ناصر علی مرزا
معطل
رپورتھل اور قومی زبانکالم نگار | عزیز ظفر آزاد
آزادی سے پہلے بھی آل انڈیا مسلم لیگ نے قائداعظم کی قیادت میں قطعی فیصلہ کر لیا تھا کہ نئی وجود میں آنے والی ریاست جس کا نام پاکستان ہے اس کی قومی زبان اردو ہو گی جبکہ پاکستان میں بننے والا ہر آئین میں اردو کو قومی زبان کی حیثیت قرار دیا گیا مگر انگریز کے مراعات یافتہ طبقہ ہمیشہ قومی مفاد کے حصول میں حائل ہوتا رہا۔ 1973ءکے مشترکہ و متفقہ آئین میں یہ طے پا چکا تھا کہ 15 اگست 1988ءتک اردو کو ہر سطح پر انگریزی کی جگہ نافذ العمل کر دیا جائے گا۔ لہٰذا ڈاکٹر جمیل جالبی صدر نشیں مقتدرہ قومی زبان کا روزنامہ نوائے وقت لاہور میں مورخہ 15 ستمبر 1988ءکو انٹرویو کا اقتباس یہ ہے کہ
نفاذ اردو کے سلسلے میں مقتدرہ کی طرف سے تمام تیاریاں کر لی گئیں ہیں حکومت جب چاہے اردو کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے کا اعلان کر سکتی ہے۔ قبل ازیں راقم کو ایک کتاب (پاکستان تیس سال) کے مطالعہ کے دوران انکشاف ہُوا کہ 6 ستمبر 1960ءکو مجلس زبان دفتری جسے انگریزی کی دفتری اصطلاحات کا اردو ترجمہ کرنے کا کام سونپا گیا تھا کم و بیش اپنا کام مکمل کر چکی ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ صوبہ پنجاب میں پاکستان کی خالق اور حضرت قائداعظم کی جماعت برسراقتدار ہونے کے باوجود اردو کو نئی نسل کی تدریس سے ہٹا کر غیر ملکی آقاﺅں کی زبان میں تعلیم و تدریس رائج کر دیا گیا اس موقع پر چند اہل درد محب وطن اور باشعور پاکستانی ڈاکٹر محمد شریف نظامی کے گھر لاہور میں جمع ہوئے اور 5 نومبر 2010ءکو پاکستان قومی زبان تحریک کی بنیاد رکھی۔ اجلاس میں فوری طور پر ڈاکٹر ایم ایس نظامی کو تحریک کا صدر اور فیاض احمد ایڈووکیٹ کو سیکرٹری جنرل مقرر کیا گیا۔
ملک بھر میں اس کی ذیلی تنظیمیں قائم کرنے کے ساتھ ساتھ سرگرمیوں کا آغاز کر دیا گیا چنانچہ صوبہ پنجاب اور ملک بھر میں تحریک کے پیغام کو وسیع پیمانے پر پذیرائی ہوئی۔ تحریک کے عمائدین نے صوبہ بھر کے ہنگامی اور فوری دورے کئے۔ ایک طرف جنوبی پنجاب نے مظفر گڑھ، تونسہ شریف ، ڈیرہ غازی خان ، جامپور ، راجن پور ، کوٹ ادو اور ملتان میں تحریک کے اجلاس مذاکرے اور سیمینار منعقد کرنے کے ساتھ ساتھ ساہیوال ، اوکاڑہ ، میاں چنوں میں بھی تحریک کے اجلاس ، کنونشن منعقد کئے گئے۔ لاہور سمیت پنجاب کے شہروں میں پُرامن احتجاجی مظاہرے اور اجتماعات کا انعقاد کیا۔ اسی دوران راقم الحروف عزیز ظفر آزاد کو پنجاب کا صدر نامزد کیا گیا۔ ہم نے عدالتی محاذ پر بھی کام جاری رکھا۔ الحمد اللہ وفاقی شرعی عدالت نے حال ہی میں فیصلہ دیا ہے کہ اردو میڈیم کی بحالی طلبہ کا بنیادی حق ہے۔ نتیجہ کے طور پر حکومت پنجاب نے فیصلہ کیا ہے کہ سکولوں میں انگلش اور اردو میڈیم دونوں جاری رکھے جائیں اگرچہ ہماری ایک اہم کامیابی ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ انگلش میڈیم کو سرکاری و غیر سرکاری تمام تعلیمی اداروں سے ختم کیا جائے اور اعلیٰ سطح کی تعلیم بھی قومی زبان میں دی جائے جس طرح بابائے اردو یونیورسٹی کراچی میں ایم ایس سی کی سطح کی اردو کی کتب موجود ہیں بلکہ وہاں تو ایک طالب علم نے باٹنی میں پی ایچ ڈی بھی اردو میں کی ہوئی ہے۔ ہماری جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ قومی زبان اردو آئین پاکستان کے تقاضوں کے عین مطابق سرکاری ، دفتری ، عدالتی اور تمام تعلیمی اداروں میں مکمل نافذ نہیں ہو جاتی ۔
