نکاح المتعہ کا تعارف (حصہ دوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
ش

شوکت کریم

مہمان
خرد کو جنوں کر دیا جنوں کو خرد جو چاہے آپکا حسن کرشمہ ساز کرے

ب آپ سے مطالبہ ہے کہ عقلی گھوڑے دوڑانے کی بجائے ہمیں نص سے ثابت کر کے دکھائیں کہ رسول اللہ ص کے دور میں کیے جانے والے نکاح المتعہ میں زن ممتوعہ اُن 4 نکاح دائمی والی بیویوں میں شامل ہوتی تھی۔

خدایا یہ کس نے اور کب کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں زن متعہ چار میں شامل تھی ؟؟؟ وہ پہلے بھی چار میں شامل نہیں تھی اور نہ ہے۔

اور چھوڑئیے، ہمارے پاکستانی بزرگ جو آج بہت شریف بنے ہوئے ہیں اور مسجدیں کھول کر بیٹھ گئے ہیں، ان میں سے اکثر وہ لوگ ہیں جنکی جوانیاں یہاں زناکاریوں میں گذری ہیں۔ اب بتلائیے آپکے ان بلند دعوؤں کی حقیقت کے سامنے کیا حیثیت ہے کہ جب آپ ایک بھی ایسی مثال پیش نہیں کر سکتے بلکہ ہر مثال آپکے عقلی دعوؤں کی نفی کر رہی ہے۔

یہ نصوص کی خلاف ورزی نہیں ہے اللہ تعالٰی نے سورۃ الزمر آیت 53 میں ارشاد فرما رہے ہیں کہ

اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو کہدو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہونا۔ اللہ تو سب گناہوں کو بخش دیتا ہے بیشک وہی تو ہے بڑا بخشنے والا بڑا مہربان

یہ اللہ اور بندوں کا معاملہ ہے کیا پتہ وہ توبہ کر کے اللہ کے کتنے نزدیک ہوں ؟؟؟

میں نے شوکت کریم صاحب کے اس اعتراض کے جواب میں کنیزوں سے پیدا ہونے والے بچوں کے نسب کے متعلق کافی تفصیل سے لکھا تھا، مگر حسب معمول مجھے آپ سے شکایت ہے کہ آپ اُسے نظر انداز کر گئے اور آپکے تمام تر اعتراضات فقط عقد المتعہ کے لیے ہیں۔

اس موضوع پر پہلے بھی کہا جا چکا ہے کہ کنیز ، زوج ، اور زن متعہ میں فرق ہے اور ان کو گڈ مڈ کرنے سے صحیح نتائح برآمد نہیں ہو سکتے۔

اور کنیز کو قبول کرنا اور اس سے نکاح کرنا یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے۔

اور پھر جب کنیزیں ہی نہ رہیں تو پھر ان کے ذکر کا کیا مقصد ؟؟؟ آپ متعہ کو اس دور میں رواج دینا چاہتی ہیں تو اس کے مطابق دلائل دیجئے۔

اور جہاں تک نصوص‌ کی بات اس پر بہت ساری پوسٹیں موجود ہیں اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان سے متعہ کے سلسلے میں کوئی دلیل نہیں لی جا سکتی۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
ان دجالی کذابوں کی ایک مثال لازمی مجھے یہاں دینا ہے۔

عرصہ دراز سے۔۔۔۔۔ (یہ عرصہ دراز صدیوں کے طویل عرصے پر محیط ہے) انہوں نے ایک جھوٹ ہمارے خلاف باندھا ہوا ہے۔ خدا کے لیے ہمارے اور ان دجالی کذابوں کے مابین انصاف کر دیجئے۔
ذیل کی روایت ملاحظہ کریں جس کا پروپیگنڈہ صدیوں سے ہمارے خلاف کیا جا رہا ہے:

"جس عورت نے ایک مرتبہ متعہ کیا وہ فضیلت میں اس متعہ کے عوض امام حسین تک پہنچ جائے گی اور دو بار متعہ کرنے سے اسکا مرتبہ امام حسن تک اور تین بار کرنے سے امام علی کے مرتبے تک اور چار مرتبہ کرنے سے رسول اللہ کے مرتبے تک پہنچ جائے گی۔"

صدیوں سے شیعہ علماء ان سے پوچھ رہے ہیں کہ یہ روایت ہماری کونسی کتاب کی ہے؟
تو جواب میں کبھی جھوٹ بولتے ہیں کہ یہ اصول کافی کی روایت ہے، اور جب جھوٹ پکڑا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ کتاب "منہاجین الصادقین" میں موجود ہے۔

اللھم صل علی محمد و آ ل محمد و ا صحا ب محمد


چلیں یہ بات درست ہے کہ یہ فتح اللہ کاشانی، متوفی 988 ہجری، کی کتاب "منہاج الصادقین" کے صفحہ 356 پر موجود ہے۔ مگر اس کی ذرا حقیقت تو دیکھئے۔ اس کتاب کا پورا نام ہے "منہاج الصادقین فی الالزام المخالفین فی التفسیر" یعنی اس کتاب میں وہ مخالفین کے اعتراضات کا جواب دے رہے ہیں۔ چنانچہ ایک اعتراض اسی عقد المتعہ والی روایت پر تھا، چنانچہ اس روایت کو نقل کر کے وہ بھی مخالفین سے پوچھتے ہیں کہ انہوں نے کہاں سے یہ روایت نقل کی ہے کیونکہ شیعہ کتب میں تو یہ کہیں موجود ہی نہیں اور شیعہ علماء کے نزدیک تو بالکل مجہول (نامعلوم) ہے۔ انکے الفاظ ہیں: "ان برما مجھول است" یعنی ہمارے لیے تو یہ روایت بالکل نامعلوم ہے۔ چنانچہ آپ ان دجالی کذابوں کی عیاری دیکھئے کہ جن افواہوں کا رد کرنے کے لیے یہ روایت کتاب میں نقل کی گئی، اُسی کو انہوں نے شیخ کاشانی پر جھوٹ باندھ کر منسوب کرنا شروع کر دیا۔
اور اب اس عیاری و افتراء کو کئی سو سال گذر چکے ہیں اور ختم ہونے کی بجائے یہ چیز بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ اب بتلائیے کہ یہودی پروپیگنڈہ ان کذابوں کے سامنے کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ بلکہ یہ چیز یکطرفہ نہیں "دو طرفہ" ہے اور دونوں سائیڈوں پر ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جو غلط باتیں ایک دوسرے سے منسوب کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ سب لوگ، چاہے انکا تعلق کسی گروہ سے ہو، ان سب کے اس طرز عمل کی مذمت کرنی چاہیے اور یہی چیز انصاف کے قریب ہے۔

