محمل ابراہیم
لائبریرین
ریختہ صفحہ 361
گفتگو دو بدو سن کر وہ فقیر روشن ضمیر ایک ڈھیلا بڑا سا اُس کے سر پر مار کر خاموش ہو گیا ۔
وہ شخص بہ نالہ و زاری بہ صد بے قراری قریب قاضی کے جا کر مستغاثی ہوا کہ " میں نے فلانے درویش جفا کیش سے تین سوال کیے تھے ، سو اُس کا جواب با صواب اُس عذاب کا دیا کہ مارے درد سر کے میرا سراسر حال ابتر ہے ۔ " القصہ قاضی مرد ریاضی نے اُس درویش خیر اندیش کو بلوا کر کہا کہ " اے فقیر روشن ضمیر ! تو نے اُس بے تقصیر ، تن حقیر کو کیوں ڈھیلا مارا کہ جس سے یہ دل تنگ جان سے بہ تنگ ہے " اُس کے جواب میں وہ درویش دل ریش کہنے لگا کہ " وہ ڈھیلا اُس کے سوال فرخندہ فال کا جواب با صواب ہے لیکن یہ نہیں سمجھا ، نہیں تو پتھر کا ہو جاتا ، یعنی اُس کو چھوٹ اثر نہ کرتی اور مانند بت خاموش و بے ہوش رہتا ۔ اے قاضی مرد ریاضی ! اول سوال کا جواب یہ ہے کہ اُس سے پوچھیے کہ درد سر کی کیا صورت ہے اور کہاں سے آتا ہے کہ جس سے اُس کا ناک میں دم ہے ۔ جو یہ اپنے درد سر کی شکل مجھ کو دکھلا دے تو میں بھی اُس کو خدا کو دکھلا دوں ، اور دوسرے یہ جو کہتا ہے کہ جو کرتا ہے خدا کرتا ہے ، اُس کے ہے ارادت کچھ نہیں ہوتا ، تو پھر یہ میری نالش تمہارے پاس کیوں لایا ؟ وہ تو جو کچھ کیا اللہ تعالیٰ نے کیا ، مجھ مجبور کا کیا قصور ، اور تیسرے یہ جو کیا ہے کہ شیطان بے ایمان کو آتش دوزخ نہ عذاب دیکھا وے گی کیوں کہ دونوں کی ایک سرشت ہے کیوں کہ بقول شخصے : مثل
ٹھٹھیرے ٹھٹھیرے بدلائی نہیں ہوتی ہے
پس اگر یہی سمجھا تھا ، پِھر خاک سے اُس کی خاک
ریختہ صفحہ 362
ناپاک کو کیوں رنج و الم پہنچا کیوں کہ ڈھیلے کی سرشت اور اُس کی ایک ہے ۔" یہ تقدیر پُر تاثیر اُس فقیر پُر تاثیر کی قاضی مرد ریاضی سن کر لاجواب ہوا ۔
ابیات
مرد دانا تھا کہ سن کر یہ جواب
پھر زباں پر وہ نہ لایا کچھ خطاب
لیکن اے مہجور ! اُس کا مدعا
فی الحقیقت خوب رنگیں نے کہا
" وہ جو احمق ہے نہیں اُس کا علاج
وہ نہ کل سمجھا ہے سمجھے گا نہ آج"
چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ارشاد کرتے ہیں کہ مشیت ربّانی اور ارادت یزدانی سے لاکھ مردۂ بے جان کو زندہ کر سکتا ہوں اور ہزار نا بینا کو طرفتہ العین میں بینا کرتا ہوں لیکن ایک احمق مطلق کو دانا نہیں کے سکتا ہُوں ، اور ہندی مثل مشہور و معروف ہے : مثل
گدھا پیٹے سے گھوڑا نہیں ہوتا
چنانچہ شیخ سعدی کہتے ہیں : شعر
خر عیسیٰ اگر بہ مکّہ رود
چوں بیاید ہنوز خر باشد
______________
نقل ہے کہ ایک عزیز با تمیز دانائے دہر اور یکتائے عصر ایک امیر صاحب توقیر کے مکان دل ستاں میں وقت اختتام شام وارد ہوا ؛ چنانچہ صاحب خانہ نے اُس کو دیوان خانۂ عالی شان رشک گلستان میں صدر نشین کیا ، بد ایک پاس شب پُر طرب اُس عالی مقدار والا تبار نے بہ تکلف تمام اقسام اقسام طرح طرح
ریختہ صفحہ 363
کے کھانے ذائقے دار مع مربے و اچار دستر خوان محمودی پر اُس شیریں زبان رطب البیان کے سامنے حاضر کیے ، چناچہ حسبِ اتفاق اُس دسترخوان پر الوان پر نقرئی کباب خوری میں ہفت عدد بیضۂ مرغ نیم برشت انجم سرشت ایسے جلوہ گر تھے کہ اُن کی آب داری کے آگے در یتیم بھی یتیم معلوم ہوتے تھے ، لیکن اُس دسترخوان پُر الوان پر ایک تو صاحب خانہ اور دوسری اُس کی منکوحہ مع دو فرزند ارجمند ، یہ چار اشخاص خاص ایک گھر کے اور پانچواں وہ مہمان عالی شان ۔ یہ سب شگفتہ لب اُس دسترخوان دل ستاں پر جلوہ کناں تھے اور بیضۂ مرغ رشک انجم سات عدد جو تھے اُس واسطے صاحب خانہ نے سادگی سے مہمان ذی شان سے کہا " اے عزیز با تمیز ! اُن بیضوں کی تقسیم تعمیم تیرے وقوف پر موقوف ہے مگر دانائی ، اے بھائی ! یوں چاہتی ہے کہ بیضۂ مرغ ایک نہ ٹوٹے اور ساتوں بیضے پانچ آدمیوں میں برابر قسمت ہو جائیں ۔ "
