تفسیر النساء:24
سورة النساء - آیت نمبر:24
[ARABIC]وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاء إِلاَّ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ كِتَابَ اللّهِ عَلَيْكُمْ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاء ذَلِكُمْ أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ...........[/ARABIC]
نیز تمام شوہروں والی عورتیں بھی (حرام ہیں) مگر وہ کنیزیں جو تمہارے قبضہ میں آجائیں۔ تمہارے لیے یہی اللہ کا قانون ہے
(40)۔ ان کے ماسوا جتنی بھی عورتیں ہیں، انہیں اپنے مال کے ذریعہ حاصل کرنا تمہارے لیے جائز قرار دیا گیا ہے۔ بشرطیکہ اس سے تمہارا مقصد نکاح میں لانا ہو، محض شہوت رانی نہ ہو
(41) ۔۔۔
( النساء:4 - آيت:24 )
(40)
موجودہ دور کے مہذب معاشرہ میں فاتح قوم قیدی عورتوں سے جس طرح کھلی بے حیائی کا ارتکاب کرتی ہے، اسلامی نقطہ نظر سے یہ صریح زنا ہے اور جس طرح آج کل قیدی عورتوں کو ایک کیمپ میں رکھا جاتا ہے اور فوجیوں کو عام اجازت دی جاتی ہے کہ جس عورت سے چاہیں، زنا کرتے رہیں۔ یہ صرف زنا ہی نہیں رہتا بلکہ ایک وحشیانہ فعل بھی بن جاتا ہے۔ چنانچہ اسلام نے ایسی عورتوں سے تمتع پر چند در چند پابندیاں لگائی ہیں۔ اس سلسلے میں پہلے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے :
[ARABIC]عن أبي سعيد، الخدري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم حنين بعث جيشا إلى أوطاس فلقوا عدوا فقاتلوهم فظهروا عليهم وأصابوا لهم سبايا فكأن ناسا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم تحرجوا من غشيانهن من أجل أزواجهن من المشركين فأنزل الله عز وجل في ذلك { والمحصنات من النساء إلا ما ملكت أيمانكم} أى فهن لكم حلال إذا انقضت عدتهن .[/ARABIC]
ابو سعید خدری (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حنین کے دن ایک لشکر اَوطاس کی طرف روانہ کیا۔ ان کا دشمن سے مقابلہ ہوا، مسلمانوں نے فتح پائی اور بہت سے قیدی ہاتھ آئے۔ صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) نے ان قیدی عورتوں سے صحبت کرنے کو گناہ سمجھا کہ ان کے مشرک شوہر موجود تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت (النساء : 24) نازل فرما کر عدت کے بعد ان لونڈیوں کو ان کے لیے حلال کر دیا۔
(
مسلم : کتاب الرضاع، باب جواز وطی المسبیہ)
اِس آیت (
النساء : 24) اور مندرجہ بالا حدیث (
صحیح مسلم : باب جواز وطی المسبیہ) سے درج ذیل باتوں کا پتہ چلتا ہے :
1: صرف اس قیدی عورت سے تمتع کیا جا سکتا ہے جو امیر لشکر دیگر اَموالِ غنیمت کی طرح کسی مجاہد کی ملکیت میں دے دے۔ اس سے پہلے اگر کوئی شخص کسی عورت سے تمتع کرے گا تو وہ دو گناہوں کا مرتکب ہوگا۔ ایک زنا کا اور دوسرے مشترکہ اَموالِ غنیمت کی تقسیم سے پیشتر ان میں خیانت کا۔
2: امیر لشکر کا کسی عورت کو کسی کی ملکیت میں دینے کے بعد اس سے نکاح کی ضرورت نہیں رہتی۔ ملکیت میں دے دینا ہی کافی ہوگا اور اس کا سابقہ نکاح از خود ختم ہو جائے گا۔
3: تقسیم کے بعد ایسی عورت سے فوری طور پر جماع نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک اسے کم از کم ایک حیض نہ آ لے اور یہ معلوم نہ ہو جائے کہ وہ حاملہ ہے یا نہیں۔ اور اگر وہ حاملہ ہو گی تو اس کی عدت تا وضع حمل ہے۔ اس سے بیشتر اس سے جماع نہیں کیا جا سکتا۔ اور مزید اَحکام یہ ہیں :
