وقاص فاروق
محفلین
ہمارا نام وقاص فاروق ہے. ناچیز نے بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی کے پانچویں سال کے آخری مہینے میں آنکھ کھولی. پیدائش ضلع گجرات اور ننھیالی گاؤں سوہنترہ میں ہوئی. اپنے گھر میں فرزند اولین کا اعزاز پایا. ننھیالی اور ددھیالی خاندانوں میں، اپنی پیڑھی میں، سب سے پہلا بچہ ہونے کا مرتبہ بھی ملا. آباؤ و اجداد کا تعلق ناگڑیاں، ضلع گجرات سے ہے. اس گاؤں کے ساتھ نسبت اس لحاظ سے قابلِ فخر ہے کہ امیر شریعت سید عطا اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ تعالٰی کے آباء کا تعلق بھی اسی گاؤں سے تھا اور آپ نے اولین زندگی کا بیشتر حصہ اسی گاؤں میں گزارا. امیر شریعت کے والد محترم کی قبر مبارک وہیں موجود ہے.
ابتدائی تعلیم کے لئے گاؤں میں ہی موجود گورنمنٹ سکول میں بھیجا گیا. لیکن کچھ عرصہ بعد ہی گاؤں کے قریب ایک قصبے میں انگلش میڈیم پرائیویٹ سکول میں داخل کر دیا گیا. پہلی دو جماعتیں وہیں سے پاس کئیں. والد صاحب اس وقت کوئٹہ میں واپڈا میں ملازم تھے. تقریباً 6 سال کی عمر میں ان کے پاس کوئٹہ شفٹ ہو گئے.
کوئٹہ میں رہائش سریاب روڈ کے قریب کلی بنگل زئی میں تھی. مکان دو کمروں پر مشتمل تقریباً تین مرلے کا تھا. ایک دم سے گاؤں کے شناسا اور کشادہ ماحول سے نکل کر ایک چھوٹے سے مکان میں قید ہو گئے. رشتے داروں اور دوستوں سے دور اجنبی ماحول، شروع شروع میں بڑا جان گسل اور روح فرسا معلوم ہوا. کچھ ماہ بعد قریب ہی موجود ایک نجی انگلش میڈیم سکول میں داخلہ دلوا دیا گیا. یوں گھر سے سکول اور سکول سے گھر آنے جانے کا سلسلہ شروع ہوا. اس کے علاوہ گھر سے باہر کی دنیا ہمارے لیے شجر ممنوعہ تھی. باہر جانے کی اجازت نہ تھی. سکول لانے اور لیجانے کے لئے بھی ایک ملازم مقرر تھا.
سکول میں جانے کے بعد ارد گرد کے ماحول سے شناسائی شروع ہوئی. ہم جماعتوں سے تعلق بڑھا اور آبائی علاقے سے جدائی کا غم آہستہ آہستہ مٹنے لگا. مقامی لوگوں میں اکثریت بلوچی، پشتون اور براہویوں کی تھی. وہاں ایک نیا تجربہ یہ ہوا کہ مقامی لوگ پنجابیوں کو زیادہ اچھا نہ سمجھتے تھے. لیکن پھر بھی حالات آج کے مقابلے میں کافی بہتر تھے.
آٹھویں جماعت تک اسی سکول میں تعلیم حاصل کی. اس کے بعد کوئٹہ کینٹ میں موجود سینٹ میریز بوائز ہائی سکول میں داخلہ لے لیا. وہاں سے میٹرک کرنے کے بعد لاہور شفٹ ہو گیا. ایف اے کے لیے گورنمنٹ ایف سی کالج میں داخلہ لیا. گریجویشن گورنمنٹ ایم اے او کالج سے کی. گریجویشن کے بعد چارڈ آکاؤنٹنسی میں داخلہ لے لیا. سی اے ابھی مکمل نہیں ہوا اور ساتھ ایک نجی کمپنی میں ملازمت کا سلسلہ بھی چل رہا ہے.