غرض اُس عزیز با تمیز نے " الامر فوق الادب " کہہ کر ایک بیضہ تو صاحب خانہ کے آگے رکھ دیا اور ایک بیضہ آپ لے لیا اور دو بیضے دونوں بیٹوں کو عنایت کیے اور تین بیضے اُس کی زن رشک چمن کے حوالے کر دیے ۔ یہ ماجرا حیرت افزا اُس مرد خدا کہ صاحب خانہ دیکھ کر کہنے لگا " اے عزیز بے تمیز ! یہ حصہ پُر قصہ تو نے کس منصفی سے کیا ؟" یہ سخن دل شکن صاحب خانہ وہ مہمان بے خانماں یوں حرف زن ہوا کہ " اے بندہ نواز ریش دراز ! بہ چشم انصاف صاف ملاحظہ کر کہ ایک بیضہ مرغ کا اور دو بیضے خفیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تین بیضے تیرے پاس بلا وسواس ہوئے يا نہیں اور اسی قبیل پُر دلیل سے تیرے بیٹوں کے اور میرے پاس
__________________________________
۱۔ یہاں سے ایک لفظ پر بنائے کثافت حذف کر دیا گیا ہے۔
ریختہ صفحہ 364
تین تین بیضے موجود ہیں مگر تیری جورو مہ رو کے پاس کوئی بیضہ خفیہ نہ تھا ، اُس واسطے اُس کو کڑک مرغی سمجھ کر میں نے مرغ کے تین بیضے دیے تا کہ ہم سب کے برابر ہو جائے " غرض اُس تقسیم دل دو نیم کی تفصیل بے عدیل سن کر وہ مرد بے دلیل کمال نادم ہوا۔
خیر و شب تو گزری ، پِھر بہ وقت نصف النہار ایک بار وہ پانچوں اشخاص خاص بے شش و پنج برائے تناول تعام لذت التیام جو مستعد ہوئے تو اُس وقت دسترخوان غیرت گلستان پر چار مرغ بریان خجلت وہ گل ارغوان ایسے تیار و خوش گوار ہو کر آئے کہ جس کی بو باس سے مشام قلب سے طائرِ گرسنگی پرواز کرنے لگا ۔ اُس صاحب خانہ خفت خوردہ نے پھر بہ پاس خاطر عاطر مہمان کہا
"اے مجمع الکرامات و اے منبع الکمالات اُن کبابوں کی بھی تقسیم بہ طرز قدیم تیری رائے پر موقوف ہے ۔ " غرض اُس با تمیز نے کہا " کیا مضائقہ : مصرع
اگر یوں ہے مرضی تو کیا ہے خلل
یہ مصرع پڑھ کے ایک مرغ بریان اُس مہمان بے گمان نے صاحب خانہ اور اُس کی منکوحہ کے آگے رکھ کے کہا " یہ ایک مرغ تم دونوں کے حصے میں ہے " اور ایک مرغ اُس کے دونوں بیٹوں کے آگے رکھ دیا اور دو مرغ بریان دل خستہ وابستہ اپنے سامنے رکھے ۔ یہ تقسیم ذمیم صاحب خانہ دیکھ کر کہنے لگا " اے نامعقول بے عقول ! یہ حصہ پُر غصہ تو نے کیسا کیا کہ ایک مرغ ہم دونوں آدمیوں میں دیا اور دو مرغ تُجھ اکیلے نے لیے ۔
قطعہ
منصفی اپنے دل میں آپ تو کر ایسی تقسیم ہے کہیں بہتر
ریختہ صفحہ 365
غیر کو کیا غضب کہ کم دیجے ہاتھ سے اپنے خود بہت
لیجے
یہ گفتگو اُس نیک خو کی سن کر مہمان تیز زبان کہنے لگا کہ " اے نا فہم ! سمجھ تو دل میں کہ ایک مرغ اور تم جورو خاوند یہ تین پورے ہوئے یا نہیں ؛ اور اس طرح ایک مرغ اور تیرے دونوں بیٹے ، یہ بھی تین دل نشین کر لے اور دو مرغ ایک میں تن تنہا ، یہ بھی حساب سے ، اے بے حجاب ! درست اور چست ہیں ؛ کچھ اس میں مطلق کم و زیادہ نہیں ، جی میں سمجھ تو ، تونے کون سی تقصیر اور نا انصافی کی بات میری طرف عائد کی ۔"
یہ گفتگو اُس بد خو کی سن کر صاحب خانہ بہت کڑکڑایا اور اپنے خادموں سے کہنے لگا کہ " اُس مرغے بے ہنگام دل بے دام سے کہہ دو کہ میرے غریب خانے سے نکل جائے ، ورنہ مجھ کو کمال کوفت ہوگی کیوں خ اُس کی ہر ایک نوک جھوک دل کو خار لگتی ہے ۔ یہ کیا غضب ہے کہ جس کا دانہ پانی کھائے اور اُس کو ڈنکے کی چھوٹ یوں لام کاف سنائے ! اُس کی وہ مثل ہے کہ :