اسی سلسلے میں 17، 18 ستمبر کو جوہر آباد اور نور پور تھل میں بطور صدر پنجاب قومی زبان تحریک جانا ہوا جہاں بار ایسوسی ایشن کے بعد اساتذہ کے قومی زبان سیمینار میں شمولیت کے علاوہ علاقائی پریس سے ملنے کا موقع ملا۔ راقم کے ہمراہ تحریک کے مرکزی سیکرٹری جنرل فیاض احمد ایڈووکیٹ بھی تھے۔ ملک وارث ایڈووکیٹ اور جناب وہاب ہمارے میزبان تھے۔ انہوں نے تمام مراحل پر اعلیٰ انتظامات کر رکھے تھے۔ نور پور تھل اور جوہر آباد میں ملنے والے تمام لوگ ہماری اس کاوش کو قدر کی نظر سے دیکھتے ہوئے مکمل تعاون کی یقین دہانی کراتے رہے۔ دورے کا متاثرکن پہلو رات کو ادارہ دارالسلام جوہر آباد میں قیام کے دوران تب پیش آیا جب قبلہ پروفیسر عطا اللہ صاحب کی عجز و انکساری سے لبریز شخصیت کے بارے میں معلوم ہوا کہ آپ ادارہ ہذا کے مہتمم اعلیٰ ہیں پھر ان کے طلبہ سے مل کر آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کیونکہ بارہ چودہ سال کی عمر کے بچے عربی گرائمر پر عبور رکھتے ملے پھر ان بچوں میں کلام اقبال میں بیت بازی کا طویل مقابلہ ہوا۔ مقابلہ دیکھ کر حیرت حسرت اور مسرت کی کیفیات طاری ہونے لگیں۔ حیرت یہ کہ اس کم عمری میں عربی کی گرائمر پر روانی اور کلام اقبال کی فراوانی ، حسرت یہ کہ میری دھرتی پر ایسے مزید اساتذہ کا نزول کب ہوگا ؟ مسرت یہ تھی کہ ہم نظریہ پاکستان ٹرسٹ لاہور میں جو کام انجام دے رہے ہیں وہی عمل دور دراز سرگرداں مہتمم اعلیٰ ادارہ دارالسلام جوہر آباد پروفیسر عطااللہ پورے ملی جذبوں سے رواں دواں ہیں۔ کاش میں اور میرے جیسے حب وطن کے دعویدار جناب پروفیسر صاحب کے شاگرد ہو سکیں تو قوم کی کایا پلٹ سکتی ہے ، ملت کی تقدیر بدل سکتی ہے۔
نور پور تھل اور قومی زبان
آزادی سے پہلے بھی آل انڈیا مسلم لیگ نے قائداعظم کی قیادت میں قطعی فیصلہ کر لیا تھا کہ نئی وجود میں آنے والی ریاست جس کا نام پاکستان ہے اس کی قومی زبان اردو ہو گی جبکہ پاکستان میں بننے والا ہر آئین میں اردو کو قومی زبان کی حیثیت قرار دیا گیا مگر انگریز کے مراعات یافتہ طبقہ ہمیشہ قومی مفاد کے حصول میں حائل ہوتا رہا۔ 1973ءکے مشترکہ و متفقہ آئین میں یہ طے پا چکا تھا کہ 15 اگست 1988ءتک اردو کو ہر سطح پر انگریزی کی جگہ نافذ العمل کر دیا جائے گا۔ لہٰذا ڈاکٹر جمیل جالبی صدر نشیں مقتدرہ قومی زبان کا روزنامہ نوائے وقت لاہور میں مورخہ 15 ستمبر 1988ءکو انٹرویو کا اقتباس یہ ہے کہ
نفاذ اردو کے سلسلے میں مقتدرہ کی طرف سے تمام تیاریاں کر لی گئیں ہیں حکومت جب چاہے اردو کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے کا اعلان کر سکتی ہے۔ قبل ازیں راقم کو ایک کتاب (پاکستان تیس سال) کے مطالعہ کے دوران انکشاف ہُوا کہ 6 ستمبر 1960ءکو مجلس زبان دفتری جسے انگریزی کی دفتری اصطلاحات کا اردو ترجمہ کرنے کا کام سونپا گیا تھا کم و بیش اپنا کام مکمل کر چکی ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ صوبہ پنجاب میں پاکستان کی خالق اور حضرت قائداعظم کی جماعت برسراقتدار ہونے کے باوجود اردو کو نئی نسل کی تدریس سے ہٹا کر غیر ملکی آقاﺅں کی زبان میں تعلیم و تدریس رائج کر دیا گیا اس موقع پر چند اہل درد محب وطن اور باشعور پاکستانی ڈاکٹر محمد شریف نظامی کے گھر لاہور میں جمع ہوئے اور 5 نومبر 2010ءکو پاکستان قومی زبان تحریک کی بنیاد رکھی۔ اجلاس میں فوری طور پر ڈاکٹر ایم ایس نظامی کو تحریک کا صدر اور فیاض احمد ایڈووکیٹ کو سیکرٹری جنرل مقرر کیا گیا۔