منہاج الصادقین میں چلیں ایک حوالہ ہے مگر یہ کیا ہے میری سسرالی بہں (اسلیے کے میرے سسرالی رشتہ دار کٹر شیعہ ہیں


2zgzyup.jpg


2cestwy.jpg


2s0ls79.jpg


21l66ow.jpg


2q35ens.jpg


اور آپ نے میرے کاؤنٹر سوال کا جواب ابھی تک نہیں دیا اور معروضات میں الجھا دیا، مولا علی نے شاید بقول آپ کی کتب کے اعتراض کیا مگر سوال تو یہ ہے نا کے جب حسین بن علی ، اسلام کے حلال کو حرام کرنے کی رسم کے خاتمے کے لیے ننھے علی
ا صغر کو تیروں کے آگے رکھ سکتے ہیں تو مولا علی نے اسلام کو بد لنے کی رسم کو روکنے کے لیے تلوار کیو ں نا ا ٹھا یٔ؟؟


متعہ کیا ہے؟ کیوں ہونا چا ہیے؟ قرآن و سنت کا متعہ کے بارے میں کیا حکم ہے اور واضح دلیلوں کے با وجود کون لوگ اس کے طا لب ہیں اور کیو ں اس کو پھیلا نا چاہتے ہیں، یہا ں تک کی بحث سے قا رٔیں نے آسانی سے اندازہ کر لیا ہوگا۔ ایل تشیع میں‌ بھی کثیر تعداد
اس عمل کی سختی سے مخالف ہے اور اظہار برأت کرتی ہے، باقی اگر اتنی بحث کے بعد بھی اہل متعہ تا ٔب نہیں ہو رہے تو میرے
خیال میں مزید آگے چلنا فضول ہے اور وقت کا ضیاع ہے جس نے جو ہے وہی رہنا ہے تا و قتیکہ اللہ جس کو ہدایت کا نور عطا کر
دے با قی یہ محفل تو مانند زمین تھی کسی نے گندم اگا لی اور کسی نے کوڑ تمبے کو اگا لیا۔

 اللھم صل علی محمد و آ ل محمد و ا صحا ب محمد
 

میر انیس

لائبریرین
26218692.jpg

معذرت کے ساتھ ایک گف پیش خدمت ہے۔
یہ گف مجھے کہیں سے ملی تو سوچا اسے ممبران سے شیئر کر لیا جائے۔ برائے مہربانی اسے فرقہ ورانہ رنگ سے نہ دیکھا جائے
بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ اب آپ لوگوں نے ایسی گھٹیا حرکتیں بھی شروع کردیں یہ جو سب آپ نے بھیجا ہے بہتر ہے اسکے متعلق اپنے ہی کسی ایسے سنی بھائی سے تصدیق کرلیتے جو شیعہ حضرات کے ساتھ بہت رہا ہو یا جس کے گھر کے قریب شب بیداریاں ہوتی ہوں کہ شب بیداری اور انجمنوں کی ماتم زنی کیا ہوتی ہے اور یہ آپ کے لیئے کوئی ایسا مشکل بھی نہیں ہے آج جکل ہر ہفتہ کے روز کہیں نہ کہیں شب بیداری ہوتی ہے جس میں پہلے مجلسِ حسین(ع) ہوتی ہے بعد میں ساری رات مختلف انجمنیں نوحہ خوانی اور سینہ زنی کرتی ہیں آپ نے یا جن سے آپ نے یہ سب خرافات شیعوں کو بدنام کرنے کیلیئے لی ہیں وہ دراصل بہت سارے ٹوٹوں کو ایک ساتھ ملا کر یا تو فوٹو کاپی کی گئی ہے یا ایڈٹنگ کا فن آزمایا گیا ہے ۔ آپ اس میں با آسانی دیکھ سکتے ہیں کہ ایک عبارت دوسری عبادت سے نہیں ملتی۔ ایک عبارت ہے جس میں شبِ بیداری کی طرف بلایا گیا ہے اور صاف لکھا ہے کہ یہ ساری انجمنیں جن کی لسٹ دی ہوئی ہے یہ ساری رات نوحہ خوانی کریں گی دوسری طرف سپاہِ صحابہ کی ایک تحریر ہے جو اس نے کافی پہلے متعہ کے خلاف لگائی تھی اسکا ٹوٹا ہے دونوں کو اتنی خوبصورتی سے ملایا گیا ہے کہ ایک لگے۔ بالکل اسے طرح جس طرح ان لوگوں نے یو ٹیوب پر آوارہ لڑکیوں کو ڈانس کرتے دکھایا اور کہا کہ یہ خمینی صاحب کی بیٹیاں رقص کر رہی ہیں اب جس نے انکی صاحبزادی کو نہیں دیکھا ہوگا وہ تو یقین کرلے گا کیونکہ مخالف فرقہ کے ایک بہت بڑے عالم کو بدنام کرنے کا موقعہ ہاتھ آیا ہے تو وہ تو تحقیق بھی نہیں کرے گا کہ انکی بیٹی ہے بھی یا نہیں۔
ایک بڑی غلطی اس میں آپ اور کرگئے کہ اتنا بڑا اشتہار چھاپا گیا اور کوئی تاریخ یا ٹائم نہیں لکھا گیا جبکہ آپ ہماری شبِ بیداریوں کہ اشتہار دیکھ لیں ان میں دن تاریخ وقت کے ساتھ ساتھ اسلامی تاریخ بھی ضرور لکھی جاتی ہے کہ فلاں محرم یا فلاں صفر ۔ سچ ہے نقل کے لیئے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے ۔آپ سب کو پتا ہے کہ ایامِ عزا یعنی محرم اور صفر میں ہم نہ تو شادیاں کرتے ہیں نہ ہی کوئی خوشی مناتے ہیں ہم تو لال کپڑے تک نہیں پنہنتے کسی کو کسی خوشخبری پر مبارکباد تک نہیں دیتے اور یہ سب ہمارے ان سب سنی بھائیوں کو پتا ہے جن کا اٹھنا بیٹھنا شیعوں کہ ساتھ ہے ۔میں تو سمجھ رہا تھا کہ اردو محفل میں بہت بردبار لوگ ہیں پر اس گھٹیا حرکت پر مجھ کو بہت افسوس ہوا کہ اب اسطرح کے ہتھکنڈے استعمال کیئے جارہے ہیں اور ایڈمن جسنے ذراسی بات پر کشفی پر پابندی لگادی تھی اس بات پر کچھ نہیں کیا گیا۔ جب کہ یہاں کے سارے پیغام انتظامیہ کے بعد ہی یہاں پنہچتے ہیں۔
اب میں اب اپنے ان سنی بھائیوں سے جنکے کافی دوست شیعہ ہیں اور وہ ہمارے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں سوال کروں گا کہ کیا انہوں نے اس سے پہلے شیعوں کی طرف سے ایسا اشتہار کبھی پڑھا ہے ؟ مختلف اخباروں میں بھی آج کل روز ہی مجلسوں یا شب بیداری کہ اشتہارات آتے ہیں کیا آپ سب نے ایسا اشتہار کبھی دیکھا؟ اہل تشیع نے اپنے عقئد کسی سے چھپائے ہوئے نہیں ہیں جیسے ہمارے بعض اسلامی فرقوں نے چھپائے ہوئے ہیں اب جب چاہیں جس مسجد یا امام بارگاہ میں جاسکتے ہیں اور جو ہوتا ہے دیکھ سکتے ہیں۔ میں تو خوش تھا کہ اب ایسے بہتان آپس میں میل جول کی وجہ سے اپنی موت آپ مر چکے ہیں پر لگتا ہے ابھی تک بہت سے جاہل موجود ہیں ۔ جسطرح شامِ غریباں‌وغیرہ کے متعلق بہت سی باتیں پھیلائی گئیں تھیں پر اب تو ہر چینل پر شامِ غریباں نشر ہوتی ہے ۔ بیچارے پروفیسر کرار حسین تو کب کے مر حوم بھی ہوچکے ہیں انکو بھی گھسیٹ لیا ۔
 