٫ جس رکابی میں کھاتا ہے اُسی میں چھید کرتا ہے،
یہ بات اصیل زادے اور نجیب الطرفین سے نہایت معیوب ہے ۔ آج کوئی محتاج بے زر بے پر کو اُس طرح حقیر اور نے توقیر نہیں کرتا ہے جس طرح یہ مرغا مجھ کو اڑا اُڑا کر دباتا ہے ، سچ تو یوں ہے : شعر
اُس سے کس طرح کوئی بر آئے
جس کو غیرت نہ کچھ نظر آئے
یہ سخن دل شکن صاحب خانہ کہ سن کر مہمان پر طوفان
ریختہ صفحہ 366
کہنے لگا " اے یارو ! "
ابیات
کیوں نہ عالم تمام ہووے تباہ
منصفی اُڑ گئی جہان سے آہ
یہ زمانہ بھی ہے عجب ڈھب کا
سچ جو بولے وہی ہے دیوانا
یہ اشعار وہ مہمان زبان طراز پڑھ کے اپنے گھر کو روانہ ہوا اور صاحب خانہ اُس کی گفتگو عربدہ جو سے نہایت خشم گیں ہوا ۔
قطعہ
سچ ہے مہجور مردمان عقل
نئی کرتے ہیں ہر سخن کی دلیل
نہیں ہوتے ہیں وہ کسی جا بند
لاکھ ڈھب کی کرے کوئی گر جھند
__________
نقل ہے کہ ایک دانش مند افلاس کا درد مند بہ دستِ بخت سیاہ بہ حال تباہ اپنے شوہر سے جو کسی اور شہر مینو چہر میں وارد و صادر ہا تو وہاں لوگوں نے اُس کے احوال پر ملال کو دریافت کر کے کہا کہ " اے عزیز صاحب تمیز ! اُس شہر میں ایک شخص رشک حاتم طائی مولائی رہتا ہے ، اگر تو اُس کے پاس بلا وسواس جائے تو غالب ہے کہ تیرا دستِ تہی اُس کے جود و سخا سے پر ہو جائے " وہ دانش مند حال کثیف اور صورت نحیف سے اُس امیر صاحب توقیر کے قریب گیا لیکن وہ ظاہر پرست عقل پست غرور و کبر اور استغنا سے اُس غریب بے نصیب کو مطلق خیال میں نہ لایا بلکہ اُس دور افتادہ
ریختہ صفحہ 367
غم آمادہ کے قریب بیٹھنے کا بھی روا دار نہ ہوا ۔ وہ دانش مند درد مند شرمندہ ہو کر بہ صد ندامت و خجلت کسی مسجد میں جا کر سو رہا ۔ چند روز کے بعد لباس پاکیزہ بہ کرایہ لے کر اپنے تن پر آراستہ و پیراستہ کیا اور اُس ظاہر پرست نو دولت کے قریب بہ صد تہذیب جا کر ہم زانو ہوا ۔ وہ دنیا دار ایک بار بے اختیار تعظیم و تکریم عمیم بجا لایا اور کھانے کو طعام خوش گوار بہ تکلف بسیار مع مربہ و اچار حاضر ہوا ۔ وہ دانش مند ، عقل مند دستر خوان الوان پر بیٹھ کر لقمہ ہائے طعام مقوی مشام اپنے دامن آستین میں رکھنے لگا ۔ یہ واردات واہیات دیکھ کر صاحب خانہ کہنے لگا " اے عزیز بے تمیز ! اپنا لباس کھانے سے ستیاناس کیوں کرتا ہے ؟ یہ طعام ، اے ناکام ! کھانے کے واسطے ہے مگر کپڑے خراب کرنے کو نہیں ہے ۔" یہ کلام نافر جام اُس ناکام کا سن کر وہ کہنے لگا " اے عزیز بے تمیز ! اول روز یہ جگر سوز تیرے پاس بلا وسواس اُس حالت کثیف سے آیا تھا ، تو نے مطلق التفات نہ کیا اور آج یہ محتاج پوشاک نفیس سے تیرے قریب جو آیا تو تو نے اُس قدر تکلف کیا کہ جس کا بیان ، بیان سے باہر ہے ؛ تو یہ طعام ، اے ناکام ! میرے لائق نہیں ہے ، جس کے واسطے ہے ، اُس کو میں کھلاتا ہُوں ۔
ابیات
اگر میری خاطر یہ ہوتا طعام
تو پہلے بھی دیتا مجھے لا کلام
یہ بات اُس کی سن کر وہ ناداں امیر
ہوا اپنے دل میں بہت سا حقیر
ریختہ صفحہ 368
جو مہجور دنیا میں نادان ہیں
وہ باتوں سے اپنی پشیمان ہیں
جو دانا ہیں اُن کا ہمیشہ سخن
دل و جان سے سنتے ہیں سب مرد و زن
