حسان خان
لائبریرین
یاد ہیں اب تک وہ عہدِ نوجوانی کے مزے
نوجوانی کے مزے کیا؟ زندگانی کے مزے
وصل کی بادِ خنک میں، ہجر کے طوفان میں
کامرانی کے مزے، ناکامرانی کے مزے
بسترِ حرماں پہ خونی کروٹوں کے ساتھ ساتھ
غم کی راتوں میں بلائے آسمانی کے مزے
بادلوں سے جھوم کر، سرشار ساغر چوم کر
جلوہ گاہِ رنگ و بو میں شعر خوانی کے مزے
موجِ بربط، موجِ گل، موجِ صبا کے سامنے
جامِ زرین و شرابِ ارغوانی کے مزے
صبح کی چاندی میں شاخوں کے مچلنے کا سرور
شام کے سونے میں لہروں کی روانی کے مزے
روز اک اندازِ نو سے با ہزاراں طمطراق
حلقۂ احباب میں جادو بیانی کے مزے
مست راتوں میں بہ فیضِ ارتباطِ حسن و عشق
میہمانی کے مزوں میں میزبانی کے مزے
بارہا آ آ کے زیرِ سایۂ شمشیرِ یاس
شعلہ پرور ولولوں کی سخت جانی کے مزے
روٹھنے اور روٹھ کر مننے کے دورِ ناز میں
مہربانی کے مزے، نامہربانی کے مزے
صحبتِ ہمراز میں مکتوبِ رنگیں کی بہار
گوشۂ خلوت میں پیغامِ زبانی کے مزے
؟؟؟ خوابگاہوں میں پئے تکمیلِ شوق
جرعہ جرعہ پی کے مے، افسانہ خوانی کے مزے
بارگاہِ دلبری میں گاہ فرطِ رعب سے
نقش بر دیوار ہو کر بے زبانی کے مزے
گاہ حرف و صوت کی سبکی سے بچنے کے لیے
جنبشِ مژگاں میں دل کی ترجمانی کے مزے
پھول سے سر رکھ کے اکثر زانوئے پُرشوق پر
گل رخوں کی نیند کی ماتی جوانی کے مزے
جلوۂ صہبا کی رنگینی بھری برسات میں
آگ کی موجِ رواں کے ساتھ پانی کے مزے
خاکِ راہِ دوست میں اکسیر کی سی شوخیاں
نقشِ پائے یار میں تاجِ کیانی کے مزے
پہلوئے جاناں کی شیریں گرمیوں سے گاہ گاہ
عمرِ فانی میں حیاتِ جاودانی کے مزے
لرزشِ صہبا میں لہجے کا ترنم تول کر
پیشِ خوباں نطق کی گوہر فشانی کے مزے
بدگمانی کے محل پر حسنِ ظن کے ولولے
حسنِ ظن کے ولولوں میں بدگمانی کے مزے
التفاتِ یار کے دورِ طرب آہنگ میں
ہر قدم پر جوش مرگِ ناگہانی کے مزے
(جوش ملیح آبادی)
۱۹۳۰ء