بیرا پُجاری
10 بیرا پجاری
جب بیرا پجاری سے میری پہلی ملاقات ہوئی، اس نے صرف ایک لنگوٹی نما چیز پہن رکھی تھی۔ لنگوٹی بھی کیسی کہ محض تین انچ چوڑی کپڑےکی دھجی تھی جو ٹانگوں کے درمیان سے ہو کر کمر پر ایک غلیظ دھاگے سے بندھی ہوئی تھی۔ لیکن وہ ایک نہایت عمدہ شخص اور میرا دوست ہے۔
میری بیرا سے پہلی ملاقات کو اب پچیس سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ یہ ملاقات کچھ ایسے ہوئی تھی۔
صبح کاذب کا وقت تھا۔ مشرقی افق سے آنے والی روشنی سے متھور کا بنگلہ اور اس کے گرد موجود پہاڑیاں روشن ہو رہی تھیں۔ ان کی وجہ سے یہاں سے گذرنے والی ندی کو دریائے چنار کا نام دیا گیا تھا۔ یہاں دریا گھنے جنگل سے نکل کر تنگ سا موڑ کاٹ کر سات میل دور دریائے کاویری سے جا ملتا ہے۔ گرمیوں کا موسم تھا اور دریائے چنار بالکل خشک پڑا تھا۔
میں حسب معمول جلدی اٹھا تھا اور جنگل کی سیر پر نکل کھڑا ہوا۔ دریائے چنار کی سنہری ریت پر چلتے ہوئے میں ریچھ سے مڈبھیڑ کا منتظر تھا۔ اس موسم میں ریچھ اس وقت دریا کے کنارے مختلف پھلوں کی تلاش میں آتے تھے۔ میرا اندازہ تھا کہ اگر ریچھ نہ سہی، تیندوے سے تو لازماً ہی ملاقات ہو جائے گی۔ مجھے یہ بھی علم تھا کہ اس وقت تیندوے کنارے کے جنگل کی گھنی گھاس میں دُبکے شکار کا انتظار کر رہے ہوں گے۔ ان دنوں سانبھر، ہرن، جنگلی بھیڑ اور چیتل وافر مقدار میں ملتے تھے۔ اگرچہ میرا ارادہ شکار کا بالکل بھی نہیں تھا۔
ابھی میں بنگلے سے میل بھر ہی دور گیا ہوں گا۔ صبح کاذب کی روشنی تیزی سے ختم ہو رہی تھی۔ اچانک میں نے پہلے جنگلی مرغ پھر مور کی آواز سنی۔ پھر سامنے والی مہندی کی جھاڑیوں میں عجیب سی سرسراہٹ ہوئی۔ میرے پاس اتفاق سے ٹارچ موجود تھی۔ اس لئے میں بہت احتیاط کے ساتھ اس جھاڑی سے دس فٹ کے فاصلے پر جا کر کھڑا ہو گیا۔ یہاں میری نظر ایک گڑھے پر پڑی جو کہ تین فٹ چوڑا اور تین ہی فٹ گہرا تھا۔ اس میں فٹ بھر پانی بھرا تھا جو دریا کی تہہ سے نکل آیا تھا۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ کسی غیر قانونی شکاری کا کام ہے۔ یہ شکاری یہاں کسی ہرن وغیرہ کے انتظار میں بیٹھا ہوگا۔ اس کے پاس توڑے دار بندوق ہوگی جو اس ہرن بیچارے کا کام تمام کر دے گی۔ جو آواز پیدا ہوئی تھی وہ شاید یا تو مجھے دیکھ کر شکاری کے چھپنے کی کوشش میں پیدا ہوئی ہوگی یا پھر اس نے رات بھر جاگنے کے بعد اب نیند کی حالت میں کروٹ بدلتے ہوئے نکالی ہوگی۔
میں نے تامل زبان میں زور سے اس شکاری کو کہا کہ وہ باہر نکلےو رنہ میں اسے گولی مار دوں گا۔ پہلے پہل تو خاموشی رہی۔ میں چند قدم اور آگے بڑھا تو ایک تاریک سا سایہ ان جھاڑیوں سے نکلا۔ میرے سامنے رُک کر اس نے اپنا ماتھا زمین پر تین بار رگڑا۔
میں نے اسے اٹھنے کا حکم دیا اور پوچھا"تم کون ہو؟" اس نے جواب دیا "بیرا، ایک پجاری!"۔ میں نے پوچھا "بندوق کہاں ہے؟" اس نے حیرت سے پوچھا "کون سی بندوق؟ کیسی بندوق؟ میرے جیسے سیدھے سادھے بندے کے پاس بندوق کہاں سے آئی مالک؟ میں تو ایک مسافر ہوں۔ رات کو ادھر سے گذرتے ہوئے راستہ بھول گیا تو تھک کر ادھر سو گیا۔ میں نے تو آج تک بندوق دیکھی تک نہیں۔" میں نے پھر کہا "بندوق اٹھا کر باہر لاؤ۔" وہ چند لمحے تذبذب کا شکار رہا پھر جھاڑی میں گھس کر ایک پرانی توڑے دار بندوق لا کر میرے قدموں میں ڈال دی۔ یہ عجیب بندوق گز بھر لمبی اور پتلے سے بمشکل تین ان چوڑے کندے پر مشتمل تھی۔
