ایک پرانا کالم شاید آج بھی رے لی وینٹ ہے
ڈینگی برادران خیبر پختونخوا کی مدد کریں!
سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، یہ عالمی کہاوت ہو گی اور بہت سارے ممالک میں صادق آتی ہو گی۔ ہمارے ہاں سیاست میں دماغ کی موجودگی پر بھی شکوک و شبہات اٹھتے رہتے ہیں۔ بچوں کی تربیت میں آج سب سے بنیادی اہمیت اس بات کی ہے کہ ان کو بچپن سے جذبات پر کنٹرول سکھایا جائے۔ جذبات آپے سے باہر ہو کر ہاتھ اور زبان کے راستے، کائنات میں نیت کے حوالے سے گواہی پیدا کر دیتے ہیں۔ نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کے بے نظیر شہید پر چست کیے جملے ہمیشہ کے لیے ریکارڈ کا حصہ بن گئے۔ آج بے نظیر کی ہزار تعریفیں کرتے رہیں نواز شریف ان جملوں سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔
دوسرا المیہ یہ ہے کہ جذبات کی رو میں نکلے جانے والا جملہ چاہے وہ ارادتاً ہو یا غیر ارادتاً (فرائیڈین سلپ) ہو۔ آپ کی سوچ اور کردار سے پردہ اٹھا دیتا ہے۔ شیخ رشید کے تعفن آمیز جملے، پاکستانی تاریخ سیاست میں ہمیشہ بد بو دیتے رہیں گے۔ جناب کا چہرہ گہرے طنز سے ٹیڑھا ہوتا ہے اور عموما یہ جملہ نکلتا ہے ” سیاست ایک کھیل ہے اور ہر کوئی کھلاڑی نہیں ہو سکتا“ وغیرہ وغیرہ۔ بلوچستا ن کے دورافتادہ علاقوں میں تپتی دھوپ میں کام کرنے والے دس برس کے مزدور کے نام پر کیے گئے وعدے تمھارے لیے کھیل ہیں۔ سیاست کی تقدیس کو ایسے ہی سیاستدانوں نے کچھ یوں بدنام کیا ہے کہ سیاست کا عمومی مفہوم ہی منفیت سے جڑ گیا ہے۔ کبھی سوچتا ہوں کہ کاش بنی گالہ، لال حویلی کی پیروی چھوڑ دیتا تو میڈیا چینلز کو کمپیوٹر پر ”عمران خان بلنڈرز“ کے نام سے بھاری بھر کم فولڈر نہ بنانا پڑتا۔ سارا دوش لال حویلی کو دینا بھی شاید مناسب نہ ہو کیونکہ ”اوئے“ کا لفظ تو جناب کھیل کے میدان سے سیاست میں لائے ہیں۔
پنجاب میں اور بالخصوص لاہور میں ڈینگی عروج پر تھا۔ ایکسپریس نیوز میں کام کرتا تھا اور یاد ہے کچھ احباب گرمیوں میں اپنے آپ کو مکمل ڈھانپنے کے کے لیے اپر پہننے لگے تھے۔ سری لنکا سے ماہرین آ کر ڈینگی کی بڑھوتری اور اس پر قابو پانے کے حوالے سے بری خبریں دے رہے تھے۔ لاہور میں ڈینگی کو جس طرح کنٹرول کیا گیا وہ مکمل طور پر ایک سائنسی طریقہ کار تھا۔ اس میں پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کا بہت اہم کردار تھا۔ ڈاکٹر عمر سیف جنہوں نے ایم آئی ٹی سے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے رکھی ہے وہ اس نوعیت کے سوفٹ وئیر بنانے میں مگن تھے جو لاہور کے مختلف علاقوں میں ڈینگی کے بڑھنے کی شرح اور تعداد کا تخمینہ لگا سکیں۔ لاہور کے نقشے میں وہ جگہیں سرخ ہو جاتیں جہاں سے زیادہ تعداد میں مریض یا سروے میں ڈینگی کے سیمپل ملتے۔ جو علاقہ سرخ ہوتا، وہاں پنجاب حکومت اپنے وسائل کے ساتھ یلغار کر دیتی۔ ڈینگی کا خاتمہ بہت بڑا چیلنج تھا اور پنجاب حکومت کے اس کارنامے کو عالمی سطح پر بہت سراہا گیا۔
