الشفاء

لائبریرین
کتاب نور محمدی (صل اللہ علیہ وآلہ وسلم) خلقت سے ولادت تک۔۔۔
ڈاکٹر محمد طاہر القادری
اس رسالہ میں حضور صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خلقت مبارکہ سے ولادت مطہرہ تک کا ذکر نہایت مختصر طریق پر کر دیا گیا ہے تاکہ اہل ایمان و محبت اس کو ہر وقت تنہائی میں اور مجالس میں بالخصوص محافل میلاد میں سہولت اور ذوق و شوق سے پڑھ سکیں اور سن سکیں۔ اور اہل محبت کے لیے تو یہی کافی ہے کہ انہیں اپنے محبوب صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری کا کچھ حال معلوم ہو۔(مقدمہ، مختصراً)۔۔۔

(1) امام عبدالرزاق نے اپنی سند کے ساتھ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ میں نے اپنے آقا علیہ السلام سے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں مجھ کو خبر دیجیے کہ سب اشیاء سے پہلے اللہ تعالیٰ نے کون سی چیز پیدا کی۔ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " اے جابر! اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور (کے فیض) سے پیدا کیا، پھر وہ نور قدرت الٰہیہ سے جہاں اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا سیر کرتا رہا۔ اس وقت نہ لوح تھی، نہ قلم تھا، نہ بہشت تھی نہ دوزخ تھا، نہ فرشتہ تھا، نہ آسمان تھا، نہ زمین تھی، نہ سورج نہ چاند تھا نہ جن اور نہ انسان تھا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرنا چاہا تو اس نور کے چار حصے کیے اور ایک حصے سے قلم پیدا کیا اور دوسرے سے لوح اور تیسرے سے عرش۔ آگے طویل حدیث ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ پھر ساری کائنات کی تخلیق اسی نور کے توسط سے ہوئی۔

(2) امام قسطلانی نے نے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نور محمدی کو حکم فرمایا کہ انوار انبیاء پر توجہ کرے پس حضور صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور مبارک نے دیگر انبیاء علیھم السلام کی ارواح و انوار پر توجہ فرمائی تو اس نور نے ان سب انوار کو ڈھانپ لیا۔ انہوں نے عرض کی باری تعالیٰ ہمیں کس نے ڈھانپ لیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا، یہ محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور ہے، اگر تم ان پر ایمان لاؤ گے تو تمہیں شرف نبوت سے بہرہ ور کیا جائے گا۔ اس پر سب ارواح انبیاء نے عرض کیا ، باری تعالیٰ ہم ان پر ایمان لائے ہیں۔ اس کا مکمل ذکر اس آیت کریمہ میں ہے۔ وَإِذْ أَخَذَ اللّٰهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّينَ لَمَا آتَيْتُكُمْ مِنْ كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ۔ یعنی یاد کرو اس وقت کو جب اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے یہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر کے مبعوث کروں تو اس کے بعد آپ کے پاس میرا پیارا رسول آ جائے ، تم سب اس پر ایمان لانا اور اس کے مشن کی مدد کرنا۔ (سورۃ آل عمران)۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ نے ہر نبی سے یہ عہد بھی لیا کہ وہ اپنی اپنی امت کو بھی حضرت محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے اور ان کی تصدیق کرنے کی تلقین کرتے رہیں گے۔ چنانچہ تمام انبیاء کرام نے ایسا ہی کیا۔ (المواہب المدنیہ)۔

(3) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام نے پوچھا ، یا رسول اللہ! آپ کے لیے نبوت کس وقت ثابت ہو چکی تھی۔ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، اس وقت سے جبکہ آدم علیہ السلام ابھی روح اور جسد کے درمیان تھے، یعنی ان کےتن میں جان بھی نہ آئی تھی۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کر کے حسن قرار دیا ہے۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
امام مشعبی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کب نبی بنائے گئے۔ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آدم اس وقت روح اور جسد کے درمیان تھے جب کہ مجھ سے میثاق نبوت لیا گیا۔

حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بے شک میں حق تعالیٰ کے نزدیک خاتم النبیین ہو چکا تھا اور آدم علیہ السلام ابھی اپنے خمیر ہی میں تھے یعنی ان کا پتلا بھی تیار نہ ہوا تھا۔ (احمد اور بیہقی نے اسے روایت کیا اور حاکم نے اسے صحیح الاسناد کہا ہے)۔