بیرا سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ بیرا جو کہ ایک پجاری اور چوتھائی صدی سے میرا دوست ہے۔ اس نے ہی مجھے جنگل اور اس کی نباتات اور حیوانات کے بارے سب کچھ بتایا ہے۔
"تم نے کیا شکار کیا ہے؟" اس نے میرے قدموں پر جُھک کر کہا "ساری رات بیکار ہی گذری مالک۔" میں نے پھر سختی سے پوچھا "کیا شکار کیا ہے؟" اس بار اس نے مجھے اپنے پیچھے آنے کا کہا۔ دریا کے کنارے ریتلی زمین پر ایک مادہ سانبھر مردہ پڑی تھی۔ اس کی گردن میں ایک بڑا سا سوراخ تھا جس سے خون نکل نکل کر آس پاس کی زمین کو سرخ کر گیا تھا۔
میں نے اسے غصے، نفرت اور ناراضگی کے ملے جُلے تائثر سے دیکھا تو وہ بولا "مالک، ہم بھوکے ہیں۔ اگر شکار نہ کریں تو کھائیں کیسے اور اگر نہ کھائیں تو زندہ کیسے رہیں؟"
اس سے چند گز دور بیٹھ کر میں نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور اپنا تمباکو نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔ اس نے پہلے تو کافی مشکوک ہو کر تمباکو کو ہتھیلی پر رکھ کر سونگھا، پھر خوش ہو کر اسے چبانے لگا۔ کئی منٹ اسی طرح گذرے اور مجھے بھی مجبوراً خاموش رہنا پڑا۔
"مالک فارسٹ گارڈ کو میری بندوق کے بارے تو نہیں بتائیں گے؟ یہ میرا واحد روزگار کا زریعہ ہے۔ فارسٹ گارڈ کو علم ہوا تو وہ اسے چھین لے گا اور مجھے جیل ہو جائے گی۔ میری بیوی اور چار بچے بھوک سے مر جائیں گے۔" بیرا نے انتہائی متفکر انداز میں پوچھا۔
اب یہ کافی عجیب صورتحال تھی۔ جنگل میں شکار کا میرا لائسنس اس بات کا متقاضی تھا میں اس جنگل کے تمام غیر قانونی شکاریوں کو پولیس کے حوالے کروں۔ اس کے علاوہ مجھے اس بدمعاش سے کوئی ہمدردی نہیں ہونی چاہیئے جو کہ مادہ جانوروں کو بھی اتنی بے دردی سے مار رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے شکار کا طریقہ بھی نہایت ظالمانہ تھا۔ پانی کے لالچ میں آنے والے پیاسے جانوروں کو مارتا تھا۔ دوسری طرف مجھے اس چھوٹے سے بندے پر بہت ترس بھی آ رہا تھا۔ اس کی گفتگو سے یہ بات صاف ظاہر تھی کہ وہ مجھ سے امید لگائے ہوئے ہے۔ شاید یہ میرے تمباکو کا اثر ہو۔
براہ راست جواب سے بچتے ہوئے میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں رہتا ہے۔ اس نے جواب دیا "ہمارا کوئی گھر نہیں نہ ہی کوئی جھونپڑا اور نہ ہی کوئی کھیت۔ ہم سارا دن شہد تلاش کرتے ہیں۔ اگر کوئی چھتہ خوش قسمتی سے مل جائے تو ہم اسے پناگرام کے بازار میں بیچ دیتے ہیں۔ شہر کے چھوٹے برتن کے عوض ایک روپیہ ملتا ہے۔ اس سے ہم چار دن کے کھانے کے برابر راگی خرید لیتے ہیں۔ اگر شہد نہ ملے تو ہم "اودمبو" یعنی گوہ پکڑ لیتے ہیں۔ اس کا گوشت کھانے کے کام آتا ہے اور اس کی کھال بیچ دیتے ہیں۔ اس کی دم پناگرام کا ایک ڈاکٹر ہم سے مہنگے داموں خرید لیتا ہے۔ یہ ڈاکٹر بھی بہت شاندار آدمی ہے۔ وہ اسکی دم کو پکا کر مختلف دوائیوں میں ملاتا ہے۔ پھر اسے خشک کر کے پیستا ہے اور پھر اسے پیکٹوں کی صورت میں بیچتا ہے۔ آٹھ آنے فی پیکٹ یہ دوائیں مردانہ کمزوری کے لئے تیر بہدف نسخہ ہیں اور ہاتھوں ہاتھ بکتی ہیں۔ اس کے علاوہ اگر اس سفوف کی ایک چٹکی کسی لڑکی کے بائیں شانے پر ڈال دیں تو وہ فوراً ہی رام ہو جاتی ہے۔ "
اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا "اگر مالک کو کوئی لڑکی پسند ہو اور وہ اسے رام نہ کر سکیں تو میں ان کے لئے یہ سفوف لا سکتا ہوں۔ یہ بالکل مفت ہوگا۔ ڈاکٹر میرا گہرا دوست ہے اور اسے گوہ کی دم میری ہی مدد سے ملتی ہے۔ آپ کو صرف میم صاحب کے بائیں شانے پر اس سفوف کی چٹکی ڈالنی ہوگی اور بس میم صاحب ہمیشہ کے لئے آپ کی ہو جائیں گی۔"
میں نے اسے سختی سے کہا کہ وہ میری محبت کی فکر چھوڑے بلکہ اپنی کہانی جاری رکھے۔
"بعض اوقات جب ہم بہت بھوکے ہوں تو ہم جنگل میں مختلف جڑیں کھودتے ہیں۔ اس کے تنے پر تین پتے ہوتے ہیں۔ ان جڑوں کو آگ میں بھون کر یا پھر نمکین پانی میں کڑی مصالحے کے ساتھ اُبالنے سے یہ بہت لذیذ ہو جاتی ہیں۔ رات کو میں، میری بیوی اور میرے بچے "انائی بدھا" دریا کے کنارے کھودے ہوئے گڑھے میں سوتے ہیں۔ گرم موسم میں جیسا کہ آپ جانتے ہیں، میں چھپ کر شکار کرنے جاتا ہوں تو میری بیوی اور بچے باری باری رات بھر جاگتے ہیں مبادا کہ ہاتھی آ جائیں۔ اگر ہاتھی آ جائیں تو جاگنے والا فرد باقیوں کو جگا دیتا ہے اور وہ سب بھاگ کر گڑھے کے کنارے اگے بڑے درخت پر چڑھ جاتے ہیں۔ یہ ہاتھی بہت بدمزاج ہیں اور فوراً ہی حملہ کر دیتے ہیں۔ سال قبل ہاتھیوں نے ایک پُجاری عورت کو اسی طرح کے ایک گڑھے سے نکال لیا تھا۔ وہ بے خبر سو رہی تھی۔ اسے سُونڈ میں جکڑ کر اور درخت کے تنے سے مار مار کر ہلاک کر دیا۔ جب بڑا جانور ہاتھ لگ جائے تو ہم نہ صرف خود اس کا گوشت کھاتے ہیں بلکہ اسے دھوئیں میں سُکھا کر پناگرام کے بازار میں پندرہ روپے کے عوض بیچ دیتے ہیں۔ پندرہ روپے میں مہینے بھر کا راشن آ جاتا ہے۔ امید ہے کہ مالک یہ سب جان کر فارسٹ گارڈ کو میری بندوق کے بارے نہیں بتائیں گے۔ اتفاق سے یہ میرے والد کو ان کے والد نے بطور تحفہ دی تھی اور اُس وقت اس کی قیمت تیس روپے تھی۔" اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
یہ بدمعاش اب امید بھری نگاہوں سے میری جانب دیکھنے لگا۔ اس کے ہونٹوں سے مسکراہٹ اور آنکھوں سے پریشانی جھلک رہی تھی۔ میرا احساس ذمہ داری بطور لائسنس ہولڈر کہیں دور جا سویا۔ میں نے ہر ممکن کوشش کی کہ انکار کروں لیکن میرے منہ سے بے اختیار نکلا "نہیں بیرا، میں بالکل بھی نہیں بتاؤں گا۔ یہ میرا وعدہ ہے۔"
وہ اُچھل کر کھڑا ہوا اور پھر اس نے پُجاریوں کے سے انداز میں تین بار اپنا ماتھا زمین پر ٹیکا اور بولا "میں تہہ دل سے مالک اپنی اور اپنے خاندان کی طرف سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آج سے ہم سب آپ کے غلام ہیں۔"
میں نے بیرا سے وعدہ لیا کہ وہ دن چڑھے میرے بنگلے پر آئے گا۔ دراصل میں اس سے اس جنگل کے درندوں کی بابت پوچھنا چاہ رہا تھا۔ واپسی پر جان بوجھ کر میں مردہ سانبھر سے دور ہو کر گذرا ورنہ شاید میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا۔
وعدے کا پکا بیرا دس بجے میرے بنگلے پر پہنچا۔ سوالات کرنے پر پتہ چلا کہ دو دن قبل جب وہ سانبھر کی تلاش میں بیٹھا تھا تو ایک شیر اس سے پانچ فٹ کے فاصلے سے گذرا تھا۔ اس نے بتایا کہ یہ بوڑھا شیر اس علاقے میں ہی رہتا ہے اور عمر کی وجہ سے اس کی نقل و حرکت بہت محدود ہو چکی ہے۔
