نکاح المتعہ کا تعارف (حصہ دوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فرخ

محفلین
اس بحث پر جو حضرات اسے تعصب اور فرقہ واریت کی طرف لے جانے کے الزامات لگا رہے ہیں۔ تو ان سے عرض‌یہ ہے کہ یہ متعہ والا معاملہ مختلف فرقوں میں ایک اختلافی مسئلہ ہے اور ایک مخصوص فرقہ ہے جو اس کے کافی حق میں‌ہے۔ اور اسی وجہ سے اس مسئلے پر بحث میں‌فرقہ واریت کی طرف جانا ایک قدرتی امر ہے۔
تو اس چیز پر شور مچانے کی بجائے، بہتر ہوگا کہ اسکے صحیح اور غلط ہونے کی طرف توجہ دی جائے۔

اور ذاتی طور پر اسے کوئی بھی فریق کبھی بھی نہ تو منوا سکے گا، نہ صحیح قرار دلوا سکے گا۔ اور شائید مخالفین بھی اسے متفقہ طور پر غلط قرار نہ دلوا سکیں۔ کیونکہ اسکے حق میں‌بولنے والے ان دلائل سے منحرف رہیں‌جو اسکے خلاف جا رہے ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
اس بحث پر جو حضرات اسے تعصب اور فرقہ واریت کی طرف لے جانے کے الزامات لگا رہے ہیں۔ تو ان سے عرض‌یہ ہے کہ یہ متعہ والا معاملہ مختلف فرقوں میں ایک اختلافی مسئلہ ہے اور ایک مخصوص فرقہ ہے جو اس کے کافی حق میں‌ہے۔ اور اسی وجہ سے اس مسئلے پر بحث میں‌فرقہ واریت کی طرف جانا ایک قدرتی امر ہے۔
تو اس چیز پر شور مچانے کی بجائے، بہتر ہوگا کہ اسکے صحیح اور غلط ہونے کی طرف توجہ دی جائے۔

اور ذاتی طور پر اسے کوئی بھی فریق کبھی بھی نہ تو منوا سکے گا، نہ صحیح قرار دلوا سکے گا۔ اور شائید مخالفین بھی اسے متفقہ طور پر غلط قرار نہ دلوا سکیں۔ کیونکہ اسکے حق میں‌بولنے والے ان دلائل سے منحرف رہیں‌جو اسکے خلاف جا رہے ہیں۔

فرخ صاحب،
دو چیزوں کا فرق نوٹ کریں (1) پہلا "اختلاف رائے" (2) اور دوسرا "فرقہ وارانہ اختلاف"
ان دونوں میں بہت فرق ہے۔
۔ صحابہ کرام کے مابین "اختلاف رائے" تھا۔ اور یہ کوئی بری یا بڑی بات نہیں، بلکہ بہت سے معاملات میں یہ اچھی چیز ثابت ہوتی ہے "رحمت" والی رسول ص کی حدیث اسی قسم کے "اختلاف رائے" کے بارے میں ہو سکتی ہے۔
۔ مگر یہاں ہم اس "اختلاف رائے" والی سپرٹ کو ہرگز برقرار نہ رکھ سکے اور پہلے مرحلے میں ہی اسے گھسیٹ کر "فرقہ وارانہ اختلاف" میں لے گئے ہیں، اور یہ چیز بہت افسوسناک ہے۔ہم بہت تنگ نظر، تنگ ذہن اور جہالت کے نزدیک ہیں۔اللہ تعالی ہم پر اپنا خاص رحم فرمائے ورنہ ہمارے اعمال خسارہ پانے والوں جیسے ہیں۔ امین۔
والسلام۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
عقد متعہ میں وہ تمام تر قوانین اور شرائط موجود ہیں جو کہ عقد نکاح میں موجود ہوتے ہیں، سوائے اسکے کہ مقررہ وقت کے بعد طلاق ہو جاتی ہے۔

چنانچہ عقد متعہ اور عقد نکاح میں کچھ فرق نہیں سوائے مقررہ وقت کے بعد طلاق ہو جانے کے، جبکہ زنا کاری بالکل ہی الگ چیز ہے۔

1۔ آہ، میری غلطی کہ میں یہ ایک بنیادی مسئلہ بیان کرنا بھول گئی کہ "کنواری دوشیزہ" سے عقد متعہ کرنا "مکروہ" ہے اور صرف انتہائی حالات کے تحت ہی ولی کی اجازت سے ایسا عقد ہو سکتا ہے۔

یہ تو ایک بہت بڑا فرق ہوا ناں‌؟ قرآن کریم میں جہاں‌نکاح‌کے احکام بیان ہوئے ہیں وہاں‌ ایسی کوئی قید نہیں‌ اور ظاہر ہے نکاح‌ کے لئے اولین پسند دونوں‌فریقوں‌کی یہی ہوتی ہے ۔ چنانچہ یہ واضح‌ ہوا کہ متعہ اور نکاح‌ میں بنیادی فرق ہے ؟؟؟

عبداللہ ابن مسود فرماتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ص کے ساتھ غزوات میں مصروف تھے اور اُنکی بیویاں انکے ہمراہ نہیں تھیں۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہ ص سے پوچھا کہ آیا گناہ کے خوف

سے نجات پانے کے لیے وہ خود کو خصی (اعضائے شہوانی کا کانٹا) کر لیں۔ اس پر رسول اللہ ص نے انہیں منع فرمایا اور انہیں رخصت دی کہ وہ عورتوں کے ساتھ کسی کپڑے کے

عوض مقررہ مدت تک نکاح کریں اور پھر رسول اللہ ص نے یہ آیت تلاوت فرمائی

یہ دیکھیں‌ کہ یہ اس وقت کے حالات کے مطابق تو حکم نہیں‌ دیا گیا تھا ؟؟؟ اگر یہ پہلے سے دائمی حکم ہوتا تو صحابہ کو پوچھنے کی کیا ضرورت تھی ؟؟؟ اجازت کیوں‌طلب کی گئی ؟؟؟ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ معاشرے میں‌جاری چلن تھا اور دین میں‌ دائمی حکم نہیں‌ تھا ۔

علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں:
"متعہ اللہ کی طرف سے اس کے بندوں پر رحمت ہے۔ اور اگر ایک شخص اپنی رائے سے اس سے منع نہ کر دیتے تو کوئی شخص بھی زنا نہ کرتا سوائے ایسے شخص کے جو بہت ہی شقی

القلب ہوتا۔"
امام ابن حجر العسقلانی، فتح الباری، جلد 9، صفحہ 141


مگر اسکے برعکس بے تحاشہ روایات و دلائل موجود ہیں جو صاف بتلا رہے ہیں کہ حضرت عمر نے عقد متعہ کی اپنی طرف سے ممانعت کی۔

دور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ میں جب ایک عام بدو خلیفہ کی چارد کھینچ کر پوچھ سکتا ہے کہ یہ دو چادریں‌ کیسے آئیں ۔۔۔ تو اتنے کبار صحابہ نے یہ کیسے برداشت کر لیا کہ ان کے سامنے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اللہ کے حلال کئے ہوئے کو حرام کر رہے ہوں ؟؟؟ اور کبار اصحاب کی ایک بہت بڑی اکثریت چپ سادھے رہے ؟؟؟ اور پھر اس وقت سے آج تک امت کا ایک کثیر طبقہ کیوں اس پر عمل پیرا ہے اور بالخصوص‌جب اس حکم سے سہولت ہی سہولت اور فائدہ ہی فائدہ ہے اور کوئی مشقت بھی نہیں‌ اور کوئی خرچ بھی نہیں ؟؟؟
 

باذوق

محفلین
مہوش علی :
النکاح المتعہ کے اِس موضوع پر جب بھی آپ کی تحقیق مکمل ہو جائے ، براہ مہربانی تکمیل پر اس کا اظہار واضح طور پر ضرور کر دیں۔ شکریہ۔
 

فرخ

محفلین
آپ نے ذرا اچھے الفاظ استعمال کئے ہیں‌ایک کڑوی حقیقت کو چھپانے کے لئے۔ اور میں بھی اسی چیز پر بات کر رہا ہوں، کہ یہ اختلاف رائے نہیں ہے، بلکہ کڑوا سچ تو یہ ہے کہ اس مسئلے پر تو فرقوں میں‌اختلاف ہے۔ اور اس اختلاف کی بنیاد وہ فیصلے ہیں جو ایک فرقے نے اس مسئلے پر الگ کئے ہے اور دوسرے نے الگ۔
اور یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ متعہ ایک مخصوص مکتبہء فکر کے لوگوں‌کے نزدیک جائز ہے ، جبکہ دوسرے کے نزدیک حرام۔ اور یہاں‌موجود تقریبا تمام حضرات کسی نہ کسی فرقے یا مسلک سے ذھنی ہم آہنگی رکھتے ہیں‌یا براہ راست تعلق رکھتے ہیں۔ اور یہی وہ وجہ ہے کہ اختلاف رائے کی بجائے فرقہ کی بنیاد پر اختلاف ہونا ایک قدرتی بات ہے اور آپ کسی صورت بھی اس سے بچ نہیں‌سکتے۔

آپ کے اور دوسرے شرکاء کے درمیان بھی اہل تشیع کے نظریات سے متعلق بحث ہوئی ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اہل تشیع بھی ایک فرقہ ہے۔اور متعہ کے جائز ہونے پر سب سے زیادہ اسی فرقہ کے لوگ راضی دکھائی دے رہے ہیں۔

لہٰذا اس بات پر شور نہ مچائیں کہ لوگ فرقہ واریت کی طرف لے کر جا رہے ہیں، بلکہ اس مسئلے کے حقائق کی طرف غور فرمائیے۔



فرخ صاحب،
دو چیزوں کا فرق نوٹ کریں (1) پہلا "اختلاف رائے" (2) اور دوسرا "فرقہ وارانہ اختلاف"
ان دونوں میں بہت فرق ہے۔
۔ صحابہ کرام کے مابین "اختلاف رائے" تھا۔ اور یہ کوئی بری یا بڑی بات نہیں، بلکہ بہت سے معاملات میں یہ اچھی چیز ثابت ہوتی ہے "رحمت" والی رسول ص کی حدیث اسی قسم کے "اختلاف رائے" کے بارے میں ہو سکتی ہے۔
۔ مگر یہاں ہم اس "اختلاف رائے" والی سپرٹ کو ہرگز برقرار نہ رکھ سکے اور پہلے مرحلے میں ہی اسے گھسیٹ کر "فرقہ وارانہ اختلاف" میں لے گئے ہیں، اور یہ چیز بہت افسوسناک ہے۔ہم بہت تنگ نظر، تنگ ذہن اور جہالت کے نزدیک ہیں۔اللہ تعالی ہم پر اپنا خاص رحم فرمائے ورنہ ہمارے اعمال خسارہ پانے والوں جیسے ہیں۔ امین۔
والسلام۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
اہل تشیع کے نزدیک عقد متعہ کے متعلق قرآن کی سورۃ النساء کی آیت 24 نازل ہوئی:

[القرآن 4:24] والمحصنات من النساء الا ما ملكت ايمانكم كتاب الله عليكم واحل لكم ما وراء ذلكم ان تبتغوا باموالكم محصنين غير مسافحين فما استمتعتم به منهن فاتوهن اجورهن فريضة ولا جناح عليكم فيما تراضيتم به من بعد الفريضة ان الله كان عليما حكيما
ترجمہ: اورتم پر حرام ہیں شادی شدہ عورتیں- علاوہ ان کے جو تمہاری کنیزیں بن جائیں- یہ خدا کا کھلا ہوا قانون ہے اور ان سب عورتوں کے علاوہ تمہارے لئے حلال ہے کہ اپنے اموال کے ذریعہ عورتوں سے رشتہ پیدا کرو عفت و پاک دامنی کے ساتھ سفاح [زناکاری] کے ساتھ نہیں پس جو بھی ان عورتوں سے استمتاع [عقد متعہ کے لیے استعمال ہونے والی شرعی اصطلاح] کرے ان کی اجرت انہیں بطور فریضہ دے دے اور فریضہ کے بعد آپس میں رضا مندی ہوجائے تو کوئی حرج نہیں ہے بیشک اللہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی ہے

اگر اوپر والی آیت میں استمتعتم کے معنی "عورتوں سے استمتاع [عقد متعہ کے لیے استعمال ہونے والی شرعی اصطلاح]" کئے جائیں‌ تو درج ذیل آیت کے معنی کس طرح ہوں‌ گے۔

كَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ كَانُوا أَشَدَّ مِنكُمْ قُوَّةً وَأَكْثَرَ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا فَاسْتَمْتَعُوا بِخَلَاقِهِمْ فَاسْتَمْتَعْتُم بِخَلَاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُم بِخَلَاقِهِمْ وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خَاضُوا ۚ أُولَ۔ٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَ۔ٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ

سورۃ‌ التوبۃ آیت 69

اور پھر سورۃ‌ ابراہیم آیت 30
وَجَعَلُوا لِلَّهِ أَندَادًا لِّيُضِلُّوا عَن سَبِيلِهِ ۗ قُلْ تَمَتَّعُوا فَإِنَّ مَصِيرَكُمْ إِلَى النَّارِ

اور پھر سورۃ‌ الذاریات آیت 43
وَفِي ثَمُودَ إِذْ قِيلَ لَهُمْ تَمَتَّعُوا حَتَّىٰ حِينٍ
 

dxbgraphics

محفلین
گرافکس بھائی مجھکو آپ کا اصل نام نہیں پتہ ورنہ آپ کو اصل نام سے پکارتا ۔ میں نے آپ کی جتنی بھی پوسٹس پڑھی ہیں ان میں سوائی تعصبی باتوں کے اور کچھ کبھی نظر نہیں آیا آپ کے پاس کبھی بھی کوئی دلیل نہیں ہوتی اب ایسے لوگوں کا کیا کیا جائے جو ہر دھاگے گا رخ دوسری طرف موڑنا چاہتے ہیں ۔ اگر آپ سچے ہیں تو کوئی دلیل لائیں ۔جس طرح کے الزامات آپ لگاتے ہیں ویسے ہی الزامات شروّ سے اہل تشیع حذرات اور علماء پر لگتے رہے اور آپ ہی آپ دفن ہوتے رہے کیوں کہ جھوٹ زیادہ عرصے نہیں چلتا ۔ میری آپ سے گذارش ہے کہ اگر آپ کے پاس دین سے متعلق اگر علم نہیں تو خاموشی سے دونوں طرف کے جوابات پڑہتے رہیں اور اپنی طرف سے کوئی بات کرکے موضوع کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کریں۔

جناب میں نے تو آنکھوں دیکھا بیان کیا ہے۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ آپ کو سچ کڑوا لگے گا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
روز عاشورہ معصوموں کا خون بہہ جانے کے بعد دل نہیں کر رہا تھا کہ اس موضوع پر بات کی جائے۔ بہرحال، کچھ دن گذرنے کے بعد دل کے زخم کچھ مندمل ہوئے۔ جو احباب اس کے انتظار میں تھے ان سے اتنی دیر کرنے پر معذرت۔ اللہ کے بابرکت نام سے بات آگےشروع کرتے ہیں۔ اللھم صلی اللہ محمد و آل محمد۔
***********

