"نکاح المتعہ" کا اصل تعارف (بمعہ شرعی مسائل و احکامات)

مہوش علی

لائبریرین
۔ "مسیار شادی" والے تھریڈ میں بات موضوع سے الگ ہو کر"نکاح المتعہ" پر چل نکلی۔ سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ یہ بحث اپنی بنیاد سے نہیں چلی ہے، اور اس مسئلے پر بحث اس انداز میں کی جا رہی ہے جبکہ پڑھنے والوں کی اکثریت کو نکاح المتعہ کے بنیادی مسائل کا ہی علم نہیں ہے۔
اختلافی مسائل اپنی جگہ، مگر اس موضوع سے انصاف کا سب سے پہلے تقاضہ یہ ہے کہ بنیاد کو سمجھا جائے یعنی بذات خود عقد المتعہ کو مکمل طور پر سمجھا جائے، اسکے متعلق شرعی احکامات کو سمجھا جائے، اور پھر سب سے آخر میں جا کر اختلافی مسائل پر گفتگو کی جا سکتی ہے۔

۔ پھر انیس بھائی نے پیغام کے ذریعے اسی خواہش کا اظہار کیا ہے کہ الگ تھریڈ میں دوسری بحوث میں پڑنے سے قبل سب سے پہلے عقد متعہ کا تفصیلی تعارف کروایا جائے کیونکہ مخالفت برائے مخالفت میں عقد متعہ کے متعلق بے تحاشہ غلط فہمیاں پیدا کی گئیں اور بے تحاشہ ایسے غلط الزامات لگے ہوئے ہیں جن کا پردہ چاک کیے بغیر ہم آگے بڑھ ہی نہیں سکتے۔

۔ انصاف کا سب سے پہلا تقاضا یاد رہے کہ آپ نے غیر جانبدار ہو کر ٹھنڈے دل سے اللہ کو اپنا گواہ بناتے ہوئے ہر فریق کو پورا موقع دینا ہے کہ وہ اپنا مؤقف بیان کرے اور غور و فکر کے بعد ہی آپ نے کسی حتمی فیصلے پر پہنچنا ہے۔

آئیے اللہ کے بابرکت نام سے شروع کرتے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ فریقین کو ایک دوسرے کا مؤقف سمجھنے کا موقع ملے گا اور یوں پیدا شدہ بہت سی غلط فہمیاں اور غلط الزامات دور ہوں گے۔ امین۔
 

علی چوہدری

محفلین
میں یاھو میں کنیز کہ موضوع پر سرچ کر رھا تھا کہ یہ صفحہ کھل گیا اور میں نے متعہ کے موضوع پر طولانی بحث پڑھی میں کوئ علمی شخص تو ھوں نہیں لیکین جو بات مجھے سمجھ میں آئ ھے اس پر تبصرہ اپنا فرض سمجھتا ھوں
وہ یہ ھےکہ اس بارے میں سب ھی متفق ہیں کہ متعہ کسی نہ کسی زمانہ میں حلال رھا ھے اور اجرا بھی ھوا ھے اس سے کسی نے انکار نہیں کیا لیکن ھم مباحث میں کوشش کرتے ہیں کہ جو ھمارے عقائد ہیں اُنہیں صحیح ثابت کریں نہ کہ صحیح کی تلاش کریں( متاسفانہ)
1: کیا متعہ رسول اللہ کے زمانے میں اللہ کی اجازت کے بغیراجراء ہوتا رھا ھے اور رسول اللہ ایسے مہم امر کو اللہ کی اجازت کے بغیر اجراء کر سکتے ھیں ( مسلماً نہیں کر سکتے) پس یہ اجازت اللہ کی طرف سے تھی اگر اللہ کی طرف سے تھی تو ھمیں قران کی اختلافی آیت جو کہ شیعہ کی طرف سے متعہ پر دلالت کرتی ھے اُسکو صحیح ماننا ھو گا کیوں کہ اللہ کی اجازت کے بغیر اتنا اھم فعل انجام نہیں پا سکتا اور یہی آیت اللہ کی اجازت کو اثبات کرتی ھے ورنہ یہ سمجھا جاے گا یہ رسول کی طرف سے اجازت تھی نہ کہ اللہ کی طرف سے اور اللہ کی اجازت کہ اللہ ھی کی آیت ختم کر سکتی ھے اور وہ بھی واضع نہ مبھم قرآن میں کوئ آیت فسخ متعہ کی نہیں ھے لیکین اجازت کی موجود ھے( اختلافی ھی ھے لیکین آیت پر سب نے اسکو کسی نہ کسی طرح متعہ سے تعلق جوڑا ھے )
 