احکام ابن القطان میں حضرت امام زین العابدین سے روایت ہے وہ اپنے باپ امام حسین رضی اللہ عنہ اور وہ ان کے جد امجد یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں آدم علیہ السلام کے پیدا ہونے سے چودہ ہزار برس پہلے اپنے پروردگار کے حضور میں ایک نور تھا۔

حضرت سرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ میں نے بارگاہ نبوت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا کہ حضور! آپ کب سے شرف نبوت کے ساتھ مشرف ہو چکے تھے؟ رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا فرمایا اور آسمانوں کی طرف قصد فرمایا اور ان کو سات طبقات کی صورت میں تخلیق فرمایا اور عرش کو ان سے پہلے بنایا تو عرش کے پائے پر محمد رسول اللہ خاتم الانبیاء لکھا اور جنت کو پیدا فرمایا جس میں بعد ازاں حضرت آدم اور حضرت حوا علیھما السلام کو ٹھہرایا تو میرا نام نامی جنت کے دروازوں پر اس کے درختوں کے پتوں اور اہل جنت کے خیموں پر لکھا حالانکہ ابھی آدم علیہ السلام کے روح و جسم کا باہمی تعلق نہیں ہوا تھا۔ پس جب ان کے روح کو جسم میں داخل فرمایا اور زندگی عطا فرمائی تب انہوں نے عرش معظم کی طرف نگاہ اٹھائی تو میرے نام کو عرش پر لکھا ہوا دیکھا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے انہیں بتایا کہ یہ تمہاری اولاد کے سردار ہیں۔ جب ان کو شیطان نے دھوکہ دیا انہوں نے بارگاہ الہٰی میں توبہ کی اور میرے نام سے ہی شفاعت طلب کی۔ (محدث ابن جوزی نے اسے الوفاء میں روایت کیا ہے)۔
بلکہ صحیح مسلم میں ہے کہ حضور صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال قبل جس وقت اس کے اقتدار اور سلطنت کا عرش عالم مادی میں فقط پانی پر تھا (نیچے صرف پانی تھا اور اوپر اسی کو معلوم ہے کیا تھا) اس وقت اللہ تعالیٰ نے جو کچھ ام الکتاب یعنی لوح محفوظ میں لکھا اس میں ایک بات یہ تھی : انّ محمداً صل اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین۔ یعنی محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے آخری نبی ہیں۔ اسے امام بنھانی نے الانوار المحمدیہ میں نقل کیا ہے۔ واضح رہے کہ یہاں سال سے مراد ہمارے ماہ و سال نہیں کیونکہ اس وقت تو سورج اور شب و روز وجود میں نہیں آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس مدت سے حقیقت میں کتنا زمانہ مراد ہے۔ قرآن مجید میں قیامت کے ایک دن کی مدت پچاس ہزار سال بتائی گئی ہے۔ اگر یہ اعتبار سامنے رکھا جائے تو خدا جانے عرصے کی درازی کا عالم کیا ہو گا۔

حاکم نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے حضرت محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام مبارک عرش پر لکھا دیکھا اور اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے فرمایا کہ اگر محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہوتے تو میں تم کو پیدا نہ کرتا۔ (اس سے آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت کا اظہار آدم علیہ السلام کے سامنے ظاہر کرنا مقصود تھا)۔

یہ روایت دوسرے طریق پر اس طرح آئی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو آپ کو نام کے ساتھ ابو محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کنیت سے بلایا۔ آپ نے عرض کی باری تعالیٰ میری یہ کنیت کیسے ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اپنا سر اٹھاؤ۔ آپ نے اوپر دیکھا تو عرش پر نور محمدی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم جلوہ گر تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے پوچھا باری تعالیٰ یہ نور کس کا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور ہے۔ یہ تیری اولاد میں سے ہوں گے ان کا نام آسمانوں میں احمد اور زمین پر محمد ہے۔ اگر میں اسے پیدا نہ کرتا تو نہ تمہیں پیدا کرتا اور نہ زمین و آسمان کو پیدا فرماتا۔