میر انیس

لائبریرین
بہت شکریہ شیئر کرنے کا
اجتماعی متعہ دوریہ پڑھ کر تو بہت ہی افسوس آرہا ہے ان لوگوں پر کہ اس کو تو حلال کرنے کے لئے دلائل پیش کرتے ہیں لیکن اگر ان سے انہی کی آل کے بارے میں پوچھا جائے تو شاید سیخ پا ہوجائیں۔
اللہ ہر مسلمان ماں بہن بیٹی کو اس شر سے محفوظ رکھے۔ آمین

بھائی اللہ آپ کو ہدایت دے آپ شیعوں کے جتنے بھی بڑے دشمن صحیح پر مسلمان تو ہیں نا ظاہر ہے آپ کو پتا ہوگا کہ بہتان کتنا بڑا گناہ ہے ۔ آپ نے بغیر تحقیق کہ یہ سب باتیں کیسے مان لیں کیا آپ کو اس رقعہ میں جو پیوند کاری ہے وہ صاف صاف نظر نہیں آرہی کوئی پانچ چھ جگہ سے ٹکڑے جوڑے ہوئے صاف نظر آرہے ہیں کسی کی دشمنی میں اتنا آگے نہ جائیں کہ خدا نا کرے آیات قرانی کے مصداق بد گمانی کرنے سے آپ کے اعمال اسطرح رد کردیئے جائیں کے آپ کو خبر نہ ہو۔ متعہ سے متعلق آپ کو احادیث سے اختلاف ہوسکتا ہے پر اس حدیث سے تو اختلاف نہ ہوگا نا کہ ایک انسان کہ جھوٹا ہونے کہ لیئے صرف یہ ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے آگے بڑھادے ۔ بس اللہ آپ پر رحم ہی کرے
 

زیک

مسافر
نکاح المتہ والی عورت کو رسول اللہ ص نے زوجہ ہی کہا ہے اور ان سے تزویج ہی ہے مگر اسکے باوجود یہ 4 نکاح دائمی والی ازواج میں شامل نہیں بالکل ایسے ہی جیسے کہ آپکی فقہ میں کنیزوں سے مباشرت کرنے کے باوجود وہ ان 4 دائمی ازواج میں شامل نہیں ہوتیں چاہے ان سے بچے ہی کیوں نہ ہو جائیں اور چاہے ان کنیزوں کی تعداد ہزاروں تک ہی کیوں نہ پہنچ جائے۔

واقعی مسلمانوں کو کنیزیں حاصل کرنے اور متعہ کرنے پر ہی توجہ دینی چاہیئے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
26218692.jpg

معذرت کے ساتھ ایک گف پیش خدمت ہے۔
یہ گف مجھے کہیں سے ملی تو سوچا اسے ممبران سے شیئر کر لیا جائے۔ برائے مہربانی اسے فرقہ ورانہ رنگ سے نہ دیکھا جائے

السلام علیکم اور اس بحث میں آپکو خوش آمدید۔
پاکستانی بھائی، آپ نے جو عکس پیش کیا ہے وہ اس سے قبل "نقوی بھائی صاحب" پیش کر چکے ہیں مگر کسی وجہ سے وہ یہاں محفل پر نظر نہیں آ رہے ہیں۔ اور میں نقوی بھائی صاحب کو اس عکس کے متعلق تفصیلا جواب بھی دے چکی ہوں۔
یہ عکس کسی اہل تشیع کی جانب سے شائع نہیں ہوا ہے بلکہ اُس ذلیل گروہ کی گھٹیا حرکت ہے کہ جس نے اہل تشیع کا چوغہ پہن کر یہ چیزیں نیٹ پر ڈال دی ہیں تاکہ عقد المتعہ اور اہل تشیع کے خلاف نفرت پیدا کی جائے۔
نقوی بھائی صاحب کو میں نے جو جواب اوپر دیا ہے، اسے آپ پھر سے غور سے پڑھئیے:

