نوسالہ ڈکٹیٹرشپ اور معیشت

بندہ پھر حاضر ہے

السلام علیکم:
صاحبان محترم جہاں تک تعلق ہو ترقی کا تو کوئی شک نہیں کہ صدر مشرف کے دور حکومت میں جو ڈویلپمینٹس ہویئں ان کا کوئی جواب نہیں۔ آپ میڈیا کو دیکھ لیں ایسے سانپ ہر کوئی نہیں پالتا۔ یہ صرف مشرف صاحب کے دل گردے کا کام ہے کہ اس سانپ کو آستین میں لیے بیٹھے تھے۔ اور مجھے 100 فیصد یقین ہے کہ جو میڈیا والے آج یہ کہتے ہوئے صدر مشرف کی خدمات سے انکاری ہیں کہ میڈیا کی آزآدی کا حق آئین 1973 نے دیا ہے یہ صحافیوں کی اپنی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ وہ کل جب سر پر پڑی تو مشرف صاحب کو یاد کریں گے۔ آج یہ بھول رہیں ہیں کہ اگر یہ میڈیا کی آزادی 1973 کے آئین نے دی ہے تو یہ پہلے کہاں تھی صحافیوں نے تو ماریں اہوب خان کے دور میں بھی بہت کھائیں پھر ضیاء الحق اور پھر محترم نواز شریف اس وقت تو آزادی نہیں ملی اب کیا آسمان سے ٹپک پڑی
بات اتنی سی ہے کہ جس طرح گدھے کو گھی ہضم نہیں ہوتا اسی طرح ہمارے صحافیوں اور عوام دونوں کو یہ آزادی ہضم نہیں ہوئی
باقی پھر صحیح
looking you forward
 

arifkarim

معطل
السلام علیکم:
آج یہ بھول رہیں ہیں کہ اگر یہ میڈیا کی آزادی 1973 کے آئین نے دی ہے تو یہ پہلے کہاں تھی صحافیوں نے تو ماریں اہوب خان کے دور میں بھی بہت کھائیں پھر ضیاء الحق اور پھر محترم نواز شریف اس وقت تو آزادی نہیں ملی اب کیا آسمان سے ٹپک پڑی
بات اتنی سی ہے کہ جس طرح گدھے کو گھی ہضم نہیں ہوتا اسی طرح ہمارے صحافیوں اور عوام دونوں کو یہ آزادی ہضم نہیں ہوئی
باقی پھر صحیح
looking you forward

میڈیا کی آزادی بیشک پچھلے 9 سالوں میں ہی حاصل ہوئی، مگر جب پرویز مشرف صاحب نے آئین معطل کیا تھا، اس وقت جیو بھی بند کروا دیا گیا تھا! اور ایک بات بتا دوں کہ 1973 کے آئین ہی کی وجہ سے ہم لوگ آج مار کھا رہے ہیں۔ اس سے بہتر آئین قائد اعظم محمد علی جناح کو 1947 میں ہی بنا دیا چاہئے تھا۔
 
میڈیا کی آزادی بیشک پچھلے 9 سالوں میں ہی حاصل ہوئی، مگر جب پرویز مشرف صاحب نے آئین معطل کیا تھا، اس وقت جیو بھی بند کروا دیا گیا تھا! اور ایک بات بتا دوں کہ 1973 کے آئین ہی کی وجہ سے ہم لوگ آج مار کھا رہے ہیں۔ اس سے بہتر آئین قائد اعظم محمد علی جناح کو 1947 میں ہی بنا دیا چاہئے تھا۔
آپ کا تفصیلی جواب کچھ وقت ٹہر کر دوں گا۔ ادھار رہا۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
جناب یہ گفتگو بھی مشرف کی حمایت اور مخالفت کی بحث میں بدلتی جا رہی ہے۔ ملکی معیشت پر بات کرنی ہو تو حقائق اور اعداد و شمار کے بغیر ٹھیک نہیں رہتا۔