علی چوہدری

محفلین
2: اور سوال یہ کہ آیا متعہ کو ایک خاص مدت کےبعد بتدریج ختم کر دیا گیا تو سوال یہ ھے کہ جن چیزوں کو بتدریج ختم کیا گیا وہ ضرورت کی نہیں تھیں انسانی ضرر کی تھیں( جیسے شراب ) ایک عادت تھی جو کہ بتدریج ھی ختم ھو سکتی ھے متعہ تو عادت نھیں تھی انسان کی ضرورت تھی اور رھے گی
یہ کیسے ممکن ھے کہ اہک حکم جو کہ جنگ کہ دنوں میں جہاں رسول اللہ بھی درمیان میں موجود ھوں اور یہ اتنی اھم ضرورت ھو کہ اسکی اجازت دےدی جاے کہ جہاں سارا ماحول ھی روحانی ھو کیوں کہ ضرورت مھم ھے اللہ نے انسان کی اصلی ضرورتوں میں اُسکیلے آسانی پیدا کی ھے اسلام دین فطرت ھے اور پھر یہ کیسا انصاف ھو گا کہ ضرورت کہ امر کو جنگ کہ قلیل عرصہ کیلیے تو حلال قرار دے دیا جاے جہاں درمیان میں رسول بھی موجود ھو اور آج کہ زمانے میں جہاں ہر لمحے گناہ کا خدشہ ھے وھاں حرام ( تو کیا یہ عدالت ھوئ )
 
امر واقعہ ہے کہ اہلِ سنت بالاتفاق متعہ کو نصوصِ قرآن و حدیث اور دلائل و براہین کی روشنی میں حرام جانتے ہیں اور اہلِ تشیع اسے اپنے دین کا حصہ جانتے ہیں۔ لیکن کیا ایسے متنازع مسائل کو چھیڑنے سے مختلف فرقوں میں اتحاد و اتفاق ممکن ہوسکے گا؟ کیا نئے دلائل سن کر اہلِ سنت اس پر عمل شروع کردیں گے اور کیا اہلِ تشیع ان دلائل کی روشنی میں اپنے عقاید سے توبہ کرلیں گے۔ہمارے خیال میں ایسا ممکن نہیں لہٰذہ ایسے نازک دور میں ان مسائل کو کامن فورمز پر نہ ہی چھیڑا جائے تو بہتر ہوگا۔
 

علی چوہدری

محفلین
آپ کی بات بہت پسند آئی لیکن یہ ایک علمی بحث ھے اور یہ ضروری نہیں کہ اس سے تفرقہ پیدا کریں بلکہ اس سے یہ فائدہ ھو سکتا ھے کہ مثبت سوچ رکھنے والے افراد شعیہ فرقہ پر اس اعتراض کی وجہ سے جو رویہ اپنائے ھوئے ھیں وہ اپنا عقیدہ نہ بدلیں لیکین یہ سمجھ لیں کہ جس پر اعتراض کیا جا رھا ھے وہ اپنے لئے محکم دلائل رکھتا ھے ( جیسے آپ نے توبہ والا جملہ لکھا ھے ) کم از کم اس حالت سے باھر آنا ھمارے اتحاد کیلئے بہت ضروری ھے خصوصن آج کے دور میں کہ جب سب سامراج اپنے جداگانہ مذاھب رکھنے کہ باوجود اسلام کو ختم کرنے پر تلے ھوئے ھیں لیکین ھم مسلمان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر لگے ھوئے ھیں اور ھر فرقہ دوسرے کو اسلام سے خارج سمجھے ھوئے ھے ایسے ھی لا علمی کی وجہ سے اس موضوع پر بہت لمبی بحث ھو چکی ھے دیگر مناسب نہیں کہ اس پر مزید دلائل دئے جائیں اور مھوش علی کا شکر گزار ھوں کے اُنہوں نے اس موضوع پر بہت محکم دلائل کیساتھ سیر حاصل بحچ کی میری گزارش صرف یہ ھے کہ ھم لوگ دوسرے کے عقیدے کو ھرگز قبول نہ کریں لیکن انتھا پسندی تک اُس کے مسئلہ کو رد کتے ھوئے دوسرے کو اسلام کے دائرے سے خرج بھی نہ کریں اور اسکو درک کریں کہ دریق ثانی اپنے لئے محکم دلائل رکھتا ھے اور اُسکو اُسکے لئے جائز رھنے دیں (جیسا کہ آپنے توبہ کا جملہ استعمال کیا ) دوسرے کیلئے اس کو اُسکا جائز عقیدہ سمجھنے دیں تو ایسی صورت کا نام اتحاد
ھے ھر کوئی اپنے عقیدے میں رھے اور دوسرے کیلئے اُسے جائز سمجھے اسے اتحاد کھتے ھیں
 
Top