نقوی بھائیِ

ہیں تو آپ ہمارے دینی بھائی، مگر جن لوگوں سے مواد لے کر بغیر تحقیق کے آپ نے ہمارا استہزاء اڑایا ہے، تو وہ لوگ تو سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین جیسے لوگوں سے بھی بدتر ہیں، کیونکہ ان دونوں نے تو اپنے نام سے یہ اسلام مخالف چیزیں لکھی تھیں، مگر آپ نے جن لوگوں سے مواد لیا ہے یہ تو جھوٹے ہونے کے ساتھ ساتھ اہل تشیع کا چوغا پہنچ کر دھوکہ دینے کی انتہا پر پہہنچے ہوئے ہیں۔ چنانچہ انکی مکاریوں کے سامنے سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین تو پانی بھی نہیں بھرتے، تو پھر بھلا آپکو کیا ضرورت پیش آئی کہ اس معاملے میں ایسے گھٹیا مکار چالبازوں کے ساتھ اُنکی صف میں جا کھڑے ہوئے؟

چنانچہ آپ سے بہت دست بستہ گذارش ہے اور اللہ تعالی سے دعا ہے کہ آپ ان دجالی کذابوں سے منہ موڑ کر اسلامی روش کی طرف واپس لوٹ آئیں کہ آپ ہمارے محترم اہلسنت بھائی ہیں اور یہ ناصبی روش آپ پر نہیں ججتی۔

********************

ان دجالی کذابوں کی ایک مثال لازمی مجھے یہاں دینا ہے۔

عرصہ دراز سے۔۔۔۔۔ (یہ عرصہ دراز صدیوں کے طویل عرصے پر محیط ہے) انہوں نے ایک جھوٹ ہمارے خلاف باندھا ہوا ہے۔ خدا کے لیے ہمارے اور ان دجالی کذابوں کے مابین انصاف کر دیجئے۔
ذیل کی روایت ملاحظہ کریں جس کا پروپیگنڈہ صدیوں سے ہمارے خلاف کیا جا رہا ہے:

"جس عورت نے ایک مرتبہ متعہ کیا وہ فضیلت میں اس متعہ کے عوض امام حسین تک پہنچ جائے گی اور دو بار متعہ کرنے سے اسکا مرتبہ امام حسن تک اور تین بار کرنے سے امام علی کے مرتبے تک اور چار مرتبہ کرنے سے رسول اللہ کے مرتبے تک پہنچ جائے گی۔"

صدیوں سے شیعہ علماء ان سے پوچھ رہے ہیں کہ یہ روایت ہماری کونسی کتاب کی ہے؟
تو جواب میں کبھی جھوٹ بولتے ہیں کہ یہ اصول کافی کی روایت ہے، اور جب جھوٹ پکڑا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ کتاب "منہاجین الصادقین" میں موجود ہے۔


چلیں یہ بات درست ہے کہ یہ فتح اللہ کاشانی، متوفی 988 ہجری، کی کتاب "منہاج الصادقین" کے صفحہ 356 پر موجود ہے۔ مگر اس کی ذرا حقیقت تو دیکھئے۔ اس کتاب کا پورا نام ہے "منہاج الصادقین فی الالزام المخالفین فی التفسیر" یعنی اس کتاب میں وہ مخالفین کے اعتراضات کا جواب دے رہے ہیں۔ چنانچہ ایک اعتراض اسی عقد المتعہ والی روایت پر تھا، چنانچہ اس روایت کو نقل کر کے وہ بھی مخالفین سے پوچھتے ہیں کہ انہوں نے کہاں سے یہ روایت نقل کی ہے کیونکہ شیعہ کتب میں تو یہ کہیں موجود ہی نہیں اور شیعہ علماء کے نزدیک تو بالکل مجہول (نامعلوم) ہے۔ انکے الفاظ ہیں: "ان برما مجھول است" یعنی ہمارے لیے تو یہ روایت بالکل نامعلوم ہے۔ چنانچہ آپ ان دجالی کذابوں کی عیاری دیکھئے کہ جن افواہوں کا رد کرنے کے لیے یہ روایت کتاب میں نقل کی گئی، اُسی کو انہوں نے شیخ کاشانی پر جھوٹ باندھ کر منسوب کرنا شروع کر دیا۔
اور اب اس عیاری و افتراء کو کئی سو سال گذر چکے ہیں اور ختم ہونے کی بجائے یہ چیز بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ اب بتلائیے کہ یہودی پروپیگنڈہ ان کذابوں کے سامنے کیا حیثیت رکھتے ہیں۔ بلکہ یہ چیز یکطرفہ نہیں "دو طرفہ" ہے اور دونوں سائیڈوں پر ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جو غلط باتیں ایک دوسرے سے منسوب کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ سب لوگ، چاہے انکا تعلق کسی گروہ سے ہو، ان سب کے اس طرز عمل کی مذمت کرنی چاہیے اور یہی چیز انصاف کے قریب ہے۔

متعہ دوریہ کا الزام
ان شر پسندوں نے ایک اور جھوٹ جو صدیوں سے اہل تشیع کے خلاف پھیلایا ہوا ہے، وہ ہے متعہ دوریہ نامی کسی شہ کا کہ جسکا وجود آج تک یہ کسی شیعہ کتاب سے ثابت نہ کر سکے۔ مثلا اس عکس میں یہ افتراء پرداز لکھتے ہیں:

"کنوارے یا غیر کنوارے مومنین جب چاہیں متعہ کی مذکورہ شرائط کے تحت صرف پانچ مومنہ سے اجتماعی متعہ کر سکتے ہیں کہ یہ اجتماعی متعہ ثواب کا باعث ہو گا (باب المتعہ جامع الکافی) "

یہ سراسر جھوٹ ہے اور الکافی میں ان کے بڑوں کو بیٹھا دیں تب بھی وہ قیامت تک ایسی کوئی چیز نہیں ڈھونڈ کر نکال سکتے۔
بہرحال، جھوٹا پروپیگنڈہ نام ہی اسی چیز کا ہے اور اس معاملے میں تو یہ خود کو "دین کا ٹھیکیدار" کہنے والے لوگ تو سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین سے بھی زیادہ گھٹیا حرکتوں پر اتر آئے کہ انہوں نے کم از کم یہ کتابیں تو اپنے نام سے لکھی تھیں، مگر یہ فتنہ گر تو اہل تشیع کا چوغہ پہن کر دجالی کذاب کے درجے پر فائز ہو گئے ہیں۔
افسوس ساتھ میں ان اہلسنت برادران ہے پر جو ان نواصب کی باتوں میں پھر بھی آ جاتے ہیں اور بغیر تحیق کے یہ باتیں آگے پھیلاتے جاتے ہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
حسب سابق لمبائی زیادہ اور گہرائی کم
کوئی بھی مسلمان اپنے ماں بہن بیٹی کے لئے متعہ سوچنا تو دور کی بات ۔غیر محرم کو چہرہ دکھانا بھی نہیں چاہے گا۔
یہی سوال میں آپ سے کروں تو یقینا مجھ پر اعتراضات کی بوچھاڑ شروع ہوجائے گی