یہ تو ایک بہت بڑا فرق ہوا ناں‌؟ قرآن کریم میں جہاں‌نکاح‌کے احکام بیان ہوئے ہیں وہاں‌ ایسی کوئی قید نہیں‌ اور ظاہر ہے نکاح‌ کے لئے اولین پسند دونوں‌فریقوں‌کی یہی ہوتی ہے ۔ چنانچہ یہ واضح‌ ہوا کہ متعہ اور نکاح‌ میں بنیادی فرق ہے ؟؟؟
یہاں آپ مکروہات میں بحث کو الجھا رہے ہیں حالانکہ میں تو پہلے ہی بیان کر چکی ہوں کہ اولیت ہر صورت میں نکاح دائمی کو ہے اور نکاح دائمی والی بیوی ہوتے ہوئے عقد متعہ سے منع کیا گیا ہے۔ یہ صرف مخصوص حالات میں استعمال ہوتا ہے۔
اور ہمارا اصل موضوع یہ تھا کہ عقد المتعہ اور زناکاری میں بہت فرق ہے (جیسا کہ آجکل مخالفین غلط پروپیگنڈہ کرتے ہیں) اور عقد المتعہ اپنی واجب شرائط کے حوالے سے ہرلحاظ سے سے نکاح دائمی کی طرح ہے (مثلا ایجاب و قبول، حق مہر، عدت، بچے کا نسب و ذمہ داری وغیرہ) سوائے اس چیز کہ کہ اس میں ایک مقررہ وقت کے بعد خود بخود طلاق ہو جاتی ہے۔

یہ دیکھیں‌ کہ یہ اس وقت کے حالات کے مطابق تو حکم نہیں‌ دیا گیا تھا ؟؟؟ اگر یہ پہلے سے دائمی حکم ہوتا تو صحابہ کو پوچھنے کی کیا ضرورت تھی ؟؟؟ اجازت کیوں‌طلب کی گئی ؟؟؟ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ معاشرے میں‌جاری چلن تھا اور دین میں‌ دائمی حکم نہیں‌ تھا ۔

شوکت بھائی، آپ اس حدیث کو دوبارہ پڑھیں:
صحیح بخاری [آنلائن لنک]
حدثنا ‏ ‏عمرو بن عون ‏ ‏حدثنا ‏ ‏خالد ‏ ‏عن ‏ ‏إسماعيل ‏ ‏عن ‏ ‏قيس ‏ ‏عن ‏ ‏عبد الله ‏ ‏رضي الله عنه ‏ ‏قال ‏
‏كنا نغزو مع النبي ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏وليس معنا نساء فقلنا ألا نختصي فنهانا عن ذلك فرخص لنا بعد ذلك أن نتزوج المرأة بالثوب ثم قرأ ‏
‏يا أيها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ما أحل الله لكم
ترجمہ:
عبداللہ ابن مسود فرماتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ص کے ساتھ غزوات میں مصروف تھے اور اُنکی بیویاں انکے ہمراہ نہیں تھیں۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہ ص سے پوچھا کہ آیا گناہ کے خوف سے نجات پانے کے لیے وہ خود کو خصی (اعضائے شہوانی کا کانٹا) کر لیں۔ اس پر رسول اللہ ص نے انہیں منع فرمایا اور انہیں رخصت دی کہ وہ عورتوں کے ساتھ کسی کپڑے کے عوض مقررہ مدت تک نکاح کریں اور پھر رسول اللہ ص نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
[القرآن 5:87] يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُحَرِّمُواْ طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللّهُ لَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں انہیں (اپنے اوپر) حرام مت ٹھہراؤ اور نہ (ہی) حد سے بڑھو، بیشک اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا

مسئلہ یہ ہے کہ آپ معاشرے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، جبکہ میں معاشرے کو نہیں دیکھ رہی کہ اس میں پہلے کیا کچھ ہوتا تھا یا لوگوں کو عقد متعہ کا علم تھا یا نہیں، ۔۔۔۔ بلکہ میں تو سب سے پہلے صرف اور صرف رسول اللہ ص کی تعلیمات دیکھ رہی ہوں کہ وہ ان خاص حالات میں بذات خود صحابہ کو حکم دے رہے ہیں کہ وہ عقد متعہ کریں اور اس سے غرض نہیں کہ معاشرہ اسے کیا سمجھتا تھا یا پھر اُس معاشرے میں یہ پہلے ہوتا تھا یا نہیں۔۔۔ اور رسول اللہ ص نے یہ کہہ کر عقد متعہ کا حکم دیا کہ یہ حلال و پاکیزہ و طیبات میں سے ہے، اور ہماری شریعت رسول اللہ ص کے اس حکم کے بعد جاری ہوئی نہ کہ پہلے معاشرے میں جو کچھ ہوتا رہا اُس سے۔
آپ اپنی غلطی محسوس کریں کہ آپ شروع سے معاشرے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور ہر ممکن طریقے سے رسول اللہ ص کی تعلیم کو نظر انداز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ یہ آپکے نظریات کے تابع نہیں ہے۔ بہرحال یہ غلط بات ہے اور اللہ کرے آپ کو اسکا ادراک ہو جائے۔
از شوکت کریم:
دور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ میں جب ایک عام بدو خلیفہ کی چارد کھینچ کر پوچھ سکتا ہے کہ یہ دو چادریں‌ کیسے آئیں ۔۔۔ تو اتنے کبار صحابہ نے یہ کیسے برداشت کر لیا کہ ان کے سامنے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اللہ کے حلال کئے ہوئے کو حرام کر رہے ہوں ؟؟؟ اور کبار اصحاب کی ایک بہت بڑی اکثریت چپ سادھے رہے ؟؟؟ اور پھر اس وقت سے آج تک امت کا ایک کثیر طبقہ کیوں اس پر عمل پیرا ہے اور بالخصوص‌جب اس حکم سے سہولت ہی سہولت اور فائدہ ہی فائدہ ہے اور کوئی مشقت بھی نہیں‌ اور کوئی خرچ بھی نہیں ؟؟؟

ہر چیز کا اپنا وقت اور مقام ہوتا ہے۔ مگر یہاں بحث کو فرقہ وارانہ اختلاف قرار دے کر ہر ایسا حربہ آزمایا جا رہا ہے جس سے چیزیں گڈ مڈ ہو جائیں۔
حضرت عمر نے جو کچھ اس ضمن میں کہا تھا، وہ اگلے کچھ مراسلوں کے بعد مکمل تفصیل کے ساتھ پیش ہو جائے گا اور صرف اسکے بعد ہم سمجھ سکیں گے کہ حضرت عمر کا مؤقف کیا تھا۔ بہرحال مختصرا یہ کہ حضرت عمر کی ذاتی رائے تھی جس پر علی ابن ابی طالب نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا تھا اگر وہ عقد المتعہ سے منع نہ کرتے تو کوئی شقی القلب ہی زنا کرتا۔ مگر آج لوگ رسول اللہ اور حضرت عمر دونوں پر جھوٹ باندھ رہے ہیں کہ رسول اللہ ص نے متعہ کو حرام قرار دیا اور حضرت عمر نے فقط اسے نافذ کیا۔ نہیں، بلکہ حضرت عمر نے صاف صاف الفاظ میں کہا تھا کہ رسول اللہ ص کے زمانے میں دو متعہ (متعہ النساء اور متعہ الحج) جاری تھے جن کی وہ ممانعت کرتے ہیں اور یہ ممانعت مکمل طور پر انکی ذاتی رائے تھی اور انہوں نے کبھی رسول اللہ ص پر جھوٹ نہیں باندھا جیسا آج اُنکے نام کا غلط استعمال کر کے رسول اللہ ص پر جھوٹ باندھا جا رہا ہے۔
چنانچہ صبر کریں اور وقت اور موقع آنے دیں تاکہ ہر چیز سے مکمل انصاف کیا جا سکے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
سورۃ النساء کی آیت 24 پر تفصیلی بحث

عقد المتعہ کے جواز کا حکم سورۃ النساء کی آیت 24 میں اللہ نےخود نازل فرمایا:
[القرآن 4:24] والمحصنات من النساء الا ما ملكت ايمانكم كتاب الله عليكم واحل لكم ما وراء ذلكم ان تبتغوا باموالكم محصنين غير مسافحين فما استمتعتم به منهن فاتوهن اجورهن فريضة ولا جناح عليكم فيما تراضيتم به من بعد الفريضة ان الله كان عليما حكيما
ترجمہ: اورتم پر حرام ہیں شادی شدہ عورتیں- علاوہ ان کے جو تمہاری کنیزیں بن جائیں- یہ خدا کا کھلا ہوا قانون ہے اور ان سب عورتوں کے علاوہ تمہارے لئے حلال ہے کہ اپنے اموال کے ذریعہ عورتوں سے رشتہ پیدا کرو محصنین کے ساتھ [محصنین: وہ شرعی اصطلاح جو “پاکدامنی” کے لیے استعمال ہوتی ہے]،سفاح کے ساتھ نہیں[سفاح: شرعی اصطلاح جو زناکاری کے لیے استعمال ہوتی ہے] ، پس جو بھی ان عورتوں سے استمتاع کرے [استمتاع: وہ شرعی اصطلاح جو رسول ص عقد متعہ کے لیے استعمال کرتے تھے] ان کی اجرت انہیں بطور فریضہ دے دے اور فریضہ کے بعد آپس میں رضا مندی ہوجائے تو کوئی حرج نہیں ہے بیشک اللہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی ہے ۔
اور گواہیاں دیں ہیں:
1۔بلند پایہ اصحاب رسول نے کہ اللہ نے یہ آیت عقد المتعہ کے جواز میں نازل فرمائی۔”بلند پایہ” سے مراد عام صحابہ کرام نہیں، بلکہ ابن عباس، عبداللہ ابن مسعود، ابی ابن ابی کعب جیسے کبار صحابہ کہ جنہیں دیگر صحاب قرآن کے معاملے میں “امام المفسرین” سمجھتے تھے اور ان سے قرآن کی تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔
2۔ بلند پایہ تابعین نے کہ یہ آیت عقد المتعہ کے جواز میں نازل ہوئی۔ “بلند پایہ” سے مراد یہاں عام تابعین نہیں، بلکہ وہ تابعین ہیں جو کہ قرآن کی تفسیر میں “امام المفسرین” مانے جاتے ہیں۔
3۔”سلف” کے جمہور مفسرین و علماء کی گواہی کہ یہ آیت عقد المتعہ کے جواز میں نازل ہوئی۔ مثلا:
1۔ تفسیر قرطبی [وقال الجمهور : المراد نكاح المتعة الذي كان في صدر الإسلام][آنلائن لنک]
2۔ فتح القدیر [وقال الجمهور: إن المراد بهذه الآية: نكاح المتعة الذي كان في صدر الإسلام][آنلائن لنک]
3۔ اہل حدیث عالم نواب صدیق حسن خان اپنی کتاب نیل المرام میں[ و قال الجمھور ان المراد بھذا الایتہ نکاح المتعتہ ]
4۔ سر سید احمد خان کا اعتراف (تفصیل آگے آ رہی ہے)۔
مگر افسوس کہ ان تینوں گروہوں کے برعکس آج ایک چوتھا گروہ موجود ہے جو آج کے مفسرین و علماء پر مشتمل ہے۔ یہ گروہ اس آیت کے متعلق بُری طرح گمراہ ہوا کیونکہ :
1۔ انکو “تفسیر بالرائے” کے فتنے نے جکڑ لیا۔اس “تفسیر بالرائے” کے فتنے کی جڑ یہ ہے کہ اللہ و رسول ص کی جانب سے فراہم کردہ تمام تر نصوص کو چھوڑ کر اپنے مرضی سے قرآنی آیات سے کھلواڑ کرو اور قرآنی آیات کو اپنے مرضی کے معنی پہنا دو۔
2۔حدیث کے منکر حضرات جس طرح اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں وہ آپ کو آگے منکر حدیث کے روح رواں سر سید احمد خان کی تفسیر میں نظر آ جائیں گے۔افسوس کہ بعد میں آنے والے علماء نے بدقسمتی سےصحابہ و تابعین و سلف کو چھوڑ کر سرسید احمد خان جیسے منکر حدیث کی مکمل پیروی شروع کر دی۔
کاش کہ ان آج کے علماء و مفسرین کا گروہ اس معاملے میں منکرین حدیث کے ان اوچھے ہتھکنڈوں کی پیروی کرنے کی بجائے اپنے سلف، اور تابعین و صحابہ کے طریقہ کار کی پیروی کرتا تو اس عظیم گمراہی سے بچ جاتا۔
عظیم تضاد: ایک ہی آیت سے جواز اور حرمت دونوں کا حکم نکالنا

حیرت پر حیرت ہے کہ جس آیت کو صحابہ کرام، تابعین اور جمہور سلف علماء عقد المتعہ کے جواز میں سمجھتا ہے، آج کے علماء کا یہ گروہ اسکے بالکل برعکس اسی آیت سے عقد المتعہ کو حرام ٹہراتا ہے۔دیکھئیے، یہ ایک بہت بڑا تضاد ہے۔ قرآن کی کوئی بھی آیت یا تو کسی حکم کے جواز میں ہو سکتی ہے، یا پھر یہ ہو سکتا ہے کہ اُس آیت کا اس حکم سے کوئی تعلق نہ نکلےاور وہ غیر متعلق ہو۔ مگر یہ ناممکن ہے کہ ایک ہی آیت سے صحابہ و تابعین کا گروہ جواز کا حکم نکالے مگر انکی پیروی کا دعوی کرنے والا آجکے علماء کا گروہ حرمت کا۔ ایسا عظیم تضادقرآن کی کسی اور آیت میں نہیں ملتا جیسا اس آیت کی تاویل میں سامنے آیا ہے۔ یقین کیجئے قرآن میں یہ اتنا بڑا تضاد فقط اور فقط منکر حدیث کے اوچھے ہتھکنڈوں کی وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ جہاں وہ ان اوچھے ہتھکنڈوں کی مدد سے قرآنی آیات سے کھلواڑ کر کے اپنی مرضی کی “تاویلاتی تحریفات” کر رہے ہوتے ہیں، اور یہی “تاویلاتی تحریفات” دوسرا نام ہے “تفسیر بالرائے” کا۔
یہ گروہ اسکا ترجمہ و تاویل آج یوں پیش کر رہا ہے:
[القرآن 4:24] ۔۔۔ ان عورتوں کے سواء اور عورتیں تمہارے لئے حلال کی گئیں کہ اپنے مال کے مہر سے تم ان سے نکاح کرنا چاہو برے کام سے بچنے کے لئے نہ کہ شہوت رانی [عربی لفظ مسافحین] کے لئے اس لئے جن سے تم فائدہ اُٹھاؤ انہیں ان کا مقرر کیا ہوا مہر دے دو ۔۔۔ [ترجمہ از اہلحدیث عالم جونا گڑھی]
ان آجکے علماء نے لفظ “مسافحین” کا ترجمہ و تاویل کیا ہے “شہوت رانی” یا “مستی جھاڑنا” اور انکا دعوی ہے کہ چونکہ عقد متعہ میں “شہوت اور مستی” کا پورا کیا جانا پایا جاتا ہے، اس لیے قرآن کی یہ آیت عقد المتعہ کو حرام قرار دے رہی ہے۔ اور درحقیقت یہ لوگ اپنے سلف کو چھوڑ کر پیروی کر رہے ہیں سر سید احمد خان کی۔
سر سید احمد خان منکرین حدیث کے روح رواں ہیں اورانہوں نے اپنے ہتکھنڈے استعمال کرتے ہوئے “شہوت رانی” کو بطور عذر استعمال کیا اور بذات خود اس آیت سے عقد المتعہ کو حرام ٹہرایا۔وہ اس آیت کی تفسیر میں پہلے خود گواہی دیتے ہیں کہ “سلف” کا جمہور اس آیت سے عقد متعہ کے جواز کو ثابت کرتا ہے، مگر بعد میں اس جمہور سلف کا رد یوں کرتے ہیں:
یہ آیت بھی منجملہ ان آیتوں کے ہے جس کی تفسیر میں مجھکو تمام مفسرین اور علمائے متقدمین سے اختلاف ہے تمام مفسرین اس آیت کو آیت متعہ کہتے ہیں۔۔۔میرے نزدیک علماءمفسرین کا اس آیت سے حکم جواز متعہ پر استدلال کرنا محض غلط ہے بلکہ اس آیت سے علانیہ متعہ کے امتناع کا حکم پایا جاتا ہے۔۔۔ تزوج سے مقصود اصل ”احصان “ یعنی پاکدامنی اور نیکی تھی اور متعہ سے صرف مستی جھاڑنی کیونکہ اس سے اسکے مرتکب کوبجز ”سفح منی “ [منی گرانے] کے اور کوئی مقصود نہیں ہوتا۔۔۔ پس اس آیت سے متعہ کا امتناع پایا جاتا ہے نہ کہ اس کا جواز جیسے کہ غلطی سے علمائے امت نے خیا ل کیا ہے “ (تفسیر القران ج 2 ص ۶12)
آج کے ان علماء نےاس منکر حدیث روش اور کھلواڑ کو چوم کر قبول کرتے ہوئے اپنے سروں پر رکھا، اور بنا سوچے سمجھے اسکی پیروی میں لگ گئے۔ حیف صد حیف۔
 