حضرت عمر بن الخطاب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب آدم علیہ السلام سے بھول ہوئی تو انہوں نے بارگاہ باری تعالیٰ میں عرض کی کہ اے پروردگار میں آپ سے بواسطہ حضر محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم درخواست کرتا ہوں کہ میری مغفرت فرما۔ حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے آدم، تم نے محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیسے پہچانا حالانکہ ابھی میں نے ان کو پیدا بھی نہیں کیا؟ عرض کیا اے رب! میں نے اس طرح پہچانا کہ جب آپ نے مجھ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا اور اپنی طرف سے روح میرے اندر پھونکی میں سر جو اٹھایا تو میں نے عرش کے پایوں پر یہ لکھا ہوا دیکھا۔ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ سو میں معلوم کر لیا کہ آپ نے اپنے نام پاک کے ساتھ ایسے شخص کے نام کو ملایا ہے جو آپ کے نزدیک تمام مخلوق سے زیادہ پیارا ہو گا۔ حق تعالیٰ نے فرمایا، اے آدم تم سچے ہو۔ واقعی محمد صل اللہ علیہ وآل وسلم میرے نزدیک تمام مخلوق سے زیادہ پیارے ہیں اور جب تم نے ان کے واسطہ سے مجھ سے درخواست کی ہے تو میں تمہاری مغفرت کی اور اگر محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ ہوتے تو میں تم کو بھی پیدا نہ فرماتا۔ امام طبرانی نے اس کا ذکر کیا ہے اور مزید یہ روایت کیا ہے کہ حق تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ تمہاری اولاد میں سب انبیاء سے آخری نبی ہیں۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
ماشاءاللّہ ماشاء اللّہ

جزاک اللّہ خیراکثیرا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں اُمت کو کریمانہ اخلاق کی تعلیم دِی ہے، وہاں اپنے عمل سے اُن کے سامنے اعلیٰ اخلاق کا نمونہ بھی پیش فرمایا ہے۔ آپ کی یہ اخلاقی تعلیمات آپ کی زِندگی میں روزِ روشن کی طرح واضح ہیں، جن کی نظیر انسانی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔

یَا صَاحِبَ الجَمَالِ وَ یَا سَیِّدَ البَشَرْ
مِنْ وَجْہِکَ الْمُنِیْرِ لَقَدْ نُوِّرَ الْقَمَرْ
لَا یُمْکِنُ الثَّنَاءُ کَمَا کَانَ حَقَّہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
-----------------
اے صاحب جمال کل اے سرورِ بشر
رُوئے منیر سے ترے روشن ہوا قمر
ممکن نہیں کہ تیری ثنا کا ہو حق اَدا
بعد از خدا بزرگ توہے قصہ مختصر
 

سیما علی

لائبریرین
تمہا رے لئے حضور ﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے‘‘ (القرآن)

اگر آج ہم اپنے معاشرے ارد گرد نظر دوڑائیں تو معاشرہ سنت نبوی ﷺکے اسلامی احکامات کو چھوڑ کر شرک و بدعات جیسے خرافات کی دلدل میں لپٹا ہوا نظر آئیگا۔ مسلمان سیرت النبی ﷺ کے مطابق اپنی زندگیوں کو بسر کرنے کی بجائے مسائل کی دلدلوں میں اُلجھ کر رہ گئے ہیں۔ حضور ﷺ تمام جہانوں کیلئے رحمۃ العالیمین بنا کر بھیجے گئے ۔اسلام لوگوں کو اچھائی کی طرف بلاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا نافرمان بندہ گناہوں میں دھت شیطان کا راستہ چھوڑنا ہی نہیں چاہتا۔ رسول اللہ ﷺ نے جو دین ہم تک پہنچایا وہ مکمل ضابطہ حیات کا عمدہ نمونہ اور اسلام کی جیتی جاگتی تصویر پیش کر تا ہے افسوس اسکے باوجود بھی لوگ اس کو چھوڑ کر در بدرکی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔ دین اسلام کو مکمل ضابطہ حیات ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔نبی کائنات ﷺ صدقت، امانت، سخاوت، عفو درگزر،عدل و انصاف، ایفائے عہد ، شجاعت، رواداری، خدمت خلق، رحمت عالم، انکساری، پاکیزگی و طہارت ، تحمل بردباری، شرم و حیائ، میانہ راوی، مساوات، اُخوت، صبرو استقامت جیسی صفات کا عمدہ شناخسا تھے اس لئے حضور ﷺ کی اتباع و اطاعت و فرمانبرداری کیلئے سیرت طیبہ کا مطالعہ مسلمانوں کیلئے لازم اور وقت کی ضرورت بن چکا ہے ۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ پر عمل پیرا اور اسکا مطالعہ ہما رے ایمان کی بنیادی شرط ہے آج ہم حضور ﷺ کی سیرت طیبہ سے بہت دور ہیں اس کے بعد بھی ہم اپنے آپ کو دل کے سکون کیلئے مسلمان کہلواتے ہیں ۔
 

