آپ نے لکھا تھا ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کی ہےاسی کو دوبارہ دیکھنے اور حوالہ لکھنے کی درخواست کرتا ہوں
جہاں تک سورۃ النساء کی آیت کا تعلق ہے تو جمہور کا قول مکمل ذکر کرنے سے بات واضح ہوجاتی
1۔ تفسیر قرطبی [وقال الجمهور : المراد نكاح المتعة الذي كان في صدر الإسلام . وقرأ ابن عباس وأبي وابن جبير " فما استمتعتم به منهن إلى أجل مسمى فآتوهن أجورهن " ثم نهى عنها النبي صلى الله عليه وسلم .]
2۔ فتح القدیر [وقال الجمهور: إن المراد بهذه الآية: نكاح المتعة الذي كان في صدر الإسلام، ويؤيد ذلك قراءة أبيّ بن كعب، وابن عباس، وسعيد بن جبير: " فَمَا ٱسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فآتوهن أجورهن } ثم نهى عنها النبي صلى الله عليه وسلم، كما صحّ ذلك من حديث عليّ قال: نهى النبي صلى الله عليه وسلم، عن نكاح المتعة، وعن لحوم الحمر الأهلية يوم خيبر، وهو في الصحيحين وغيرهما، وفي صحيح مسلم من حديث سبرة بن معبد الجهني، عن النبي صلى الله عليه وسلم: أنه قال يوم فتح مكة " يا أيها الناس إني كنت أذنت لكم في الاستمتاع من النساء، والله قد حرّم ذلك إلى يوم القيامة، فمن كان عنده منهنّ شيء، فليخلّ سبيلها، ولا تأخذوا مما آتيتموهنّ شيئاً " وفي لفظ لمسلم أن ذلك كان في حجة الوداع، فهذا هو الناسخ.
اچھا اب میں آپکی بات سمجھی ہوں کہ آپ براہ راست فتح الباری کے حوالے کی بات کر رہے ہیں۔ میں اسے ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہوں اور ملنے پر آپ سے یہاں شیئر کر لوں گی۔
باقی آپ جو بات کر رہے ہیں تو آپ نے گفتگو کو سمجھا ہی نہیں۔
۔ گفتگو ہو رہی تھی صرف اس بات پر کہ یہ آیت (سورۃ النساء کی آیت 24) نازل ہوئی ہے عقد المتعہ کے جواز میں۔
۔ اور گواہی دی ہے صحابہ (کبار صحابہ) تو تابعین (بلند پایہ تابعین) اور جمہور علمائے سلف نے کہ یہ آیت عقد المتعہ کے جواز میں نازل ہوئی ہے۔
اور یہ سب کچھ اسکے برعکس ہے جو آج کے اہلسنت یا اہلحدیث علماء اپنی لاکھوں کی تعداد میں چھپنے والی تفاسیر میں کر رہے ہیں جہاں وہ اپنے تمام تر سٹینڈرڈز کو چھوڑ کر مکمل طور پر اُسی منکر حدیث روش کی پیروی کر رہے ہیں کہ جس پر وہ خود ہر وقت نفرین ولعنت بھیجتے رہتے ہیں۔
باقی بلاشبہ یہ سلف علماء بذات خود اہلسنت سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور اس اعتراف کے باوجود کہ یہ آیت عقد المتعہ کے جواز میں نازل ہوئی ہےِ انکا مؤقف وہی ہے کہ عقد المتعہ کو حرام ٹہرایا جائے۔ اور ایسا کرنے کے لیے وہ اس قرآنی آیت (یا پھر کسی بھی قرآنی آیت) کا سہارا نہیں لے رہے، بلکہ چاہتے ہیں کہ انکی کتابوں میں جو دو روایتیں پائی جاتی ہیں، انکی مدد سے یہ قرآن کی آیت کو منسوخ کر دیں۔