مہوش علی

لائبریرین
دوسری غلطی: لفظ "مسافحین" کی غلط تاویل

اس آیت مبارکہ میں دو الفاظ استعمال ہوئے ہیں جنہیں سمجھنا ضروری ہے تاکہ پتا چلے کہ کیوں جمہور سلف نے کبھی اس آیت سے متعہ کو حرام قرار نہیں دیاجیسا کہ آجکے یہ خلف علماء ڈنکے کی چوٹ پر کر رہے ہوتے ہیں۔
1۔ لفظ "محصنین": اسکا لفظی مطلب ہے "حصار" یا "قلعہ" اور شرعی اصطلاح میں اس سے مراد ایسی شوہر دار عورتیں ہیں جو اپنے شوہر کے حصارِ نکاح میں ہیں اور دوسرے مردوں کو پاس نہیں آنے دیتیں اور یوں عفیفہ و پاکدامن ہیں۔
2۔ لفظ "مسافحین":یہ لفظ "سفاح" سے نکلا ہے جسکا لفظی مطلب ہے "پانی(/مادہ منویہ)گرانا" ہے (یعنی جنسی عمل کے بعد جب مرد کا مادہ منویہ خارج ہوتا ہے)۔ جبکہ شرعی اصطلاح میں اسکا مطلب ہے اللہ کی نازل کردہ شریعت کے اصولوں کے برخلاف جنسی عمل کرنا۔ شرعی اصطلاح میں ایسے ناجائز جنسی عمل کو "زناکاری" یا "بدکاری" کہتے ہیں۔ دیکھئے یہ “سفح منی” یعنی منی خارج کرنا تو نکاح دائمی اور کنیز عورت کے ساتھ ہمبستری میں بھی ہوتا ہے، مگر یہ حرام نہیں۔ چنانچہ شرعی اصطلاح میں ناجائز طریقے سے جنسی عمل کرنے اور سفح منی کو منع کیا گیا ہے جسے عرف عام میں “زناکاری” یا “بدکاری” کہتے ہیں۔
سلف نے اس لفظ کی وضاحت یوں کی ہے:
1۔ وأخرج ابن أبي حاتم عن ابن عباس أنه سئل عن السفاح‏؟‏ قال‏:‏ الزنا‏۔ [آنلائن لنک]
ترجمہ: امام ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ آپ سے سفاح کا معنی پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا "زنا"۔
2۔ حدثني المثنى , قال : ثنا أبو حذيفة , قال : ثنا شبل , عن ابن أبي نجيح , عن مجاهد , قال : { محصنين } متناكحين . { غير مسافحين } السفاح : الزنا [تفسیر طبری]
یعنی مجاھد بھی السفاح کے معنی “زنا” بتلا رہے ہیں۔چنانچہ، اس آیت میں لفظ مسافحین کا صحیح مطلب شریعت کے اصولوں کے خلاف "زناکاری" کرناہے اور منکرین حدیث حضرات اور اور انکی پیروی کرنے والے آج کے خلف علماءجب صحابہ و تابعین اور اپنے سلف کے اصولوں برخلاف جو اسکالفظی مطلب "مستی جھاڑنا" یا "شہوت رانی" کرتے ہیں تو یہ صریح بددیانتی اور فاش غلطی ہے۔
چنانچہ آیت کے اس حصے کا صحیح ترجمہ اور مطلب یوں ہے:
[القران 4:24] ۔۔۔ اور ان سب عورتوں کے علاوہ تمہارے لئے حلال ہے کہ اپنے اموال کے ذریعہ عورتوں سے رشتہ پیدا کرو عفت و پاک دامنی کے ساتھ سفاح [زناکاری] کے ساتھ نہیں۔۔۔
عقد متعہ میں "محصنین" اور "غیر مسافحین" کی یہ شرائط مکمل پوری ہوتی ہیں کیونکہ عقد متعہ میں عورت ایک مرد کے ہی حصار میں ہونے کی وجہ سے عفیفہ و پاکدامن ہوتی ہے، اور یہ سفاح کاری [زناکاری و بدکاری] اس لیے بھی نہیں کہ کہ عقد متعہ میں شریعت کے تمام اصول و شرائط کی پاسداری کی جا رہی ہوتی ہے جیسا کہ زناکاری کے برعکس عقد متعہ میں محارم عورتوں سے بدکاری نہیں ہو سکتی، اولاد کی تمام تر ذمہ داری مرد پر عائد ہے، عقد متعہ اُسی عورت سے ہو سکتا ہے جو عدت گذار کر پاک ہو چکی ہو، اور عقد متعہ ختم ہونے کے بعد بھی وہ عدت گذار کر ہی کسی اور شخص کے ساتھ نکاح یا متعہ کر سکتی ہے۔ الغرض عقد متعہ میں وہ تمام شرائط موجود ہیں جو کہ نکاح میں موجود ہیں سوائے اس شرط کے کہ ایک مدت کے بعد خود بخود طلاق ہو جاتی ہے۔
اس گروہ کی تاویل اسکے اپنے گلے پڑتے ہوئے

"عقل" اللہ تعالی کی طرف سے انسان کو بہت بڑا تحفہ ہے۔ کتاب "الکافی" کا پہلا باب کا نام ہے "کتاب العقل و جہل"۔ اصل جاہل وہ نہیں جو علم نہیں رکھتا، بلکہ اصل جاہل وہ شخص ہے جو اپنی عقل استعمال نہیں کر سکتا۔ شیطان ابلیس آپکے اور ہمارے مقابلے میں بہت عالم و فاضل تھا، مگر پھر بھی گمراہ و ذلیل ہوا کہ اس کو عقل نہ آئی کہ وہ اللہ کی نازل کردہ نص کے خلاف اپنی تاویلات لانے کی کوشش کر رہا ہے۔
چنانچہ اگرچہ کہ آگ سے پیدا ہونی والی تاویل بظاہر بہت خوشنما تھی، مگر انسان ٹھنڈے دماغ سے اپنی عقل استعمال کرے تو وہ یقینا اس تاویل کا فتنہ دیکھ سکتا ہے۔
اسی طرح خارجی تاویل "لاحکم الاللہ" اگرچہ بظاہرا بہت خوشنما تھی، مگر عقل استعمال کرنے والے پھر بھی اس تاویل کا فتنہ دیکھنے پر قادر تھے۔
ان لوگوں نے اپنے قیاس کا یہ گولا تو داغ دیا کہ “شہوت رانی” یا “مستی جھاڑنے” کیوجہ سے یہ آیت عقد المتعہ کو حرام ٹہراتی ہے، مگر ان حضرت کو یہ عقل نہ آ سکی کہ وہ اس قیاس آرائی کی وجہ سے پیدا ہونے والے تضادات کو دیکھ سکتے کہ:۔ "مادہ گرانا" اور "مستی جھاڑنا" اور "شہوت رانی" فقط عقد متعہ سے محدود نہیں ہے، بلکہ نکاح دائمی ہو یا کنیز عورتوں سے تعلقات، ہر صورت میں یہ لفظی معنوں میں مادہ گرانا، اور مستی جھاڑنا ہے ان تینوں طریقوں میں ایک ہی طرح سے موجود اور مشترک ہیں، اور اگر انہوں نے یہ "مستی جھاڑنے" کا شوشہ چھوڑا تو اس بنیاد پر فقط عقد متعہ ہی نہیں بلکہ عقد دائمی اور کنیز عورتوں سے تعلقات بھی حرام ہو جائیں گے۔
اسلام فطرت کے خلاف نہیں بلکہ دین فطرت ہے۔ اور اسلام فطرت میں موجود شہوت رانی یا مستی جھاڑنے کے تقاضے کے خلاف ہے۔ بلکہ اسلام فقط یہ چاہتا ہے کہ یہ جنسی عمل "محصننین" کی قید کے تحت ہو اور عقد متعہ عدت اور محارم وغیرہ کی شرط لگا کا اس محصنین کی قید کو مکمل پورا کرتا ہے۔
مگر آپ جتنا مرضی انہیں سمجھا لیں کہ بھائی آپ کی پاس فقط آپکے غلط قیاسی تفسیر بالرائے کے علاوہ کچھ ثبوت نہیں اور یہ قیاسی تفسیر بالرائے بھی ایسی بوگس کہ عقل والے صاف طور پر یہ تضاد دیکھ سکیں، اور اسی بوگس پن اور تضاد کی وجہ سے صحابہ اور تابعین اور سلف نے کبھی اس آیت میں "پانی گرانے" اور "مستی جھاڑنے" جیسے لولے لنگڑے عذر پیش کر کے انہیں عقد متعہ حرام قرار دینے کے لیے استعمال نہیں کیا۔ تو کم عقل یہ صحابہ و تابعین و سلف نہیں ہیں، بلکہ بے وقوف و بے عقل وہ لوگ ہیں جو آج اس تضاد کو دیکھنے و سمجھنے کے قابل نہیں اور اندھی تقلید میں مبتلا ہو کر ہر قسم کے لنگڑے لولے بہانے و عذر پیش کر کے اس آیت سے عقد متعہ کو حرام ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
منکرین حدیث کی پیروی کا برا نتیجہ

آئیے نمونہ ملاحظہ فرمائیں۔
[اہلحدیث عالم جوناگڑھی 4:24] ۔۔۔ اور ان عورتوں کے سوا اور عورتیں تمہارے لیے حلال کی گئیں کہ اپنے مال کے مہر سے تم ان سے نکاح کرنا چاہو برے کام سے بچنے کے لیے نہ کہ شہوت رانی کرنے کے لیے، اس لیے جن سے تم فائدہ اٹھاؤ انہیں انکا مقرر کیا ہوا مہر دے دو۔۔۔
[فتح محمد جالندھری 4:24]۔۔۔اور شوہر والی عورتیں بھی (تم پر حرام ہیں) مگر وہ جو (اسیر ہو کر لونڈیوں کے طور پر) تمہارے قبضے میں آجائیں (یہ حکم) اللہ نے تم کو لکھ دیا ہے اور ان (محرمات) کے سوا اور عورتیں تم کو حلال ہیں اس طرح سے کہ مال خرچ کر کے ان سے نکاح کرلو بشرطیکہ (نکاح سے) مقصود عفت قائم رکھنا ہو نہ شہوت رانی تو جن عورتوں سے تم فائدہ حاصل کرو ان کا مہر جو مقرر کیا ہو ادا کردو ۔۔۔۔
اوراب دیکھئیے حدیث رسول کسطرح ان پر حجت تمام کر رہی ہے:
صحیح مسلم [عربی ورژن ، آنلائن لنک]
صحیح مسلم [آنلائن لنک انگلش ورژن حدیث 3371]
صحابی ابو سعید خدری کہہ رہے ہیں کہ جنگ کے بعد چند خوبصورت عرب عورتیں انکے قبضے میں آئیں اور صحابہ کو انکی طلب ہوئی کیونکہ وہ اپنی بیویوں سے دور تھے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ میں صحابہ چاہتے تھے کہ وہ ان کنیز عورتوں کو بیچ کر فدیہ بھی حاصل کریں۔ چنانچہ صحابہ نے عزل سے کام لیا [یعنی سفاح کرتے وقت اپنے عضو تناسل باہر نکال کرمنی خارج کی تاکہ وہ عورتیں حاملہ نہ ہو سکتیں اور انکی اچھی قیمت مل سکے]۔ پھر انہوں نے اللہ کے رسول ص سے اسکے متعلق پوچھا تو رسول اللہ ص نے فرمایا کہ تم چاہو یا نہ چاہو مگر اگر کسی روح کو پیدا ہونا ہے تو وہ پیدا ہو کر رہے گی۔
عزل والی یہ روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں کئی طریقے سے روایت ہوئی ہے۔
اب یہ آجکے علماء جواب دیں کہ:"کیا آپ کو اس حدیث میں منی گرانا، شہوت رانی اور مستی جھاڑنا نظر آ رہا ہے؟ تو کیا اب بھی آپ منکر حدیث حضرات کی تاویل کے پیچھے بھاگتے پھریں گے اور تضاد کے اس گرداب میں مزید ڈوبتے چلے جائیں گے ۔۔۔۔۔ یا پھر اپنے مؤقف سے رجوع کریں گے اور منکر حدیث حضرات کی جگہ دوبارہ صحابہ و تابعین و سلف کی پیروی اختیار کریں گے اور اپنے سٹینڈرڈز کی طرف واپس پلٹیں گے؟
[نوٹ: عزل والی اس روایت سے نہ صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ محصنین کی قید کے ساتھ فطرت کے شہوت رانی کے تقاضے کو پورا کرنا نہ صرف حلال ہے، بلکہ اس میں اولاد نہ کرنے کی خواہش بھی رکھی جائے تب بھی یہ چیز اس تعلق کو حرام نہیں بناتی۔ نیز آجکل جو مسیار شادی عرب میں رائج ہے، کیا اس میں شہوت پوری کرنے کا عنصر شامل نہیں؟]
ان علماء کا دوسری جگہ خود "سفاح" کا ترجمہ "بدکاری" کرنا