___________
نقل ہے کہ ایک بادشاہ عالی جاه قصر بلند پر بیٹھا مردمان رہروان کا نظارہ کناں تھا کہ یکایک طائرِ نظر قفس چشم سے پرواز کر کے ایک طرف کو جا پڑا تو کیا نظر آیا کہ ایک شخص ہاتھ میں مرغ لیے مثل طمعہ اِدھر دکھا رہا ہے ۔ اُس بادشاہ جم جاہ نے اُس کو قریب بلوا کر کہا " اے عزیز بے تمیز ! یہ مرغ نو گرفتار تیرے چنگل نا بکار میں کیا ہے ؟" وہ ذو فنون فیلسوف یہ سخن پُر فن زبان پر لایا کہ " اے شہنشاہِ گیتی پناہ ! اس غلام نا کام کا مرغ کشتی چڑھا اُس مہینے کے درمیان کئی پالیاں گھٹ گیا تھا ، آخر کار نا چار اپنی نا اقبالی سمجھ کر اُس تیرہ بخت نے آج وہ مرغ آپ کی طرف سے بازی لگا کر لڑایا ، سو آپ کے اقبال فرخندہ فال سے وہ مرغ بڑھ گیا ، اُس واسطے آپ کی خدمت فیض درجت میں یہ مرغ بازی کی جیت کا لایا ہُوں ، اُس کو قبول بے عدول کیجئے ۔" بادشاہ نے وہ مرغ اُس مرغے سے یہ سمجھ کر لے لیا ، بہ قول شخصے : مثل
" مفت کی شراب قاضی بھی پی جاتا ہے"
اور اس کے سوا :
" مفت را چہ گفت "
الحاصل وہ مرد عاقل دو چار روز کا وقفہ دے کے ایک گوسفند دل پسند لے کر بادشاہ گیتی پناہ کی خدمت فیض درجت
ریختہ صفحہ 369
میں حاضر ہو کر کہنے لگا کہ " یہ بھی آپ کے نام نیک انجام سے بازی میں جیتی ہے ، اُس کو بھی باورچی خانے میں بھجوا دیجئے ۔" بادشاہ نے وہ بھی مال مفت سمجھ کر لے لی ۔ چند روز کے بعد وہ دانش مند خود پسند ایک شخص رو سیاہ کو ہمراہ لے کر آیا اور بادشاہ جم جاہ سے کہنے لگا " اے حضرت سپہر کرامت ! میں بد خصلت آپ کی طرف سے دو ہزار روپے اُس شخص سے بازی لگا کر چوسر کھیلا تھا ، سو ہار گیا ؛ دو ہزار روپے خزانۂ عالی متعالی سے عنایت کیجیے تا کہ غلام اُس بازی جان بازی سے نجات پائے ۔" یہ سخن واہیات اُس سخن دہن سے سن کر بادشاہ متبسم ہوا اور دل میں کہنے لگا کہ " سو سنار کی ایک لہار کی " یعنی اُس نے اچھی ضرب لگائی ۔" غرض بادشاہ عالی جاہ نے اُس کو دو ہزار روپے دلوا کر کہا " اے عزیز بے تمیز ! اب جو کچھ ہوا سو ہوا ، الماضی لا یذ کر ، لیکن میرے نام نیک انجام کی پھر کسی سے بازی نہ لگانا ۔
قطعہ
نہ اب تُجھ سے بازی میں لوں گا کبھی
نہ اس طرح کی ہار دوں گا کبھی "
غرض دل میں مہجور وہ بادشاہ
بہ غایت ہوا شرم گیں بے گناہ
نقل ہے کہ ایک بادشاہ جم جاہ نے ایک منجم پر فہم سے پوچھا کہ " اے اختر شناس نیک اساس ! دیکھ تو ، میرا گل زندگی باغ جہاں میں کب تک شگفتہ رہے گا اور خزان اجل میری بہار زیست کو کب پت جھڑ کرے گی ؟" یہ کلام بادشاہ عالی مقام کا سن کر وہ منجم بے غم یوں حرف زن ہوا کہ
ریختہ صفحہ 370
"اے رونق بوستان حشمت و اے زینت گلستان دولت ! علم نجوم سے یوم معلوم و مفہوم ہوتا ہے کہ آپ کا گل زیست گلشن ہستی میں تیس برس کے بعد صرصر اجل سے مرجھائے گا : شعر
اگر جھوٹ ہو اس میں اے شہر یار !
تو اس برہمن کو سمجھنا چمار "
یہ سخن دل شکن اُس برہمن کا سن کر بادشاہ عالم پناہ نہایت ملول غم شمول ہوا ؛ یہاں تک کہ دو چار روز میں وہ دل فگار اس قدر نحیف و نزار ہو گیا جیسا کہ مہینوں کا بیمار ہوتا ہے ۔ یہ احوال پُر ملال بادشاہ فرخندہ فال کا وزیر نیک خصلت دیکھ کر یوں گویا ہوا کہ " اے شہنشاہِ گیتی پناہ !
بہ قول میر حسن : شعر
رہے جاہ و حشمت یہ تیرا مدام
بہ حق محمد علیہ السلام
یہ غلام نا کام خدا وند نعمت ، سپہر کرامت کو کئی روز سے نحیف و نزار دیکھتا ہے ، اس کا موجب و سبب کیا ہے ؛ خانہ زاد موروثی کو دریافت ہو تا کہ اُس کی تدبیر پُر تاثیر کی جائے ۔" یہ گفتگو وزیر نیک خو کی گوش زد فرما کے بادشاہ کہنے لگا " اے وزیر صاحب توقیر ! کچھ نہ کُچھ : شعر
میں پر غم اس لیے بلبل صفت دن رات نالاں ہوں
کہ باغ دہر میں گل کی صفت کچھ دن کا مہماں ہوں"
المدعا وزیر دل پزیر احوال پُر ملال کے اظہار و انکشاف پر جب نہایت در پے ہوا تو بادشاہ جم جاہ نے یہ دیدۂ گریان ، بہ دل بریان یوں زبان کو نطق سے آشنا کیا کہ " اے وزیر دل پذیر !