عین اس وقت جب پنجاب حکومت اس بہت بڑے چیلنج سے نبرد آزما تھی، عمران خان جلسوں میں ”ڈینگی برادران“ جیسی اصطلاحات ایجاد کرنے میں مشغول تھے۔ ایک زیرک سیاستدان ہوتے تو ڈینگی سے پیدا ہونے والے المیے اور سیاست کو علیحدہ رکھتے۔ فقط بھرے جلسے میں ایک قہقہہ سننے کے لیے جب سیاستدان جذبات پر کنٹرول نہیں کر پاتا تو انجام کبھی خوشگوار نہیں ہوتا۔ ایک جلسے میں قہقہے گونجے تو عمران نے اس ڈینگی بات کو جلسے کی کامیابیوں کی کنجیوں میں سے ایک جانا اور ہر اگلے جلسے میں۔ اوئے ڈینگی۔ اوئے ڈینگی برادران، اوئے لاہور میں معلوم ہو جائے گا کہ تحریک انصاف جیتتی ہے یا ڈینگی وغیرہ وغیرہ۔
آج ڈینگی کے حوالے سے خیبر پختونخوا سے اچھی خبریں نہیں آ رہیں۔ وہاں کے اسمبلی ممبران پنجاب حکومت سے مدد کا کہہ رہے ہیں۔ اور یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب کہا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ خیبر پختونخوا کے عوام کے ساتھ جو بھی ہو کیا عمران کی سیاسی انا یہ گوارا کرے گی کہ پنجاب حکومت اس حوالے سے اپنا تجربہ بروئے کار لائے؟ کیا شہباز شریف نیک نیتی کے ساتھ بغیر کسی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کو مد نظر رکھ کر مدد کے لیے آگے بڑھ سکتے ہیں؟ کیا یہ دونوں رہنما صرف عوام کی بہتری کو سامنے رکھ کر وقتی طور پر اپنے اختلافات کنارے کر سکتے ہیں؟
آج کل خیبر پختونخوا میں اربوں درخت لگانے کا شہرہ ہے۔ اگر اس دعوے میں 10 فیصد بھی صداقت ہے تو پھر بھی یہ کسی کارنامے سے کم نہیں،
پنجاب میں کبھی بھی شجر کاری کو سنجیدہ نہیں لیا گیا۔ شجر کاری مہم کا رسمی سا اعلان ہوتا ہے۔ چند پودے لگتے ہیں اور پھر ان کا بھی کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔ اگر خیبر پختونخوا کی حکومت لاکھوں درخت لگانے میں بھی کامیاب ہے تو بھی یہ بڑا اور غیر معمولی کارنامہ ہے اور اس تجربے سے باقی صوبوں کو فائدہ اٹھانا چاہیے۔
ہماری سیاسی دانش اور سیاسی دیانت کا یہ عالم ہے کہ 62۔ 63 کے خلاف عمران خان مسلسل بولتے رہے۔ جیسے ہی حکومت نے زخم کھانے کے بعد اس کے خلاف بولنا شروع کیا۔ عمران خان نے حق میں بولنا شروع کر دیا۔ اگر 62۔ 63 غلط ہے تو کیسی لطف کی بات ہے متذکرہ بالا دونوں پارٹیاں کسی نہ کسی وقت غلط موقف پر بڑے اعتماد سے کھڑی رہیں ہیں۔ مسلم لیگ ن، نے اسمبلی میں واضح اکثریت رکھنے کے باوجود ایک ایسے قانون کو بدلنے کی سعی نہیں کی جو اس وقت ان کے خیال میں غلط ہے۔ یہ غلط تو پہلے بھی سمجھتے ہوں گے لیکن اس وقت مفاہمت غالب تھی۔ جو سیاسی پارٹیاں آمروں کے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے بنائے جانے والے قوانین پر وقتی مفاہمت کرتی ہیں ان کے لیے ایسا انجام غیر متوقع نہیں ہونا چاہیے۔ اب عمران خان کے 62۔ 63 پر موقف میں تبدیلی اگر اس وجہ سے آئی ہے کہ حکومت بھی اس قانون کے خلاف کچھ کرنا چاہتی ہے۔ تو ایسی سوچ کو سلام اور انجام پر تشویش۔
سیاست میں دل نہ ہونا قابل ستائش نہیں۔ لیکن دماغ نہ ہو تو منیر نیازی بول اٹھتے ہیں
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