جھوٹ کی طرح جان بوجھ کر کی گئی غلط بات کے پاؤں بھی نہیں ہوتے اور کہیں نہ کہیں جھول رہ جاتا ہے۔اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ان چالبازیوں سے نپٹنےکی تدبیر بذات خود پہلے سے کر رکھی تھی۔ اور اللہ کی تدبیر یہ تھی کہ اسی لفظ “سفاح” کو اسے سے بالکل اگلی آیت نمبر 25 میں کنیز عورتوں کے لیے بھی استعمال کر دیا۔
چنانچہ آج کے ان علماء حضرات نے آیت نمبر 24 میں منکر حدیث کی پیروی میں "سفاح" کے معنی شہوت رانی، مستی جھاڑنا کر تو دیے، مگران کی یہ چالبازی اگلی ہی آیت میں پکڑی گئی، اور یہ مجبور ہوئے کہ اگلی آیت میں بذات خود "سفاح" کے معنی اپنے پچھلے مؤقف کے برخلاف "بدکاری و زناکاری" کریں۔ دیکھئیے یہ اگلی آیت نمبر 25:
[النساء 4:25] ۔۔۔ فانكحوهن باذن اهلهن واتوهن اجورهن بالمعروف محصنات غير مسافحات ولا متخذات اخدان فاذا احصن ۔۔۔
[فتح محمد جالندھری 4:25] ۔۔۔ تو ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کرکے نکاح کر لو اور دستور کے مطابق ان کا مہر بھی ادا کردو بشرطیکہ عفیفہ ہوں نہ ایسی کہ کھلم کھلا بدکاری کریں اور نہ درپردہ دوستی کرنا چاہیں ۔۔۔
[اہلحدیث عالم جونا گڑھی 4:25] ۔۔۔ اس لئے ان کے مالکوں کی اجازت سے ان سے نکاح کر لو اور قاعدے کے مطابق ان کے مہر ان کو دو، وہ پاک دامن ہوں نہ کہ علانیہ بدکاری کرنے والیاں۔۔۔
تو اہل عقل اس تضاد کو دیکھ سکتے ہیں۔
سوال: یہ علماء کیوں مجبور ہوئے کہ اگلی ہی آیت میں سفاح کا ترجمہ “شہوت رانی” سے تبدیل کر کے “بدکاری و زناکاری” کریں؟
جواب: انکی حدیث و فقہ کی کتابیں بھری ہوئی ہیں اس بات سے کہ کنیزوں کے ساتھ شہوت جائز ہے۔ تو اب کیسے ممکن ہے کہ یہ یہاں کنیزوں سے اس شہوت کا یہ انکار کر کے اپنی حدیث و فقہ و فتاوی کی کتب کو جھٹلاتے؟ اس لیے انہیں مجبورا اگلی ہی آیت میں یہ قلابازی کھانا پڑی۔ (نوٹ: چند مترجمین جیسے احمد علی وغیرہ کی نظر شاید اپنی کتابوں میں موجود ان چیزوں پر نہ تھی اس لیے انہوں نے اس آیت 25 میں “سفاح” کا ترجمہ پھر “شہوت رانی” کر دیا ہے۔ ایسا کر کے یہ تو براہ راست پکڑے گئے، جبکہ جوناگڑھی و فتح محمد وغیرہ نے ترجمہ تبدیل کر کے “بدکاری” کر کے چھپنا چاہا، مگراسکا بھی فائدہ نہیں اور ہر دو صورتوں میں یہ سب کے سب لوگ رنگے پکڑے گئے۔)
حضرت عمر کے اپنے بیٹے کی گواہی کہ متعہ سفاح نہیں

عبداللہ ابن عمر کی بطور فقیہ صحابی آپ کے ہاں کیا قدر و قیمت ہے یہ بات آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔مسند احمد بن حنبل میں انہیں عبداللہ ابن عمر کے متعلق یہ روایت درج ہے:
حدثنا ‏ ‏عفان ‏ ‏حدثنا ‏ ‏عبيد الله بن إياد ‏ ‏قال حدثنا ‏ ‏إياد يعني ابن لقيط ‏ ‏عن ‏ ‏عبد الرحمن بن نعيم الأعرجي ‏ ‏قال ‏
سأل رجل ‏ ‏ابن عمر ‏ ‏وأنا عنده عن ‏ ‏المتعة ‏ ‏متعة ‏ ‏النساء ‏ ‏فغضب وقال والله ما كنا على ‏ ‏عهد ‏ ‏رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏زنائين ولا ‏ ‏مسافحين ‏ ‏ثم قال والله لقد سمعت رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏يقول ‏ ‏ليكونن قبل ‏ ‏المسيح الدجال ‏ ‏كذابون ثلاثون أو أكثر ‏
قال ‏ ‏أبي ‏ ‏و قال ‏ ‏أبو الوليد الطيالسي ‏ ‏قبل يوم القيامة ‏
ترجمہ: عفان نے عبید اللہ سے، انہوں نے ایاد سے، انہوں نے عبدالرحمن ابن نعیم سے روایت کی ہے: ایک شخص نے صحابی عبداللہ ابن عمر سے متعہ، متعہ النساء کے متعلق پوچھا۔ اس پر ابن عمر غصے ہو گئے اور قسم کہا کر کہنے لگے کہ ہم رسول اللہ (ص) کے زمانے میں زناکار و سفاح کار نہیں تھے۔ پھر آگے کہنے لگے کہ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے رسول (ص) کو فرماتے سنا ہے کہ دجال کے آنے سے قبل 30 کذاب آئیں گے۔
حوالہ: مسند احمد بن حنبل، جلد 2، حدیث 5546
دیکھا آپ نے کہ فقیہ صحابی عبداللہ ابن عمر تو گواہی دیں کہ متعہ زناکاری و سفاح کاری نہیں، مگر آپ ہیں کہ منکر حدیث سر سید احمد خان کی روش کی پیروی کرتے ہوئے پھر بھی متعہ کو زناکاری و سفاح کاری کہیں۔ یاد رکھئیے، ایسا نہ ہو کہ عبداللہ ابن عمر قیامت کے روز آپکا گریبان پکڑتے ہوں کہ ہم رسول اللہ ص کے زمانے میں زناکار و سفاح کار نہ تھے، مگر تم پھر بھی یہ الزام لگانے سے باز نہ آئے۔
رسول اللہ ص کی اپنی گواہی کہ متعہ زناکاری و سفاح کاری نہیں بلکہ نکاح کی ایک قسم اور پاکیزہ و طیبات میں سے ہے

اگر منکر حدیث سر سید احمد خان کہے کہ متعہ سفاح و حرام کاری ہے، مگر رسول اللہ ص خود گواہی دیں کہ متعہ سفاح نہیں بلکہ:
1۔ متعہ نکاح ہی کی ایک قسم ہے
2۔ اور دوسرا یہ کہ متعہ سفاح و زناکاری و بدکاری ہرگز نہیں بلکہ عقد متعہ پاکیزہ و طیبات میں سے ہے۔
تو اب بتلائیں کہ آپ اس منکر حدیث شخص کی بات قبول کریں گے یا پھر لسان نبوی ص پر یقین لائیں گے؟
صحیح بخاری [آنلائن لنک]
حدثنا ‏ ‏عمرو بن عون ‏ ‏حدثنا ‏ ‏خالد ‏ ‏عن ‏ ‏إسماعيل ‏ ‏عن ‏ ‏قيس ‏ ‏عن ‏ ‏عبد الله ‏ ‏رضي الله عنه ‏ ‏قال ‏
كنا نغزو مع النبي ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏وليس معنا نساء فقلنا ألا نختصي فنهانا عن ذلك فرخص لنا بعد ذلك أن نتزوج المرأة بالثوب ثم قرأ ‏
يا أيها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ما أحل الله لكم
ترجمہ:
عبداللہ ابن مسود فرماتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ص کے ساتھ غزوات میں مصروف تھے اور اُنکی بیویاں انکے ہمراہ نہیں تھیں۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہ ص سے پوچھا کہ آیا گناہ کے خوف سے نجات پانے کے لیے وہ خود کو خصی (اعضائے شہوانی کا کانٹا) کر لیں۔ اس پر رسول اللہ ص نے انہیں منع فرمایا اور انہیں رخصت دی کہ وہ عورتوں کے ساتھ کسی کپڑے کے عوض مقررہ مدت تک نکاح کریں اور پھر رسول اللہ ص نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
[القرآن 5:87] يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُحَرِّمُواْ طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللّهُ لَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں انہیں (اپنے اوپر) حرام مت ٹھہراؤ اور نہ (ہی) حد سے بڑھو، بیشک اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا
سر سید اور دیگر منکرین حدیث حضرات سے ہمیں لینا دینا نہیں، مگر اہلحدیث/اہلسنتب برادران کس منہ سے رسول اللہ ص کو حشر میں منہ دکھائیں گے جب وہ لسان نبوت کی گواہی کو جھٹلا کر یہاں پر منکر حدیث کی روش پر قائم رہیں گے؟ مولا علی علیہ السلام کے قول کے مطابق آپ پر حجت تمام ہو چکی ہے۔ اب آپ کے لیے خود کو گمراہ کرنے کے لیے کوئی راہ فرار نہیں بچی ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
منکرین حدیث کی لفظ "استمتاع" کی تاویل

1۔ عربی زبان میں ایک لفظ کے بیس بیس پچیس پچیس مختلف معانی ہو سکتے ہیں۔ منکرین حدیث کے لیے لیے بہت آسان ہے کہ وہ ان بیس پچیس معنوں میں سے اپنی مرضی سے قریب تر الفاظ چن کر اصل مطلب سے کہیں دور کی تاویل کر لیں۔
2۔ اور پھر صرف بیس پچیس معنوں تک بات محدود نہیں، بلکہ اسلامی شریعت کبھی عربی الفاظ کو ایک خاص اصطلاحی معنی پہناتی ہے، مگر منکرین حدیث حضرات کے لیے بہت آسان ہوتا ہے کہ اس اصلطلاحی معنوں کا انکار کر دیں۔
اسکی مثال دیکھئیے کہ قرآن میں لفظ "صلو" یا "ٔٔصلوۃ" استعمال ہوا ہے، جس کےاصطلاحی معنی نماز پڑھنے کے ہیں۔ مگر کہیں پر اس سے مراد رسول ص پر درود بھیجنے کے ہیں۔ مگر منکرین حدیث میں ایک گروہ نماز پڑھنے کے مخالفین کا بھی ہے، وہ اسکا بالکل ہی لفظی مطلب "دعا کرنا" لیتے ہیں اور اس بنیاد پر نماز پڑھنے کے سرے سے ہی منکر ہیں۔
چنانچہ آپ نے دیکھا کہ مولا علی علیہ السلام نے کتنی گہری بات کی نصیحت آج سے صدیوں قبل کی تھی کہ قرآن کا ظاہر کئی چہروں والا ہے اور خارجی حضرات کبھی بھی گمراہی سے نہ بچ سکیں گے جبتک وہ حدیث سے نصیحت پکڑنے کی بجائے فقط قرآنی آیت "لاحکم الا اللہ" کی اپنی من مانی تاویل پر اڑے رہیں گے۔
اور یہ حدیث رسول ہے جو کہ ہم کو بتاتی ہے کہ قرآن میں جن مقامات پر صلو یا صلوۃ آیا ہے تو وہ کن معنوں میں استعمال ہو رہا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ احادیث میں بھی اختلاف پایا جائے، مگر یہ اختلاف بہرحال اُس اختلاف سے حد درجے کم ہے جو کہ منکرین حدیث حضرات کی قرآنسٹ اپروچ میں پایا جاتا ہے اور انکے کچھ گروہ نماز کے سرے سے منکر ہیں کہ صلوۃ کا مطلب سے صرف دعا ہے۔ اور حدیث کے اختلاف کے متعلق یاد رکھئیے کہ اللہ چاہتا تو وہ قرآن کی طرح حدیث کو بھی تحریف سے پاک بنا دیتا۔ مگر اللہ نے اپنا نظام چلانے کے لیےیہ چیزیں بطور امتحان ایسی ہی رکھیں ہیں اور ہمارا امتحان یہی ہے کہ ان تمام چیزوں پر غور و فکر کریں اورعقل اور دلائل سے آخر کار ہم بالکل صحیح راہ پاہ لیں گے۔ انشاء اللہ۔
قرآنی آیت:
[النساء 4:24]۔۔۔۔ فمااستمتعتم به منهن فاتوهن اجورهن فريضة۔۔۔۔۔
ترجمہ: ۔۔۔۔تو جن عورتوں سے تم استمتاع کروان کی اجرت انہیں بطور فریضہ دو ۔۔۔۔
اس آیت میں استعمال ہونے والا لفظ "استمتعتم" دراصل عربی کے دو الفاظ "استمتع" اور "تم" سے مل کر بنا ہے۔
1۔" استمتع”: اس کے لغوی معنی فائدہ یا مزہ اٹھانا ہے۔ جبکہ رسول اللہ ص اور صحابہ اور سلف علماء نے عقد المتعہ کے لیے اس اصطلاح کا استعمال کیا ہے۔
2۔" تم”:اسکا مطلب اردو والا"تم (جمع مذکر کا صیغہ)" ہے۔
تو پورے لفظ "استمتعتم" کا ترجمہ بنا "تم (جمع)نے جن سے استمتاع کیا"
"استمتاع" کا یہ لفظ رسول اللہ ص، صحابہ اور سلف کے درمیان بطور شرعی اصطلاح استعمال ہوتا تھا جسکا مطلب "عقد متعہ" تھا۔ یہ بالکل ایسی ہی شرعی اصطلاح ہے جیسے اسی آیت کے شروع میں "محصنین" کی شرعی اصطلاح اللہ تعالی نے استعمال کی ہے۔ "حصن" کے لفظی مطلب "قلعے" یا "حصار" کے ہیں، مگر شرعی اصطلاح میں اس سے مراد پاکدامن عفیفہ شوہر دار عورتیں ہیں۔
منکرین حدیث حضرات نے حسب معمول استمتاع کااپنی مرضی کا لفظی ترجمہ کیا ہے کہ: "۔۔۔ تو جن عورتوں سے تم مزہ اٹھاؤ ۔۔۔۔" اور یہ اس بات کے منکر ہیں کہ شرعی اصطلاح میں اسکا مطلب عقد متعہ ہے۔
بحث کے اس مقام پر پھر منکر حدیث حضرات کو انکے حال پر چھوڑتے ہیں کہ مولا علی علیہ السلام نے پہلے ہی فرما دیا ہے کہ جبتک یہ اپنی انکار حدیث کی روش نہ بدلیں گے اُس وقت تک یہ اسی طرح گمراہ کن تاویلات کرتے رہیں گے۔ ہمیں ان سے بحث مطلوب نہیں، فقط اس قرآنی آیت کے حوالے سے یہ بیان کرنا مطلوب ہے کہ اگر ان منکرین حدیث حضرات کی روش کے مطابق یہاں لفظی معنی "مزہ اٹھانا/لطف اٹھانا/فائدہ اٹھانا" لیا جائے تو یہ سقم اور تضادات پیدا ہوتے ہیں:
1۔ اللہ تعالی نے یہاں لفظ "استمتاع" استعمال کیا ہے جو کہ متعہ سے مشتق ہے (دونوں کا اصل مادہ لفظ "متع" ہے جسکے لفظی معنی فائدہ اٹھانا ہے)
توان لوگوں سے سوال ہے کہ اللہ نے یہاں لفظ نکاح یا اس سے مشتق کوئی دوسرا لفظ کیوں نہیں استعمال کیا؟ تاقیامت یہ اس سوال کا جواب نہیں دے سکتےسوائے آئیں بائیں شائیں کرنے کے۔
2۔ اور پھر سمجھ نہیں آتی کہ آپ لوگوں کے نزدیک تو نکاح فقط "مزے اٹھا" کر شہوت رانی اور مستی جھاڑنے اور اسپر "اجرت" پانے کا نام بھی نہیں، تو پھر آپ یہاں "مزے اٹھانے" سے نکاح مراد کیوں لے رہے ہیں؟ [اسی آیت کے پچھلے حصے میں آپ نے خود مزے اٹھا کر شہوت رانی اور مستی جھاڑنے کو "سفاح" کا نام دیا ہے، مگر اسی چیز کو آیت کے اگلے حصے میں "نکاح" کا نام دے رہے ہیں]۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
3۔ اور پھر اگر یہاں لفظی معنی "مزے اٹھانا" ہی کرنا ہے تو پھر تو اس کا ٹکراؤ اُس قرآنی آیت کے ساتھ ہو جائے گا جس میں اللہ صاف صاف بیان کر رہا ہے کہ حق مہر "مزے اٹھانے" کے بعد واجب نہیں ہوتا، بلکہ نکاح ہوتے ہی کم از کم آدھا حق مہر ہر صورت میں ادا کرنا واجب ہو جاتا ہے۔
[البقرہ 236 تا 237] تم پر اس بات میں (بھی) کوئی گناہ نہیں کہ اگر تم نےعورتوں کو ان کے چھونے یا ان کے مہر مقرر کرنے سے بھی پہلے طلاق دے دی ہے تو انہیں مناسب خرچہ دے دو، وسعت والے پر اس کی حیثیت کے مطابق (لازم) ہے اور تنگ دست پر اس کی حیثیت کے مطابق، (بہر طور) یہ خرچہ مناسب طریق پر دیا جائے، یہ بھلائی کرنے والوں پر واجب ہے۔ اور اگر تم نے انہیں چھونے سے پہلے طلاق دے دی درآنحالیکہ تم ان کا مَہر مقرر کر چکے تھے تو اس مَہر کا جو تم نے مقرر کیا تھا نصف دینا ضروری ہے سوائے اس کے کہ وہ (اپنا حق) خود معاف کر دیں یا وہ (شوہر) جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے معاف کردے (یعنی بجائے نصف کے زیادہ یا پورا ادا کردے)۔۔۔
اور اللہ تعالی اسی سورۃ النساء کے آغاز میں آیت نمبر 3 اور 4 میں خاص طور "نکاح" کا نام لیکر ان ازواج کو خوشدلی سے مہر ادا کرنے کا حکم دے چکا ہے۔ لہذا یہاں مہر کو اب "مزے اٹھانے" سے مشروط کرنا عجیب ہی استدلال ہے۔
منکر حدیث روش کے مخالف اگر ہم یہاں پر "استمتاع" کے شرعی اصطلاح والے وہ معنی کریں جو رسول اللہ اور صحابہ کے درمیان مستعمل تھے، تو پھر ایسا کوئی تضاد و سقم پیدا نہیں ہوتا۔چنانچہ اصل ترجمہ یہ ہے: " ۔۔۔۔تو جن عورتوں سے تم استمتاع کرو (عقد متعہ کرو) ان کی اجرت انہیں بطور فریضہ دو ۔۔۔۔"
اہلحدیث/اہلسنت علماء کا پھر سے منکرین حدیث کی پیروی کرنا

