بسم اللہ الرحمن الرحیم
والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم
زیک میرا ارادہ بن رہا تھا اس کام کو ایک تحقیقی کام کی شکل دون لیکن فی الحال فرصت نہ ہونے کےباعث ایسا نہین کر پا رہا۔ میں نے اپنا بلاگ شروع کیا ہے۔ ان شاء اللہ اپنا نظام الٲوقات منظم کرکے کچھ اس طرح کے مضامین پیش کیا کروں گا۔ فی الحال سرسری مطالعہ کرکے آپ کےسامنے حاصل مطالعہ پیش کر رہا ہوں۔
لیکن جتنے بھی مصادر ومراجع ہیں سب عربی کے ہیں۔ جانے آپ کو فائدہ ہوگا یا نہیں۔
بہر کیف!
بدقسمتی سے ہماری اردو میں وہ مواد نہیں جو عربی زبان میں ہے۔ اور جو اردو میں ہے بہت کم ہے۔
زنگی اور روضہء رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واقعہ ان پانچ واقعات میں سے ایک ہے جن میں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے جسد اطہر اور شیخین حضرت ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہ کے اجساد مبارکہ کو چوری یا دیار غیر میں منتقل کرنے کی کوشش کی گئی۔
سب سے پہلی اور دوسری کوشش (الحاکم بٲمر اللہ) نے کی تھی پہلی کوشش اپنے گورنر ابو الفتوح کے ذریعہ کی۔ ابو الفتوح جس کا نام حسن بن جعفر تھا۔ سن ۳۹۰ ہجری میں مکہ اور مدینہ کا گورنر (الحاکم بٲمر اللہ) کے امر پر رہ چکا ہے۔ دیکھئے (صبح الاعشی مصنفہ قلقشندی جلد ۴ صفحہ ۲۹۹۔
الحاکم بٲمر اللہ نے ۳۸۶ ہجری میں حکم سنبھالا۔یہ عبیدی خلفاؤں میں سے چھٹا حکمران تھا۔ ۴۰۸ ہجری میں خدائی کا دعوی کیا۔ ۴۱۱ہجری میں مردار ہوا۔ دیکھئے (البدایہ والنہایہ جلد ۱۱ صفحہ ۴۴۱)۔
اسکی وجہ یہ تھی کسی زندیق شخص نے امیر سے کہا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد اطہر یہاں لے آتے ہیں تو یہ مصر کےلئے منقبت ہوگی اور دنیا کے تمام لوگ یہاں آئیں گے۔ ابو الفتوح کو حکم ہوا۔ مدینہ پہنچا لیکن ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ ایک شدید ہوا آئی۔ اونٹ نہ گھوڑے اس ہوا کے سامنے ٹھہر سکے۔ ابو الفتوح کا سینہ بھی منشرح ہوا کہ یہ کام غلط ہے سو وہ واپس ہوا۔
ان دونوں کوششوں کی تفصیلات درج ذیل مصادر میں مل سکتی ہے:
تحقیق النصرۃ صفحہ ۱۴۶۔
الوفا بما یجب لحضرۃ المصطفی ص ۱۲۹۔
وفاء الوفا جلد ۲ صفحہ ۶۵۲۔
عمدۃ الاخبار ص ۱۲۸۔
زنکی رحمۃ اللہ علیہ کا جو واقعہ ہے وہ
تیسرے نمبر پر ہےٍ۔ نور الدین زنکی رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ تو تفصیلا آپکو معلوم ہے۔ نیز تعارف کے بھی محتاج نہیں۔ مختصرا اتنا عرض ہے کہ مراکش کے دو عیسائیوں کو استعمال کرتے ہوئے کسی عیسائی حکمران نے سن ۵۵۷ ہجری میں یہ کھیل کھیلا تھا۔
اس واقعہ کی تفصیل
وفاء الوفا جلد ۲ صفحہ ۶۴۸ میں مل سکتی ہے۔
آپ کے سوال کا دوسرا حصہ کے لئے مجھے مزید تلاش کرنا ہوگا۔ اس کے لئے مجھے ایک کتاب ہے میرےذہن میں (
امراء المدینہ المنورہ) دیکھنی ہوگی جوکہ فی الحال میرے ہاتھ میں نہیں۔ جیسے ہی معلومات مہیا ہوتی ہیں نقل کردوں گا۔
چوتھی کوشش:یہ بھی کچھ عیسائیوں نے کی تھی۔ جو علی الاعلان مار دھاڑ کرتے ہوئے اور لوگوں کو کہتے ہوئے مدینہ کی طرف آ رہے تھے کہ ہم جسد مبارک کو قبر مبارک سے نکالنے کا عزم کرکے مدینہ جا رہے ہیں۔ الخ۔۔۔ اس کی تفصیل (رحلہ ابن جبیر صفحہ ۳۱ پر دیکھ سکتے ہیں)۔
پانچویں کوشش:یہ تقریبا ساتویں ہجری صدی کے وسط میں تھی۔
اہل حلب میں سے چند لوگوں نے امیر مدینہ کو لالچ دیکر حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے اجساد چوری کرنا چاہی۔ زمین نے دھنس دئے گئے۔
تفصیل کے لئےٍ:
الوفا لما یجب لحضرۃ المصطفی ص ۱۵۳۔
والسلام