اس موقع پر ہمیں وہی کچھ کرنا جو ائمہ اہلبیت علیھم السلام نے کیا تھا جب ایک شخص عبداللہ ابن عمیر پہلے ان سے بدزبانی کرتا رہا، مگر چونکہ اسلامی مسائل کا جواب دینا "فرض" ہے اس لیے امام جواب دیتے رہے، مگر جب وہ اسلامی مسئلہ سے ہٹ کر ذاتیات پر اتر آیا تو امام کی سنت ہے ایسے لوگوں سے منہ پھیر لو کہ یہ بس فتنہ پھیلانا چاہتے ہیں، نہ کہ دین کا علم حاصل کرنا۔

روایت یہ ہے:
"عبداللہ ابن عمیر امام ابو جعفر علیہ السلام کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ آپ متعہ النساء کے متعلق کیا کہتے ہیں؟ امام نے جواب دیا:"اللہ تعالی نے عقد المتعہ کو کتاب اللہ میں حلال فرمایا ہے، اور پھر رسول اللہ ص کی لسان مبارک سے اسے حلال قرار دلوایا ہے، چنانچہ یہ قیامت تک حلال ہے۔"
اس پر یہ شخص (عبداللہ ابن عمیر) امام سے زبان درازی کرنے لگا کہ فلاں فلاں شخص نے تو اس سے منع کیا تھا۔ اس پر امام نے جواب دیا کہ چاہے کسی شخص نے اس سے منع کیا ہو (مگر یہ حلال ہے۔ اس پر یہ شخص کہنے لگا کہ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ تم ایسی چیز کو حلال بیان کر رہے ہو کہ جس سے فلاں فلاں شخص نے منع کر دیا تھا۔ اس کی اس بدزبانی پر امام نے اسے کہا کہ (جاؤ اور جا کر) اپنی صاحب کی بات پر قائم رہو جبکہ حق وہ بات ہے جو کہ رسول اللہ ص نے فرمائی ہے اور اسکے مقابلے میں کسی اور کی بات باطل ہے۔
اس پر عبداللہ ابن عمیر (ذاتیات پر اتر آیا اور امام سے کہنے لگا) کیا تم اس پر خوشیاں مناؤ گے کہ تمہاری عورتیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور تمہارے عم کی بیٹیاں متعہ کریں؟
اس پر امام نے (اس بدزبانی کا جواب دینے کی بجائے) اپنا منہ پھیر لیا۔
۱۔ التہذیب، جلد 2، صفحہ 186
2۔ فروع الکافی، جلد 2، حدیث 4

چنانچہ بات صرف اُس وقت تک ہے جبتک اسلامی مسئلہ پوچھا جا رہا ہے کہ اسکا بتانا واجب و فرض ہے۔ مگر جب کوئی بدزبان استہزاء کرنے کے لیے ذاتیات پر اتر آئے تو اپنا منہ پھیر لو اور اسکے بعد ایسے استہزاء کرنے والوں سے کوئی بات نہیں ہے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
مہوش بہن
آپ کے اتنے تفصیلی اور جامع دلائل کے بعد میرے خیال میں اب مذید اس بحث کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ فریقِ مخالف کی طرف سے کوئی بھی دلیل قران اور احادیث کے حوالے سے نہیں آرہی ہے بلکہ یہ لوگ آدھے آدھے بٹ چکے ہیں ایک گروپ تو بہت طریقہ سے بحث کر رہا ہے پر وہ بھی کوئی مناسب دلیل نہیں دے سکا بلکہ ہمیشہ کی طرح بلاوجہ اعتراضات کا سہارا لے کر عقدِ متعہ کا انکار کیئے جارہا ہے ۔ جبکہ دوسرا گروہ بہت ہی عامیانہ قسم کی باتیں کرکے اور وہی روش جو اہلِ تشیع کے لیئے ہمیشہ سے اختیار کی جاتی ہے کہ نہ تو انکی باتوں کو سننی ہے نا سمجھنا ہے نہ ہی سننے دینے اور سمجھنے دینا ہے صرف اور صرف طعنہ اور تشنہ کا بازار گرم رکھنا ہے یہ لوگ یہ بھی نہیں سوچ رہے کہ انکے سامنے ایک خاتون ہے تو ذرا بات کرتے ہوئے تھوڑا سا خیالرکھا جائے۔ بہر حال اب میں سمجھتا ہوں کہ آپ کو جو پیغام پنہچانا تھا اور جتنے دلائل دینے تھے وہ آپ نے دے دیئے ہیں اور اب اس موضوع کو ختم ہوجانا چاہیئے تاکہ اپ کسی اور جگہ وقت دے کر اپنے علم اور معلومات کا دریا بہا سکیں شاید ووہاں لوگ آپ سے فائدہ اٹھا سکیں ۔ اس دھاگے کی فرمائش میں نے ہی آپ سے کی تھی اور میں سمجھا تھا کہ محفل کے سمجھدار اور با علم لوگ آپ کی تحاریر سے عقدِ متعہ کے بارے میں جو ان لوگوں کو غلط فہمیاں ہیں وہ دور ہوسکیں گیں۔ پر میرا خیال غلط ثابت ہوا لوگ باتوں کو الجھادیتے ہیں اور جو باتیں صدیوں سے انکے دلوں میں ہیں وہ مضبوط سے مضبوط دلائل کے باوجود نہیں نکل سکتیں ۔ اصل بات دراصل یہ ہے کہ انہوں نے جب ایک فرقہ کو ہمیشہ سے ہی نہایت نفرت سے دیکھا ہے اور اس فرقہ کے بارے میں انکو شروع ہی سے نجانے کیا کیا پڑہایا گیا ہے تو وہ یہ کیسے تسلیم کرلیں کہ انکے فرقہ میں ایک بات قران اور حدیث کے مطابق ہورہی ہوگی اور ہمارے فرقہ نے صدیوں سے جن موضوعات پر ان کو قابل نفرت سمجھا ہوگا ان میں سے ایک عین قران و سنت کے مطابق نکل آئے گا ۔ اور آپ کو تو پتا ہی ہے کہ پرانے زمانے میں ایسی بہت سی باتیں تھیں جو اہلِ تشیع کے خلاف زبان زد عام تھیں بلکہ میں نے اپنے بچپن تک بہت سے ایسے بہتان سنے جو ہمارے لیئے پھیلائے گئے تھے پر اب اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے اہلِ سنت بھائیں کو حقائق کا پتا چلا اور اب وہ خود ہی ان سب باتوں کو محض اہلِ تشیع پر بہتان ہی سمجھتے ہیں ۔ جہاں ایسی بہت سی باتیں لوگوں کی سمجھ میں آگیئں باقی بھی ایک نا ایک دن وہ سچ مان ہی لیں گے پر میرے خیال میں ابھی وہ وقت نہیں آیا۔ ابھی اتنی وسعتِ قلبی نہیں پیدا ہوئی کہ دوسرے کے بھی سکون سے سنا جائے اور اسکی بات پر خود سے بھی فرقہ واریت اور تعصب سے بلند ہوکر توجہ دی جائے۔ امید ہے آپ میری بات سمجھ چکی ہونگیں