ملک بھر میں اس کی ذیلی تنظیمیں قائم کرنے کے ساتھ ساتھ سرگرمیوں کا آغاز کر دیا گیا چنانچہ صوبہ پنجاب اور ملک بھر میں تحریک کے پیغام کو وسیع پیمانے پر پذیرائی ہوئی۔ تحریک کے عمائدین نے صوبہ بھر کے ہنگامی اور فوری دورے کئے۔ ایک طرف جنوبی پنجاب نے مظفر گڑھ، تونسہ شریف ، ڈیرہ غازی خان ، جامپور ، راجن پور ، کوٹ ادو اور ملتان میں تحریک کے اجلاس مذاکرے اور سیمینار منعقد کرنے کے ساتھ ساتھ ساہیوال ، اوکاڑہ ، میاں چنوں میں بھی تحریک کے اجلاس ، کنونشن منعقد کئے گئے۔ لاہور سمیت پنجاب کے شہروں میں پُرامن احتجاجی مظاہرے اور اجتماعات کا انعقاد کیا۔ اسی دوران راقم الحروف عزیز ظفر آزاد کو پنجاب کا صدر نامزد کیا گیا۔ ہم نے عدالتی محاذ پر بھی کام جاری رکھا۔ الحمد اللہ وفاقی شرعی عدالت نے حال ہی میں فیصلہ دیا ہے کہ اردو میڈیم کی بحالی طلبہ کا بنیادی حق ہے۔ نتیجہ کے طور پر حکومت پنجاب نے فیصلہ کیا ہے کہ سکولوں میں انگلش اور اردو میڈیم دونوں جاری رکھے جائیں اگرچہ ہماری ایک اہم کامیابی ہے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ انگلش میڈیم کو سرکاری و غیر سرکاری تمام تعلیمی اداروں سے ختم کیا جائے اور اعلیٰ سطح کی تعلیم بھی قومی زبان میں دی جائے جس طرح بابائے اردو یونیورسٹی کراچی میں ایم ایس سی کی سطح کی اردو کی کتب موجود ہیں بلکہ وہاں تو ایک طالب علم نے باٹنی میں پی ایچ ڈی بھی اردو میں کی ہوئی ہے۔ ہماری جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ قومی زبان اردو آئین پاکستان کے تقاضوں کے عین مطابق سرکاری ، دفتری ، عدالتی اور تمام تعلیمی اداروں میں مکمل نافذ نہیں ہو جاتی ۔
اسی سلسلے میں 17، 18 ستمبر کو جوہر آباد اور نور پور تھل میں بطور صدر پنجاب قومی زبان تحریک جانا ہوا جہاں بار ایسوسی ایشن کے بعد اساتذہ کے قومی زبان سیمینار میں شمولیت کے علاوہ علاقائی پریس سے ملنے کا موقع ملا۔ راقم کے ہمراہ تحریک کے مرکزی سیکرٹری جنرل فیاض احمد ایڈووکیٹ بھی تھے۔ ملک وارث ایڈووکیٹ اور جناب وہاب ہمارے میزبان تھے۔ انہوں نے تمام مراحل پر اعلیٰ انتظامات کر رکھے تھے۔ نور پور تھل اور جوہر آباد میں ملنے والے تمام لوگ ہماری اس کاوش کو قدر کی نظر سے دیکھتے ہوئے مکمل تعاون کی یقین دہانی کراتے رہے۔ دورے کا متاثرکن پہلو رات کو ادارہ دارالسلام جوہر آباد میں قیام کے دوران تب پیش آیا جب قبلہ پروفیسر عطا اللہ صاحب کی عجز و انکساری سے لبریز شخصیت کے بارے میں معلوم ہوا کہ آپ ادارہ ہذا کے مہتمم اعلیٰ ہیں پھر ان کے طلبہ سے مل کر آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کیونکہ بارہ چودہ سال کی عمر کے بچے عربی گرائمر پر عبور رکھتے ملے پھر ان بچوں میں کلام اقبال میں بیت بازی کا طویل مقابلہ ہوا۔ مقابلہ دیکھ کر حیرت حسرت اور مسرت کی کیفیات طاری ہونے لگیں۔ حیرت یہ کہ اس کم عمری میں عربی کی گرائمر پر روانی اور کلام اقبال کی فراوانی ، حسرت یہ کہ میری دھرتی پر ایسے مزید اساتذہ کا نزول کب ہوگا ؟ مسرت یہ تھی کہ ہم نظریہ پاکستان ٹرسٹ لاہور میں جو کام انجام دے رہے ہیں وہی عمل دور دراز سرگرداں مہتمم اعلیٰ ادارہ دارالسلام جوہر آباد پروفیسر عطااللہ پورے ملی جذبوں سے رواں دواں ہیں۔ کاش میں اور میرے جیسے حب وطن کے دعویدار جناب پروفیسر صاحب کے شاگرد ہو سکیں تو قوم کی کایا پلٹ سکتی ہے ، ملت کی تقدیر بدل سکتی ہے۔
نور پور تھل اور قومی زبان