میڈیا کی آزادی اور دستور پر بات کرنی ہو تو اس پر دوسرا تھریڈ شروع کیا جا سکتا ہے۔ اور مشرف نے کوئی اچھا کام کیا ہے تو اس کو تسلیم کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرنی چاہیے۔
 

بلال

محفلین
بلال بھائی،

سب سے پہلے تو یہ کہ آپ کی سوچ بہت اچھی اس لحاظ سے واقعی کسی پارٹی نے تسلی بخش کام نہیں کیا۔ مجھے آپ کے دل میں پاکستان سے بہت محبت نظر آتی ہے۔

دوسرا جو مسئلہ مجھے نظر آ رہا ہے وہ یہ کہ آپ ہر سیاسی پارٹی، ہر نظام کے خلاف ہیں اور آپ کے چاروں طرف مایوسی ہی مایوسی ہے اور آپکے پاس ان مایوسیوں، ان خطرناک اور مشکل حالات سے باہر نکلنے کا کوئی پلان بھی موجود نہیں ہے۔

تیسرا، باتیں پیش کرنے کے بہت سے طریقے ہوتے ہیں۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اگرچہ کہ آپکی باتیں مکمل حقائق پر ہی کیوں نہ مشتمل ہوں، مگر چونکہ آپ نے موازناتی طریقے سے ہٹ کر باتیں بیان کرنے کے لیے مطلق طریقہ اختیار کیا ہے، اس لیے آپ کے پاس مسائل کا کوئی حل موجود نہیں، کوئی مشعل راہ نہیں۔ نہ کوئی متبادل سیاسی پارٹی آپکی لسٹ پر موجود ہے، اور اگر آپ پاکستانی جمہوریت سے بیزار ہیں تو نہ کوئی متبادل سیاسی نظام۔ اور جب بھی آپ ان متبادلات پر بات کریں گے، تو پھر خود بخود آپ کو مطلق سے نکل کر موازناتی سٹڈی کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔


چوتھا یہ کہ یہ ہو سکتا ہے کہ میں مشرف صاحب کی حامی ہوں، مگر اس بنیاد پر میرے دلائل کو رد کیا جا سکتا ہے نہ انکا وزن کم کیا جا سکتا ہے۔ دیکھئیے اصول وہ ہے جو کہ علی ابن ابی طالب نے فرمایا ہے: "یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے۔"
تو میرے دلائل کا وزن آپ کو اس بات سے قطع نظر رہتے ہوئے کرنا ہے کہ میں کس کی حامی یا کس کی مخالف ہوں۔ یہ عین ممکن ہے کہ وابستگیوں کے باوجود میری دلیل صحیح ہو۔

/////////////////////////////////////

میں آپکی پوری پوسٹ کا جواب تو نہیں دے رہی، مگر مثال کے طور پر صرف ایک بجلی کے بحران پر جو آپ نے لکھا ہے، اس سلسلے میں میں جو سمجھ سکی ہوں وہ آپ کے گوش گذار کر رہی ہوں۔

آپ نے بجلی کے بحران پر تحریر فرمایا ہے:

بجلی کا بحران
اگر پچھلی حکومتوں نے اس بارے میں کچھ نہیں کیا یعنی بینظیر نے کچھ کیا تو نواز شریف نے نہ ہونے دیا۔۔۔ اب بات ہے موجودہ دور کی تو محترم مشرف صاحب نے کیا کیا؟ اگر پچھلے اس معاملے میں غلط تھے تو یہ محترم اُن سے کسی کام میں پیچھے نہیں۔۔۔