کتابیں پڑھنے کا شوق والد محترم سے ورثہ میں ملا. گاہے بگاہے عمر کے لحاظ سے مختلف کتابیں زیرِ مطالعہ رہیں. کوئٹہ میں جب نویں جماعت میں داخل ہوئے تو ماہنامہ آنکھ مچولی باقاعدگی کے ساتھ دو سال پڑھا. پھر لاہور آنے پر پہلے دو سال غیر نصابی کتابوں سے کسی نہ کسی طور تعلق جڑا رہا. اسی عرصے میں نسیم حجازی مرحوم کے تقریباً سارے ناول پڑھے. شہاب نامہ پڑھا. ابن صفی مرحوم اور اشتیاق احمد مرحوم کے کچھ ناول پڑھے. طاہر جاوید مغل کا 'تاوان'، عمیرہ احمد کا 'پیر کامل' عنایت اللہ مرحوم کے 'شمشیر بے نیام' اور 'فردوس ابلیس' مطالعہ سے گزرے. اردو ڈائجسٹ بھی کچھ ماہ پڑھتے رہے. لیکن پھر نجانے ایسا کیا ہوا کہ مطالعے کا سلسلہ منقطع ہو گیا. کم و بیش دس بارہ سال غیر نصابی کتابوں کی شکل تک نہ دیکھی. اس قیمتی وقت کے ضیاع پر آج بھی دکھ ہے. پھر ایک سال پہلے کتابوں سے ٹوٹا رشتہ پھر جڑا. اللہ سبحان و تعالٰی سے دعا ہے کہ یہ سلسلہ اب جاری و ساری رہے.
ایک سال پہلے سوشل میڈیا پر چند اچھی اردو تحریر لکھنے والوں سے شناسائی ہوئی تو خود بھی لکھنے کا شوق دل میں جاگا. لیکن کوشش نہ کی. پھر مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ تعالٰی کی غبار خاطر پڑھنے کا موقع ملا. اردو سے محبت کی، راکھ میں دبی، چنگاری پھر شعلہ بن گئی. ایک دن ٹویٹر پر موجود ایک اکاؤنٹ سے ایک انتہائی خوبصورت تحریر پڑھنے کا اتفاق ہوا. اس تحریر نے لکھنے کا شوق اشتیاق میں بدل دیا. چند ہی دن گزرے ہوں گئے کہ اردو محفل فورم سے شناسائی ہوئی. بس یوں سمجھیے کہ آندھے کو دو آنکھیں مل گئیں. یقین نہ آیا کہ آج کہ انگریزی زدہ دور میں بھی اردو کا اعلی پائے کا ویب فورم ہو سکتا ہے. آج اس میں ہم بھی شریک ہو گئے ہیں. اور ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں اپنا تعارف پیش کر رہے ہیں. امید ہے کہ یہاں سے بہت کچھ سیکھیں گئے انشاءاللہ.
ابتدائی تعلیم کے لئے گاؤں میں ہی موجود گورنمنٹ سکول میں بھیجا گیا. لیکن کچھ عرصہ بعد ہی گاؤں کے قریب ایک قصبے میں انگلش میڈیم پرائیویٹ سکول میں داخل کر دیا گیا. پہلی دو جماعتیں وہیں سے پاس کئیں. والد صاحب اس وقت کوئٹہ میں واپڈا میں ملازم تھے. تقریباً 6 سال کی عمر میں ان کے پاس کوئٹہ شفٹ ہو گئے.
کوئٹہ میں رہائش سریاب روڈ کے قریب کلی بنگل زئی میں تھی. مکان دو کمروں پر مشتمل تقریباً تین مرلے کا تھا. ایک دم سے گاؤں کے شناسا اور کشادہ ماحول سے نکل کر ایک چھوٹے سے مکان میں قید ہو گئے. رشتے داروں اور دوستوں سے دور اجنبی ماحول، شروع شروع میں بڑا جان گسل اور روح فرسا معلوم ہوا. کچھ ماہ بعد قریب ہی موجود ایک نجی انگلش میڈیم سکول میں داخلہ دلوا دیا گیا. یوں گھر سے سکول اور سکول سے گھر آنے جانے کا سلسلہ شروع ہوا. اس کے علاوہ گھر سے باہر کی دنیا ہمارے لیے شجر ممنوعہ تھی. باہر جانے کی اجازت نہ تھی. سکول لانے اور لیجانے کے لئے بھی ایک ملازم مقرر تھا.