الشفاء

لائبریرین
حضرت وہب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام پر وحی فرمائی کہ میں مالک شان الوہیت ہوں اور مکہ کا مالک ہوں، اس کے رہنے والے پسندیدہ لوگ ہیں۔ اس کے زائرین میرے مہمان ہیں اور میری پناہ میں ہیں۔ مکہ میرا گھر ہے جس کو میں اہل آسمان اور اہل زمین سے آباد کروں گا۔ لوگ اس کی طرف جوق در جوق آئیں گے اگرچہ وہ پراگندہ بالوں اور غبار آلود جسموں والے ہوں گے، وہ تکبیروں کے ساتھ آوازوں کو بلند کریں گے، کبھی تلبیہ (لبیک الٰلھم لبیک لا شریک لک لبیک) کے ساتھ بارگاہ خداوندی میں زاری کریں گے کبھی انکساری کے ساتھ آنکھوں سے سیلاب اشک بہاتے ہوں گے۔ جو میرے اس گھر کا خالص قصد لے کر آئے گا دوسرا کوئی مقصد اس کے پیش نظر نہیں ہو گا تو وہ شخص ہی درحقیقت میرا زائر ہے اور مہمان ہے اور میری منزل قرب میں اترنے والا ہے اور میرے ذمہ کرم پر ہے کہ میں اس کو کرامت و عزت کا تحفہ دوں گا۔ وہ گھر اس کا ذکر و شرف۔۔۔۔۔ اور اس کی مجدوبرتری اور رونق و بہار تمہاری اولاد میں سے اس نبی کے حوالے کروں گا جن کو ابراہیم کہا جائے گا۔ میں ان کے لیے اس گھر کی بنیادیں بلند کروں گا اور ان کے ہاتھوں پر اس کو مکمل کروں گا۔ پھر اس گھر کو لوگ یکے بعد دیگرے آباد کرتے رہیں گے حتٰی کہ آبادی کی انتہا تمہاری اولاد میں اس نبی پر ہو گی جن کو " محمد " صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک نام سے پکارا جائے گا، وہ آخری نبی ہوں گے۔ میں ان کو بیت اللہ کا باسی و والی بناؤں گا اور اس کا محافظ و نگران اور اس کے زائرین کو آب زمزم پلانے والا بناؤں گا۔ اگر اس وقت کوئی میرے متعلق دریافت کرے (اور مجھے ملنا چاہے) تو میں اس نبی آخرالزماں کے پراگندہ بال ، غبار آلود غلاموں کے ساتھ ہوں گا جو اپنی نذروں کو پورا کرنے والے ہوں گے اور دل و جان سے میری طرف متوجہ ہوں گے۔۔۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی کہ اگر محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود نہ ہوتے تو میں آدم علیہ السلام کو پیدا نہ کرتا۔ جب میں نے عرش کو پیدا کیا تو وہ میری ہیبت و جلالت سے لرزنے لگ گیا، جب میں نے اس پر لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا تو اس کو سکون و قرار آ گیا۔۔۔

حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے محمد عربی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو حضرت جبرائیل امین علیہ السلام کو حکم دیا کہ ایسی مٹی میرے پاس لے آؤ جو میرے محبوب پاک کے جسم اقدس اور جسد اطہر کی تخلیق کے لائق ہو تو وہ سفید مٹی کی ایک مٹھی روضہ اطہر والی جگہ سے لے کر بارگاہ خداوندی میں حاضر ہوئے تو امر خداوندی سے اس کو تسنیم کے پانی سے گوندھا گیا۔ جنت کی لہروں میں اسے دھویا گیا، پھر (نور نبوت اس میں رکھ کر) اس کو عرش و کرسی ، لوح و قلم اور آسمانوں اور زمینوں میں ہر جگہ پھرایا گیا تاکہ ملائکہ اور ہر شے حضور محمد مصطفےٰ صل للہ علیہ وآلہ وسلم کے شرف و فضل کو پہچان لے۔
ابھی انہوں نے حضرت آدم علیہ السلام کو نہ جانا تھا نہ پہچانا تھا۔ پھر نور محمدی تخلیق آدم علیہ السلام کے بعد ان کی پشت میں ودیعت کیا گیا جو کہ آدم علیہ السلام کی پیشانی سے جھلکنے والے انوار سے محسوس ہوتا تھا اور ان سے کہا گیا کہ اے آدم، یہ تیری نسل میں پیدا ہونے والے انبیاء و مرسلین کے سردار ہیں۔ جب حضرت حوا رضی اللہ عنہا کے بطن اطہر میں حضرت شیث علیہ السلام منتقل ہوئے تو وہ نور بھی حضرت حوا کے بطن اقدس کی طرف منتقل ہو گیا۔ وہ ہر دفعہ دو جڑواں بچوں کو جنم دیتی تھیں ماسوا حضرت شیث علیہ السلام کے ، کیونکہ وہ حضور کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کے جد امجد ہونے کی برکت سے تنہا پیدا ہوئے اور سب بھائیوں سے مرتبہ و کمال کے لحاظ سے یکتا بنے۔ پھر نبی الانبیاء علیہ الصلاۃ والسلام کا نور انور یکے بعد دیگرے پاک پشتوں اور پاک رحموں میں منتقل ہوتا رہا تا آنکہ آپ کی ولادت با سعادت ہوئی۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
حضرت آدم علیہ السلام نے حضرت شیث علیہ السلام کو وصیت فرمائی کہ تمہاری پشت میں حضرت محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور مبارک ہے سو ، اسے پاکیزہ رحم میں منتقل کرنا۔ سوائے پاک عورتوں کے کسی کا رحم اس نور کا مسکن اور ٹھکانہ نہیں بن سکے گا۔ سو یہ وصیت نسلاً بعد نسل حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے نسب مبارک کا ہر فرد اپنے بیٹے کو کرتا رہا تا آنکہ یہ نور تمام زمانوں میں پاکیزہ پشتوں اور پاکیزہ رحموں میں سے منتقل ہوتا ہوا حضرت عبدالمطلب کے بیٹے حضرت عبداللہ کی پشت مبارک تک آن پہنچا۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو مجھے ان کی پشت مبارک میں زمین پر اتارا اور حضرت نوح علیہ السلام کی پشت مبارک میں کشتی کے اندر رکھا اور میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پشت مبارک میں تھا جب انہیں دہکتی ہوئی آگ میں ڈالا گیا۔ اسی طرح ہر دور میں مجھے مبارک پشتوں سے مبارک ارحام کی جانب منتقل کیا جاتا رہا یہاں تک کہ میں اپنے والدین کریمین کے گھر جلوہ افروز ہوا۔ ان میں کوئی بھی بدکاری کے نزدیک تک نہیں گیا۔

مشکواۃ المصابیح میں مسلم سے بروایت واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ بیان ہوا کہ حضور صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے (ابراہیم کی اولاد میں سے اسماعیل کی اولاد کو منتخب کیا) اور اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے کنانہ کو اور کنانہ میں سے قریش اور قریش میں سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم میں سے مجھ کو ۔ اس کو ترمذی نے بھی روایت کیا ہے۔ حضور صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزید یہ بھی ارشاد فرمایا کہ میں خاندان ، گھر ، نسب اور اپنی ذات کے حوالے سے سب سے افضل ہوں (اور یہ اللہ کا فضل ہے میں فخر نہیں کرتا)۔
اسی طرح کا مضمون صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ سے بھی مروی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خانہ کعبہ کی تعمیر پر مامور فرمایا تو حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ان کےساتھ شریک کیا۔ تب تعمیر کعبہ کے وقت دونوں نے مل کر اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی " اے ہمارے رب ہماری مزدوری قبول فرما اور ہماری نسل میں وہ امت مسلمہ جو خیرالامم ہے پیدا فرما اور ہماری ہی نسل میں سے اس نبی آخرالزماں صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرما۔ سو اولاد ابراہیم علیہ السلام میں سے اللہ تعالیٰ حضرت اسماعیل علیہ السلام کا خانوادہ صرف حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے لئے چن لیا اور حضرت اسحاق علیہ السلام جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے صاحبزادے تھے ان کا خانوادہ اور ان کے صاحبزادے حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد دوسرے انبیاء کے لئے خاص فرما دی گئی۔ یہ بنی اسرائیل کہلائے۔ چنانچہ بعد ازاں تمام انبیاء علیہم السلام حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد میں سے آئے مگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پوری نسل صرف ایک اور سب سے آخری اور افضل نبی حضرت محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے مخصوص کر دی گئی۔

حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے بصورت نعت حضور صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں کچھ اشعار کہے ہیں، جن کا ترجمہ یہ ہے۔
1۔ جب حضرت آدم اور حضرت حوا علیہما السلام اپنے اپنے جسموں کو (جنت میں ) پتوں سے ڈھانپ رہے تھے اس وقت سے بہت پہلے آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم مسرت و شادمانی کے ساتھ ذکر الٰہی میں مصروف تھے۔
2- (ان کے جنت سے زمین پر اتارے جانے کے بعد) آپ بھی ان کے ہمراہ زمین پر تشریف لے آئے جبکہ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ تو قبل ازیں بشری صورت میں تھے اور نہ ہی گوشت اور علق کی حالت میں۔
3- بشریت کے ظہور کے بعد آپ احسن صورت میں محفوظ مقامات کے اندر ایک سوار کی طرح جلوہ فرما رہے۔ گھوڑے کو لگام لگا کر تیار رکھا ہوا تھا جس سے اگلی منزل پر پہنچتے اور پچھلی روپوش ہو جاتی۔
4- آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر مسکن (ہر قسم کی آلودگی اور خطرات سے) محفوظ تھا۔ جیسے خندقوں اور بلند چٹانوں سے گھرا ہوا ہو۔ لیکن آپ ان مقامات میں بھی اس کائنات کی زبان بن کر رہے۔
5- آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم مقدس اصلاب سے پاکیزہ ارحام کی جانب منتقل ہوتے رہے۔ جب ایک دور گزرتا تو دوسرا شروع ہو جاتا۔
6- جب آپ (سیدہ آمنہ کی گود میں ) بزم آرائے جہاں ہوئے تو تشریف آوری کے باعث زمین پُر نور ہو گئی اور فضائیں جگمگا اٹھیں۔
7- ہم آپ کی ضیا پاشی اور نورانیت کے صدقے ہی تو راہ ہدایت پر گامزن ہیں۔
8- یا رسول اللہ! آپ ہی کی وجہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آگ ٹھنڈی ہوئی اور آپ ہی آگ سے ان کے بچاؤ کا سبب بنے جب کہ آگ بھڑک رہی تھی۔۔۔
 

الشفاء

لائبریرین
حضور صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب مبارک کے حوالے سے روایات میں آیا ہے کہ آپ کا نور اقدس جس پشت میں منتقل ہوتا اس کی پیشانی میں چمکتا تھا۔ حتٰی کہ المواہب میں ہے کہ حضرت عبدالمطلب کے بدن سے مشک کی خوشبو آتی تھی اور رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور مبارک ان کی پیشانی میں خوب چمکتا تھا اور اس نور کی ایسی عظمت تھی کہ بادشاہ بھی ہیبت زدہ ہو جاتے اور آپ کی تعظیم و تکریم کرتے تھے۔

حافظ ابو سعید نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ نے ابوبکر بن ابی مریم اور سعید بن عمرو انصاری کے ذریعے سے حضرت کعب الاحبار سے روایت کیا ہے کہ جب حضور صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور مبارک حضرت عبدالمطلب میں منتقل ہوا اور وہ جوان ہو گئے تو ایک دن حطیم میں سو گئے۔ اٹھے تو آنکھ میں سرمہ اور بالوں میں تیل لگا ہوا تھا اور حسن و جمال میں بڑا اضافہ ہو چکا تھا۔ انہیں بڑی حیرت ہوئی ، ان کے والد انہیں قریش کے کاہنوں کے پاس لے گئے اور سارا ماجرا بیان کیا۔ انہوں نے سن کر کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اس جوان کی شادی کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے پہلا نکاح قُبلہ سے کیا ، پھر ان کی وفات کے بعد فاطمہ سے نکاح کیا تو ان کے نصیب میں نور محمدی آیا اور ان کے بطن سے حضرت عبداللہ متولد ہوئے۔

