حسان خان
لائبریرین
نورا
(نرس کی چارہ گری)
وہ نوخیز نورا وہ اک بنتِ مریم
وہ مخمور آنکھیں وہ گیسوئے پُرخم
وہ ارضِ کلیسا کی اک ماہ پارہ
وہ دیر و حرم کے لیے اک شرارہ
وہ فردوسِ مریم کا اک غنچۂ تر
وہ تثلیث کی دخترِ نیک اختر
وہ اک نرس تھی چارہ گر جس کو کہیے
مداوائے دردِ جگر جس کو کہیے
جوانی سے طفلی گلے مل رہی تھی
ہوا چل رہی تھی کلی کھل رہی تھی
وہ پُررعب تیور وہ شاداب چہرہ
متاعِ جوانی پہ فطرت کا پہرہ
مری حکمرانی ہے اہلِ زمیں پر
یہ تحریر تھا صاف اُس کی جبیں پر
سفید اور شفاف کپڑے پہن کر
مرے پاس آتی تھی اک حور بن کر
وہ اک آسمانی فرشتہ تھی گویا
کہ انداز تھا اس میں جبریل کا سا
وہ اک مرمریں حور خلدِ بریں کی
وہ تعبیر آذر کے خوابِ حسیں کی
وہ تسکینِ دل تھی سکونِ نظر تھی
نگارِ شفق تھی جمالِ سحر تھی
وہ شعلہ، وہ بجلی، وہ جلوہ، وہ پرتو
سلیماں کی وہ اک کنیزِ سبک رو
کبھی اس کی شوخی میں سنجیدگی تھی
کبھی اس کی سنجیدگی میں بھی شوخی
گھڑی چپ، گھڑی کرنے لگتی تھی باتیں
سرہانے مرے کاٹ دیتی تھی راتیں
عجب چیز تھی وہ عجب راز تھی وہ
کبھی سوز تھی وہ کبھی ساز تھی وہ
نقاہت کے عالم میں جب آنکھ اٹھتی
نظر مجھ کو آتی محبت کی دیوی
وہ اس وقت اک پیکرِ نور ہوتی
تخیل کی پرواز سے دور ہوتی
وہ انجیل پڑھ کر سناتی تھی مجھ کو
ہنساتی تھی مجھ کو رلاتی تھی مجھ کو
دوا اپنے ہاتھوں سے مجھ کو پلاتی
'اب اچھے ہو' ہر روز مژدہ سناتی
سرہانے مرے ایک دن سر جھکائے
وہ بیٹھی تھی تکیے پہ کہنی ٹکائے
خیالاتِ پیہم میں کھوئی ہوئی سی
نہ جاگی ہوئی سی نہ سوئی ہوئی سی
جھپکتی ہوئی بار بار اس کی پلکیں
جبیں پُرشکن بے قرار اس کی پلکیں
وہ آنکھوں کے ساغر چھلکتے ہوئے سے
وہ عارض کے شعلے بھڑکتے ہوئے سے
لبوں میں تھا لعل و گہر کا خزانہ
نظر عارفانہ، ادا راہبانہ
مہک گیسوؤں سے چلی آ رہی تھی
مرے ہر نفس میں بسی جا رہی تھی
مجھے لیٹے لیٹے شرارت کی سوجھی
جو سوجھی بھی تو کس قیامت کی سوجھی
ذرا بڑھ کے کچھ اور گردن جھکا لی
لبِ لعل افشاں سے اک شے چرا لی
وہ شے جس کو اب کیا کہوں کیا سمجھیے
بہشتِ جوانی کا تحفہ سمجھیے
شرابِ محبت کا اک جامِ رنگیں
سبوزارِ فطرت کا اک جامِ رنگیں
میں سمجھا تھا شاید بگڑ جائے گی وہ
ہواؤں سے لڑتی ہے لڑ جائے گی وہ
میں دیکھوں گا اس کے بپھرنے کا عالم
جوانی کا غصہ بکھرنے کا عالم
اِدھر دل میں اک شورِ محشر بپا تھا
مگر اُس طرف رنگ ہی دوسرا تھا
ہنسی اور ہنسی اس طرح کھلکھلا کر
کہ شمعِ حیا رہ گئی جھلملا کر
نہیں جانتی ہے مرا نام تک وہ
مگر بھیج دیتی ہے پیغام تک وہ
یہ پیغام آتے ہی رہتے ہیں اکثر
کہ کس روز آؤ گے بیمار ہو کر
(اسرار الحق مجاز)
۱۹۳۶ء