انیس بھائی،
ایک اہم پہلو پر بات باقی رہ گئی ہے جس کے بغیر موضوع تشنہ رہ جائے گا۔ اور وہ ہے ان جھوٹی گھڑی ہوئی روایات کی حقیقت جو کہ عقد المتعہ کو حرام بتلاتی ہیں۔ میں بہت پہلے ان پر آ جاتی مگر بیچ میں بہت سے دیگر اعتراضات شروع ہو گئے جس کی وجہ سے اُن چیزوں کو اولیت نہیں دی جا سکی کہ جنکا حق پہلے بنتا تھا بلکہ موضوع کو اصل راہ سے بھٹکا دیا گیا۔ افسوس کہ نص کو یہاں ثانوی درجہ دیا گیا اور اپنے عقلی گھوڑوں کو اولیت دی گئی اور سپرٹ عقد المتعہ کے مسئلے کو سمجھنے کی نہیں تھی بلکہ اس پر اعتراضات کرنے کی تھی۔
 

مہوش علی

لائبریرین
منہاج الصادقین میں چلیں ایک حوالہ ہے مگر یہ کیا ہے میری سسرالی بہں (اسلیے کے میرے سسرالی رشتہ دار کٹر شیعہ ہیں(

forumdisplay.php


newreply.php


6


6


6


6

بھائی جی آپکے امیجز دیکھنے کے بہت کچھ کرنا پڑ رہا ہے اور عام حالت میں یہ نظر نہیں آ رہے۔
بہرحال، فضائل کی ان روایات کے متعلق جواب اوپر دیا جا چکا ہے اور جوابی حدیث بھی پیش کی جا چکی ہے کہ جسکے مطابق ایک رات بیوی سے مباشرت کرنا اس سب سے افضل ہے جو کائنات میں اور اسکے اندر موجود ہے۔
چنانچہ فضائل کی بحث سے کبھی کسی چیز کو حلال یا حرام نہیں ٹہرایا جا سکتا۔ اسکے لیے نصوص کی ضرورت ہے جو ابھی تک آپ لوگوں کی طرف سے پیش ہی نہیں ہوئی ہیں (اور جو پیش ہوئی ہیں مثلا سورۃ المومنون وغیرہ، یا پھر ابو عثمان بھائی صاحب کی پہلی پوسٹیں، تو انکا جواب دیا جا چکا ہے)
مزید آپ نے ایک فارسی والا عکس پیش کیا ہے۔ کیا ممکن ہے کہ آپ اسکا ترجمہ بھی کر دیں کیونکہ شاید آپکو فارسی آتی ہو۔ بہرحال بات یہ ہے کہ اگر پروپیگنڈہ سے متاثر ہو کر کسی شیعہ نے تیرھویں صدی میں یہ روایت لکھ دی تب بھی یہ حجت کیسے ہو گئی کہ اس سے قبل کے شیعہ علماء کہہ رہے ہیں کہ یہ روایت کہیں بھی ہماری کتابوں میں موجود نہیں بلکہ نامعلوم ہے؟ چنانچہ یہ تیرھویں صدی کے شیعہ صاحب بھی اس روایت کا کوئی حوالہ نہیں پیش کر رہے، اور حوالے کے مقابلے میں سند تو پھر اور دور کی بات ہے۔ بہرحال، مسئلہ چونکہ اہل تشیع کا ہے لہذا نہ سند کی ضرورت نہ حوالے کی ضرورت، مگر جب "اجل الی مسمی" کی "صحیح" روایات جو متواتر کے قریب قریب ہیں، وہ اپنی مکمل اسناد کے ساتھ پیش کی گئیں تو انہیں ماننے سے انکار ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آگے میں اس ناانصافی پر اور کیا احتجاج کروں کہ سب شرائط، سب پابندیاں، سب اعتراضات صرف اور صرف اہل تشیع کے لیے ہیں۔

****************​



اور آپ نے میرے کاؤنٹر سوال کا جواب ابھی تک نہیں دیا اور معروضات میں الجھا دیا، مولا علی نے شاید بقول آپ کی کتب کے اعتراض کیا مگر سوال تو یہ ہے نا کے جب حسین بن علی ، اسلام کے حلال کو حرام کرنے کی رسم کے خاتمے کے لیے ننھے علی
ا صغر کو تیروں کے آگے رکھ سکتے ہیں تو مولا علی نے اسلام کو بد لنے کی رسم کو روکنے کے لیے تلوار کیو ں نا ا ٹھا یٔ؟؟

اہلبیت اور علی اصغر کے لیے آپکی محبت قابل قدر ہے۔

باقی آپ جو بحث چھیڑ رہے ہیں، اُس کے دو رخ ہیں۔ ایک اہل تشیع کا نظریہ اور دوسرا اہلسنت کا نظریہ۔ میں اہل تشیع کا نظریہ تو بیان کر دوں، مگر اسکا فائدہ کیا ہے کہ آپ نے وہ ماننا ہی نہیں۔
چنانچہ بہتر ہے کہ آپ ہی سے پہلے اس روایت کا جواب طلب کیا جائے کیونکہ یہ روایت آپ ہی کی مستند ترین کتاب میں ہے اور آپ اسے تسلیم بھی کرتے ہیں۔


