سید شہزاد ناصر
محفلین
مسلمان حالت غم میں تھے مگر پھر بھی اپس میں لڑرہے تھے اور اتنے کمزور تھے کہ وہ عیسائی طاقت کا سامنا کرنے کی ہمت نہ پاسکے۔ اس وقت ایک بہادر مسلمان حکمران سامنے ایا۔ اس کا نام عماد الدین زنگی تھا۔ وہ سلجوقی دور میں موصل کا حکمران تھا۔ جب سلجوق کمزور ہوئے تو وہ طاقت پاگیا کیونکہ اس نے دوسری مسلمان طاقتوں سےنہ لڑنے کہ پالیسی اپنائی۔ عماد الدین زنگی عیسائیوں سے لڑنے کے لیے اکیلا سامنے ایا۔ اُس نے عیسائیوں کے کئی قلعے فتح کرلیے۔ اس نے مسجد الاقصا کو عیسائیوں کے ناپاک قبضے سے نجات دلانے کا عزم کررکھا تھا لہذا وہ عیسائیوں کو پے درپے شکست دیتا ہوا یروشلم کی طرف بڑھتا رہا۔ مگر اس کی قسمت میں فاتح بیت المقدس بننانہیں لکھا تھا۔وہ بیمار ہوگیا اور بالاخر انتقال فرماگیا۔ اناللہ و اناالیہ راجعون۔ اس نے 521ھ سے 541 ھ تک حکمرانی کی۔
عماد الدین کے بعد اسکا بیٹا نور الدین زنگی کے سر پر تاج ِحکمرانی سجایا گیا۔ نورالدین نے عیسائیوں سے جہاد جاری رکھا اور 541-568 ھ تک ان سے جنگ کرتا رہا مگر جب نور الدین نے دیکھا کہ عیسائی بٹی ہوئی مسلمان ریاستوں سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں لہذا مسلمان ریاستیں نور الدین کی عیسائیوں کے خلاف کوئی مدد نہیں کررہی ہیں تو اس نے مسلمان ریاستوں کو متحد کرنے کی ٹھانی۔ مسلمان حکمرانوں کے سر پر حسب روایت کوئی جوں نہ رینگی۔ لہذا نور الدین نے اپنا طریقہ کار میں تبدیلی کی اور بے حس مسلم حکمرانوں کے خلاف جنگ کا سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجے میں مسلم ریاستوں کے متحد ہونے کا کام انجام پاسکا۔
مصر ان دنوں فاطمی حکمران کے زیر اثر تھا جو کہ بے حد کمزور حکمران تھے۔ مصر کی فلسطین کے ساتھ سرحد مشترکہ تھی۔ عیسائیوں نے مصر پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بھی بنالیا۔ مگر نورالدین نے عیسائیوں کا خواب پورا نہ ہونے دیا۔ اس نے عیسائیوں کےمصر پر قبضہ سے پہلے ہی مصر پر اپنی حکومت قائم کرلی۔ اس کے بعد کسی دوسرے مسلم حکمران کو جرات نہ ہوئ کہ نور الدین سے لڑ سکے۔ اسکے بعد نور الدین نے فلسطین پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایامگر قضا نے اسے مہلت نہ تھی اور وہ 48 سال کی عمر میں انتقال فرماگیا۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔
بہادر باپ اور بیٹا دونوں سچے مسلمان تھے اور اللہ پر ہی یقین رکھتے تھے۔ دونوں اتنے بہادر تھے کہ دشمن سے لڑتے ہوئے اپنی جانوں کی بھی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ ایک مرتبہ نور الدین بہت بہادری سے دادِشجاعت دے رہا تھا اسکے ایک کمان دار نے اس سے کہا " اگر اپ کو کچھ ہوگیا تو عیسائیوں کا حوصلہ بڑھ جائے گا اور وہ مسلمانوں کا تباہ کردیں گے" نور الدین نے اسکے جواب میں کہا " پہلے تولو پھر بولو! اپ اللہ کی قدر و قدرت کے خلاف بول رہے ہیں۔ بتائیے مجھ سے پہلے کس نے اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کی؟"
نور الدین ایک ذہین فرماروا تھا۔ اسنے لاتعداد مدرسہ، ھسپتال، اور کئی اقسام کی عمارات لوگوں کی خدمت کے لیے تعمیر کیں۔ وہ ایک منصف مزاج حکمران تھا۔ اس نے اسلامی بیت المال قائم کیا اور خزانے سے اپنے لیے ایک ٹیڈی پائی بھی نہیں لی۔ زیادہ تر وہ جنگی معرکوں میں مصروف رہا اور اس نے مال غنیمت سے اتنا ہی وصول کیا جتنا دوسرے سپاہیوں کے لیے مخصوص تھا۔ تمام بیت المال کے اساسے فلاحی کاموں کے لیے مخصوص تھے۔ اس کے دور حکمرانی میں مہمانوں کو سرائے میں اور مریضوں کو ھسپتالوں میں مفت سہولتیں دی جاتی تھیں۔ نور الدین زنگی کا اندازِحکمرانی ہمیں ‘عمربن عبدلعزیز’ کی یاد دلاتا ہے۔ نور الدین نے عوام پر کوئی ناجائز تیکس نہیں لگایا۔ وہ اتنا منصف تھا کہ ایک دفعہ ایک ادمی نے نورالدین کے خلاف مقدمہ دائر کردیا۔ جب نور الدین نے سنا اس وقت وہ پولو کھیل رہا تھا جو کہ اس کا پسندیدہ کھیل تھا۔ نورالدین اسی وقت میدان ِکھیل سے باھر ایا اور عدالت کی طرف دوڑ لگادی اور عدالت میں اپنی صفائی پیش کی۔
ایک دفعہ اس کی بیوی نے کچھ مزید رقم کا تقاضا کیا اور کہا کہ جو وظیفہ اسکو ملتا ہے وہ گزارے کے لیے کافی نہیں۔ نورالدین نے جواب دیا " میں کہاں سے رقم حاصل کروں۔ بیت المال مسلمان عوام کے لیےہے اور میں صرف اسکا رکھوالا ہوں" اس کی حکمرانی دراصل شریعت کی حکمرانی تھی۔ شراب نوشی اور کاروبار اس دور میں ممنوع تھے۔ وہ اپنی ذاتی زندگی میں بھی شریعت کا پابند تھا۔ اللہ نور الدین زنگی پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔ امین۔
ربط
http://pak.net/?p=3713