نونہالوں کے معراج صاحب

نونہالوں کے معراج صاحب
معراج صاحب کا پورا نام خواجہ محمد عارف تھا، لیکن اپنی کہانیوں پر وہ صرف اپنا قلمی نام "معراج" لکھا کرتے تھے۔ معراج صاحب نے ہمدرد نونہال کے علاوہ بچوں کے کسی رسالے میں کہانیاں نہیں لکھیں۔ وہ ہمدرد نونہال کو دل سے پسند کرتے تھے اور صرف اس کے پڑھنے والے نونہالوں کے لیے کہانیاں لکھتے تھے۔ معراج صاحب نونہالوں کے لیے بہت دلچسپ، مزاحیہ اور سبق آموز کہانیاں لکھا کرتے تھے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے، ہمدرد نونہال میں ان کی پہلی کہانی "نوشیرواں کا تخت" جون ١٩٦٦ء میں چھپی تھی۔ اس کے بعد ان کی بےشمار کہانیاں چھپیں۔ نونہال ان کی کہانیاں بڑے شوق اور دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔ ان کی کہانیوں کی زبان آسان اور جملے چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں۔ ان کا طرزِ تحریر سب سے الگ تھا۔ معراج صاحب نے اپنے بڑے بیٹے "ندیم عارفی" کے نام سے کچھ کہانیاں لکھی تھیں۔
خواجہ محمد عارف کے والد خواجہ محمد حنیف صاحب سرگودھا کے رہنے والے تھے، لیکن معراج صاحب ١٩٤٠ء میں انبالہ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ١٩٥١ء میں کراچی آئے اور جامعہ کراچی سے ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کر کے ١٩٦٩ء سے کالج میں پڑھانے لگے۔ معراج صاحب ریاضی کے استاد تھے۔ اپنے ساتھی استادوں اور شاگرد طالبِ علموں میں بہت مقبول تھے۔ وہ ایک سادہ اور فرض شناس انسان تھے۔ معراج صاحب اردو اور پنجابی کے علاوہ انگریزی، عربی اور فارسی بھی اچھی طرح جانتے تھے۔ ابھی ریٹائر نہیں ہوئے تھے کہ الله میاں کے ہاں سے بُلاوا آ گیا اور ٢٨ مارچ ٢٠٠٠ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔
ہمدرد فاؤنڈیشن نے ان کی تین کتابیں "چالاک خرگوش کے کارنامے"، "چالاک خرگوش کی واپسی" اور "علامہ دانش کے کارنامے" شائع کی ہیں۔
مسعود احمد برکاتی​
 

عمراعظم

محفلین
خواجہ محمد عارف صاحب کی کاوشوں کو سلام۔ اللہ ’ان کی مغفرت فرمائے اور جنت میں اعلیٰ مقام پر سرفراز فرمائے۔آمین
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
جس جس نے نونہال پڑھا ہے۔۔ وہ معراج صاحب کے نام سے بخوبی واقف ہوگا۔۔۔ ماشاءاللہ بہت ہی قدآور شخصیت تھے علمی اعتبار سے۔۔۔ انیس بھائی بہت شکریہ اتنی قیمتی معلومات پہنچانے کا۔۔۔ جزاک اللہ :)
 
نونہالوں کے معراج صاحب
معراج صاحب کا پورا نام خواجہ محمد عارف تھا، لیکن اپنی کہانیوں پر وہ صرف اپنا قلمی نام "معراج" لکھا کرتے تھے۔ معراج صاحب نے ہمدرد نونہال کے علاوہ بچوں کے کسی رسالے میں کہانیاں نہیں لکھیں۔ وہ ہمدرد نونہال کو دل سے پسند کرتے تھے اور صرف اس کے پڑھنے والے نونہالوں کے لیے کہانیاں لکھتے تھے۔ معراج صاحب نونہالوں کے لیے بہت دلچسپ، مزاحیہ اور سبق آموز کہانیاں لکھا کرتے تھے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے، ہمدرد نونہال میں ان کی پہلی کہانی "نوشیرواں کا تخت" جون ١٩٦٦ء میں چھپی تھی۔ اس کے بعد ان کی بےشمار کہانیاں چھپیں۔ نونہال ان کی کہانیاں بڑے شوق اور دلچسپی سے پڑھتے ہیں۔ ان کی کہانیوں کی زبان آسان اور جملے چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں۔ ان کا طرزِ تحریر سب سے الگ تھا۔ معراج صاحب نے اپنے بڑے بیٹے "ندیم عارفی" کے نام سے کچھ کہانیاں لکھی تھیں۔
خواجہ محمد عارف کے والد خواجہ محمد حنیف صاحب سرگودھا کے رہنے والے تھے، لیکن معراج صاحب ١٩٤٠ء میں انبالہ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ ١٩٥١ء میں کراچی آئے اور جامعہ کراچی سے ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کر کے ١٩٦٩ء سے کالج میں پڑھانے لگے۔ معراج صاحب ریاضی کے استاد تھے۔ اپنے ساتھی استادوں اور شاگرد طالبِ علموں میں بہت مقبول تھے۔ وہ ایک سادہ اور فرض شناس انسان تھے۔ معراج صاحب اردو اور پنجابی کے علاوہ انگریزی، عربی اور فارسی بھی اچھی طرح جانتے تھے۔ ابھی ریٹائر نہیں ہوئے تھے کہ الله میاں کے ہاں سے بُلاوا آ گیا اور ٢٨ مارچ ٢٠٠٠ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔
ہمدرد فاؤنڈیشن نے ان کی تین کتابیں "چالاک خرگوش کے کارنامے"، "چالاک خرگوش کی واپسی" اور "علامہ دانش کے کارنامے" شائع کی ہیں۔
مسعود احمد برکاتی​
بچپن کی بھولی بسری یادیں
اللہ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور ان کے درجات بلند کرے آمین
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
آج سے تیس سال قبل نونہال میں ہماری ایک کہانی چالاک چور شائع ہوئی تھی۔ تبھی اس کا پہلی بار دیدار ہوا تھا۔ با قاعدہ پڑھنے کا موقع تو کبھی نہیں ملا۔ درمیان میں سرحدیں جو حائل تھیں۔البتہ خواجہ محمد عارف صاحب کی شخصیت اور ان کی خدمات سے متاثر ضرور ہوئے۔
 

ملائکہ

محفلین
میں نے چالاک خرگوش کے کارنامے شاید پڑھی ہے۔۔۔۔ ویسے مجھے یہ یاد ہیں نونہال میں انکی آتی تھیں کہانیاں۔۔۔
 
آج سے تیس سال قبل نونہال میں ہماری ایک کہانی چالاک چور شائع ہوئی تھی۔ تبھی اس کا پہلی بار دیدار ہوا تھا۔ با قاعدہ پڑھنے کا موقع تو کبھی نہیں ملا۔ درمیان میں سرحدیں جو حائل تھیں۔البتہ خواجہ محمد عارف صاحب کی شخصیت اور ان کی خدمات سے متاثر ضرور ہوئے۔
کیا آپ کے پاس وہ شمارہ موجود ہے؟
یا آپ مجھے سال اور مہینہ بتائیں۔ میں آپ کی لکھی کہانی یونیکوڈ کردوں گا۔
 
Top