اس نے ایک اور داستان سنائی۔ پچھلے ماہ وہ اسی طرح چھپا ہوا اپنی توڑے دار بندوق کے ساتھ سانبھر کا انتظار کر رہا تھا۔ اچانک پانی کے گڑھے پر ایک چیتل نمودار ہوا ۔ چاند پوری طرح چمک رہا تھا۔ اس نے نشانہ لے کر گولی چلائی اور چیتل وہیں ڈھیر ہو گیا۔ بیرا نے بندوق دوبارہ بھری اور سونے کی تیاری کرنے لگا۔ اچانک ایک شیر نزدیکی جھاڑیوں سے نکلا اور سیدھا چیتل کی لاش پر آ کر رُکا۔ شیر نے لاش کو سُونگھا اور پھر اسے اٹھا کر چلتا بنا۔ بیرا نے اپنی توڑے دار بندوق کی وجہ سے ہلنے کی جرأت بھی نہ کی کہ اسے ایک بار چلانے کے بعد دوبارہ بھرنے میں کافی وقت لگتا تھا۔
اس وقت میرے ساتھ کوئی چارے کا جانور نہیں تھا۔ میں اگر کسی کو پناگرام بھیجتا تو وہ جانور لے کر تب پہنچتا جب دن کی روشنی ختم ہو چلی ہوتی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ رات کو بیرا کے ساتھ "امیراں ووڈو" کے کنارے بیٹھوں۔ میں نے بیرا کو یہ صاف کہہ دیا کہ جب تک وہ میرے ساتھ رہے گا، اسے غیر قانونی شکار کا خیال تک نہ آئے۔
چھ بجے ہم دونوں ندیوں کے درمیان والے جنگل میں بیرا کی بنائی ہوئی کھوہ نما پناہ گاہ میں بیٹھ گئے۔ یہ نہایت آرام دہ تھی۔ راتیں کافی گرم تھیں۔ بیرا صرف لنگوٹی پہنے ہوئے تھا۔ اس دن میں نے بیرا سے یہ سبق سیکھا کہ شکار کے انتظار میں کیسے بیٹھا جاتا ہے۔ جب بیرا بیٹھا تو ساری رات اس کی ٹانگ یا بازو تک بھی نہیں ہلا۔ دو بجے تک جب کوئی جانور نہ دکھائی دیا تو میں بے صبرا ہو کر سو گیا۔ صبح جب منہ اندھیرے بیدار ہوا تو بیرا ابھی تک اسی انداز میں بیٹھا ہوا تھا۔
میری مایوسی کا اندازہ کرتے ہوئے اس نے مجھے مدد کی پیش کش کی کہ دن چڑھے وہ میرے ساتھ شیر کے پگ تلاش کرنے نکلے گا۔ بنگلے میں آ کر ، ناشتہ کر کے اور غسل سے فارغ ہو کر ہم نو بجے سے پہلے پلٹ آئے۔ میل بھر آگے جا کر ہم نے دیکھا کہ ایک بڑے نر شیر کے پگ دکھائی دیئے۔ یہ شیر شاید رات کو ادھر سے گذرا تھا۔ زمین اتنی سخت تھی کہ پگ کا پیچھا کرنا ممکن نہ تھا۔ بیرا کا خیال تھا کہ اسے چند ایسی جگہیں معلوم ہیں جہاں شیر کی موجودگی ممکن ہے۔
ہم لوگ آگے بڑھتے چلے گئے۔ پوری وادی کی گھنی گھاس اور جھاڑیاں چھان ماریں۔ بانس کے جھنڈ بھی نہ چھوڑے۔ ایک بار ہمیں ہاتھی کی وہ آواز سنائی دی جو وہ خوراک کو ہضم کرتے ہوئے نکالتا ہے۔ ہمیں علم تھا کہ اگر اس حالت میں ہاتھی کو چھیڑا جائے تو وہ بہت خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ ہم نے راستہ بدل کر دوسری سمت سے پیش قدمی جاری رکھی۔
اب ہم اس جگہ آ گئے جہاں جنگل صرف جھاڑیوں پر مشتمل تھا۔ ہر طرف چھوٹے چھوٹے پتھر بکھرے پڑے تھے۔ بیرا نے بتایا کہ شیر اور ریچھ اسی جگہ کے غاروں میں رہتے ہیں۔ پتھریلی زمین پر چلنے اور سخت گرمی کی وجہ سے ہمیں نشانات نہ دکھائی دیئے۔ میں نے واپسی کا ارادہ کیا۔ بیرا نے مزید کچھ دور چلنے کی درخواست کی۔
جلتے سورج کے پسینے سے شرابور ہم آخر کار پہاڑی کی چوٹی تک آ گئے جہاں سے دوسری طرف کی ڈھلوان شروع ہوتی تھی۔ اس جگہ اترائی چڑھائی سے زیادہ دشوار تھی اور زیادہ پتھریلی بھی۔ آخر کار ہم اس جگہ پہنچے جہاں کئی غار تھے۔ بیرا نے کہا کہ میں سائے میں بیٹھ جاؤں اور وہ ادھر ادھر کا جائزہ لے کر آتا ہے۔ بخوشی میں بیٹھ گیا اور پائپ سلگا لیا۔ بیرا جلد ہی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