ان دو روایتوں پر بحث تو بعد میں آئے گی، فی الحال تو آپ سے یہ سوالات ہیں:
1۔ کیا آپ اس بات کے قائل ہیں کہ کوئی روایت اس قابل ہے کہ وہ قرآن کی آیت کو منسوخ کر دے؟
2۔ اور پھر دوسرا اعتراض آجکے اہلسنت و اہلحدیث علماء پر جنہوں نے اپنی تفاسیر کے لاکھوں صفحات کالے کر دیے منکر حدیث روش پر چلتے ہوئے، کہ وہ اپنے دلائل پیش کریں کہ سورۃ النساء کی یہ آیت عقد المتعہ کو حرام قرار دے رہی ہے۔ جس طرح اس آیت مبارکہ کے ساتھ منکر حدیث روش پر چلتے ہوئے کھلواڑ کیا گیا ہے، اس گمراہی کا تدارک کیسے ہو گا؟
******************
دوست:
اگر آپ کو دلائل نہیں پیش کرنے ہیں تو کیا میں آپ سے درخواست کر سکتی ہوں کہ آپ اس بحث سے علیحدہ ہو جائیں؟
عقد المتعہ صرف خاص حالات کے تحت ہے اور پہلی پریفرنس ہر صورت نکاح دائمی ہے۔ پچھلے زمانوں میں جو جنگیں ہوتی تھیں، اور جو حالات تھے، وہ آجکل موجود نہیں ہے اس لیے ہمیں نہ کنیزوں کے مسائل کا آج صحیح طور پر علم ہو سکتا ہے اور نہ عقد المتعہ کا۔
البتہ ہمارے ایک جاننے والے (جو عمر میں ابو کے برابر ہیں)، انکی بیگم ایرانی ہیں۔ وہ بتلاتے ہیں کہ جب ایران عراق جنگ ہوئی اور لاکھوں افراد شہید ہوئے تو پیچھے لاکھوں بیوہ عورتیں اپنے بچوں کے ساتھ تنہا کھڑی تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب پاسداران انقلاب کا ایک مجاہد خود اپنی بیوہ بہن کا رشتہ لے کر انکے پاس آیا تھا۔ یہ وہ خواتین ہیں جن کے کئی بچے ہیں اور وہ نکاح کر کے اپنے آبائی شہر یا ملک کو چھوڑنا نہیں چاہتی ہیں، بلکہ یہ خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر اپنے بچوں کو پالنا پوسنا چاہتی ہیں (نکاح دائمی کے بعد بچوں کا پھر بھی مسئلہ رہتا ہے کہ وہ کہاں جائیں گے۔ بلکہ جس خاتون کے تین چار بچے ہوں تو اُس سے تو ایسے ہی کوئی نکاح نہیں کرتا)۔ پھر ان خواتین کو پتا نہیں کہ اگر وہ مکمل طور پر اپنے نکاح والے شوہر کی دست نگر ہو گئیں تو یہ شخص انکے بچوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔
پاکستانی معاشرے کا میرا اتنا مطالعہ نہیں اور نہ ہی ایسی خواتین سے ملنے کا اتفاق ہوا جنکے دو چار بچے ہوں اور وہ بیوہ ہوں۔ کیا واقعی پاکستانی معاشرے میں ایسی خواتین کو نکاح کے لیے مرد مل جاتے ہیں؟ یا پھر یہ خواتین خود اپنے پاؤں پر کھڑی ہو کر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالتی ہیں؟ اگر خدانخواستہ جنگ ہو جائے اور معاشرے میں لاکھوں کی تعداد میں بیوہ عورتیں ہوں تو کیا پاکستانی معاشرہ ایسے لاکھوں مردوں کو تلاش کر لے گا جو ان بچوں والی بیوہ عورتوں سے نکاح کریں؟