گفتگو دو بدو سن کر وہ فقیر روشن ضمیر ایک ڈھیلا بڑا سا اُس کے سر پر مار کر خاموش ہو گیا ۔
وہ شخص بہ نالہ و زاری بہ صد بے قراری قریب قاضی کے جا کر مستغاثی ہوا کہ " میں نے فلانے درویش جفا کیش سے تین سوال کیے تھے ، سو اُس کا جواب با صواب اُس عذاب کا دیا کہ مارے درد سر کے میرا سراسر حال ابتر ہے ۔ " القصہ قاضی مرد ریاضی نے اُس درویش خیر اندیش کو بلوا کر کہا کہ " اے فقیر روشن ضمیر ! تو نے اُس بے تقصیر ، تن حقیر کو کیوں ڈھیلا مارا کہ جس سے یہ دل تنگ جان سے بہ تنگ ہے " اُس کے جواب میں وہ درویش دل ریش کہنے لگا کہ " وہ ڈھیلا اُس کے سوال فرخندہ فال کا جواب با صواب ہے لیکن یہ نہیں سمجھا ، نہیں تو پتھر کا ہو جاتا ، یعنی اُس کو چھوٹ اثر نہ کرتی اور مانند بت خاموش و بے ہوش رہتا ۔ اے قاضی مرد ریاضی ! اول سوال کا جواب یہ ہے کہ اُس سے پوچھیے کہ درد سر کی کیا صورت ہے اور کہاں سے آتا ہے کہ جس سے اُس کا ناک میں دم ہے ۔ جو یہ اپنے درد سر کی شکل مجھ کو دکھلا دے تو میں بھی اُس کو خدا کو دکھلا دوں ، اور دوسرے یہ جو کہتا ہے کہ جو کرتا ہے خدا کرتا ہے ، اُس کے ہے ارادت کچھ نہیں ہوتا ، تو پھر یہ میری نالش تمہارے پاس کیوں لایا ؟ وہ تو جو کچھ کیا اللہ تعالیٰ نے کیا ، مجھ مجبور کا کیا قصور ، اور تیسرے یہ جو کیا ہے کہ شیطان بے ایمان کو آتش دوزخ نہ عذاب دیکھا وے گی کیوں کہ دونوں کی ایک سرشت ہے کیوں کہ بقول شخصے : مثل
ٹھٹھیرے ٹھٹھیرے بدلائی نہیں ہوتی ہے
پس اگر یہی سمجھا تھا ، پِھر خاک سے اُس کی خاک
ریختہ صفحہ 362
ناپاک کو کیوں رنج و الم پہنچا کیوں کہ ڈھیلے کی سرشت اور اُس کی ایک ہے ۔" یہ تقدیر پُر تاثیر اُس فقیر پُر تاثیر کی قاضی مرد ریاضی سن کر لاجواب ہوا ۔
ابیات
مرد دانا تھا کہ سن کر یہ جواب
پھر زباں پر وہ نہ لایا کچھ خطاب
لیکن اے مہجور ! اُس کا مدعا
فی الحقیقت خوب رنگیں نے کہا
" وہ جو احمق ہے نہیں اُس کا علاج
وہ نہ کل سمجھا ہے سمجھے گا نہ آج"
چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ارشاد کرتے ہیں کہ مشیت ربّانی اور ارادت یزدانی سے لاکھ مردۂ بے جان کو زندہ کر سکتا ہوں اور ہزار نا بینا کو طرفتہ العین میں بینا کرتا ہوں لیکن ایک احمق مطلق کو دانا نہیں کے سکتا ہُوں ، اور ہندی مثل مشہور و معروف ہے : مثل
گدھا پیٹے سے گھوڑا نہیں ہوتا
چنانچہ شیخ سعدی کہتے ہیں : شعر
خر عیسیٰ اگر بہ مکّہ رود
چوں بیاید ہنوز خر باشد
______________
نقل ہے کہ ایک عزیز با تمیز دانائے دہر اور یکتائے عصر ایک امیر صاحب توقیر کے مکان دل ستاں میں وقت اختتام شام وارد ہوا ؛ چنانچہ صاحب خانہ نے اُس کو دیوان خانۂ عالی شان رشک گلستان میں صدر نشین کیا ، بد ایک پاس شب پُر طرب اُس عالی مقدار والا تبار نے بہ تکلف تمام اقسام اقسام طرح طرح
ریختہ صفحہ 363
کے کھانے ذائقے دار مع مربے و اچار دستر خوان محمودی پر اُس شیریں زبان رطب البیان کے سامنے حاضر کیے ، چناچہ حسبِ اتفاق اُس دسترخوان پر الوان پر نقرئی کباب خوری میں ہفت عدد بیضۂ مرغ نیم برشت انجم سرشت ایسے جلوہ گر تھے کہ اُن کی آب داری کے آگے در یتیم بھی یتیم معلوم ہوتے تھے ، لیکن اُس دسترخوان پُر الوان پر ایک تو صاحب خانہ اور دوسری اُس کی منکوحہ مع دو فرزند ارجمند ، یہ چار اشخاص خاص ایک گھر کے اور پانچواں وہ مہمان عالی شان ۔ یہ سب شگفتہ لب اُس دسترخوان دل ستاں پر جلوہ کناں تھے اور بیضۂ مرغ رشک انجم سات عدد جو تھے اُس واسطے صاحب خانہ نے سادگی سے مہمان ذی شان سے کہا " اے عزیز با تمیز ! اُن بیضوں کی تقسیم تعمیم تیرے وقوف پر موقوف ہے مگر دانائی ، اے بھائی ! یوں چاہتی ہے کہ بیضۂ مرغ ایک نہ ٹوٹے اور ساتوں بیضے پانچ آدمیوں میں برابر قسمت ہو جائیں ۔ "