دس منٹ بعد ہی بیرا لوٹ آیا۔ وہ بہت پرجوش دکھائی دے رہا تھا اور اس ے بتایا کہ اس نے شیر کی بو محسوس کی ہے۔ شیر لازماً یہیں کہیں نزدیک ہی چھپا ہوا ہے۔ اس وقت تک میں سخت مایوس اور تھک چکا تھا۔ میں نے کافی سخت لہجے میں اسے بکواس بند کرنے کو کہا۔ اس نے حیرت سے مجھے دیکھا اور اس کے چہرے پر عجیب سے تائثرات پیدا ہوئے۔ وہ بولا آئیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ اس نے اتنا کہا اور میرے جواب کا انتظار کئے بنا چل دیا۔
رائفل اٹھائے میں اس کے پیچھے پیچھے چلا۔ فوراً ہی غار ہمارے سامنے تھے۔ بیس گز نزدیک جا کر بیرا نے مجھ سے کہا کہ اسے شیر کی بو آ رہی ہے۔ مجھے کچھ نہ محسوس ہوا۔ کچھ اور پاس ہو کر اس نے پھر سونگھنے کو کہا۔ اس بار میں نے بو کو صاف محسوس کیا۔ ایسی بو جو گلی سڑی سبزیوں سے آتی ہے۔ میرے کئی سال کے مشاہدے نے بتایا تھا کہ یہ بو شیر سے ہی آتی ہے۔
بیرا نے سر اٹھا کر ان پانچ غاروں کا جائزہ لیا جو سامنے تھے۔ اس نے کافی دیر جائزہ لے مجھے بتایا کہ ان میں سے چوتھا غار ایسا ہے جہاں شیر کی موجودگی کا امکان ہے۔ یہ غار میرے اندازے کے مطابق بالکل بھی شیر کے لئے موزوں نہیں تھا۔
میں نے غیر یقینی انداز سے اسے دیکھا۔ اس نے میرے تائثرات کو نظر انداز کر کے مجھے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ ہم لوگ جلد ہی اس جگہ پہنچ گئے جہاں پتھر سے سر نکال کر ہم غار میں جھانک سکتے تھے۔ میں نے سر اٹھا کر جھانکا تو وہ جگہ خالی تھی۔ دوسرے ہی لمحے جیسے کسی نے جادو کی چھڑی گھمائی ہو، ایک بہت بڑے شیر کا سر نمودار ہوا جس کی آنکھوں سے تحیر جھلک رہا تھا۔
بمشکل آٹھ فٹ کی دوری سے میری گولی اس کی آنکھوں کے عین درمیان لگی۔ شیر اس ڈھلوان پر لڑھکتا ہوا بالکل اس پتھر پر آ کر ٹک گیا جو میرے سامنے تھا۔ اس کا بھاری سر اس کے اگلے پنجوں کے درمیان تھا، سبزی مائل آنکھیں نیم وا تھیں اور پیشانی سے خون کی دھار نکل رہی تھی۔
بیرا کی جنگل کے بارے معلومات کے امتحان کا یہ پہلا مرحلہ بخوبی طے ہوا۔ میں حد سے زیادہ خوش تھا لیکن بیرا پر اپنی خوشی ظاہر نہ ہونے دی۔ گذرتے سالوں سے ہماری دوستی اور اعتماد کا رشتہ پختہ ہونے لگا اور آج تک مجھے بیرا سے دوستی پر کبھی افسوس نہیں ہوا۔
ذیل میں بیرا کے ساتھ بے شمار واقعات میں سے دو واقعات درج ذیل ہیں۔ پہلا واقعہ تلوادی کے ریچھوں کے بارے ہے جہاں بیرا نے بخوشی مجھے بچانے کے لئے اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ دوسرا منداچی پالم کے آدم خور شیر کے بارے ہے۔
تلوادی دراصل ایک وسیع وادی کا نام ہے جہاں تلوادی نام کی ایک ندی گذرتی ہے۔ جہاں میری بیرا سے پہلی ملاقات ہوئی تھی، یہ جگہ ادھر سے گیارہ میل دور ہے اور سالم ضلع کے دور افتادہ جگہوں میں سے ایک۔
تلوادی ندی آئیور کے مقام پر جہاں سے گذرتی ہے، اسے میں مکڑیوں کی وادی کے نام سے جانتا ہوں۔ یہاں سرخ اور پیلی مکڑیوں کے جالے ہر جگہ موجود ہیں۔ یہ جالے بیضوی شکل کے اور بیس فٹ تک لمبے ہو سکتے ہیں۔ درمیان میں مکڑی خود ہوتی ہے جو عموماً نو انچ تک لمبی ہوتی ہے۔ اتنی بڑی جسامت کے باوجود یہ مکڑیاں بہت زود رنج اور غصیلی ہوتی ہیں۔اس کا شکار پتنگے اور تتلیاں ہوتے ہیں۔ جنگل کے دوسرے حشرات بھی یہ نہیں چھوڑتیں۔ یہ مکڑیاں اپنی ہی نسل کی دوسری مکڑیوں کے لئے بھی یکساں خطرناک ہوتی ہیں۔ اپنے جالے میں دوسری مکڑی کی موجودگی کا مطلب دونوں میں سے ایک نہ ایک مکڑی کی ہلاکت ہے۔