عقد المتعہ کے حوالے سے ہمارا حضرت عمر سے بہرحال اتنا شدید اختلاف نہیں ہے جتنا کہ انکے بعد آنے والوں سے کہ جنہوں نے رسول اللہ ص پر جھوٹ باندھنا شروع کر دیا کہ انہوں نے عقد المتعہ کو حرام کیا ہے۔
حضرت عمر نے عقد المتعہ کی ممانعت ہمیشہ اپنے نام پر کی اور کبھی رسول اللہ ص پر جھوٹ نہیں باندھا۔
اب یہاں ایک مسئلہ اٹھتا ہے اور وہ یہ کہ اسلام حکومت وقت اور حاکم وقت کو چند اختیارات دیتا ہے کہ حالات کے تحت وہ "معاملات" والے اسلامی اصولوں میں اضافہ و کمی کر سکتا ہے۔
مثلا آجکل کی اسلام حکومتوں نے لازم کر دیا ہے کہ نکاح کیا جائے تو نکاح فارم بھرا جائے اور اسکی رجسٹریشن کروائی جائے۔ اب یہ شرط بالکل ٹھیک ہے کیونکہ حاکم اور حکومت وقت کو ایسے اقدامات کی اجازت ہے۔
چنانچہ اس چیز پر تلوار اٹھانے کا سوال پیدا نہیں ہوتا، بلکہ حضرت عمر کی اس ذاتی رائے سے حضرت علی نے کھل کر اختلاف کیا (اور یہ آپکی اپنی کتب میں ہے) اور فرمایا کہ اگر حضرت عمر متعہ النساء کی ممانعت نہ کرتے تو کوئی زنا نہ کرتا سوائے شقی القلب شخص کے۔

اب حاکم وقت کے حوالے سے بھی یہ فرق کریں کہ اسلام میں دو چیزیں ہیں:

1۔ معاملات : معاملات وہ چیزیں ہے جو انسانوں کے درمیان ہوتی ہیں اور جنکا اثر معاشرے پر ہوتا ہے۔

2۔ عبادات: یہ وہ چیزیں ہیں جو فقط بندے اور اللہ کے مابین ہیں۔

حکومت وقت یا حاکم وقت کو صرف اور صرف "معاملات" میں اجازت ہے کہ حالات کے مطابق تبدیلی کر سکیں۔
مگر جب بات آتی ہے عبادات کی تو اس میں کوئی حکومت وقت یا حاکم وقت مداخلت کرنے کا حق نہیں رکھتا۔

چنانچہ عقد المتعہ کے معاملے میں ہمارا حضرت عمر سے فقط اتنا اختلاف ہے کہ ہم انکی ذاتی رائے کو غلطی مانتے ہیں، جبکہ "متعہ الحج" کے معاملے میں ہمیں انتہائی بڑا اعتراض ہے کیونکہ یہ "عبادات" کا معاملہ ہے اور اس میں حاکم کو دخل دینے کا ہرگز کوئی حق نہیں۔ چنانچہ اس مسئلےمیں آپ کو حضرت علی کی مخالفت بالکل صاف نظر آ جائے گی۔

Sahih Muslim, B
ook 007, Number 2816:

Sa'id b. al-Musayyab reported that 'Ali and 'Uthman (Allah be pleased with them) met at 'Usfan; and Uthman used to forbid (people) from performing Tamattu' and 'Umra (during the period of Hajj), whereupon 'Ali said: What is your opinion about a matter, which the Messenger of Allah (may peace be upon him) did but you forbid it? Thereupon Uthman said: You leave us alone, whereupon he ('Ali) said: I cannot leave you alone. When 'Ali saw this, he put on Ihram for both of them together (both for Hajj and 'Umra).

Sahih Bukhari, Volume 2, Book 26, Number 640

Narrated Said bin Al-Musaiyab:
'Ali and 'Uthman differed regarding Hajj-at-Tamattu' while they were at 'Usfan (a familiar place near Makka). 'Ali said, "I see you want to forbid people to do a thing that the Prophet did?" When 'Ali saw that, he assumed Ihram for both Hajj and 'Umra.​

اور اصل میں حضرت عمر نے متعہ الحج میں یہ تبدیلی کی تھی اور حضرت عثمان فقط انہی کی اس معاملے میں پیروی کر رہے تھے۔
یہ متعہ النساء کا ٹاپک ہے۔ چنانچہ اگر کبھی متعہ الحج پر تفصیلی گفتگو ہوئی تو پھر انشاء اللہ تمام روایات سامنے پیش کر کے موضوع سے ہم انصاف کرنے کی کوشش کریں گے۔

چنانچہ اب پھر عمران بن حصین کی روایت پر پلٹتے ہیں اور کاؤنٹر سوال برقرار ہے کہ اگر یہ روایت صحیح ہے تو پھر آپکو ماننا پڑے گا کہ قرآنی آیت کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ چنانچہ اب ہزار حضرت عمر ہوں یا ہزار حضرت علی، مگر اگر قرآن کی آیت کی خلاف ورزی کی گئی ہے تو وہ ان دونوں کو کسی صورت معاف نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ آپ پھر کیسے یہ کہہ کر مطمئین ہو سکتے ہیں کہ چونکہ علی ابن ابی طالب نے تلوار نہ اٹھائی تو اس قرآنی آیت کی خلاف ورزی صحیح ہو گئی؟

چنانچہ آپ سے درخواست ہے کہ آپ عمران بن حصین کی روایت پھر ایک دفعہ پڑھیے اور بتلائیے کہ یہ خلاف ورزی کیوں کی گئی اور کیونکر آپ اس پر آنکھیں بند کر کے بیٹھ جاتے ہیں؟ یہاں مسئلہ اہل تشیع کو چپ کرانے کا نہیں ہے، بلکہ اصل مسئلہ قرآنی آیت کے ساتھ کھیلنے اور اسکی کھلی خلاف ورزی کرنے کا ہے۔ کاش کہ آپ اس فرق کو سمجھ پائیں۔
 