غرض اُس عزیز با تمیز نے " الامر فوق الادب " کہہ کر ایک بیضہ تو صاحب خانہ کے آگے رکھ دیا اور ایک بیضہ آپ لے لیا اور دو بیضے دونوں بیٹوں کو عنایت کیے اور تین بیضے اُس کی زن رشک چمن کے حوالے کر دیے ۔ یہ ماجرا حیرت افزا اُس مرد خدا کہ صاحب خانہ دیکھ کر کہنے لگا " اے عزیز بے تمیز ! یہ حصہ پُر قصہ تو نے کس منصفی سے کیا ؟" یہ سخن دل شکن صاحب خانہ وہ مہمان بے خانماں یوں حرف زن ہوا کہ " اے بندہ نواز ریش دراز ! بہ چشم انصاف صاف ملاحظہ کر کہ ایک بیضہ مرغ کا اور دو بیضے خفیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تین بیضے تیرے پاس بلا وسواس ہوئے يا نہیں اور اسی قبیل پُر دلیل سے تیرے بیٹوں کے اور میرے پاس
__________________________________
۱۔ یہاں سے ایک لفظ پر بنائے کثافت حذف کر دیا گیا ہے۔
ریختہ صفحہ 364
تین تین بیضے موجود ہیں مگر تیری جورو مہ رو کے پاس کوئی بیضہ خفیہ نہ تھا ، اُس واسطے اُس کو کڑک مرغی سمجھ کر میں نے مرغ کے تین بیضے دیے تا کہ ہم سب کے برابر ہو جائے " غرض اُس تقسیم دل دو نیم کی تفصیل بے عدیل سن کر وہ مرد بے دلیل کمال نادم ہوا۔
خیر و شب تو گزری ، پِھر بہ وقت نصف النہار ایک بار وہ پانچوں اشخاص خاص بے شش و پنج برائے تناول تعام لذت التیام جو مستعد ہوئے تو اُس وقت دسترخوان غیرت گلستان پر چار مرغ بریان خجلت وہ گل ارغوان ایسے تیار و خوش گوار ہو کر آئے کہ جس کی بو باس سے مشام قلب سے طائرِ گرسنگی پرواز کرنے لگا ۔ اُس صاحب خانہ خفت خوردہ نے پھر بہ پاس خاطر عاطر مہمان کہا
"اے مجمع الکرامات و اے منبع الکمالات اُن کبابوں کی بھی تقسیم بہ طرز قدیم تیری رائے پر موقوف ہے ۔ " غرض اُس با تمیز نے کہا " کیا مضائقہ : مصرع
اگر یوں ہے مرضی تو کیا ہے خلل
یہ مصرع پڑھ کے ایک مرغ بریان اُس مہمان بے گمان نے صاحب خانہ اور اُس کی منکوحہ کے آگے رکھ کے کہا " یہ ایک مرغ تم دونوں کے حصے میں ہے " اور ایک مرغ اُس کے دونوں بیٹوں کے آگے رکھ دیا اور دو مرغ بریان دل خستہ وابستہ اپنے سامنے رکھے ۔ یہ تقسیم ذمیم صاحب خانہ دیکھ کر کہنے لگا " اے نامعقول بے عقول ! یہ حصہ پُر غصہ تو نے کیسا کیا کہ ایک مرغ ہم دونوں آدمیوں میں دیا اور دو مرغ تُجھ اکیلے نے لیے ۔
قطعہ
منصفی اپنے دل میں آپ تو کر ایسی تقسیم ہے کہیں بہتر
ریختہ صفحہ 365
غیر کو کیا غضب کہ کم دیجے ہاتھ سے اپنے خود بہت
لیجے
یہ گفتگو اُس نیک خو کی سن کر مہمان تیز زبان کہنے لگا کہ " اے نا فہم ! سمجھ تو دل میں کہ ایک مرغ اور تم جورو خاوند یہ تین پورے ہوئے یا نہیں ؛ اور اس طرح ایک مرغ اور تیرے دونوں بیٹے ، یہ بھی تین دل نشین کر لے اور دو مرغ ایک میں تن تنہا ، یہ بھی حساب سے ، اے بے حجاب ! درست اور چست ہیں ؛ کچھ اس میں مطلق کم و زیادہ نہیں ، جی میں سمجھ تو ، تونے کون سی تقصیر اور نا انصافی کی بات میری طرف عائد کی ۔"
یہ گفتگو اُس بد خو کی سن کر صاحب خانہ بہت کڑکڑایا اور اپنے خادموں سے کہنے لگا کہ " اُس مرغے بے ہنگام دل بے دام سے کہہ دو کہ میرے غریب خانے سے نکل جائے ، ورنہ مجھ کو کمال کوفت ہوگی کیوں خ اُس کی ہر ایک نوک جھوک دل کو خار لگتی ہے ۔ یہ کیا غضب ہے کہ جس کا دانہ پانی کھائے اور اُس کو ڈنکے کی چھوٹ یوں لام کاف سنائے ! اُس کی وہ مثل ہے کہ :