سکول میں جانے کے بعد ارد گرد کے ماحول سے شناسائی شروع ہوئی. ہم جماعتوں سے تعلق بڑھا اور آبائی علاقے سے جدائی کا غم آہستہ آہستہ مٹنے لگا. مقامی لوگوں میں اکثریت بلوچی، پشتون اور براہویوں کی تھی. وہاں ایک نیا تجربہ یہ ہوا کہ مقامی لوگ پنجابیوں کو زیادہ اچھا نہ سمجھتے تھے. لیکن پھر بھی حالات آج کے مقابلے میں کافی بہتر تھے.
آٹھویں جماعت تک اسی سکول میں تعلیم حاصل کی. اس کے بعد کوئٹہ کینٹ میں موجود سینٹ میریز بوائز ہائی سکول میں داخلہ لے لیا. وہاں سے میٹرک کرنے کے بعد لاہور شفٹ ہو گیا. ایف اے کے لیے گورنمنٹ ایف سی کالج میں داخلہ لیا. گریجویشن گورنمنٹ ایم اے او کالج سے کی. گریجویشن کے بعد چارڈ آکاؤنٹنسی میں داخلہ لے لیا. سی اے ابھی مکمل نہیں ہوا اور ساتھ ایک نجی کمپنی میں ملازمت کا سلسلہ بھی چل رہا ہے.
کتابیں پڑھنے کا شوق والد محترم سے ورثہ میں ملا. گاہے بگاہے عمر کے لحاظ سے مختلف کتابیں زیرِ مطالعہ رہیں. کوئٹہ میں جب نویں جماعت میں داخل ہوئے تو ماہنامہ آنکھ مچولی باقاعدگی کے ساتھ دو سال پڑھا. پھر لاہور آنے پر پہلے دو سال غیر نصابی کتابوں سے کسی نہ کسی طور تعلق جڑا رہا. اسی عرصے میں نسیم حجازی مرحوم کے تقریباً سارے ناول پڑھے. شہاب نامہ پڑھا. ابن صفی مرحوم اور اشتیاق احمد مرحوم کے کچھ ناول پڑھے. طاہر جاوید مغل کا 'تاوان'، عمیرہ احمد کا 'پیر کامل' عنایت اللہ مرحوم کے 'شمشیر بے نیام' اور 'فردوس ابلیس' مطالعہ سے گزرے. اردو ڈائجسٹ بھی کچھ ماہ پڑھتے رہے. لیکن پھر نجانے ایسا کیا ہوا کہ مطالعے کا سلسلہ منقطع ہو گیا. کم و بیش دس بارہ سال غیر نصابی کتابوں کی شکل تک نہ دیکھی. اس قیمتی وقت کے ضیاع پر آج بھی دکھ ہے. پھر ایک سال پہلے کتابوں سے ٹوٹا رشتہ پھر جڑا. اللہ سبحان و تعالٰی سے دعا ہے کہ یہ سلسلہ اب جاری و ساری رہے.
ایک سال پہلے سوشل میڈیا پر چند اچھی اردو تحریر لکھنے والوں سے شناسائی ہوئی تو خود بھی لکھنے کا شوق دل میں جاگا. لیکن کوشش نہ کی. پھر مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ تعالٰی کی غبار خاطر پڑھنے کا موقع ملا. اردو سے محبت کی، راکھ میں دبی، چنگاری پھر شعلہ بن گئی. ایک دن ٹویٹر پر موجود ایک اکاؤنٹ سے ایک انتہائی خوبصورت تحریر پڑھنے کا اتفاق ہوا. اس تحریر نے لکھنے کا شوق اشتیاق میں بدل دیا. چند ہی دن گزرے ہوں گئے کہ اردو محفل فورم سے شناسائی ہوئی. بس یوں سمجھیے کہ آندھے کو دو آنکھیں مل گئیں. یقین نہ آیا کہ آج کہ انگریزی زدہ دور میں بھی اردو کا اعلی پائے کا ویب فورم ہو سکتا ہے. آج اس میں ہم بھی شریک ہو گئے ہیں. اور ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں اپنا تعارف پیش کر رہے ہیں. امید ہے کہ یہاں سے بہت کچھ سیکھیں گئے انشاءاللہ.