حسیب احمد حسیب
محفلین
نوجوان علماء اور تخصصات کی ضرورت
مدارس سے رشتہ تو بہت پرانا ہے گو کہ میں خود مدرسہ نہیں پڑھا لیکن علماء سے تعلق کی وجہ سے مختلف دروس ، خانقاہی مشاغل اور تقاریب کی مناسبت سے علماء کی خدمت میں حاضری کا سلسلہ رہا ہے۔
پچھلے دس ایک سال سے سوشل میڈیا کے توسط ، آنلائن مختلف عنوانات پر محاضرات کی شکل میں پھر خود مدارس میں حاضر ہوکر جدیدیت اور لامذہبی افکار و نظریات کے رد پر تربیتی نشستوں کی شکل میں اور اب وہ علماء جو بی ایس ، ایم فل وغیرہ کررہے ہیں ان کی یونیورسٹی سطح پر تدریس کے حوالے سے ایک مستقل تعلق کسی نہ کسی حوالے سے قائم ہے۔
نوجوان علماء کی مناسبت سے میرا تحریری کام سوشل میڈیا کے صفحات پر شائع ہوتا رہتا ہے اس لیے علماء کا ایک بڑا طبقہ کسی نہ کسی حد تک مجھ سے واقف ہے ، گو کہ میں مدرسے کا پڑھا ہوا نہیں لیکن خود کو مدرسے کا آدمی ہی سمجھتا ہوں۔
نوجوان علماء کے ساتھ دس ایک سال باقاعدہ کام کرنے کے بعد دو بنیادی امور کا ادراک ہوا۔
اول مقصدیت کا فقدان۔
دوم استعداد کا فقدان۔
پہلا عنوان بہت نازک ہے اسی لیے یہاں پر میں نے دوسرے عنوان کو سامنے رکھا ہے اور اسی حوالے سے گفتگو ہے۔
میں شاید ان چند لوگوں میں سے ہوں کہ جو شارٹ کورسز اور ان کے عنوانات سے سخت مخالفت رکھتے ہیں صحافی ، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ، ادیب ، اینکر یہاں تک کہ ریسرچ کے شعبوں میں وہ لوگ بھی کورسز کروا رہے ہیں جنہوں نے ایک دن بھی نہ تو عملی صحافت میں گزارا ہے اور نہ ہی وہ بیچارے کسی یونیورسٹی میں داخلے کا امتحان بھی پاس کر سکے۔
میں تخصصات کا قائل ہوں اور ان کا دورانیہ بھی دو یا تین سال ہو تاکہ نوجوان علماء کے اندر حقیقی استعداد پیدا کی جا سکے۔
وہ علوم کے جن کا جاننا ایک عالم یا محقق کیلئے ضروری ہے ان کی ایک فہرست نقل کررہا ہوں جو احباب مدارس کے انتظام سے منسلک ہیں ان کیلئے یہ عنوانات مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔
1۔ عمرانیات Sociology.
2۔ سیاسیات Political Science.
3۔ معاشیات Economics.
4. فلسفہ جدید Modern Philosophy.
5۔ عالمی تعلقات International Relations.
6۔ ملکی قوانین کے منتخب ابواب Law.
7۔ جغرافیہ و تاریخ History and Geography.
8۔ اصول تحقیق Research Methodology.
9۔ انگریزی و اردو ادب کے منتخب ابواب Urdu and English Literature.
10۔ تقابل ادیان Comparative Study of Religions.
11۔ نفسیات Psychology.
12. ابلاغیات Media Sciences.