" نواز لیگ جس نے رتہ بھر ڈیم بنانے کی مہم میں صدر مشرف کا ساتھ نہ دیا۔ "
نواز لیگ نے تو آج تک مشرف کا کسی معاملے میں ساتھ نہیں دیا۔۔۔ وہ تو مشرف کی صدارت کے بھی خلاف ہیں، وہ تو جامعہ حفصہ کو بھی لئے بیٹھے ہیں، ججوں کا معاملہ بھی سب سے زیادہ انہوں نے ہی اُٹھایا ہے۔۔۔ لیکن مشرف سب ان معاملوں میں اپنی یا اپنی کابینہ کی مرضی سے چلتے رہے تو پھر ڈیم بنانے والے معاملے میں کیا تکلیف ہو گئی تھی۔۔۔ رہی بات عوام کی مخالفت کی تو عوام بھی ان معاملوں میں مشرف صاحب کی مخالف ہے لیکن انہوں نے اس کی پرواہ نہیں کی اور اپنی مرضی کرتے رہے لیکن ڈیم کی باری آئی تو جی وہ ہمیں نواز لیگ یا عوام نے نہیں بنانے دیا۔۔۔ مشرف صاحب شروع کے دور میں اگر تاجر برادری سے کسی ٹیکس کے معاملے پر ضد کر کے مہینے بھر کے لئے مارکیٹ بند ہونے پر بھی ضد برقرار رکھتے ہیں اور آخر اپنی بات منوا ہی لیتے ہیں تو پھر بہتری یعنی ڈیمز کی بات پر ایسا رویہ کیوں؟ اگر مشرف صاحب وانا، سوات، درہ آدم خیل اور جنوبی وزیرستان جیسے آپریشن عوام اور باقی تمام جماعتوں کی مخالفت لے کر چلا سکتے ہیں تو یہ پھر ڈیمز کی بات پر بہانے کیوں بناتے ہیں۔۔۔ ان سب باتوں میں خون خرابہ ہوا اور عوام کو کیا ملا صرف لاشیں اگر ڈیمز بنانے کے لئے کچھ سختی کرتے تو کسی نے کچھ نہیں کرنا تھا زیادہ سے زیادہ دو چار جلوس نکال کر بیٹھ جانا تھا۔۔۔ کم از کم ملک کو بجلی جیسے بحران سے تو بچا لیتے۔۔۔ ہم یہاں 10 سے 18 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ میں جل رہے ہیں، صبح طالب علم کا امتحان ہوتا ہے تو بجلی نہیں ہوتی، انڈسٹری تباہ ہو رہی ہے۔ پھر کہوں گا کہ پچھلی حکومتوں نے کچھ نہیں کیا تو مشرف صاحب نے کونسا تیر مارا ہے؟؟؟؟؟؟؟

بھائی جی،

سب سے پہلے یاد رکھئیے کہ اگر میں چھوٹی موٹی تنقید کروں تو اسکا مقصد آپکی توہین ہرگز نہیں ہے، بلکہ آپ کے لیے میرے دل میں بہت عزت ہے اور میرا مقصد صرف اپنے خیالات کا اظہار کرنا جو کہ صحیح بھی ہو سکتے ہیں اور غلط بھی۔

برادر دیکھئیے، میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ ہر ہر چیز کو کئی کئی زاویوں سے پیش کیا جا سکتا ہے۔ کبھی ایک چیز کو ہم اچھا کہہ رہے ہوں گے، کبھی اسی چیز کوبرا کہہ رہے ہوں گے اور کبھی اسی چیز کو "بہت بہت برا"۔
تو اسکی کیا وجہ ہے کہ ہم ایک ہی چیز کے متعلق اتنے مختلف آراء پر پہنچتے ہیں؟


آپ نے ڈیموں کے متعلق اپنی تحریر کو جس انداز سے پیش کیا ہے، اس سے مجھے جامعہ حفصہ کے واقعات یاد آ گئے۔ اور وہ یہ تھے کہ جب صدر مشرف اس آپریشن کو ٹال رہے تھے تو معترضین ان پر الزام لگا رہے تھے کہ جان بوجھ کر جامعہ حفصہ کو ڈھیل دے رہے ہیں تاکہ انتہا پسندی کا ایشو کھڑا رہے اور مغربی ممالک صدر مشرف کو بطور لبرل سپورٹ کرتے رہیں۔ اور جب کئی مہینے کے صبر اور بات چیت کے بعد آپریشن کرتے ہیں تو یہ معترضین اب الزام لگاتے ہیں کہ آپریشن کیوں کیا اور بات چیت کے لیے مزید وقت دیتے تو یہ مسئلہ پر امن طریقے سے حل ہو جاتا۔

