ریختہ کا پیج ۱۰
نو طرز مرصع
ہے لیکن اس کتاب کا اب کہیں نشان بھی نہیں ہے۔۔۔
نور حسین باجی کے یہ بیانات ، واضح رہے کہ یہ مقدمہ ۱۹۵۸ ء میں لکھا گیا تھا اس
زمانے کی تحقیق کے مطابق مبنی بر دستیاب حقائق تھے۔ کہا ہی جاتا ہے کہ تحقیق کی راہیں
ہمیشہ وارہی ہیں، سوآج کی دریافت کل رد ہوسکتی ہے یا ہوجاتی ہے۔ چنانی نو طرز مرصع کے
ساتھ بھی یہی ہوا اور اس کی جگہ کربل کتھانے لے لی، جب پروفیسر خواجہ احمد فاروقی نے
۱۹۹۱ء میں شعبۂ اردو دہلی یونی دوری سے فضل علی فضلی کی نثری تصنیف کریل کتھا شائع
کر دی، جس کا زمانہ تصنیف ۳۳-۲
۳ےا ہے تو اس کے بعد کربل کتھا کوشالی ہند کی پہلی
نثری تصنیف تسلیم کر لیا گیا، اگر چک بل کھا بھی باضابط تسنیف نہیں بلکہ ملاحسین واعظ کاشفی
کی فارسی کتاب ”روضة الشهد‘‘ کا ترجمہ ہے لیکن چونکہ ہرزبان اردو ہے اور اس سے پہلے
کی کوئی نثری تصنیف میں تادم تر بیر دستیاب نہیں ہوئی ہے، اس لیے ہم اسے ہی شمالی ہند کی
پہلی نثری تصنیف مانیں گے ۔ شمالی ہند میں اٹھارویں صدی کی کئی داستانیں سامنے آچکی
ہیں ۔ مثلا قصہ مہر افروز ودلبر از سوی خاں (۵۹-۱۶۳۲)، قصہ ملک محمد ولی افروز از مهر
چند کھتری (۱۳۸) ، باب القصص از شاہ عالم ثانی (۹۳-۱۷۹۴) ، جذب عشق از شاه
حسین حقیقت (۹۷-۱۹۷)، وغیرہ ۔ انہیں داستانوں میں ایک داستان نوطرز مرصع
بھی ہے۔
نو طرز مرصع کے متعلق نورسن ہاشمی نے ہی دیکھا ہے کہ:
۔۔۔ منقرأ نو طرز مرصع کی تار تصنیف کے
متعلق یہ کہا جاسکتا ہے کہ ۹۸
۷اء سے شروع
ہوکر ۱۷۶۵ء میں تمام ہوئی اور دو ایک سال بعد کچھ عمارتیں
اور مدحیہ قصیدے میں شجاع الدولہ کے بجائے آصف
الدولہ کا نام لکھ کر ان کے حضور میں پیش کردی گئی
ہوگی ۔۔ »
طرز مرس کے وجودگی کی اطلاع اگر چپ و آوی و عورت کی تھی مگر سب سے پہلے
8
of 357
Text Scan pro ایپ ہے ، اسکو play store سے کل downlaod کیا تھا، مجھے کافی بہتر نتائج ملے
اس کے ذریعے ریختہ پر موجود امیج کی شاٹ لے کے ڈالا گیا. نتائج بہتر محسوس ہوتے