں۔ پچھلی دو صدیوں میں دوسری اقوام نے انہیں سے کامیابیاں حاصل کرتے ہوئے اپنے تجربوں کے مخصوص نقوش چھوڑے ہیں۔ ان میں سے برطانیہ، جاپان، روس اور چین میں تجربات ہوئے جن کی وجہ سے بڑی واضح ترقی نظر آتی ہے۔ برطانیہ پہلا ملک تھا، جس نے یہ ثابت کیا کہ اگر ہنرمندی اور سرمایہ موجود ہوں تو غربت کی فصیلوں کو توڑا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد جاپانیوں نے ثابت کیا کہ ٹیکنالوجی کی ترسیل وحصول ممکن ہے اور اسے سیکھنا اور حاصل کرنا مشکل نہیں۔ جاپانیوں کے تجربے نے یہ بھی ثابت کردیا کہ ٹیکنالوجی استعداد کوئی موروثی خصوصیت نہیں۔ جو قوم چاہے اسے نہایت تیزی سے حاصل کرسکتی ہے۔ تیسرا اہم سبق روس نے سکھایا۔ اس نے یہ ثابت کیا کہ ترقی کی افزائش کو استوار کرنے کے لئے ایک صدی یا اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ دور کا ایسا منظر ہے جو ایک آدمی کی زندگی میں دوربینی نگاہ سے دیکھا جاسکتا ہے، بشرطیکہ بھاری صنعت کو فوقیت دی جائے اور پھر سب سے آخر میں چین کا تجربہ ہے کہ سستی مزدوری خود اپنے طور پر ایک سرمایہ ہے۔‘‘

اپنے خطاب میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ان کی خوشحالی معاشرتی تنظیم کی بدولت ہے، جہاں سائنسی علوم کوقومی پیداوار میں اضافے کے لئے بھرپور استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ خوشحالی اس امید کا شگون ہے۔ اس امید کا کہ ہم اس قسم کے طریقہ کو استعمال کرکے پاکستان میں بھی ایسی خوشحالی اور خود کفالت لاسکتے ہیں۔‘‘

’’اس مختصر خلاصہ کے بعد آئیے اب پاکستان کی صورت حال میں حقیقتوں کا مطالعہ کریں۔ ہماری غربت کے حقائق خاصے واضح ہیں۔ لہٰذا میں ان کو بیان کرنے میں الفاظ ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ آپ کسی گلی محلے میں نکل جائیں۔ آپ اسے اپنے اردگرد پھیلا ہوا دیکھیں گے۔ میرا اشارہ ان نظر آنے والے بے گھر لوگوں اور ضرورت مندوں کی طرف نہیں ہے۔ میرے ذہن میں اس وقت کروڑوں لوگ ہیں جو اپنی دبی ہوئی بھوک کا گلہ بھی نہیں کرتے۔ وہ کروڑوں لوگ جن کے سامنے یہ سوال کئی بار اٹھتا ہے کہ وہ ایک وقت کا کھانا کھالیں یا اپنے بچے کے لئے کتاب خرید لیں۔ ہماری غربت سے نہ صرف مادی بلکہ روحانی مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ حضرت رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے: ’’مفلسی کفر کے مترادف ہے۔‘‘
’’مجھے اجازت دیجئے کہ پورے جوش و خروش کے ساتھ کہوں کہ حضرت نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان پاکستان کی ہر مذہبی درس گاہ کے دروازہ پر روشن حروف میں لکھ دیا جائے۔ کفر کو پرکھنے کے اور بھی بہت سے پیمانے ہوں گے لیکن اس صدی میں میرے ناچیز خیال میں کفر کا معیاری پیمانہ غربت کو بغیر قومی سطح پر جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کسی کوشش کے خاموشی سے سہتے چلے جانا ہے۔‘‘

’’ اب جب ہم 1961ء میں اپنی پچھلی ترقی کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات آئینہ ہوجاتی ہے کہ ہم اتنے عرصہ سے اپنے درمیان غربت و افلاس کو بڑی خاموشی سے برداشت کرتے چلے آرہے ہیں اور بقول شخصے ’وہ شخص جو جہالت اور غریبی سے نباہ کرتا ہے وہ ان تمام جرائم اور خرابیوں کا ذمہ دار ہوتا ہے جو جہالت کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے روشنی کے مینار کی تمام روشنیوں کو بجھا دینے والا شخص جہازوں کے حادثوں اور تباہی کا ذمہ دار ہوتا ہے۔‘‘