ان معترضین کے متعلق یہ بات صد فیصدی وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ صدر مشرف چاہے کوئی قدم اٹھاتے، انہوں نے اعتراض کرنے کا کوئی نہ کوئی رخ ڈھونڈ ہی لینا تھا۔

آپ کے نزدیک مشرف صاحب کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے سب پارٹیوں کو لات مارتے ہوئے اور تمام صوبوں کی اسمبلیوں اور سینٹ کو لات مارتے ہوئے زبردستی ڈیم کیوں نہیں تعمیر کر دیے۔ تو بھائی جی، کیا گارنٹی ہے کہ اگر مشرف صاحب نے یہ کام اسی طرح زبردستی کر دیا ہوتا، اور جوابا صوبائی قوم پرست جب مسلح حملے کرتے تو آپ ہی مشرف صاحب پر یہ اعتراض نہ کر رہے ہوتے کہ ان تمام تر مسلح حملوں کے ذمہ دار مشرف صاحب ہیں جنہوں نے ہر کسی کو لات مارتے ہوئے اپنی من مانی کی ہے؟

تو بھائی جی، اس مسئلے پر کیا بہتر اور مثبت رویہ یہ نہ ہو گا کہ مشرف صاحب کی بجائے ان سیاسی پارٹیوں پر بھرپور طریقے سے تنقید کی جائے جو کہ صرف اپنی سیاست کی خاطر پاکستانی مفادات کو بیچ رہے ہیں اور ڈیمز کی مخالفت صرف اپنی سیاست چمکانے کے لیے کر رہے ہیں؟ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ یہ سب سیاسی پارٹیاں مل کر ڈیمز کے متعلق عوام میں شعور پیدا کریں اور اس طرح قوم مل جل کر اس ڈیم کو تعمیر کرے تاکہ بعد میں کوئی مسلح دہشت گردی نہ کرے؟

میں پھر وہی بات آپ سے کہہ رہی ہوں کہ اگر تنقید کا زور ان سیاسی پارٹیوں کی بجائے مشرف صاحب پر رکھا جائے گا تو یہ انصاف ہو گا نہ کوئی مثبت نتائج لا سکے گا۔ مشرف صاحب نے اس معاملے میں پاکستانی مفادات کے مطابق کام کیا ہے اور اسکا انہیں کریڈٹ دیں، اور جن سیاسی جماعتوں نے اپنی سیاست کے لیے پاکستانی مفادات کو قربان کیا ہے ان پر تنقید کریں۔ آپ چاہیں یا نہ چاہیں، مگر آپ کو موازناتی بنیادوں پر اپنی پارٹی اور اپنا لیڈر چننا پڑے گا، یہ پھر اگر کسی سے مطمئین نہیں تو اس جمہوری سیاسی نظام کا متبادل نظام موازناتی بنیادوں پر چننا پڑے گا، ورنہ آپ اسی طرح مایوسیوں میں گھر کر ہر کسی کو برا بھلا کہتے رہ جائیں گے اور عملی طور پر کبھی ان مایوسیوں سے آزاد نہیں ہو سکیں گے۔

صدر مشرف کی حکومت میں سینکڑوں برائیاں سہی، مگر ایک وقت آئے گا جب میں نے دیکھا کہ انکے موازنے میں بقیہ پارٹیوں میں سینکڑوں کیا ہزاروں برائیاں ہیں۔ اور اگر آج میں اس کم برے انسان کی حکومت کے لیے آواز نہیں اٹھاوں گی تو کل زرداری جیسے زیادہ کرپٹ لوگ مجھ پر مسلط ہوں گے۔ اور یہی ہوا اور اب قوم اگلے پانچ سال تک زرداری صاحب کے تحت مزے اٹھائیں۔ شاید اسکے بعد قوم کو سمجھ آ جائے اور وہ مطلق سے نکل کر موازناتی بنیادوں پر اپنے فیصلے کرنا شروع کر دے۔ امین۔