٫ جس رکابی میں کھاتا ہے اُسی میں چھید کرتا ہے،
یہ بات اصیل زادے اور نجیب الطرفین سے نہایت معیوب ہے ۔ آج کوئی محتاج بے زر بے پر کو اُس طرح حقیر اور نے توقیر نہیں کرتا ہے جس طرح یہ مرغا مجھ کو اڑا اُڑا کر دباتا ہے ، سچ تو یوں ہے : شعر
اُس سے کس طرح کوئی بر آئے
جس کو غیرت نہ کچھ نظر آئے
یہ سخن دل شکن صاحب خانہ کہ سن کر مہمان پر طوفان
ریختہ صفحہ 366
کہنے لگا " اے یارو ! "
ابیات
کیوں نہ عالم تمام ہووے تباہ
منصفی اُڑ گئی جہان سے آہ
یہ زمانہ بھی ہے عجب ڈھب کا
سچ جو بولے وہی ہے دیوانا
یہ اشعار وہ مہمان زبان طراز پڑھ کے اپنے گھر کو روانہ ہوا اور صاحب خانہ اُس کی گفتگو عربدہ جو سے نہایت خشم گیں ہوا ۔
قطعہ
سچ ہے مہجور مردمان عقل
نئی کرتے ہیں ہر سخن کی دلیل
نہیں ہوتے ہیں وہ کسی جا بند
لاکھ ڈھب کی کرے کوئی گر جھند
__________
نقل ہے کہ ایک دانش مند افلاس کا درد مند بہ دستِ بخت سیاہ بہ حال تباہ اپنے شوہر سے جو کسی اور شہر مینو چہر میں وارد و صادر ہا تو وہاں لوگوں نے اُس کے احوال پر ملال کو دریافت کر کے کہا کہ " اے عزیز صاحب تمیز ! اُس شہر میں ایک شخص رشک حاتم طائی مولائی رہتا ہے ، اگر تو اُس کے پاس بلا وسواس جائے تو غالب ہے کہ تیرا دستِ تہی اُس کے جود و سخا سے پر ہو جائے " وہ دانش مند حال کثیف اور صورت نحیف سے اُس امیر صاحب توقیر کے قریب گیا لیکن وہ ظاہر پرست عقل پست غرور و کبر اور استغنا سے اُس غریب بے نصیب کو مطلق خیال میں نہ لایا بلکہ اُس دور افتادہ
ریختہ صفحہ 367
غم آمادہ کے قریب بیٹھنے کا بھی روا دار نہ ہوا ۔ وہ دانش مند درد مند شرمندہ ہو کر بہ صد ندامت و خجلت کسی مسجد میں جا کر سو رہا ۔ چند روز کے بعد لباس پاکیزہ بہ کرایہ لے کر اپنے تن پر آراستہ و پیراستہ کیا اور اُس ظاہر پرست نو دولت کے قریب بہ صد تہذیب جا کر ہم زانو ہوا ۔ وہ دنیا دار ایک بار بے اختیار تعظیم و تکریم عمیم بجا لایا اور کھانے کو طعام خوش گوار بہ تکلف بسیار مع مربہ و اچار حاضر ہوا ۔ وہ دانش مند ، عقل مند دستر خوان الوان پر بیٹھ کر لقمہ ہائے طعام مقوی مشام اپنے دامن آستین میں رکھنے لگا ۔ یہ واردات واہیات دیکھ کر صاحب خانہ کہنے لگا " اے عزیز بے تمیز ! اپنا لباس کھانے سے ستیاناس کیوں کرتا ہے ؟ یہ طعام ، اے ناکام ! کھانے کے واسطے ہے مگر کپڑے خراب کرنے کو نہیں ہے ۔" یہ کلام نافر جام اُس ناکام کا سن کر وہ کہنے لگا " اے عزیز بے تمیز ! اول روز یہ جگر سوز تیرے پاس بلا وسواس اُس حالت کثیف سے آیا تھا ، تو نے مطلق التفات نہ کیا اور آج یہ محتاج پوشاک نفیس سے تیرے قریب جو آیا تو تو نے اُس قدر تکلف کیا کہ جس کا بیان ، بیان سے باہر ہے ؛ تو یہ طعام ، اے ناکام ! میرے لائق نہیں ہے ، جس کے واسطے ہے ، اُس کو میں کھلاتا ہُوں ۔
ابیات
اگر میری خاطر یہ ہوتا طعام
تو پہلے بھی دیتا مجھے لا کلام
یہ بات اُس کی سن کر وہ ناداں امیر
ہوا اپنے دل میں بہت سا حقیر
ریختہ صفحہ 368
جو مہجور دنیا میں نادان ہیں
وہ باتوں سے اپنی پشیمان ہیں
جو دانا ہیں اُن کا ہمیشہ سخن
دل و جان سے سنتے ہیں سب مرد و زن