4: ایسی عورت سے صرف وہی شخص جماع کر سکتا ہے جس کی ملکیت میں وہ دی گئی ہو۔ کوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔
5: اگر اس قیدی عورت سے اولاد پیدا ہو جائے تو پھر اس ’امّ ولد‘ کو فروخت نہیں کیا جا سکتا۔
6: اگر ایسی قیدی عورت کو اس کا مالک کسی کے نکاح میں دے دے تو پھر یہ مالک اس سے دوسری خدمات تو لے سکتا ہے لیکن صحبت نہیں کر سکتا۔
7: جب عورت سے مالک کی اَولاد پیدا ہو جائے تو مالک کے مرنے کے بعد وہ ازخود آزاد ہو جائے گی۔ شرعی اصطلاح میں ایسی عورت کو اُمّ ولد کہتے ہیں۔
8: اگر امیر لشکر یا حکومت ایک عورت کو کسی کی ملکیت میں دے دے تو پھر وہ خود بھی اس کو واپس لینے کی مجاز نہیں ہوتی، اِلا یہ کہ اس تقسیم میں کوئی ناانصافی کی بات واقع ہو جس کا علم بعد میں ہو۔
اس طرح چند در چند شرائط عائد کر کے اسلام نے ایسی عورتوں سے تمتع کی پاکیزہ ترین صورت پیش کر دی ہے جس میں سابقہ اور موجودہ دور کی فحاشی، وحشت اور بربریت کو "حرام" قرار دے کر اس کا خاتمہ کیا گیا ہے اور تمتع کے بعد اس کے نتائج کی پوری ذمہ داری مالک پر ڈالی گئی ہے۔ نیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ :
[ARABIC]" من كانت له جارية فعالها، فأحسن إليها ثم أعتقها وتزوجها، كان له أجران ".[/ARABIC]
"جس شخص کے پاس کوئی لونڈی ہو وہ اس کی تعلیم و تربیت کرے، اسے ادب سکھائے پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کر لے تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے۔"
(
بخاری: کتاب العتق، باب فضل من ادب جاریته وعلمها)
ان سب باتوں کے باوجود یہ بات ملحوظِ خاطر رہے کہ
لونڈیوں سے تمتع ایک رخصت ہے، حکم نہیں ہے !
اور
یہ اللہ کی رحمت ہے کہ اس نے ایسی اجازت دے دی ہے کیونکہ جہاد اور اس میں عورتوں کی گرفتاری ایسی چیز ہے جس سے مفر نہیں اور ایسا بھی عین ممکن ہے کہ جنگ کے بعد قیدیوں کے تبادلہ یا اور کوئی باعزت حل نہ نکل سکے۔ اسی لیے اللہ نے سے کلیةً حرام قرار نہیں دیا۔
(41)
یعنی مذکورہ بالا عورتوں کے علاوہ باقی آزاد عورتوں میں سے جس کے ساتھ تم چاہو، درج ذیل شرائط کے ساتھ نکاح کر سکتے ہو :
1: طلب سے مراد ایجاب و قبول ہے۔
2:
یہ نکاح مستقلاً ہو، محض شہوت رانی کی غرض سے نہ ہو۔ اس سے نکاحِ متعہ کی حرمت ثابت ہوئی۔
3: حق مہر مقرر کرنا اور اس کی ادائیگی۔ اِلا یہ کہ بیوی اپنی مرضی سے یہ مہر یا اس کا کچھ حصہ چھوڑ دے اسی طرح مرد مقررہ مہر سے زیادہ بھی دے سکتا ہے۔
4: اعلانِ نکاح، جیسا کہ اگلی آیت میں ﴿ [ARABIC]وَلاَ مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ[/ARABIC] ﴾ سے واضح ہے اور سنت سے اس کی صراحت مذکور ہے یعنی نکاح کے کم از کم دو گواہ موجود ہونے چاہئیں۔
5: نکاح میں والدین کی اجازت یعنی ولی کی رضامندی
واضح رہے کہ شیعہ حضرات اس آیت اور بعض صحیح احادیث سے نکاحِ متعہ کے جواز پر استدلال کرتے ہیں۔ لہٰذا
نکاحِ متعہ کے جواز یا حرمت کی تحقیق ضروری ہے۔
نکاحِ متعہ کے جواز یا حرمت کی تحقیق
اگلا مراسلہ ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