منکرین حدیث قرآنسٹ حضرات کو اُنکے حال پر چھوڑتے ہیں۔ مگر حیف کہ آجکے اہلحدیث اور اہلسنت علماء اس معاملے میں حدیث کو بھول جاتے ہیں، صحابہ کو بھول جاتے ہیں اورفقط منکرین حدیث کی روش کی پیروی شروع کر دیتے ہیں۔
یہ برادران اگر اپنی منکرین حدیث پرستی سے باہر نکلیں تو انہیں "استمتاع" کی شرعی اصطلاح اپنی حدیث/تاریخ اور فقہ کتب میں بالکل صاف اور واضح نظر آ جائے کہ جب رسول ص یا صحابہ عقد متعہ کے لیے "استمتاع" کی اصطلاح استعمال کر رہے ہیں۔ مثلا ذیل کی روایات دیکھیں:
پہلی روایت:
صحیح مسلم (آنلائن لنک)
و حدثنا ‏ ‏الحسن الحلواني ‏ ‏حدثنا ‏ ‏عبد الرزاق ‏ ‏أخبرنا ‏ ‏ابن جريج ‏ ‏قال قال ‏ ‏عطاء ‏
قدم ‏ ‏جابر بن عبد الله ‏ ‏معتمرا فجئناه في منزله فسأله القوم عن أشياء ثم ذكروا ‏ ‏المتعة ‏ ‏فقال ‏ ‏نعم ‏ ‏استمتعنا ‏ ‏على عهد رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏وأبي بكر ‏ ‏وعمر ‏
ترجمہ: جابر بن عبداللہ انصاری فرماتے ہیں کہ ہم متعہ کیا کرتے تھے رسول اللہ ص کے زمانے میں، پھر ابو بکر کے زمانے میں اور پھر عمر کے زمانے میں ۔۔۔۔۔۔
دوسری روایت:
موطاء امام مالک (آنلائن لنک )
و حدثني ‏ ‏عن ‏ ‏مالك ‏ ‏عن ‏ ‏ابن شهاب ‏ ‏عن ‏ ‏عروة بن الزبير ‏
أن ‏ ‏خولة بنت حكيم ‏ ‏دخلت على ‏ ‏عمر بن الخطاب ‏ ‏فقالت إن ‏ ‏ربيعة بن أمية ‏ ‏استمتع بامرأة فحملت منه فخرج ‏ ‏عمر بن الخطاب ‏ ‏فزعا يجر رداءه ‏ ‏فقال ‏ ‏هذه ‏ ‏المتعة ‏ ‏ولو كنت تقدمت فيها لرجمت ‏
ترجمہ:۔۔۔ خولہ ابن حکیم عمر ابن خطاب کے پاس آئیں اور کہا: "ربیعہ ابن امیہ نے ایک عورت سے متعہ کیا ہے اور وہ اس سے حاملہ ہو گئ ہے۔۔۔"
صحیح مسلم (آنلائن لنک)
و حدثنا ‏ ‏محمد بن بشار ‏ ‏حدثنا ‏ ‏محمد بن جعفر ‏ ‏حدثنا ‏ ‏شعبة ‏ ‏عن ‏ ‏عمرو بن دينار ‏ ‏قال سمعت ‏ ‏الحسن بن محمد ‏ ‏يحدث عن ‏ ‏جابر بن عبد الله ‏ ‏وسلمة بن الأكوع ‏ ‏قالا ‏
خرج علينا منادي رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏فقال إن رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏قد ‏ ‏أذن لكم أن تستمتعوا ‏ ‏يعني ‏ ‏متعة النساء
ترجمہ: جابر بن عبداللہ انصاری فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس رسول اللہ ص کی طرف سے منادی کرنے والا آیا اور کہا کہ رسول اللہ ص نے تمہیں اجازت دی کہ تم لوگ فائدہ اٹھاؤ یعنی متعہ النساء۔
چوتھی روایت:
صحیح مسلم (آنلائن لنک )
حدثني الربيع بن سبرة الجهني، أن أباه، حدثه أنه، كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ يا أيها الناس إني قد كنت أذنت لكم في الاستمتاع من النساء ۔۔۔
ترجمہ: سبرہ الجہنی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ہیں کہ ہم رسول اللہ ص کے ساتھ تھے جب انہوں نے فرمایا: اے لوگو! میں نے تمہیں اجازت دی تھی کہ تم عورتوں سے متعہ کرو ۔۔۔۔
پانچویں روایت:
صحیح بخاری (آنلائن لنک)
حدثنا ‏ ‏علي ‏ ‏حدثنا ‏ ‏سفيان ‏ ‏قال ‏ ‏عمرو ‏ ‏عن ‏ ‏الحسن بن محمد ‏ ‏عن ‏ ‏جابر بن عبد الله ‏ ‏وسلمة بن الأكوع ‏ ‏قالا ‏
كنا في جيش فأتانا رسول رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏فقال ‏ ‏إنه قد أذن لكم أن تستمتعوا فاستمتعوا
ترجمہ:
جابر بن عبداللہ انصاری اور سلمۃ بن الاکوع کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ص کے ساتھ جیش میں تھے اور پھر رسول اللہ ص ہمارے تشریف لائے اور فرمایا کہ تمیں اجازت دی گئی کہ تم (عورتوں سے) تمتع کرو۔ چنانچہ اب کرو (عورتوں سے متعہ)
چھٹی روایت:
صحیح مسلم (آنلائن لنک )
حدثني ‏ ‏محمد بن رافع ‏ ‏حدثنا ‏ ‏عبد الرزاق ‏ ‏أخبرنا ‏ ‏ابن جريج ‏ ‏أخبرني ‏ ‏أبو الزبير ‏ ‏قال سمعت ‏ ‏جابر بن عبد الله ‏ ‏يقولا ‏
كنا ‏ ‏نستمتع ‏ ‏بالقبضة ‏ ‏من التمر والدقيق الأيام على عهد رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏وأبي بكر ‏ ‏حتى نهى عنه ‏ ‏عمر ‏ ‏في شأن ‏ ‏عمرو بن حريث ‏
ترجمہ: ابو الزبیر کا بیان ہے کہ میں نے جابر بن عبداللہ کو کہتے ہوئے سنا کہ ہم لوگ برابر ایک مٹھی جو یا آٹے کے عوض میں متعہ کرتے رہے ہیں۔جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں اور پھر حضرت ابوبکر کے زمانہ میں یہاں تک کہ عمر ابن خطاب نے عمر و ابن حریث والے واقعہ میں اس سے ممانعت کی۔
اہلحدیث/اہلسنت برادران سے گذارش ہے کہ وہ سر سید احمد خان جیسے منکر حدیث کی پیروی کرنے سے قبل ایک مرتبہ اپنی حدیث/تاریخ اور فقہ کی کتب کو کھنگالیں تو انکو بیسیوں جگہ "استمعتاع" کا لفظ شرع اصلطلاح میں عقد متعہ کے لیے استعمال ہوتا نظر آئے گا۔ تمام سلف علماء جنہوں نے ان روایات کی شرح لکھی ہے یا عقد متعہ پر بحث کی ہے، انکی تحریر میں آپ کو "استمتاع" کا لفظ شرعی اصطلاح میں عقد متعہ کے لیے استعمال ہوتا نظر آئے گا۔ تو پھر بتلائیے کہ آپ لسان نبوت کی گواہی کو کیوں نظر انداز کر رہے ہیں جب ثابت ہے کہ رسول ص نے خود "استمتاع" کا لفظ شرعی اصطلاح میں عقد متعہ کے لیے استعمال کیا؟ ان تمام صحابہ و تابعین و سلف علماء کی گواہیوں کو آپ کیوں پس پشت ڈال کر آج وہ آرگومینٹ پیش کر رہے ہیں جو منکرین حدیث کا خاصہ ہے؟
 