حضرت عبدالمطلب کے بارے میں یہ بھی منقول ہے کہ جب قریش میں قحط ہوتا تھا تو وہ عبدالمطلب (عبداللہ) کا ہاتھ پکڑ کر جبل شبیر پر لے جاتے اور ان کے واسطے اور وسیلے سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تقرب حاصل کرتے اور بارش کی دعا کرتے تو اللہ تعالیٰ ان نور محمدی کی برکت سے باران رحمت سے نوازتا تھا۔(کذا فی المواہب)

کتب سیر و فضائل میں بکثرت مروی ہے کہ جب ابرہہ بادشاہ کے اصحاب فیل نے خانہ کعبہ کو منہدم کرنے کے لیے مکہ معظمہ پر چڑھائی کی تو حضرت عبدالمطلب چند آدمیوں کو ساتھ لے جبل شبیر پر چڑھے۔ اس وقت آپ کی پیشانی سے نور مبارک اس طرح چمکا کہ اس کی شعاعیں خانہ کعبہ پر پڑیں۔ آپ نے قریش سے کہا ، بے فکر ہو جاؤ۔ اس طرح نور چمکنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم غالب رہیں گے۔ حضرت عبدالمطلب کے اونٹ ابرہہ کے لشکر والے پکڑ کر لے گئے تھے، آپ ان کی واپسی کے لئے ابرہہ کے پاس گئے تو وہ حضرت عبدالمطلب کی نورانی شکل اور پیشانی میں چمکتے ہوئے نور کی عظمت و ہیبت سے مرعوب ہو گیا اور فوراً تخت سے نیچے اتر آیا۔ آپ کی بے حد تعظیم کی اور آپ کو اوپر بٹھایا اور روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ اس کا ہاتھی اس نور کے سامنے سجدے میں گر گیا جیسا کہ المواہب سیرت حلبیہ اور دیگر کتب میں منقول ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس ہاتھی کو زبان دی اور اس نے نور محمدی کی خدمت میں سلام عرض کیا جسے دوسرے لوگ بھی سمجھ گئے۔

ابو نعیم ، خرائطی اور ابن عساکر بطریق عطاء، حضرت عبداللہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عبدالمطلب اپنے فرزند حضرت عبداللہ کو لے کر ایک کاہنہ کے پاس سے گزرے جو تورات ، انجیل اور کتب سابقہ کی عالمہ تھی۔ اس کا نام فاطمہ فثمعمیہ تھا۔ اس نے حضرت عبداللہ کے چہرے (پیشانی) پر نور محمدی چمکتا ہوا دیکھا تو حضرت عبداللہ کو نکاح کی دعوت دی مگر آپ نے انکار کر دیا۔ پھر مذکور ہے کہ آپ کا نکاح جب حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا سے ہو گیا اور نور محمدی ان کے بطن میں منتقل ہو گیا تو ایک روز حضرت عبداللہ اسی فاطمہ نامی کاہنہ کے پاس سے دوبارہ گزرے، اس نے آپ کی طرف توجہ تک نہ کی۔ حضرت عبداللہ نے پوچھا کیا بات ہے اس وقت مجھے دعوت نکاح دیتی تھی اور آج توجہ تک نہیں کرتی۔ اس خاتون نے جواب دیا جس نور کی خاطر میں آپ کی طرف راغب ہوئی تھی وہ کوئی اور خوش نصیب لے گئی۔ اب مجھے آپ سے شادی کی حاجت نہیں۔ میری خواہش تھی کہ وہ نور مبارک میرے نصیب میں ہوتا مگر اب ایسا ممکن نہیں رہا، وہ نور آپ سے جدا ہو چکا ہے۔