تلوادی کی ندی اس مقام سے گذرتی ہے اور دو شاخوں میں مقسم ہو جاتی ہے۔ چھوٹی شاخ جنوب کی طرف کمپی کاری کی وادی کی جانب دریائے چنار سے جا ملتی ہے۔ یہ علاقہ کمپی کاری کے پاگل ہاتھی کی بھی آماج گاہ رہا ہے۔ جس نے سات آدمی، دو تین مویشی مار ڈالے تھے اور پانچ یا چھ بیل گاڑیاں بھی تباہ کر دی تھیں۔ ایک تین ٹن وزنی لاری جو بانس لاد کر جا رہی تھی، کو بھی الٹ دیا۔ ندی کا بڑا حصہ مغرب کی جانب بہتے ہوئے چند میل بعد جنوب مغرب کا رخ کر لیتا ہے۔
یہ حصہ بالعموم گھنے جنگلات سے بھرا ہوا ہے۔ پہاڑی علاقے نسبتاً چھدرے لیکن باقی ہر جگہ بانس بھرا ہوا ہے۔ اس کے اختتام پر بلگنڈلو نامی مچھیروں کی بستی ہے۔ اس سارے علاقے میں ہاتھیوں اور بھینسوں کے غول موجود ہیں۔ اکا دکا شیر بھی پائے جاتے ہیں۔ تلوادی بذات خود گھنی گھاس سے ڈھکی اور تیندوؤں کا مسکن ہے۔ یہاں ریچھ، جنگلی سور، سانبھر، بھونکنے والے ہرن اور مور بھی اتنی بڑی تعداد میں ہیں جو میں نے کہیں اور نہیں دیکھے۔
کہانی کی ابتداء کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ بیرا نے مجھے پوسٹ ماسٹر کے ذریعے خط بھیجا۔ اس میں لکھا تھا کہ ایک بہت بڑا تیندوا ماتھور انچٹی والی سڑک کے گیارہوں میل سے پندرہویں میل کے درمیان مویشی مار رہا ہے۔ خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ یہ تیندوا عام شیر سے بھی زیادہ بڑا ہے۔
پانچ دن کی چھٹی لے کر میں ڈینکانی کوٹہ کے شارٹ کٹ سے ہوتا ہوا انچٹی اور پھر ماتھور پہنچا جہاں میری ملاقات بیرا سے ہوئی۔ یہاں سے ہم پندرہویں میل کی طرف پلٹے جو وادی میں ہی تھا۔ سڑک بالکل تباہ شدہ تھی۔ راستے میں کئی ندیاں تھیں اور راستہ جگہ جگہ بیل گاڑیوں کی آمد و رفت کی وجہ سے کٹا پھٹا تھا۔ راستے میں ہی بڑے بڑے پتھر بکثرت تھے جو کہ کار اور اس کے مالک سے خراج وصول کرتے تھے۔ خیمہ لگا کر ہم لوگ مویشی پٹی کی طرف چلے گئے جو یہاں سے پون میل دور ہے۔ یہاں میں نے بذات خود تیندوے کے بارے سنا۔ تیندوے نے ریوڑ پر حملہ ساڑھے پانچ بجے کیا جب ریوڑ گاؤں واپس لوٹ رہا تھا۔ اس نے حملے کے لئے سب سے بڑی گائے کا انتخاب کیا۔ کئی چرواہوں نے تیندوے کو بھگانے کی کوشش کی لیکن الٹا تیندوا ان پر غراتا رہا۔ میرے علم کے مطابق یہ تیندوا کسی ایک جگہ نہیں رہتا تھا اور چار میل چوڑا علاقہ اس کی آماج گاہ تھا۔
چرواہوں کو جانور بیچنے پر مجبور کرنا بہت مشکل کام ہے۔ وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ تیندوے کی ہلاکت ان کے لئے ہی فائدہ مند ہوگی، وہ مذہبی تقدس کے باعث مجبور تھے۔ خیر مختلف طریقے آزما کر میں نے دو عدد تقریباً جوان جانور خریدے۔ ایک کو دریا کے کنارے اور دوسرے کو چودہویں سنگ میل کے ساتھ باندھا۔
اب میرا کام صرف انتظار کرنا ہی تھا کہ تیندوا کب انہیں ہلاک کرتا ہے۔ یہاں مور اور جنگلی مرغ بکثرت تھے۔ لیکن ان پر گولی چلاتا تو تیندوا بھاگ جاتا۔ صبح شام میں وادی کا چکر لگاتا کہ شاید تیندوے یا پھر کسی شیر سے مڈبھیڑ ہو جائے۔
خوش قسمتی سے تیسرے ہی دن شام کو سات بجے مجھے اطلاع ملی کہ اسی روز تیندوے نے دوسری مویشی پٹی سے ایک گائے ماری ہے جو یہاں سے تین میل دور ہے۔ جونہی گاؤں والوں کو خبر ہوئی، انہوں نے میری طرف ہرکارہ بھیج دیا۔
رائفل اٹھاتے ہوئے میں نے ٹارچ اور اوور کوٹ بھی اٹھائے اور اس جگہ کا رخ کیا جہاں گائے ماری گئی تھی۔ کئی فرلانگ قبل ہی میں نے ٹارچ بجھا دی اور اس طرح ہم لوگ احتیاط سے چلنے لگے۔ پہاڑیوں سے نصف چاند طلوع ہو رہا تھا۔ یہاں ایک تنگ موڑ مڑتے ہی تیندوا دکھائی دیا۔ وہ مردہ گائے کے پیچھے عین راستے کے درمیان چھپا ہوا تھا۔