مہوش علی

لائبریرین
صحابہ و تابعین کی گواہیاں کہ یہ آیت متعہ کے جواز میں نازل ہوئی

اس مقام پر ہم پھر منکر حدیث حضرات کو انکے حال پر چھوڑتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اور اب مخاطب فقط اہلحدیث/اہلسنت برادران ہیں۔
صحابہ کرام میں سے کوئی ایک ایسا صحابی نہیں جس نے اس بات کا انکار کیا ہو کہ یہ آیت متعہ کے جواز میں نہیں۔ اسی وجہ سے آج کے دور کے برخلاف (جہاں انکار حدیث کا دور دورہ ہے)، جمہور سلف علماء اور مفسرین قرآن اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ یہ آیت عقد متعہ کے جواز میں نازل ہوئی۔
پہلی روایت:
امام عبدالرزاق اور ابن منذر نے حضرت عطاء کے واسطہ سے حضرت ابن عباس رضہ اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ اللہ تعالی حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے نکاح متعہ اللہ تعالی کی رحمت تھی جو اس نے امت محمد پر کی۔ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس سے منع نہ کرتے تو بدبخت ہی زنا کرتا۔ کہا یہ سورۃ النساء میں مذکور ہے "فما استمتعتم بہ منھن" اتنی مدت کے لئے اور یہ معاوضہ ہو گا جب کہ انکے درمیان وراثت نہ ہو گی۔ اگر مدت مقررہ کے بعد بھی راضی ہوں تو بھی ٹھیک ہے۔ اگر جدا ہونے پر راضی ہوں تو بھی ٹھیک ہے جب کہ ان دونوں کے درمیان کوئی نکاح نہیں ہو گا۔ انہوں نے یہ خبر بھی دی کہ انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے ہوئے سنا کہ وہ اب بھی اس کو حلال سمجھتے ہیں [مصنف عبدالرزاق، جلد 7، صفحہ 497، روایت 14021، گجرات ہند]
دوسری روایت:
حدثنا ‏ ‏مسدد ‏ ‏حدثنا ‏ ‏يحيى ‏ ‏عن ‏ ‏عمران أبي بكر ‏ ‏حدثنا ‏ ‏أبو رجاء ‏ ‏عن ‏ ‏عمران بن حصين ‏ ‏رضي الله عنهما ‏ ‏قال ‏
أنزلت ‏ ‏آية المتعة ‏ ‏في كتاب الله ففعلناها مع رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏ولم ينزل قرآن يحرمه ولم ينه عنها حتى مات قال ‏ ‏رجل ‏ ‏برأيه ما شاء ‏‏[صحیح بخاری لنک ]
ترجمہ: صحابی عمران بن حصین کہتے ہیں:"آیت متعہ قرآن میں نازل ہوئی اور ہم رسول اللہ ص کے عہد میں متعہ کرتے تھے اور قرآن میں اسکے بعد کچھ اور نازل نہیں ہوا جو اس کی ممانعت کرتا اور نہ ہی رسول اللہ ص نے اسکی ممانعت کی حتی کہ آپ ص کا انتقال ہو گیا۔ مگر اسکے بعد ایک شخص (عمر ابن الخطاب) نے اپنی مرضی سے جو چاہا وہ کہا۔ [حوالہ: تفسیر کبیر از امام ثعلبی، تفسیر کبیر از امام فخر الدین رازی، تفسیر ابن حیان، تفسیر نیشاپوری، یہ سب اس روایت کو سورۃ نساء کی اسی آیت متعہ کے تحت نقل کرتے ہیں]
امام بخاری نے آیا یہاں غلطی کی یا پھر جان بوجھ کر بددیانتی سے کام لیا اور اس روایت کو "متعہ الحج" کےباب کے ذیل میں نقل کر دیا۔ ایسی بددیانتی ایسے گروہ کے سامنے تو چل جاتی ہے جو آنکھیں بند کر کے شخصیت پرستش میں مبتلا ہو۔
مگر ہمارا مخاطب یہاں پر یہ صحابہ پرستی میں مبتلا گروہ ہے ہی نہیں، بلکہ وہ لوگ مخاطب ہیں جو اللہ کو گواہ بناتے ہوئے انصاف کرنے اٹھے ہیں اور کسی قسم کی شخصیت پرستی میں مبتلا نہیں، اور اپنی "عقل" کی تضحیک اور اسکو گالی نہیں دینا چاہتے اُن کے لیے بات بہت صاف ہے کہ تاریخ میں کبھی حج کے متعہ کی آیت کے منسوخ ہونے کی سرے سے کوئی بحث ہی نہیں چلی بلکہ پوری تاریخ گواہ ہے کہ یہ بحث متعہ النساء کی آیت پر چلی ہے اور لوگوں نے اسے ہر ہر طریقے سے منسوخ ثابت کرنا چاہا ہے اور اسی کی طرف صحابی عمران بن حصین کا اشارہ ہے۔
اور اسی لیے بذات خود اہلسنت کے یہ کبیر علماء امام ثعلبی، امام فخر الدین کبیر رازی، ابن حیان، امام نیشاپوری، تفسیر حقانی وغیرہ امام بخاری سے زمانے کے لحاظ سے بعد میں آنے کے باوجود امام بخاری کی اس غلطی/بددیانتی کو ماننے کے لیے تیار نہیں اور خود عقد متعہ کے خلاف ہونے کے باوجود گواہی دے رہے ہیں کہ یہ روایت عقد متعہ کے جواز میں ہے۔ اسی طرح ابن حزم اور دیگر بہت سے علماء نے عقد متعہ پر لمبی بحث کی اور اُن صحابہ کے نام نقل کیے جو متعہ النساء کے جواز کے قائل تھے اور انہوں نے عمران بن حصین کا نام اس لسٹ میں شامل کیا۔
امام قرطبی اپنی تفسیر میں نقل کرتے ہیں:
وقال أبو بكر الطرطوسي‏:‏ ولم يرخص في نكاح المتعة إلا عمران بن حصين وابن عباس وبعض الصحابة وطائفة من أهل البيت‏.‏[آنلائن لنک]
یعنی:۔۔۔او ابوبکر الطرطوسی سے منقول ہے کہ عمران بن حصین اور ابن عباس عقد متعہ کی اجازت دیتے تھے اور اسی طرح اہلبیت علیہم السلام اور انکے اصحاب بھی۔
تیسری روایت:
حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن الْمُثَنَّى , قَالَ : ثنا مُحَمَّد بْن جَعْفَر , قَالَ : ثنا شُعْبَة , عَنْ الْحَكَم , قَالَ : سَأَلْته عَنْ هَذِهِ الْآيَة : { وَالْمُحْصَنَات مِنْ النِّسَاء إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانكُمْ } إِلَى هَذَا الْمَوْضِع : { فَمَا اِسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ } أَمَنْسُوخَة هِيَ ؟ قَالَ : لَا . قَالَ الْحَكَم : قَالَ عَلِيّ رَضِيَ اللَّه عَنْهُ : لَوْلَا أَنَّ عُمَر رَضِيَ اللَّه عَنْهُ نَهَى عَنْ الْمُتْعَة مَا زَنَى إِلَّا شَقِيّ [تفسیر الطبری آنلائن لنک ]
عبد الرزاق اور ابو داؤد سے کتاب ناسخ میں درج ہے اور ابن جریر نے الحکم سے روایت کی ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ آیت متعہ منسوخ ہو چکی ہے، جس پر آپ نے کہا کہ نہیں (یہ منسوخ نہیں ہوئی) اور پھر کہا کہ علی ابن ابنی طالب نے فرمایا ہے اگر عمرعقد متعہ کی ممانعت نہ کر دیتے تو کوئی شقی القلب ہی ہوتا جو زنا کرتا۔
یہ صحیح روایت ہے: مُحَمَّد بْن الْمُثَنَّى (امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ ثقہ ہیں)، مُحَمَّد بْن جَعْفَر الهذلى (امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ بہترین راوی ہیں) شعبة بن الحجاج بن الورد العتكى الأزدى (امام ذہبی کہتے ہیں یہ حدیث میں امیر المومنین ہیں)،الحكم بن عتيبة الكندىہ (امام ذہبی کہتے ہیں یہ ثقہ اور صاحب سنت ہیں)
چوتھی روایت:
حَدَّثَنِي مُحَمَّد بْن عَمْرو , قَالَ : ثنا أَبُو عَاصِم , عَنْ عِيسَى , عَنْ اِبْن أَبِي نَجِيح , عَنْ مُجَاهِد : { فَمَا اِسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ } قَالَ : يَعْنِي نِكَاح الْمُتْعَة. [تفسیر الطبری آنلائن لنک ]
امام عبد بن حمید اور ابن جریر نے حضرت مجاہد سے "فما استمتعتم" کی یہ تفسیر نقل کی ہے یعنی نکاح متعہ
پانچویں روایت:
حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن الْحُسَيْن , قَالَ : ثنا أَحْمَد بْن مُفَضَّل , قَالَ : ثنا أَسْبَاط , عَنْ السُّدِّيّ : " فَمَا اِسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ إِلَى أَجَل مُسَمًّى فَآتُوهُنَّ أُجُورهنَّ فَرِيضَة وَلَا جُنَاح عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُمْ بِهِ مِنْ بَعْد الْفَرِيضَة " . فَهَذِهِ الْمُتْعَة الرَّجُل يَنْكِح الْمَرْأَة بِشَرْطٍ إِلَى أَجَل مُسَمًّى , وَيُشْهِد شَاهِدَيْنِ , وَيَنْكِح بِإِذْنِ وَلِيّهَا , وَإِذَا اِنْقَضَتْ الْمُدَّة فَلَيْسَ لَهُ عَلَيْهَا سَبِيل وَهِيَ مِنْهُ بَرِيَّة , وَعَلَيْهَا أَنْ تَسْتَبْرِئ مَا فِي رَحِمهَا , وَلَيْسَ بَيْنهمَا مِيرَاث , لَيْسَ يَرِث وَاحِد مِنْهُمَا صَاحِبه .[تفسیر الطبری آنلائن لنک ]
یعنی:۔۔۔ سدی سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا فما استمتعبتم بہ منھن الہ اجل مسمی فاتو ھن اجودھن الخ (آیت کی تلاوت میں الی اجل مسمی کا فقرہ درمیان میں اضافہ کر دیا) اور کہا کہ اس سے مراد متعہ ہے جس کی صورت یہ ہے کہ مرد عورت سے نکاح کرے صورت یہ ہے کہ مرد عورت سے نکاح کرے اور اس میں دو آدمیوں کو گواہ کرے اور ولی کی اجازت سے ہو اور جب مدت گذر جائے تو پھر اس کو عورت پر کوئی اختیار نہ رہے اور وہ عورت اس سے آزاد ہوجائے اور اس عورت پر اتنا عدہ رکھنا ضروری ہو کہ حمل کا انکشاف ہوسکے۔ اور ان میں آپس میں میراث ثابت نہ ہو۔ یعنی کوئی ایک دوسرے کا وارث نہ ہو۔
“الی اجل مسمی” کی قرآت والی روایات

نوٹ:
"الی اجل مسمی" کے معنی ہیں "ایک مقررہ مدت تک"۔ چنانچہ ابن عباس، ابن ابی کعب، عبداللہ ابن مسعود، سعید بن جبیراور دیگر بہت سے اصحاب کی قرآت تھی"۔۔۔ اور جن عورتوں سے تم تمتع کرو ایک مقررہ مدت تک، تو انہیں انکی اجرت بطور فریضہ ادا کرو۔۔۔"۔ چنانچہ یہ قرآت بالکل واضح کرتی ہے کہ یہ آیت عقد المتعہ کے جواز میں نازل ہوئی تھی۔
چھٹی روایت:
7182 - حَدَّثَنَا حُمَيْد بْن مَسْعَدَة , قَالَ : ثنا بِشْر بْن الْمُفَضَّل , قَالَ : ثنا دَاوُد , عَنْ أَبِي نَضْرَة , قَالَ : سَأَلْت اِبْن عَبَّاس عَنْ مُتْعَة النِّسَاء , قَالَ : أَمَا تَقْرَأ سُورَة النِّسَاء ؟ قَالَ : قُلْت بَلَى . قَالَ : فَمَا تَقْرَأ فِيهَا : " فَمَا اِسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ إِلَى أَجَل مُسَمًّى " ؟ قُلْت : لَا , لَوْ قَرَأْتهَا هَكَذَا مَا سَأَلْتُك ! قَالَ : فَإِنَّهَا كَذَا. [تفسیر الطبری آنلائن لنک ]
امام عبد بن حمید، ابن جریر اور ابن الانباری نے مصاحف میں اور حضرت حاکم رحمہ اللہ نے مختلف طرق سے نضرہ سے روایت کی ہے کہ میں نے ابن عباس سے متعہ النساء کے متعلق دریافت کیا انہوں نے کہا کیا تم سورۃ نساء کی تلاوت نہیں کرتے ہو؟ کہ فما استمتعتم بہ منھن الی اجل مسمی میں نے کہا نہیں تو۔ اگر اسی طرح پڑھتا ہوتا تو آپ سے دریافت کیوں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ اچھا تو معلوم ہونا چاہیے کہا آیت یہ یونہی ہے۔
عبدالاعلی کی روایت میں بھی ابونضرہ سے اسی طرح کا واقعہ منقول ہے۔ تیسری روایت میں بھی ابو نضرہ سے نقل ہے کہ میں نے ابن عباس کے سامنے یہ آیت پڑھی۔ فما استمتعتم بہ منھن ابن عباس نے کہا۔ الی اجل مسمی۔ میں نے کہا میں تو اس طرح نہیں پڑھتا ہوں انہوں نے تین مرتبہ کہا خدا کی قسم خدا نے اس کو اسی طرح نازل کیا ہے۔
امام حاکم اور امام ذہبی کی گواہی کہ یہ روایت صحیح ہے

اس روایت کو امام حاکم نے اپنی مستدرک کی جلد دوم صفحہ 334 پر نقل کیا تھا اور اسے بخاری و مسلم کی شرائط پر صحیح قرار دیا تھا۔ جبکہ امام الذہبی نے مستدرک کے حاشیے پر اسے امام مسلم کی شرائط پر صحیح روایت قرار دیا ہے۔ اس روایت کا آنلائن عکس دیکھئیے
ساتویں روایت:
7181 - حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْب , قَالَ : ثنا يَحْيَى بْن عِيسَى , قَالَ : ثنا نُصَيْر بْن أَبِي الْأَشْعَث , قَالَ : ثني حَبِيب بْن أَبِي ثَابِت , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ : أَعْطَانِي اِبْن عَبَّاس مُصْحَفًا , فَقَالَ : هَذَا عَلَى قِرَاءَة أُبَيّ . قَالَ أَبُو كُرَيْب , قَالَ يَحْيَى : فَرَأَيْت الْمُصْحَف عِنْد نُصَيْر فِيهِ : " فَمَا اِسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ إِلَى أَجَل مُسَمًّى " [تفسیر الطبری آنلائن لنک ]
یعنی:۔۔۔ابو ثابت کا بیان ہے کہ ابن عباس ؓ نے مجھ کو ایک مصحف دیا اور کہاکہ یہ ابی ابن کعب کی قرآت کے مطابق ہے یحیی بن عیسی جو اس روایت کے ناقل ہیں نصیر بن ابی الاشعت سے ان کا بیان ہے کہ میں نے اس مصحف کو نصیر کے پاس دیکھا اس میں لکھا تھا کہ فما استمتعم بہ منھن الی اجل مسمی۔
آٹھویں روایت:
حَدَّثَنَا اِبْن الْمُثَنَّى , قَالَ : ثنا أَبُو دَاوُد , قَالَ : ثنا شُعْبَة , عَنْ أَبِي إِسْحَاق , عَنْ عُمَيْر : أَنَّ اِبْن عَبَّاس قَرَأَ : " فَمَا اِسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ إِلَى أَجَل مُسَمًّى " .[تفسیر الطبری آنلائن لنک ]
یعنی:۔۔۔ابو اسحاق کی روایت ہے کہ ابن عباس نے پڑھا۔ فما استمتعتم بہ منھن الی اجل مسمی
نویں روایت:
حَدَّثَنَا اِبْن بَشَّار , قَالَ : ثنا عَبْد الْأَعْلَى , قَالَ : ثنا سَعِيد , عَنْ قَتَادَة , قَالَ : فِي قِرَاءَة أُبَيّ بْن كَعْب : " فَمَا اِسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ إِلَى أَجَل مُسَمًّى [تفسیر الطبری آنلائن لنک ]
یعنی۔۔۔ قتادہ کہتے ہیں کہ صحابی ابی ابن کعب کی قرآت فما استمتعتم بہ منھن الی اجل مسمی کی تھی۔
دسویں روایت:
حَدَّثَنِي الْمُثَنَّى , قَالَ : ثنا أَبُو نُعَيْم , قَالَ : ثنا عِيسَى بْن عُمَر الْقَارِئ الْأَسَدِيّ , عَنْ عَمْرو بْن مُرَّة أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيد بْن جُبَيْر يَقْرَأ : " فَمَا اِسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ إِلَى أَجَل مُسَمًّى فَآتُوهُنَّ أُجُورهنَّ "[تفسیر الطبری آنلائن لنک ]
یعنی۔۔۔عمرہ کہتے ہیں انہوں نے سعید بن جبیر کو قرآت کرتے سنا کہ: فما استمتعتم بہ منھن الی اجل مسمی
گیارھویں روایت:
امام ابن ابی داؤد نے مصاحف میں صحابی حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت ابی بن کعب کی قرات میں الی اجل مسمی کے الفاظ ہیں [حوالہ: تفسیر در منثور، حافظ جلال الدین سیوطی]
بارہویں روایت:
عبداللہ ابن مسعود بھی اس آیت کی قرآت کے ساتھ الی اجل مسمی کا اضافہ کرتے تھے۔
حوالے:
1۔ امام نووی کی شرح صحیح مسلم، جلد 9، صفحہ 179
2۔ عمدۃ القاری، شرح صحیح بخاری از امام بدر الدین عینی، جلد 18، صفحہ 208
3۔ تفسیر روح المعانی، جلد 5، صفحہ 5 [آنلائن لنک]
اور شیخ الاسلام علامہ شوکانی نے بھی "نیل الاوطار" جلد ۶ ص ۴۴ میں ابن حزم کی یہ عبارت نقل کی ہے۔
اما قراۃ ابن عباس و ابن مسعود و ابی بن کعب و سعید بن خیبر فما استمتعتم بہ منھن الی اجل مسمی فلیست بقرآن عند مشترطی
یعنی۔۔۔ ان کے بیان سے معلوم ہوا کہ ابن مسعود بھی آیت متعہ کو الی اجل مسمی کے اضافہ کے ساتھ پرھتے تھے۔
حبر الامہ، ترجمان القرآن ابن عباس کا رتبہ

کچھ لوگ ابن عباس کی کمسنی کا عذر پکڑ کر بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں جو لاحاصل ہے۔ ابن عباس فقیہ اور بلند ترین پائے کی مفسر قرآن تھے۔ ابن کثیر نے انکی یہ روایات اپنی تفسیر میں جگہ جگہ درج کی ہیں، اور اپنی کتاب البدایہ والنہایہ جلد 8، صفحہ299 پر لکھتے ہیں:
"ابن عباس اس معاملے میں سب سے زیادہ علم رکھنے والے شخص تھے کہ اللہ تعالی نے اپنے رسول محمد صلعم پر کیا نازل فرمایا ہے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ قران کا مفسر ابن عباس ہے۔ اور وہ ابن عباس کو کہا کرتے تھے: "تم نے وہ علم حاصل کیا ہے جو ہم حاصل نہ کر پائے، تم خدا کی کتاب کے متعلق سب سے زیادہ ماہر ہو۔"
امام بخاری اور مسلم نے اپنی صحیین میں ابن عباس سے 1660 روایات نقل کی ہیں۔ [وکیپیڈیا پر ابن عباس پر مفصل مضمون]
ان اضافی الفاظ کی قرآت کے متعلق شاہ ولی اللہ کا نظریہ