___________
نقل ہے کہ ایک بادشاہ عالی جاه قصر بلند پر بیٹھا مردمان رہروان کا نظارہ کناں تھا کہ یکایک طائرِ نظر قفس چشم سے پرواز کر کے ایک طرف کو جا پڑا تو کیا نظر آیا کہ ایک شخص ہاتھ میں مرغ لیے مثل طمعہ اِدھر دکھا رہا ہے ۔ اُس بادشاہ جم جاہ نے اُس کو قریب بلوا کر کہا " اے عزیز بے تمیز ! یہ مرغ نو گرفتار تیرے چنگل نا بکار میں کیا ہے ؟" وہ ذو فنون فیلسوف یہ سخن پُر فن زبان پر لایا کہ " اے شہنشاہِ گیتی پناہ ! اس غلام نا کام کا مرغ کشتی چڑھا اُس مہینے کے درمیان کئی پالیاں گھٹ گیا تھا ، آخر کار نا چار اپنی نا اقبالی سمجھ کر اُس تیرہ بخت نے آج وہ مرغ آپ کی طرف سے بازی لگا کر لڑایا ، سو آپ کے اقبال فرخندہ فال سے وہ مرغ بڑھ گیا ، اُس واسطے آپ کی خدمت فیض درجت میں یہ مرغ بازی کی جیت کا لایا ہُوں ، اُس کو قبول بے عدول کیجئے ۔" بادشاہ نے وہ مرغ اُس مرغے سے یہ سمجھ کر لے لیا ، بہ قول شخصے : مثل
" مفت کی شراب قاضی بھی پی جاتا ہے"
اور اس کے سوا :
" مفت را چہ گفت "
الحاصل وہ مرد عاقل دو چار روز کا وقفہ دے کے ایک گوسفند دل پسند لے کر بادشاہ گیتی پناہ کی خدمت فیض درجت
ریختہ صفحہ 369
میں حاضر ہو کر کہنے لگا کہ " یہ بھی آپ کے نام نیک انجام سے بازی میں جیتی ہے ، اُس کو بھی باورچی خانے میں بھجوا دیجئے ۔" بادشاہ نے وہ بھی مال مفت سمجھ کر لے لی ۔ چند روز کے بعد وہ دانش مند خود پسند ایک شخص رو سیاہ کو ہمراہ لے کر آیا اور بادشاہ جم جاہ سے کہنے لگا " اے حضرت سپہر کرامت ! میں بد خصلت آپ کی طرف سے دو ہزار روپے اُس شخص سے بازی لگا کر چوسر کھیلا تھا ، سو ہار گیا ؛ دو ہزار روپے خزانۂ عالی متعالی سے عنایت کیجیے تا کہ غلام اُس بازی جان بازی سے نجات پائے ۔" یہ سخن واہیات اُس سخن دہن سے سن کر بادشاہ متبسم ہوا اور دل میں کہنے لگا کہ " سو سنار کی ایک لہار کی " یعنی اُس نے اچھی ضرب لگائی ۔" غرض بادشاہ عالی جاہ نے اُس کو دو ہزار روپے دلوا کر کہا " اے عزیز بے تمیز ! اب جو کچھ ہوا سو ہوا ، الماضی لا یذ کر ، لیکن میرے نام نیک انجام کی پھر کسی سے بازی نہ لگانا ۔
قطعہ
نہ اب تُجھ سے بازی میں لوں گا کبھی
نہ اس طرح کی ہار دوں گا کبھی "
غرض دل میں مہجور وہ بادشاہ
بہ غایت ہوا شرم گیں بے گناہ
نقل ہے کہ ایک بادشاہ جم جاہ نے ایک منجم پر فہم سے پوچھا کہ " اے اختر شناس نیک اساس ! دیکھ تو ، میرا گل زندگی باغ جہاں میں کب تک شگفتہ رہے گا اور خزان اجل میری بہار زیست کو کب پت جھڑ کرے گی ؟" یہ کلام بادشاہ عالی مقام کا سن کر وہ منجم بے غم یوں حرف زن ہوا کہ
ریختہ صفحہ 370
"اے رونق بوستان حشمت و اے زینت گلستان دولت ! علم نجوم سے یوم معلوم و مفہوم ہوتا ہے کہ آپ کا گل زیست گلشن ہستی میں تیس برس کے بعد صرصر اجل سے مرجھائے گا : شعر
اگر جھوٹ ہو اس میں اے شہر یار !
تو اس برہمن کو سمجھنا چمار "
یہ سخن دل شکن اُس برہمن کا سن کر بادشاہ عالم پناہ نہایت ملول غم شمول ہوا ؛ یہاں تک کہ دو چار روز میں وہ دل فگار اس قدر نحیف و نزار ہو گیا جیسا کہ مہینوں کا بیمار ہوتا ہے ۔ یہ احوال پُر ملال بادشاہ فرخندہ فال کا وزیر نیک خصلت دیکھ کر یوں گویا ہوا کہ " اے شہنشاہِ گیتی پناہ !
بہ قول میر حسن : شعر
رہے جاہ و حشمت یہ تیرا مدام
بہ حق محمد علیہ السلام
یہ غلام نا کام خدا وند نعمت ، سپہر کرامت کو کئی روز سے نحیف و نزار دیکھتا ہے ، اس کا موجب و سبب کیا ہے ؛ خانہ زاد موروثی کو دریافت ہو تا کہ اُس کی تدبیر پُر تاثیر کی جائے ۔" یہ گفتگو وزیر نیک خو کی گوش زد فرما کے بادشاہ کہنے لگا " اے وزیر صاحب توقیر ! کچھ نہ کُچھ : شعر
میں پر غم اس لیے بلبل صفت دن رات نالاں ہوں
کہ باغ دہر میں گل کی صفت کچھ دن کا مہماں ہوں"
المدعا وزیر دل پزیر احوال پُر ملال کے اظہار و انکشاف پر جب نہایت در پے ہوا تو بادشاہ جم جاہ نے یہ دیدۂ گریان ، بہ دل بریان یوں زبان کو نطق سے آشنا کیا کہ " اے وزیر دل پذیر !