مروی ہے کہ جس رات حضور علیہ الصلاۃ والسلام کا نور مبارک حضرت آمنہ کے بطن میں منتقل ہوا ، وہ جمعہ کی رات تھی۔ اس رات جنت الفردوس کا دروازہ کھول دیا گیا۔ اور ایک منادی نے تمام آسمانوں اور زمین میں ندا دی، آگاہ ہو جاؤ وہ نور جو ایک محفوظ اور مخفی خزانہ تھا جس نبی ہادی حضرت محمد مصطفٰے نے متولد ہونا تھا وہ آج رات اپنی والدہ کے بطن میں منتقل ہو گیا، جہاں اس کے جسد عنصری کی تکمیل ہو گی اور وہ لوگوں کے لئے بشیرو نذیر بن کر دنیا میں تشریف لائے گا اور حضرت کعب الاحبار کی روایت میں حضرت آمنہ کا نام بھی آیا ہے اور ساتھ منادی نے یہ بھی کہا ، آمنہ تمہیں مبارک ہو، تمہیں مبارک ہو۔

مروی ہے کہ جب آپ کا نور مبارک اپنی والدہ ماجدہ کے بطن میں منتقل ہوا تو قریش سخت قحط سالی میں مبتلا تھے، وہ فوراً ختم ہو گئی۔ زمین ہری بھری ہو گئی، درخت سر سبز و شاداب ہو گئے۔ ہر طرف سے اناج ، پھل اور سبزیاں آنے لگیں اور تاریخ میں اس سال کا نام کشادگی اور خوشحالی کا سال پڑ گیا۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
فضلیتِ درود و سلام
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاO (الاحزاب، 33 : 56)

” بے شک اللہ اور اس کے (سب) فرشتے نبی (مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کروo“

اسی طرح احادیثِ مُبارکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درود و سلام کی فضیلت و اہمیت کثرت سے بیان فرمائی ہے:

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے، اس کے دس گناہ معاف کئے جاتے ہیں اور اس کےلئے دس درجات بلند کئے جاتے ہیں۔“
(نسائی، السنن، کتاب السہو، باب الفضل فی الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، 4 : 50، رقم: 1297)

حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

”قیامت کے روز لوگوں میں سے میرے سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہوگا جو (اس دنیا میں) ان سب سے زیادہ درود بھیجتا ہوگا۔“
(ترمذی، الجامع، ابواب الوتر عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، باب ما جاء فی فضل الصلاۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، 2 : 354، رقم: 484)

حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

”(امت میں سے کوئی شخص) ایسا نہیں جو مجھ پر سلام بھیجے مگر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر میری روح واپس لوٹا دی ہوئی ہے یہاں تک کہ میں ہر سلام کرنے والے کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔“
(ابو داود، السنن، کتاب المناسک، باب زیارۃ القبور، 2 : 218، رقم: 2041)

اسی طرح حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

”بے شک تمہارے ایّام میں سے افضل ترین جمعہ کا دن ہے پس اُس دن مجھ پر بکثرت درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے“۔
(ابوداؤد، السنن، کتاب الصلاۃ، باب فی الاستغفار، 2 : 88، رقم: 1531)

حضرت ابوھُریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

” وہ شخص ذلیل ہوا جس کے سامنے میرا ذکر کیا گیا اور اُس نے مجھ پر درود نہیں بھیجا۔“
( ترمذی، الجامع، ابواب الدعوات، باب قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: رغم انف رجل، 5 : 550، رقم: 3545)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

”حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہر دعا اس وقت تک پردہ حجاب میں رہتی ہے جب تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور آپ کے اہلِ بیت پر درود نہ بھیجا جائے“
(طبرانی، المعجم الاوسط، 1 : 220، رقم: 721)

حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

” تم جہاں کہیں بھی ہو مجھ پر درود بھیجا کرو، بے شک تمہارا درود مجھے پہنچ جاتا ہے۔“
(طبرانی، المعجم الکبیر، 3 : 82، رقم: 2729)

فرمانِ الٰہی اور احادیثِ مبارکہ کے مطابق یہ حقیقت واضح ہے کہ درود و سلام ایک منفرد اور بے مِثل عبادت ہے، جو رضائے الٰہی اور قربتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مؤثر ذریعہ ہے۔ اس مقبول ترین عبادت کے ذریعے ہم بارگاہِ ایزدی سے فوری برکات کے حصول اور قبولیتِ دعا کی نعمت سے سرفراز ہو سکتے ہیں۔

گوشہء درود و سلام
 
Top