اور ازالۃ الخفا [صفحہ 77، باب 7] میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ان اضافی الفاظ کے متعلق لکھتے ہیں:
ان اضافی الفاظ کی قرآت کے متعلق اختلاف ہے۔ قاضی ابو طیب اور بہت سے دیگر علماء اس قرآت کو جائز جانتے ہیں اور امام ابو حنیفہ کا نظریہ بھی یہی ہے۔
جبکہ دیگر کچھ علماء کہتے ہیں کہ یہ الفاظ "حدیث قدسی" تھے یعنی بطور قرآن کی تفسیر بذات خود اللہ کی طرف سے براہ راست نازل ہوئے تھے۔
بہرحال وجہ جو بھی ہو، اس پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ ص سے قرآن کی قرآت سیکھنے والے ان صحابہ نے یہ الفاظ ہرگز ہرگز اپنی طرف سے اضافہ نہیں کیے ہیں، ان سے غلطی تو تسلیم کی جا سکتی ہے مگر جھوٹ نہیں اور اسی وجہ سے یہ زائد الفاظ حجت ہیں کہ یہ اللہ یا اُسکے رسول ص کی طرف سے نص ہیں۔ اسی وجہ سے تمام مستند اور مسلم الثبوت اہلسنت علماء و مفسرین نے ان روایات کو صحابہ سے نقل کر کے ان پر اعتماد کیا ہے۔
اب اہلحدیث/اہلسنت برادران بتلائیں کہ:
1۔ آپ عبداللہ ابن عباس کو خود حبر الامہ اور ترجمان القرآن امام المفسرین کہتے ہیں۔ تو بتلائیے کہ پھر انکی گواہی کو نظر انداز کر کے منکر حدیث سر سید احمد خان کی روش کی آج پیروی کیوں کر رہے ہیں؟
2۔عبداللہ ابن مسعود اور ابی ابن کعب کے متعلق آپ ہی کا دعوی ہے کہ اللہ کے رسول ص نے انکے متعلق فرمایا تھا: "قرآن ان چار اصحاب سے سیکھو۔ عبداللہ ابن مسعود، سلیم، معاذ اور ابی ابن کعب (صحیح بخاری)۔ مگر جب عبداللہ ابن مسعود اور ابی بن کعب گواہی دیں تو آپ اسے پھر نظرانداز کر جائیں۔
3۔ اور عمران بن حصین کے متعلق امام ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں کہ یہ اپنے علم و فضل کے اُس درجے پر تھے کہ انہیں کوفہ میں منصب قضاء دیا گیا۔ مگر انکی گواہی کو بھی آپ نے منکر حدیث سر سید احمد خان کی روش پر ترجیح نہ دی۔
اسی طرح صحابی سعد بن جبیر اپنے وقت کے بہترین حافظ و مفسر تھے، اور تابعی سدی فن تفسیر کے امام تھے، مگر آپ کسی کی گواہی ماننے کے لیے تیار نہیں اور آج آپکا پورا زور منکر حدیث کی طرح فقط قرآنی آیت کی اپنی من مانی تاویل پر ہے۔
نوٹ:
پورے اسلام میں صرف دو نام ملتے ہیں جن سے یہ منسوب ہے کہ اس آیت سے مراد "نکاح" ہے۔
1۔ عَنْ الْحَسَن , فِي قَوْله : { فَمَا اِسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ } قَالَ : هُوَ النِّكَاح [یعنی پہلے یہ حسن ہیں جو کہہ رہے ہیں اس سے مراد "نکاح" ہے]
2۔ عَنْ مُجَاهِد : { فَمَا اِسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ } النِّكَاح . [اور دوسرے مجاہد ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ یہ نکاح ہے]
لگتا ہے کہ یہاں روایوں سے ان حضرات کا مؤقف پہنچانے میں غلطی ہوئی ہے۔ رسول اللہ ص کے قول کے مطابق عقد متعہ بھی نکاح ہی ہے۔ اور یہی بات شاید ان دونوں نے کہی مگر راویان کو غلطی ہوئی۔ اسی وجہ سے ان میں سے مجاہد سے پھر ایک روایت مروی جہاں وہ صاف اس سے مراد "نکاح متعہ" لے رہے ہیں
3۔ حَدَّثَنِي مُحَمَّد بْن عَمْرو , قَالَ : ثنا أَبُو عَاصِم , عَنْ عِيسَى , عَنْ اِبْن أَبِي نَجِيح , عَنْ مُجَاهِد : { فَمَا اِسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ } قَالَ : يَعْنِي نِكَاح الْمُتْعَة.
اب بتلائیے کہ اب ایک طرف صرف تابعی حسن موجود ہیں، اور دوسری طرف بلند مرتبہ اور خود صحابہ کے اپنے اندر ْقرآن پر اتھارٹی سمجھے جانے والے امام المفسرین صحابہ ابن عباس، اور عبداللہ ابن مسعود، ابن ابی کعب اور سعید بن جبیر، عمران بن حصین، اور پھر تابعین میں سے فن تفسیر کے ائمہ سدی، مجاہد، الحکم وغیرہ تو پھر کیا جواز باقی رہ گیا کہ ان سب کو پس پشت ڈال دیا جائے؟ [یاد رہے، یہ ہم اہل تشیع کے حدیث لٹریچر کی بات نہیں کر رہے، بلکہ برادران اہلسنت و اہلحدیث کے اپنے حدیث لٹریچر اور انکے اپنے سٹینڈرڈز کی بات کر رہے ہیں۔]
مخالفین متعہ سے ثبوت پیش کرنے کا مطالبہ

ہم نے تو اوپر ثبوتوں کا دفتر پیش کر دیا، مگر مخالفین متعہ خود تو اپنے مؤقف پر ایک بھی ثبوت پیش کرنے سے قاصر ہیں اور انکی روش فقط یہ ہے کہ ہمارے پیش کردہ ثبوتوں کو کسی نہ کسی بہانے چھپاتے اور نظرانداز کرتے جائیں۔
لے دے کر یہ بے چارے تابعی حسن کا اکلوتا قول پیش کرتے ہیں کہ یہاں اس آیت سے مراد “نکاح” ہے۔ مگر انکی بدقسمتی کہ اس تابعی حسن کا قول بھی یہ اپنے مؤقف کے ثبوت کے طور پر پیش نہیں کر سکتے کیونکہ تابعی حسن نے کہیں یہ نہیں کہا کہ اس آیت میں اللہ عقد المتعہ کو حرام قرار دے رہا ہے کیونکہ اس میں “شہوت رانی” کا لفظ آیا ہے۔ چنانچہ یہ بالکل الگ چیز ہے اور ان لوگوں کی بدقسمتی کہ یہ تابعی حسن کا یہ اکلوتا قول بھی انکے مؤقف کی کسی صورت تائید نہیں کر رہا۔
اللہ تعالی سب سے بہترین تدبیر کرنے والا ہے اور اس نے پہلے سے ہی جھوٹ کا راستہ روک رکھا ہے۔ شکر الحمدللہ۔
 

باسم

محفلین
علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں:
"متعہ اللہ کی طرف سے اس کے بندوں پر رحمت ہے۔ اور اگر ایک شخص اپنی رائے سے اس سے منع نہ کر دیتے تو کوئی شخص بھی زنا نہ کرتا سوائے ایسے شخص کے جو بہت ہی شقی القلب ہوتا۔"
امام ابن حجر العسقلانی، فتح الباری، جلد 9، صفحہ 141
نقل میں غلطی معلوم ہورہی ہے کتاب اور باب کا حوالہ دیجیے
 

میر انیس

لائبریرین
ماشاللہ مہوش بہن ماشاللہ بہت ہی اچھی اور جامع دلیل کے ساتھ آپ نے گفتگو کی ہے وہ بھی ایسے وقت میں جب ایک بہت ہی بڑے حادثے کہ بعد ابھی ذہن کسی قابل ہی نہیں ہے اللہ آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے۔
 

باسم

محفلین
ادھوری اور مطلب کی عبارات پیش کرنے سے غلط فہمی دور ہوسکتی ہے تو ضرورکوشش کیجیے
آپ جہاں جہاں سے عبارات پیش کرتی ہیں وہاں وہاں حرمت نکاح متعہ کی صراحت موجود ہے
شاید آپ یہ چاہتی ہیں کہ وہی باتیں یہاں دوبارہ دہرائی جائیں
 

مہوش علی

لائبریرین
علی ابن ابی طالب فرماتے ہیں:
"متعہ اللہ کی طرف سے اس کے بندوں پر رحمت ہے۔ اور اگر ایک شخص اپنی رائے سے اس سے منع نہ کر دیتے تو کوئی شخص بھی زنا نہ کرتا سوائے ایسے شخص کے جو بہت ہی شقی القلب ہوتا۔"
امام ابن حجر العسقلانی، فتح الباری، جلد 9، صفحہ 141
نقل میں غلطی معلوم ہورہی ہے کتاب اور باب کا حوالہ دیجیے

السلام علیکم
یقینا برادران اہلسنت کے نزدیک امام ابن حجر العسقلانی کا فن حدیث میں Top کا مقام رکھا جاتا ہے۔ مگر وہ بعد میں آنے والے عالم ہیں اور انہوں نے وہی کچھ نقل کیا ہے جو ان سے پہلے پیش کیا جا چکا ہے۔ اور یہ روایت اُن سے قبل کے علماء میں عام تھی اور مستقل طور پر پیش ہوتی رہی ہے۔ مثلا ابن جریر الطبری کی تفسیر القرآن:
تیسری روایت:
حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن الْمُثَنَّى , قَالَ : ثنا مُحَمَّد بْن جَعْفَر , قَالَ : ثنا شُعْبَة , عَنْ الْحَكَم , قَالَ : سَأَلْته عَنْ هَذِهِ الْآيَة : { وَالْمُحْصَنَات مِنْ النِّسَاء إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانكُمْ } إِلَى هَذَا الْمَوْضِع : { فَمَا اِسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ } أَمَنْسُوخَة هِيَ ؟ قَالَ : لَا . قَالَ الْحَكَم : قَالَ عَلِيّ رَضِيَ اللَّه عَنْهُ : لَوْلَا أَنَّ عُمَر رَضِيَ اللَّه عَنْهُ نَهَى عَنْ الْمُتْعَة مَا زَنَى إِلَّا شَقِيّ [تفسیر الطبری آنلائن لنک ]
عبد الرزاق اور ابو داؤد سے کتاب ناسخ میں درج ہے اور ابن جریر نے الحکم سے روایت کی ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ آیت متعہ منسوخ ہو چکی ہے، جس پر آپ نے کہا کہ نہیں (یہ منسوخ نہیں ہوئی) اور پھر کہا کہ علی ابن ابنی طالب نے فرمایا ہے اگر عمرعقد متعہ کی ممانعت نہ کر دیتے تو کوئی شقی القلب ہی ہوتا جو زنا کرتا۔
یہ صحیح روایت ہے: مُحَمَّد بْن الْمُثَنَّى (امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ ثقہ ہیں)، مُحَمَّد بْن جَعْفَر الهذلى (امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ بہترین راوی ہیں) شعبة بن الحجاج بن الورد العتكى الأزدى (امام ذہبی کہتے ہیں یہ حدیث میں امیر المومنین ہیں)،الحكم بن عتيبة الكندىہ (امام ذہبی کہتے ہیں یہ ثقہ اور صاحب سنت ہیں)

ادھوری اور مطلب کی عبارات پیش کرنے سے غلط فہمی دور ہوسکتی ہے تو ضرورکوشش کیجیے
آپ جہاں جہاں سے عبارات پیش کرتی ہیں وہاں وہاں حرمت نکاح متعہ کی صراحت موجود ہے
شاید آپ یہ چاہتی ہیں کہ وہی باتیں یہاں دوبارہ دہرائی جائیں

باسم برادر،
یہ تمام کتب فریق مخالف کی ہیں اور اُن پر بطور حجت ان کے حوالے یہاں پیش کیے جا رہے ہیں۔ اب یہ اُنکی ذمہ داری ہے کہ ان حوالوں کا جواب دیں۔
اور جو آپ کہہ رہے ہیں کہ ان علماء نے حرمت کا ذکر بھی کیا ہے،۔۔۔۔ تو اوپر آپ دیکھ سکتے ہیں کہ مستقل طور پر میں فریق مخالف کے ان دلائل کا بھی ذکر کر رہی ہوں کہ جھوٹ باندھے گئے، جھوٹی روایات بنائی گئیں مگر اللہ کا شکر ہے کہ انسان اپنی چالیں چلتا ہے مگر اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ تو کہیں سورۃ المومنون پر جھوٹ باندھا گیا، تو کبھی سورۃ المعارج پر اور تو کبھی سورۃ النساء پر، تو کبھی ایک جھوٹی روایت گھڑی گئی تو کبھی دوسری، اور جہاں کوئی بات نہ بن سکی وہاں رسول ص کی گواہی کو جھٹلا کر منکر حدیث روش کی پیروی شروع ہو گئی۔

کسی کو دعوی ہے کہ اُسکے پاس جوابی دلائل ہیں، تو اسکا جواب پیش کر سکتے ہیں۔ اوپر ہماری طرف سے بہت مواد پیش کیا گیا، مگر ہر دفعہ نئے نئے اعتراضات تو آ جاتے ہیں مگر ابھی تک کسی نے اس پرانے مواد کا (جو آج تک پیش کیا جا چکا ہے) ایک بھی جواب پیش نہیں کیا ہے۔ آپ ذرا غور کیجئے۔

مثلا سورۃ النساء کی قرآنی آیت پر تفصیلی دلائل پیش کیے جا چکے ہیں۔ اب فریق مخالف کے علماء نے متعہ کو حرام ثابت کرنے کے لیے اس قرآنی آیت کے ساتھ جو حشر اپنی کتابوں میں کیا ہوا ہے، وہ بھی تفصیل سے پیش ہو چکا ہے۔ چنانچہ خالی یہ کہہ دینا کہ ان علماء کی کتابوں میں حرمت کا بھی ذکر ہے، یہ کافی نہیں۔ بلکہ آپکو دلیل پیش کرنا ہے۔ تو کیجئے اب دلیل پیش کہ سورۃ النساء کی یہ آیت عقد متعہ کو حرام بناتی ہے۔

ابھی ہماری طرف سے دلائل ختم نہیں ہوئے، بلکہ آدھے ہوئے ہیں۔ انشاء اللہ ایک مرتبہ پورے دلائل پیش ہو گئے تو مجھے اللہ کی ذات سے امید ہے کہ ہمارے بھائیوں کو پوری بات سمجھنے میں بہت آسانی ہو گی اور وہ حق کو باطل سے بنا الجھے جدا کر سکیں گے۔ انشاء اللہ۔
 

