کاشف اسرار احمد
محفلین
السلام علیکم
ایک نظم اصلاح کے لئے پیش ہے۔ نظم کا عنوان ہے "نوید بہار"
بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
اساتذہء کِرام بطور خاص
جناب الف عین صاحب،
احباب محفل اور تمام دوستوں سے اصلاح ، توجہ اور رہنمائی کی درخواست ہے۔
*********** --------------------***********
"نوید بہار"
اڑتی ہیں فرشِ باغ پہ کچھ خشک پتّیاں
اجڑی ہوئی بہار کے آنچل کی دھجّیاں
بے برگ و بار پیڑ ہیں، شاخوں پہ خار بس
کل تھیں گُل و سَمَن سے لدی جن کی ٹہنیاں
خلّاقِ دوجہان کی صنعت گری ہے سب
آقائے ہست و بود کے "کُن" کی نشانیاں
کم مایئگی ہے باغ میں حسرت کا راج ہے
صحنِ چمن میں اڑتی ہوئی خاک آج ہے
آتا ہے دیکھ کر مجھے بس اک یہی خیال
اٹھتا ہے میرے ذہن میں رہ رہ کے یہ سوال
کل ہر طرف تھا وادئِ نکہت کا اک سماں
کل تھا ہجوم گل یہاں، بھنورے تھے ڈال ڈال
دیکھیں تو موت کا سا سکوں اس چمن میں ہے
اِس لہلہاتے باغ پہ اب آ گیا زوال
ٹوٹے ہوئے یہ پات بھلا کیوں ہیں رقص میں ؟
کیوں اپنے کارنامے پہ پت جھڑ ہے یوں نڈھال ؟
سنتا ہوں اک صدا سی میں اپنے گمان میں
جو کھولتی ہے راز چھپا داستان میں
درماندہ یہ اُڑتی ہوئی زرد پتّیاں
کہنے کو انتقامِ خزاں کی مثال ہیں
قربان کر کے خود کو خزاؤں پہ، دراصل
تنظیمِ باغِ نَو کی یہ زندہ مثال ہیں
گلشن میں صبحِ نَو کے نمو کی وعید ہیں
آنی ہے جو بہار، یہ اُس کی نَوِید ہیں
سیّد کاشف
*********** --------------------***********
جزاک اللہ۔
ایک نظم اصلاح کے لئے پیش ہے۔ نظم کا عنوان ہے "نوید بہار"
بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
اساتذہء کِرام بطور خاص
جناب الف عین صاحب،
احباب محفل اور تمام دوستوں سے اصلاح ، توجہ اور رہنمائی کی درخواست ہے۔
*********** --------------------***********
"نوید بہار"
اڑتی ہیں فرشِ باغ پہ کچھ خشک پتّیاں
اجڑی ہوئی بہار کے آنچل کی دھجّیاں
بے برگ و بار پیڑ ہیں، شاخوں پہ خار بس
کل تھیں گُل و سَمَن سے لدی جن کی ٹہنیاں
خلّاقِ دوجہان کی صنعت گری ہے سب
آقائے ہست و بود کے "کُن" کی نشانیاں
کم مایئگی ہے باغ میں حسرت کا راج ہے
صحنِ چمن میں اڑتی ہوئی خاک آج ہے
آتا ہے دیکھ کر مجھے بس اک یہی خیال
اٹھتا ہے میرے ذہن میں رہ رہ کے یہ سوال
کل ہر طرف تھا وادئِ نکہت کا اک سماں
کل تھا ہجوم گل یہاں، بھنورے تھے ڈال ڈال
دیکھیں تو موت کا سا سکوں اس چمن میں ہے
اِس لہلہاتے باغ پہ اب آ گیا زوال
ٹوٹے ہوئے یہ پات بھلا کیوں ہیں رقص میں ؟
کیوں اپنے کارنامے پہ پت جھڑ ہے یوں نڈھال ؟
سنتا ہوں اک صدا سی میں اپنے گمان میں
جو کھولتی ہے راز چھپا داستان میں
درماندہ یہ اُڑتی ہوئی زرد پتّیاں
کہنے کو انتقامِ خزاں کی مثال ہیں
قربان کر کے خود کو خزاؤں پہ، دراصل
تنظیمِ باغِ نَو کی یہ زندہ مثال ہیں
گلشن میں صبحِ نَو کے نمو کی وعید ہیں
آنی ہے جو بہار، یہ اُس کی نَوِید ہیں
سیّد کاشف
*********** --------------------***********
جزاک اللہ۔