بہرحال اہل تشیع فقہ کے نزدیک عقد المتعہ بنیادی طور پر ایسی بیوہ عورتوں کے لیے سمجھا جاتا ہے جن سے معاشرے میں انکے بچوں وغیرہ کی وجہ سے کوئی نکاح کر کے انکی اور انکے بچوں کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا، یا پھر یہ بیوی خواتین خود معاشرے میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہتی ہیں تاکہ یہ اور انکے بچے کسی معاشرے یا کسی دوسرے شوہر کے دست نگر نہ بن کر رہ جائیں۔۔ متعہ کرتے وقت شرائط یہ ہوتی ہیں کہ دن میں وہ کہیں کام پر جائیں گی اور مرد انہیں نہیں روکے گا۔ اسی طرح اگر حالات سازگار ہوں اور مرد اور عورت میں انڈرسٹینڈنگ ہو جائے اور انہیں لگے کہ وہ ان بچوں اور حالات کے ساتھ اکھٹا رہ سکتے ہیں تو وہ اسی عقد المتعہ کو نکاح دائمی میں تبدیل کر لیتے ہیں، اور ایسا بہت سے کیسز میں ہوا ہے۔ مجھے نہیں علم کہ اہلسنت فقہ میں عورت کے پاس یہ آزادی ہے کہ نہیں کہ وہ معاشرے میں اکیلے کھڑی ہو سکے اور اگر ہاں تو اسکے پاس کیا چانسز ہیں کہ وہ کامیاب ہو سکے۔
میں نے اپنے جن جاننے والے صاحب کا ذکر اوپر کیا ہے (ان سے ہماری دور کی رشتے داری بھی نکلتی ہے)، انکی بیگم وہی ایرانی خاتون ہیں کہ جن کے عقد المتعہ کا رشتہ انکا بھائی ، جو پاسداران انقلاب کا مجاہد تھا، وہ لے کر انکے پاس آیا تھا۔ اللہ کے فضل و کرم سے اسی عرصے کے دوران دونوں کو ایک دوسرے میں بھلائی نظر آئی اور انہوں نے اس رشتے کو نکاح دائمی میں تبدیل کر لیا اور وہ ایرانی خاتون اپنا آبائی شہر و ملک چھوڑ کر اپنے بچوں سمیت اپنے شوہر کے ساتھ نائجیریا چلی گئیں (وہ اُس وقت نائجیریا کی ایک یونیورسٹی میں پروفیسر تھے)۔
اسی طرح یہاں میں تیرہ چودہ ایسی یورپین خواتین کو جانتی ہوں جن کے شوہر حضرات لبنانی اور ایرانی ہیں۔ انہوں نے بھی پہلے پہل عقد المتعہ کیا تھا اور بعد میں یہ نکاح دائمی میں تبدیل کر لیا گیا۔ اسی کے ساتھ میں تین ایسے پاکستانی (اہلسنت) بھائیوں کو اچھی طرح جانتی ہوں جن کی بیویاں یورپین ہیں، مگر انہوں نے ان سے نکاح تو بہت بعد میں کیے، اور اس سے قبل بہت سالوں تک یہ یوں ہی ساتھ رہے۔ اللہ نے انہیں کچھ بھلائی دکھائی کہ کچھ عرصے بعد انہوں نے وہ گناہ کی زندگی ترک کر کے ان سے نکاح کر لیا۔ اور بہت سے ایسے ہیں جنہیں میں اچھی طرح نہیں جانتی، مگر وہ ابھی تک یورپین خواتین کے ساتھ بغیر کسی اسلامی بندھن کے ساتھ رہ رہے ہیں اور حتی کہ کچھ تو ان سے بچے تک کر بیٹھے ہیں۔ یہاں ایک پاکستانی باجی ہیں جو کہ سالہا سال سے عدالت میں مترجم کے فرائض انجام دیتی ہیں۔ وہ آپ جو یہاں آنے والے پاکستانی مردوں کے بہت سے قصے سنائیں گی کہ جس کے بعد آپ فقط استغفراللہ کہتے ہوئے اللہ سے پناہ طلب کرنے لگیں گے۔