دوست

محفلین
محترمہ مجھے صرف اتنی دلیل ہی کافی ہے کہ اس فعل کا جب مجھے پہلی بار پتا چلا تو انتہائی کریہہ محسوس ہوا۔ جب میں نے یہ محسوس کیا کہ میں اپنی ماں بہن کے لیے یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ انھیں چار دن کے نکاح پر کسی کے حوالے کردوں‌ تو مجھے یہ بھی احساس ہوگیا کہ میں خود بھی کسی کی ماں بہن کے ساتھ ایسا کبھی نہیں کرسکوں گا۔ اللہ کا شکر ہے جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا میں نام لیوا ہوں انھوں نے یہ فعل کبھی نہیں کیا۔ مجھے اللہ سائیں سے پوری امید ہے کہ تاریخ کی جن کتابوں کے حوالے یہاں تھوک کے حساب سے دستیاب ہیں وہ بھی ایسا کوئی بھی ثبوت دینے میں ناکام رہیں گی۔ اور مجھے یہ بھی امید ہے کہ آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم جن پر یہ سب کرنے کا اور اس کا حکم دینے کا اور اس کی فضیلت بیان کرنے کا اور اسے ایمان سے جوڑنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے وہ بھی سب جھوٹ ہے۔ اور ان اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی جو الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انھوں نے یہ فعل کیا یا اس کا حکم دیا، میں اسے بھی الزام سمجھتا ہوں۔ جانے وہ کون لوگ تھے جو آخری ایام رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مسلمان ہوئے اور مسلمان ہوئے بھی کہ منافق ہی رہے۔ بدر، احد، اور خندق میں تو کسی کو یہ فعل کرنا یاد نہ آیا۔ اس وقت سب اہل ایمان تھے نا، پھر جب ملاوٹ ہوگئی تو ایسے افعال بھی آگئے۔ خیر بحث کرنے کا تو میرا موڈ ہی نہیں۔ میں اسے حرام سمجھتا ہوں، سمجھتا تھا اور ساری عمر سمجھتا رہوں گا۔ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک الزام سمجھتا تھا، سمجھتا ہوں اور سمجھتا رہوں گا۔ میرا اللہ گواہ ہے میں اس فعل سے کراہت کا اظہار کرتا ہوں بے شک وہ وقت دور نہیں جب اللہ کریم آپ کے اور ہمارے مابین فیصلہ کردے گا اور حق سب واضح ہوجائے گا۔
وما علینا الالبلاغ
 

باسم

محفلین
آپ نے لکھا تھا ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کی ہےاسی کو دوبارہ دیکھنے اور حوالہ لکھنے کی درخواست کرتا ہوں
جہاں تک سورۃ النساء کی آیت کا تعلق ہے تو جمہور کا قول مکمل ذکر کرنے سے بات واضح ہوجاتی
1۔ تفسیر قرطبی [وقال الجمهور : المراد نكاح المتعة الذي كان في صدر الإسلام . وقرأ ابن عباس وأبي وابن جبير " فما استمتعتم به منهن إلى أجل مسمى فآتوهن أجورهن " ثم نهى عنها النبي صلى الله عليه وسلم .]
2۔ فتح القدیر [وقال الجمهور: إن المراد بهذه الآية: نكاح المتعة الذي كان في صدر الإسلام، ويؤيد ذلك قراءة أبيّ بن كعب، وابن عباس، وسعيد بن جبير: " فَمَا ٱسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فآتوهن أجورهن } ثم نهى عنها النبي صلى الله عليه وسلم، كما صحّ ذلك من حديث عليّ قال: نهى النبي صلى الله عليه وسلم، عن نكاح المتعة، وعن لحوم الحمر الأهلية يوم خيبر، وهو في الصحيحين وغيرهما، وفي صحيح مسلم من حديث سبرة بن معبد الجهني، عن النبي صلى الله عليه وسلم: أنه قال يوم فتح مكة " يا أيها الناس إني كنت أذنت لكم في الاستمتاع من النساء، والله قد حرّم ذلك إلى يوم القيامة، فمن كان عنده منهنّ شيء، فليخلّ سبيلها، ولا تأخذوا مما آتيتموهنّ شيئاً " وفي لفظ لمسلم أن ذلك كان في حجة الوداع، فهذا هو الناسخ.
 

مہوش علی

لائبریرین
آپ نے لکھا تھا ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کی ہےاسی کو دوبارہ دیکھنے اور حوالہ لکھنے کی درخواست کرتا ہوں
جہاں تک سورۃ النساء کی آیت کا تعلق ہے تو جمہور کا قول مکمل ذکر کرنے سے بات واضح ہوجاتی
1۔ تفسیر قرطبی [وقال الجمهور : المراد نكاح المتعة الذي كان في صدر الإسلام . وقرأ ابن عباس وأبي وابن جبير " فما استمتعتم به منهن إلى أجل مسمى فآتوهن أجورهن " ثم نهى عنها النبي صلى الله عليه وسلم .]
2۔ فتح القدیر [وقال الجمهور: إن المراد بهذه الآية: نكاح المتعة الذي كان في صدر الإسلام، ويؤيد ذلك قراءة أبيّ بن كعب، وابن عباس، وسعيد بن جبير: " فَمَا ٱسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فآتوهن أجورهن } ثم نهى عنها النبي صلى الله عليه وسلم، كما صحّ ذلك من حديث عليّ قال: نهى النبي صلى الله عليه وسلم، عن نكاح المتعة، وعن لحوم الحمر الأهلية يوم خيبر، وهو في الصحيحين وغيرهما، وفي صحيح مسلم من حديث سبرة بن معبد الجهني، عن النبي صلى الله عليه وسلم: أنه قال يوم فتح مكة " يا أيها الناس إني كنت أذنت لكم في الاستمتاع من النساء، والله قد حرّم ذلك إلى يوم القيامة، فمن كان عنده منهنّ شيء، فليخلّ سبيلها، ولا تأخذوا مما آتيتموهنّ شيئاً " وفي لفظ لمسلم أن ذلك كان في حجة الوداع، فهذا هو الناسخ.

اچھا اب میں آپکی بات سمجھی ہوں کہ آپ براہ راست فتح الباری کے حوالے کی بات کر رہے ہیں۔ میں اسے ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہوں اور ملنے پر آپ سے یہاں شیئر کر لوں گی۔

باقی آپ جو بات کر رہے ہیں تو آپ نے گفتگو کو سمجھا ہی نہیں۔

۔ گفتگو ہو رہی تھی صرف اس بات پر کہ یہ آیت (سورۃ النساء کی آیت 24) نازل ہوئی ہے عقد المتعہ کے جواز میں۔
۔ اور گواہی دی ہے صحابہ (کبار صحابہ) تو تابعین (بلند پایہ تابعین) اور جمہور علمائے سلف نے کہ یہ آیت عقد المتعہ کے جواز میں نازل ہوئی ہے۔
اور یہ سب کچھ اسکے برعکس ہے جو آج کے اہلسنت یا اہلحدیث علماء اپنی لاکھوں کی تعداد میں چھپنے والی تفاسیر میں کر رہے ہیں جہاں وہ اپنے تمام تر سٹینڈرڈز کو چھوڑ کر مکمل طور پر اُسی منکر حدیث روش کی پیروی کر رہے ہیں کہ جس پر وہ خود ہر وقت نفرین ولعنت بھیجتے رہتے ہیں۔

باقی بلاشبہ یہ سلف علماء بذات خود اہلسنت سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور اس اعتراف کے باوجود کہ یہ آیت عقد المتعہ کے جواز میں نازل ہوئی ہےِ انکا مؤقف وہی ہے کہ عقد المتعہ کو حرام ٹہرایا جائے۔ اور ایسا کرنے کے لیے وہ اس قرآنی آیت (یا پھر کسی بھی قرآنی آیت) کا سہارا نہیں لے رہے، بلکہ چاہتے ہیں کہ انکی کتابوں میں جو دو روایتیں پائی جاتی ہیں، انکی مدد سے یہ قرآن کی آیت کو منسوخ کر دیں۔

ان دو روایتوں پر بحث تو بعد میں آئے گی، فی الحال تو آپ سے یہ سوالات ہیں:

1۔ کیا آپ اس بات کے قائل ہیں کہ کوئی روایت اس قابل ہے کہ وہ قرآن کی آیت کو منسوخ کر دے؟

2۔ اور پھر دوسرا اعتراض آجکے اہلسنت و اہلحدیث علماء پر جنہوں نے اپنی تفاسیر کے لاکھوں صفحات کالے کر دیے منکر حدیث روش پر چلتے ہوئے، کہ وہ اپنے دلائل پیش کریں کہ سورۃ النساء کی یہ آیت عقد المتعہ کو حرام قرار دے رہی ہے۔ جس طرح اس آیت مبارکہ کے ساتھ منکر حدیث روش پر چلتے ہوئے کھلواڑ کیا گیا ہے، اس گمراہی کا تدارک کیسے ہو گا؟

******************

دوست:
اگر آپ کو دلائل نہیں پیش کرنے ہیں تو کیا میں آپ سے درخواست کر سکتی ہوں کہ آپ اس بحث سے علیحدہ ہو جائیں؟

عقد المتعہ صرف خاص حالات کے تحت ہے اور پہلی پریفرنس ہر صورت نکاح دائمی ہے۔ پچھلے زمانوں میں جو جنگیں ہوتی تھیں، اور جو حالات تھے، وہ آجکل موجود نہیں ہے اس لیے ہمیں نہ کنیزوں کے مسائل کا آج صحیح طور پر علم ہو سکتا ہے اور نہ عقد المتعہ کا۔

البتہ ہمارے ایک جاننے والے (جو عمر میں ابو کے برابر ہیں)، انکی بیگم ایرانی ہیں۔ وہ بتلاتے ہیں کہ جب ایران عراق جنگ ہوئی اور لاکھوں افراد شہید ہوئے تو پیچھے لاکھوں بیوہ عورتیں اپنے بچوں کے ساتھ تنہا کھڑی تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب پاسداران انقلاب کا ایک مجاہد خود اپنی بیوہ بہن کا رشتہ لے کر انکے پاس آیا تھا۔ یہ وہ خواتین ہیں جن کے کئی بچے ہیں اور وہ نکاح کر کے اپنے آبائی شہر یا ملک کو چھوڑنا نہیں چاہتی ہیں، بلکہ یہ خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر اپنے بچوں کو پالنا پوسنا چاہتی ہیں (نکاح دائمی کے بعد بچوں کا پھر بھی مسئلہ رہتا ہے کہ وہ کہاں جائیں گے۔ بلکہ جس خاتون کے تین چار بچے ہوں تو اُس سے تو ایسے ہی کوئی نکاح نہیں کرتا)۔ پھر ان خواتین کو پتا نہیں کہ اگر وہ مکمل طور پر اپنے نکاح والے شوہر کی دست نگر ہو گئیں تو یہ شخص انکے بچوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔

پاکستانی معاشرے کا میرا اتنا مطالعہ نہیں اور نہ ہی ایسی خواتین سے ملنے کا اتفاق ہوا جنکے دو چار بچے ہوں اور وہ بیوہ ہوں۔ کیا واقعی پاکستانی معاشرے میں ایسی خواتین کو نکاح کے لیے مرد مل جاتے ہیں؟ یا پھر یہ خواتین خود اپنے پاؤں پر کھڑی ہو کر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتی ہیں؟ اگر خدانخواستہ جنگ ہو جائے اور معاشرے میں لاکھوں کی تعداد میں بیوہ عورتیں ہوں تو کیا پاکستانی معاشرہ ایسے لاکھوں مردوں کو تلاش کر لے گا جو ان بچوں والی بیوہ عورتوں سے نکاح کریں؟

بہرحال اہل تشیع فقہ کے نزدیک عقد المتعہ بنیادی طور پر ایسی بیوہ عورتوں کے لیے سمجھا جاتا ہے جن سے معاشرے میں انکے بچوں وغیرہ کی وجہ سے کوئی نکاح کر کے انکی اور انکے بچوں کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا، یا پھر یہ بیوی خواتین خود معاشرے میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہتی ہیں تاکہ یہ اور انکے بچے کسی معاشرے یا کسی دوسرے شوہر کے دست نگر نہ بن کر رہ جائیں۔۔ متعہ کرتے وقت شرائط یہ ہوتی ہیں کہ دن میں وہ کہیں کام پر جائیں گی اور مرد انہیں نہیں روکے گا۔ اسی طرح اگر حالات سازگار ہوں اور مرد اور عورت میں انڈرسٹینڈنگ ہو جائے اور انہیں لگے کہ وہ ان بچوں اور حالات کے ساتھ اکھٹا رہ سکتے ہیں تو وہ اسی عقد المتعہ کو نکاح دائمی میں تبدیل کر لیتے ہیں، اور ایسا بہت سے کیسز میں ہوا ہے۔ مجھے نہیں علم کہ اہلسنت فقہ میں عورت کے پاس یہ آزادی ہے کہ نہیں کہ وہ معاشرے میں اکیلے کھڑی ہو سکے اور اگر ہاں تو اسکے پاس کیا چانسز ہیں کہ وہ کامیاب ہو سکے۔

میں نے اپنے جن جاننے والے صاحب کا ذکر اوپر کیا ہے (ان سے ہماری دور کی رشتے داری بھی نکلتی ہے)، انکی بیگم وہی ایرانی خاتون ہیں کہ جن کے عقد المتعہ کا رشتہ انکا بھائی ، جو پاسداران انقلاب کا مجاہد تھا، وہ لے کر انکے پاس آیا تھا۔ اللہ کے فضل و کرم سے اسی عرصے کے دوران دونوں کو ایک دوسرے میں بھلائی نظر آئی اور انہوں نے اس رشتے کو نکاح دائمی میں تبدیل کر لیا اور وہ ایرانی خاتون اپنا آبائی شہر و ملک چھوڑ کر اپنے بچوں سمیت اپنے شوہر کے ساتھ نائجیریا چلی گئیں (وہ اُس وقت نائجیریا کی ایک یونیورسٹی میں پروفیسر تھے)۔

اسی طرح یہاں میں تیرہ چودہ ایسی یورپین خواتین کو جانتی ہوں جن کے شوہر حضرات لبنانی اور ایرانی ہیں۔ انہوں نے بھی پہلے پہل عقد المتعہ کیا تھا اور بعد میں یہ نکاح دائمی میں تبدیل کر لیا گیا۔ اسی کے ساتھ میں تین ایسے پاکستانی (اہلسنت) بھائیوں کو اچھی طرح جانتی ہوں جن کی بیویاں یورپین ہیں، مگر انہوں نے ان سے نکاح تو بہت بعد میں کیے، اور اس سے قبل بہت سالوں تک یہ یوں ہی ساتھ رہے۔ اللہ نے انہیں کچھ بھلائی دکھائی کہ کچھ عرصے بعد انہوں نے وہ گناہ کی زندگی ترک کر کے ان سے نکاح کر لیا۔ اور بہت سے ایسے ہیں جنہیں میں اچھی طرح نہیں جانتی، مگر وہ ابھی تک یورپین خواتین کے ساتھ بغیر کسی اسلامی بندھن کے ساتھ رہ رہے ہیں اور حتی کہ کچھ تو ان سے بچے تک کر بیٹھے ہیں۔ یہاں ایک پاکستانی باجی ہیں جو کہ سالہا سال سے عدالت میں مترجم کے فرائض انجام دیتی ہیں۔ وہ آپ جو یہاں آنے والے پاکستانی مردوں کے بہت سے قصے سنائیں گی کہ جس کے بعد آپ فقط استغفراللہ کہتے ہوئے اللہ سے پناہ طلب کرنے لگیں گے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top