ان تمام علوم کا دائرہ سوشل سائنسز کا دائرہ ہے اسی طرح علماء یہ عنوانات پڑھ کر معاشرے کیلیے زیادہ مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔
حضرت تھانویؒ کا ارشاد گرامی یہ ہے کہ:
’’یہ میری بہت پرانی رائے ہے اور اب تو رائے دینے سے بھی طبیعت افسردہ ہو گئی اس لیے کہ کوئی عمل نہیں کرتا۔ وہ رائے یہ ہے کہ تعزیرات ہند کے قوانین اور ڈاک خانہ اور ریلوے کے قواعد بھی مدارس اسلامیہ کے درس میں داخل ہونے چاہئیں۔ یہ بہت پرانی رائے ہے مگر کوئی مانتا اور سنتا ہی نہیں۔‘‘ (الافاضات الیومیہ، جلد ششم، ص ۴۳۵)
بہتر یہ ہے کہ درس نظامی کی تکمیل کے بعد یہ عنوانات دو یا تین سال سیمسٹرز کی شکل میں پڑھائے جائیں اور نوجوان علماء کے اندر ان مضامین کے حوالے سے ماہر اساتذہ کی نگرانی میں استعداد پیدا کی جائے اس کے بعد یہ طالب علموں کی اپنی صوابدید پر ہے کہ وہ کون سا شعبہ اپنے لیے مستقل طور پر منتخب کرتے ہیں۔
ڈاکٹر حسیب احمد خان
مدارس سے رشتہ تو بہت پرانا ہے گو کہ میں خود مدرسہ نہیں پڑھا لیکن علماء سے تعلق کی وجہ سے مختلف دروس ، خانقاہی مشاغل اور تقاریب کی مناسبت سے علماء کی خدمت میں حاضری کا سلسلہ رہا ہے۔
پچھلے دس ایک سال سے سوشل میڈیا کے توسط ، آنلائن مختلف عنوانات پر محاضرات کی شکل میں پھر خود مدارس میں حاضر ہوکر جدیدیت اور لامذہبی افکار و نظریات کے رد پر تربیتی نشستوں کی شکل میں اور اب وہ علماء جو بی ایس ، ایم فل وغیرہ کررہے ہیں ان کی یونیورسٹی سطح پر تدریس کے حوالے سے ایک مستقل تعلق کسی نہ کسی حوالے سے قائم ہے۔
نوجوان علماء کی مناسبت سے میرا تحریری کام سوشل میڈیا کے صفحات پر شائع ہوتا رہتا ہے اس لیے علماء کا ایک بڑا طبقہ کسی نہ کسی حد تک مجھ سے واقف ہے ، گو کہ میں مدرسے کا پڑھا ہوا نہیں لیکن خود کو مدرسے کا آدمی ہی سمجھتا ہوں۔
نوجوان علماء کے ساتھ دس ایک سال باقاعدہ کام کرنے کے بعد دو بنیادی امور کا ادراک ہوا۔
اول مقصدیت کا فقدان۔
دوم استعداد کا فقدان۔
پہلا عنوان بہت نازک ہے اسی لیے یہاں پر میں نے دوسرے عنوان کو سامنے رکھا ہے اور اسی حوالے سے گفتگو ہے۔
میں شاید ان چند لوگوں میں سے ہوں کہ جو شارٹ کورسز اور ان کے عنوانات سے سخت مخالفت رکھتے ہیں صحافی ، سوشل میڈیا ایکٹوسٹ ، ادیب ، اینکر یہاں تک کہ ریسرچ کے شعبوں میں وہ لوگ بھی کورسز کروا رہے ہیں جنہوں نے ایک دن بھی نہ تو عملی صحافت میں گزارا ہے اور نہ ہی وہ بیچارے کسی یونیورسٹی میں داخلے کا امتحان بھی پاس کر سکے۔
میں تخصصات کا قائل ہوں اور ان کا دورانیہ بھی دو یا تین سال ہو تاکہ نوجوان علماء کے اندر حقیقی استعداد پیدا کی جا سکے۔
وہ علوم کے جن کا جاننا ایک عالم یا محقق کیلئے ضروری ہے ان کی ایک فہرست نقل کررہا ہوں جو احباب مدارس کے انتظام سے منسلک ہیں ان کیلئے یہ عنوانات مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔
1۔ عمرانیات Sociology.
2۔ سیاسیات Political Science.
3۔ معاشیات Economics.
4. فلسفہ جدید Modern Philosophy.
5۔ عالمی تعلقات International Relations.
6۔ ملکی قوانین کے منتخب ابواب Law.
7۔ جغرافیہ و تاریخ History and Geography.
8۔ اصول تحقیق Research Methodology.
9۔ انگریزی و اردو ادب کے منتخب ابواب Urdu and English Literature.
10۔ تقابل ادیان Comparative Study of Religions.
11۔ نفسیات Psychology.
12. ابلاغیات Media Sciences.
ان تمام علوم کا دائرہ سوشل سائنسز کا دائرہ ہے اسی طرح علماء یہ عنوانات پڑھ کر معاشرے کیلیے زیادہ مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔
حضرت تھانویؒ کا ارشاد گرامی یہ ہے کہ:
’’یہ میری بہت پرانی رائے ہے اور اب تو رائے دینے سے بھی طبیعت افسردہ ہو گئی اس لیے کہ کوئی عمل نہیں کرتا۔ وہ رائے یہ ہے کہ تعزیرات ہند کے قوانین اور ڈاک خانہ اور ریلوے کے قواعد بھی مدارس اسلامیہ کے درس میں داخل ہونے چاہئیں۔ یہ بہت پرانی رائے ہے مگر کوئی مانتا اور سنتا ہی نہیں۔‘‘ (الافاضات الیومیہ، جلد ششم، ص ۴۳۵)
بہتر یہ ہے کہ درس نظامی کی تکمیل کے بعد یہ عنوانات دو یا تین سال سیمسٹرز کی شکل میں پڑھائے جائیں اور نوجوان علماء کے اندر ان مضامین کے حوالے سے ماہر اساتذہ کی نگرانی میں استعداد پیدا کی جائے اس کے بعد یہ طالب علموں کی اپنی صوابدید پر ہے کہ وہ کون سا شعبہ اپنے لیے مستقل طور پر منتخب کرتے ہیں۔
ڈاکٹر حسیب احمد خان