’’سب سے پہلی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ قوم کے دل میں یہ آگ بھڑکا دی جائے کہ وہ ایک نسل کے اندر غربت کے خاتمے کے لئے دن رات کوشش کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم ایک لمحے کے لئے بھی اپنے اقتصادی مقاصد سے غافل نہ ہوں۔ خاص طور پر ہمیں پوری قوم کو اس بات کا قائل کرنا ہوگا کہ اس اقتصادی حکمت عملی سے پورے معاشرے کے اقتصادی حالات بہتر ہوجائیں گے اور یہ سب کچھ محض کسی ایک طبقے کے لئے نہیں ہے۔‘‘

’’ہمیں اس معاملہ میں بالکل واضح ہونا چاہئے اور ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہم کونسا انقلاب لانا چاہتے ہیں۔ یہ تکنیکی اور سائنسی انقلاب ہے، لہٰذا اس کے لئے لازم ہے کہ سب سے زیادہ فوقیت قوم کے سائنس اور ٹیکنالوجی ہنرمندی کو ترقی دینے کے لئے ہونی چاہئے اور ہم سائنسدانوں کو غربت کا مقابلہ کرنا چاہئے اور اس چیلنج کو قبول کرنا چاہئے جو غربت نے ہمیں دیا ہے۔ مستقبل کے مورخ کو یہ چرچا کرنے کا موقع دیجئے کہ قومی خوشحالی اور اقتصادی ترقی کے میدان میں روسیوں اور چینیوں کی مانند تیزی سے آگے بڑھنے کا پانچواں سبق پاکستان نے سکھایا اور اس طرح کہ ان دوملکوں کے برعکس پاکستان میں نہ انسانوں کو ٹارچر کیا گیا اور نہ ان کی جانیں لی گئیں۔ مجھے قرآن کریم سے اقتباس کی اجازت دیجئے۔‘‘
’’ اللہ تعالیٰ کبھی بھی کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی (اندرونی) حالت کو نہ بدلے۔‘‘
 
آخری تدوین:
جزاک اللہ
اگر ہم مذہب اور فرقوں کو نظر انداز کر کے حب الوطنی اور ہم وطنی کو بھی باہم رشتوں کی کڑی سمجھیں تو شاید ہمارا بیڑا کب کا پار ہو چکا ہوتا۔

اللہ ہمیں تمام تر تفرقات سے بالاتر ہو کر وطن کا نام روشن کرنے میں اپنا حصہ کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور وطن عزیز کے محسنوں کا احسان یاد رکھنے والا بنائے۔ آمین۔
 

ماسٹر

محفلین
نوبل انعام کی تقریب میں انہوں نے جو ایک مختصر تقریر کی تھی ،اس کا متن ۔ ۔


Banquet Speech

Abdus Salam's speech at the Nobel Banquet, December 10, 1979

Your Majesties, Excellencies, Ladies and Gentlemen,

On behalf of my colleagues, Professor Glashow and Weinberg, I thank the Nobel Foundation and the Royal Academy of Sciences for the great honour and the courtesies extended to us, including the courtesy to me of being addressed in my language Urdu.

arabtext1.gif
Pakistan is deeply indebted to you for this.

The creation of Physics is the shared heritage of all mankind. East and West, North and South have equally participated in it. In the Holy Book of Islam, Allah says

arabtext2.gif
"Thou seest not, in the creation of the All-merciful any imperfection, Return thy gaze, seest thou any fissure. Then Return thy gaze, again and again. Thy gaze, Comes back to thee dazzled, aweary."

This in effect is, the faith of all physicists; the deeper we seek, the more is our wonder excited, the more is the dazzlement for our gaze.

I am saying this, not only to remind those here tonight of this, but also for those in the Third World, who feel they have lost out in the pursuit of scientific knowledge, for lack of opportunity and resource.

Alfred Nobel stipulated that no distinction of race or colour will determine who received of his generosity. On this occasion, let me say this to those, whom God has given His Bounty. Let us strive to provide equal opportunities to all so that they can engage in the creation of Physics and science for the benefit of all mankind. This would exactly be in the spirit of Alfred Nobel and the ideals which permeated his life. Bless You!

From Les Prix Nobel. The Nobel Prizes 1979, Editor Wilhelm Odelberg, [Nobel Foundation], Stockholm, 1980



Copyright © The Nobel Foundation 1979


To cite this page
MLA style: "Abdus Salam - Banquet Speech". Nobelprize.org. Nobel Media AB 2013. Web. 24 Nov 2013. <http://www.nobelprize.org/nobel_prizes/physics/laureates/1979/salam-speech.html>
Recommended:
۔ ۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top