میرے پاس بارہ بور کی بندوق تھی جو کم فاصلے کے لئے مناسب ہی۔ میری ونچسٹر رائفل بیرا اٹھائے میرے پیچھے تھا۔ قبل اس کے کہ میں بندوق اٹھاتا، تیندوے نے چھلانگ لگائی اور جھاڑیوں میں گم ہو گیا۔
میں نے سرگوشی میں بیرا سے کہا کہ وہ چرواہے کے ساتھ باتیں کرتا ہوا واپس چلے تاکہ تیندوا دھوکا کھا جائے کہ ہم جا چکے ہیں۔ میں خود بیس قدم دور کھجور کے ایک جھاڑی نما درخت کے پیچھے چھپ گیا۔
تیندوے نے جلد ہی اپنی موجودگی کی اطلاع آواز نکال کر بہم پہنچائی۔ پھر یہ آواز اس طرف سے آئی جہاں بیرا اور چرواہا گئے تھے۔ شاید وہ پوری تسلی کرنا چاہتا ہوگا۔ گھنٹہ بھر کی خاموشی کے بعد تیندوا اچانک ہی نمودار ہوا۔ وہ اب بھی اس راستے کی طرف دیکھ رہا تھا جہاں سے ہم لوگ آئے تھے۔
نیم تاریکی میں میں نے اس کے شانے کے پیچھے ہر ممکن احتیاط سے نشانہ لے کر گولی چلائی۔ تیندوا گز بھر ہوا میں اچھلا۔ زمین پر آئے بغیر اس نے ہوا ہی میں چھلانگ لگائی اور دوسری گولی چلانے سے قبل ہی گم ہو گیا۔ بلاشبہ اس کے فرار کے وقت کی آوازیں بتا رہی تھیں کہ وہ زخمی ہو چکا ہے۔ چند منٹ بعد خاموشی چھا گئی۔ میں نے مزید وقت گذارنا بیکار سمجھا اور واپس چل دیا۔
اگلی صبح ہم لوگ منہ اندھیرے اس جگہ واپس لوٹے۔ یہاں فوراً ہی بیرا نے تیندوے کے خون کے نشانات تلاش کر لئے۔ اس بار میں رائفل سے مسلح تھا۔ بیرا میرے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ میرے Lg کے چھرے تیندوے کو لگے تھے۔ اس طرح تیندوے کی تلاش اور حملہ کی صورت میں اسے روکنا میرے ذمہ تھا۔ بیرا میرے پیچھے نسبتاً محفوظ رہ کر کھوج لگاتا آ رہا تھا۔
سو گز دور ہی ہمیں تیندوے کے رکنے کا پہلا نشان ملا۔ یہاں سے تیندوا ایک نزدیکی نالے میں گھس گیا تھا جہاں گھنی جھاڑیاں تھیں۔ یہاں پیچھا کرنا نہ صرف مشکل بلکہ خطرناک بھی ہوتا۔
پنجوں کے بل چلتے ہوئے ہم بار بار رک کر تیندوے کے لئے ادھر ادھر دیکھتے رہے۔ ہمیں علم نہ تھا کہ تیندوا زندہ ہے یا مر چکا ہے۔ یہاں میں بار بار جھاڑیوں اور گھاس میں اسے تلاش کرتا رہا۔ خوش قسمتی سے یہاں چٹانیں اور درخت بہت کم تھے۔
اسی طرح ہم چند ہی قدم چلے ہوں گے کہ اچانک میرے سامنے ایک گڑھے سے ایک عجیب الخلقت جانور نکلا۔ یہ ایک مادہ ریچھنی اور اس کا بچہ تھے جو اس گڑھے میں سو رہے تھے۔
ریچھنی کے سینے پر V کا نشان بالکل صاف دکھائی دے رہا تھا۔ وہ نسبتاً اوپر کو اٹھی۔ اس کا انداز کافی جارحانہ اور غصیلہ تھا۔ پھر وہ دوبارہ چاروں پیروں پر جھکی اور سیدھا ہماری طرف آئی۔ میری رائفل بالکل اس کے کھلے منہ میں تھی کہ میں نے فائر کیا۔ اس لمحے وہ ہوا جس پر شکاری کی زندگی اور موت کا دارمدار ہوتا ہے۔ یعنی "مس فائر"
اس نے رائفل کو دانتوں میں جکڑ کر اس پر پنجہ مارا اور رائفل میرے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ اپنے دفاع میں پیچھے ہٹتے ہوئے میں ٹھوکر کھا کر گرا۔ ریچھنی میری طرف لپکی تاکہ مجھے نوچ سکے۔ عموماً یہ جانور سب سے پہلے چہرہ نوچتے ہیں۔ اس لمحے بیرا نے وہ عظیم ایثار کیا جو مجھے ساری زندگی اس کا احسان مند رکھنے کے لئے کافی ہے۔
وہ چھلانگ لگا کر میرے اور ریچھنی کے درمیان آیا اور پوری قوت سے چلانے کی کوشش کی تاکہ ریچھنی بھاگ جائے۔ اسے صرف اتنی کامیابی ہوئی کہ ریچھنی اب اسے بھلا کر بیرا پر حملہ آور ہو گئی۔