والسلام۔

بحث کچھ اور رخ لیتی جا رہی ہے اور نبیل بھائی نے سگنل بھی دے دیا ہے اس لئے میں اس دھاگے پر کسی اور مسئلہ پر بات نہیں کروں گا۔ اگر ہو سکا تو معیشت پر بات ہوگی۔۔۔
باقی مسائل کے لئے علیحدہ دھاگہ کھولا ہے مہوش بہن آپ وہاں تشریف لائیں۔۔۔
باقی معیشت کا کیا ہونا ہے وہ تو اب ایسی تباہ ہو رہی ہے جس کا جتنا سوچا جائے کم ہے۔۔۔ اگلے ایک دو سالوں میں جو ہونے والا ہے وہ سب دیکھیں گے۔۔۔ اور الزام نئی حکومت پر ہوگا جبکہ انرجی بحران ہر چیز کا ذمہ دار ہو گا۔۔۔
 

ساجداقبال

محفلین
یہ ایک اور نمونہ جس میں روایتی انتقامی سیاست بھی ہے لیکن کافی حقائق بھی:
سابق حکومت کے دور میں گندم کی خریداری کی وجہ سے 45 ارب روپے کے نقصان اور کراچی اسٹاک ایکسچینج کے اسکینڈل اسپیکر قومی اسمبلی نے تحقیقات کے لیے قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بھجوا دیئے جبکہ وزیر نج کاری سید نوید قمر نے سابق حکومت میں کی گئی نج کاری کا آڈٹ کرانے کا اعلان کیا ہے ۔قومی اسمبلی کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران سابق حکومت کے مالیاتی اسکینڈل زیر بحث رہے اور سابق حکومت کی پالسییوں پر شدید تنقید کی گئی۔ایک سوال پر وزیر خزانہ اسحق ڈار نے ایوان کو بتایا کہ سابق حکومت نے 200 ڈالر ٹن کے حساب سے پہلے گندم برآمد کر دی اور بعد میں وہی گندم 500 ڈالر فی ٹن کے نرخوں پر درآمد کی ۔انہوں نے کہا کہ سابق حکومت کی اس بد انتطامی کی سزا قوم کو بھگتنا پڑی۔انہوں نے کہا کہ اب ایسے کسی بھی بحران سے بچنے کے لیے 15 لاکھ ٹن گندم درآمد کی جا رہی ہے۔اسحاق ڈار نے کہا کہ اسی طرح کراچی اسٹاک ایکسچینج اسکینڈل 2005 میں بھی قوم کے 11 ارب ڈالر سے زائد لوٹ لئے گئے۔وفاقی وزیر خزانہ نے چھٹی سالانہ مردم و خانہ شماری رواں سال اکتوبر میں کرانے کا اعلان کیا ۔اس موقع پر وزیر نجکاری سید نوید قمر نے کہا کہ سابق دور حکومت میں کی گئی نجکاری کے عمل کا جائزہ لیا جائے گا ۔وزیر تجارت کی طرف سے وفاقی وزیر تعلیم احسن اقبال نے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ سابق حکومت نے ریکارڈ قرضے لئے ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ گزشتہ 54 سال میں 2900 ارب روپے جبکہ سابق حکومت نے صرف آٹھ سال میں 2400 ارب روپے کے قرضے لئے حالانکہ نائن الیون کے بعد ملک میں 75 ارب ڈالر آئے لیکن پانی و بجلی،گیس اور انفرا اسٹرکچر ڈویلپمنٹ کی مد میں ایک بھی منصوبہ شروع نہیں کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ ان تمام مالیاتی خساروں کے لئے صدر مشرف کا احتساب ہونا چاہئیے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ تین سال میں تجارتی خسارہ 6 ارب 20 کروڑ ڈالر سے تجاوز کر کے 13 ارب 50 کروڑ ڈالر تک پہنچ چکا ہے جو رواں سال میں 17 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گا۔ایوان کو بتایا گیا کہ پی آئی اے کا خسارہ بڑھ کر 13 ارب روپے سے زائد ہو چکا ہے۔
اصل خبر۔۔۔
 
Top