چونکہ بیرا آخری لمحے اس کے سامنے آیا تھا، ریچھنی کے دانت اس کے شانے میں گڑ گئے۔ اس کے پنجوں نے بیرا کے سینے، کمر اور پہلوؤں کو چھیل کر رکھ دیا۔ بیرا نیچے گرا اور ریچھنی اس پر لپٹی ہوئی تھی۔ میں فوراً رائفل کی طرف لپکا۔ میں نے مس فائر والا کارتوس نکالنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ لیور کام چھوڑ چکا ہے۔ چند ہی لمحے گذرے ہوں گے۔ بیرا درد سے چلا رہا تھا اور ریچھنی غصے سے۔ رائفل کو ڈنڈنے کی طرح اٹھائے دستے والے سرے کو ریچھنی کے سر پر مارا۔ شکر ہے کہ میرا نشانہ خطا نہیں ہوا اور ریچھنی نے بیرا کو چھوڑ دیا اور پھر میری رائفل منہ میں پکڑ لی۔ اس بار اس کے دانت دستے میں گڑ گئے۔ رائفل پھر میری گرفت سے چھوٹ گئی۔ اس نے دستے کو کترنا شروع کر دیا۔ خوش قمستی سے ریچھنی کے بچے نے، جو اس دوران حیرت اور دہشت سے دم بخود تھا، چند چیخیں ماریں۔ اچانک ہی ریچھنی نے رائفل چھوڑ دی اور بچے کی طرف لپکی۔ اس نے بچے کو بغور دیکھا اور سونگھا۔ پھر اچانک ہی دونوں مڑ کر ہماری نظروں سے جلد ہی اوجھل ہو گئے۔ یہ دہشت ناک منظر کئی دن تک میرے اعصاب پر سوار رہا۔
بیرا کہنیوں اور گھٹنوں کے بل جھکا درد کے مارے تڑپ رہا تھا۔ اس کے زخموں سے خون تیزی سے بہہ رہا تھا۔ میں نے بھاگ کر اپنا کوٹ اور قمیض اتاری۔ قمیض کو پھاڑ کر پٹیاں بنائیں اور بیرا کے زیادہ گہرے زخموں پر پٹی باندھنے کی کوشش کی تاکہ خون کا بہاؤ تھم سکے۔ پھر اسے کمر پر لادا اور ناکارہ رائفل اٹھائے میں مویشی پٹی کی طرف پلٹا۔ یہاں بیرا کو چارپائی پر لادے چار چرواہوں کی مدد سے اسے لے کر کیمپ پہنچا۔ یہاں زخموں پر آئیوڈین لگا کر اور جلدی جلدی سب کچھ سمیٹ کر میں نے بیرا کو گاڑی میں ڈالا اور پندرہ میل دور پناگرام کی طرف روانہ ہوا جہاں ڈسپنسری سے ابتدائی طبی امداد حاصل کی۔ بیرا خون بکثرت بہہ جانے کی وجہ سے زرد ہو رہا تھا اور غشی کی حالت میں تھا۔ یہاں سے پھر اسے کار میں ڈال کر میں اکسٹھ میل دور سالم ضلع پہنچا جہاں اول درجے کا ہسپتال موجود تھا۔
ان دنوں پینسلین ایجاد نہیں ہوئی تھی اور پہلا ہفتہ بیرا نے زندگی اور موت کی کشمکش میں گذارا۔ میں اس کے ساتھ اس کے بستر سے ٹکا رہا۔ جلد ہی ڈاکٹروں نے اسے خطرے سے باہر قرار دے دیا۔ اب میں پناگرام پلٹا جہاں بیرا کی بیوی اور بچے نہایت پریشان کسی اچھی خبر کے منتظر تھے۔ انہیں میں نے کچھ رقم دی۔ یہاں مجھے تیندوے کی کیڑوں سے بھری کھال بھی پیش کی گئی جو پریشانی کے باعث میرے ذہن سے نکل چکا تھا۔ تلوادی میں گدھوں کو اڑتا دیکھ کر چرواہوں نے تیندوے کی لاش پائی تھی۔ یہ جگہ ہمارے ریچھنی سے مڈبھیڑ والی جگہ سے دو سو گز دور تھی۔ یہ کھال کیڑوں سے پر تھی اور محطوظ کئے جانے کے قابل نہ تھی۔
سالم لوٹ کر میں نے بیرا کے علاج کے لئے کافی رقم چھوڑی اور واپس گھر لوٹ آیا۔ دو ماہ بعد جب بیر اچلنے کے قابل ہوسکا۔ اس بار اس کی دائیں ٹانگ میں کچھ لنگ سا آ چکا تھا۔ اس کے جسم پر زخموں کے نشانات بھی باقی تھے۔
میری رائفل کا کندہ بیکار ہو چکا تھا جسے میں نے بدل لیا۔ نالی پر سرے سے چھ انچ نیچے ریچھنی کے دانتوں کے نشانات موجود تھے۔ اس دن سے بیرا اور میں، دونوں حقیقی بھائی بن چکے ہیں۔ ہمارے درمیان جو محبت اور بھائی چارہ قائم ہوا ہے وہ ہر طرح کی دنیاوی آلائشوں سے پاک ہے۔