پاکستانی

محفلین
بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ اب آپ لوگوں نے ایسی گھٹیا حرکتیں بھی شروع کردیں یہ جو سب آپ نے بھیجا ہے بہتر ہے اسکے متعلق اپنے ہی کسی ایسے سنی بھائی سے تصدیق کرلیتے جو شیعہ حضرات کے ساتھ بہت رہا ہو یا جس کے گھر کے قریب شب بیداریاں ہوتی ہوں کہ شب بیداری اور انجمنوں کی ماتم زنی کیا ہوتی ہے اور یہ آپ کے لیئے کوئی ایسا مشکل بھی نہیں ہے آج جکل ہر ہفتہ کے روز کہیں نہ کہیں شب بیداری ہوتی ہے جس میں پہلے مجلسِ حسین(ع) ہوتی ہے بعد میں ساری رات مختلف انجمنیں نوحہ خوانی اور سینہ زنی کرتی ہیں آپ نے یا جن سے آپ نے یہ سب خرافات شیعوں کو بدنام کرنے کیلیئے لی ہیں وہ دراصل بہت سارے ٹوٹوں کو ایک ساتھ ملا کر یا تو فوٹو کاپی کی گئی ہے یا ایڈٹنگ کا فن آزمایا گیا ہے ۔ آپ اس میں با آسانی دیکھ سکتے ہیں کہ ایک عبارت دوسری عبادت سے نہیں ملتی۔ ایک عبارت ہے جس میں شبِ بیداری کی طرف بلایا گیا ہے اور صاف لکھا ہے کہ یہ ساری انجمنیں جن کی لسٹ دی ہوئی ہے یہ ساری رات نوحہ خوانی کریں گی دوسری طرف سپاہِ صحابہ کی ایک تحریر ہے جو اس نے کافی پہلے متعہ کے خلاف لگائی تھی اسکا ٹوٹا ہے دونوں کو اتنی خوبصورتی سے ملایا گیا ہے کہ ایک لگے۔ بالکل اسے طرح جس طرح ان لوگوں نے یو ٹیوب پر آوارہ لڑکیوں کو ڈانس کرتے دکھایا اور کہا کہ یہ خمینی صاحب کی بیٹیاں رقص کر رہی ہیں اب جس نے انکی صاحبزادی کو نہیں دیکھا ہوگا وہ تو یقین کرلے گا کیونکہ مخالف فرقہ کے ایک بہت بڑے عالم کو بدنام کرنے کا موقعہ ہاتھ آیا ہے تو وہ تو تحقیق بھی نہیں کرے گا کہ انکی بیٹی ہے بھی یا نہیں۔
ایک بڑی غلطی اس میں آپ اور کرگئے کہ اتنا بڑا اشتہار چھاپا گیا اور کوئی تاریخ یا ٹائم نہیں لکھا گیا جبکہ آپ ہماری شبِ بیداریوں کہ اشتہار دیکھ لیں ان میں دن تاریخ وقت کے ساتھ ساتھ اسلامی تاریخ بھی ضرور لکھی جاتی ہے کہ فلاں محرم یا فلاں صفر ۔ سچ ہے نقل کے لیئے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے ۔آپ سب کو پتا ہے کہ ایامِ عزا یعنی محرم اور صفر میں ہم نہ تو شادیاں کرتے ہیں نہ ہی کوئی خوشی مناتے ہیں ہم تو لال کپڑے تک نہیں پنہنتے کسی کو کسی خوشخبری پر مبارکباد تک نہیں دیتے اور یہ سب ہمارے ان سب سنی بھائیوں کو پتا ہے جن کا اٹھنا بیٹھنا شیعوں کہ ساتھ ہے ۔میں تو سمجھ رہا تھا کہ اردو محفل میں بہت بردبار لوگ ہیں پر اس گھٹیا حرکت پر مجھ کو بہت افسوس ہوا کہ اب اسطرح کے ہتھکنڈے استعمال کیئے جارہے ہیں اور ایڈمن جسنے ذراسی بات پر کشفی پر پابندی لگادی تھی اس بات پر کچھ نہیں کیا گیا۔ جب کہ یہاں کے سارے پیغام انتظامیہ کے بعد ہی یہاں پنہچتے ہیں۔
اب میں اب اپنے ان سنی بھائیوں سے جنکے کافی دوست شیعہ ہیں اور وہ ہمارے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں سوال کروں گا کہ کیا انہوں نے اس سے پہلے شیعوں کی طرف سے ایسا اشتہار کبھی پڑھا ہے ؟ مختلف اخباروں میں بھی آج کل روز ہی مجلسوں یا شب بیداری کہ اشتہارات آتے ہیں کیا آپ سب نے ایسا اشتہار کبھی دیکھا؟ اہل تشیع نے اپنے عقئد کسی سے چھپائے ہوئے نہیں ہیں جیسے ہمارے بعض اسلامی فرقوں نے چھپائے ہوئے ہیں اب جب چاہیں جس مسجد یا امام بارگاہ میں جاسکتے ہیں اور جو ہوتا ہے دیکھ سکتے ہیں۔ میں تو خوش تھا کہ اب ایسے بہتان آپس میں میل جول کی وجہ سے اپنی موت آپ مر چکے ہیں پر لگتا ہے ابھی تک بہت سے جاہل موجود ہیں ۔ جسطرح شامِ غریباں‌وغیرہ کے متعلق بہت سی باتیں پھیلائی گئیں تھیں پر اب تو ہر چینل پر شامِ غریباں نشر ہوتی ہے ۔ بیچارے پروفیسر کرار حسین تو کب کے مر حوم بھی ہوچکے ہیں انکو بھی گھسیٹ لیا ۔

معاف کرنا انیس بھائی، میں نے پہلے ہی عرض کی تھی کہ یہ صرف معلومات کے لئے ہے اسے فرقہ ورانہ نظر سے نہ دیکھا جائے۔
دوسری بات یہ کہ کل میں ایک دوست کی شاپ پہ بیٹھا تھا جو کہ فوٹو سٹیٹ کی ہے، وہاں 2 نوجوان اس کی کاپی کرانے آئے، یہ اصل صفحہ کافی مسخ شدہ یعنی کافی پرانا لگ رہا تھا، میرے سامنے انہوں نے اس کے پھٹے حصوں پر سفید ٹیپ لگائی جس کے نشانات واضح نظر آ رہے ہیں، انہوں نے اس کی 3 کاپیاں کرائیں، میرے دوست نے 4 کاپیاں کرکے ایک اپنے پاس رکھ لی۔ اور آخر میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ یہ دونوں حضرات ہمارے شیعہ برادر ہی تھے جنہیں میں خود اچھی طرح جانتا ہوں۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ اب آپ لوگوں نے ایسی گھٹیا حرکتیں بھی شروع کردیں یہ جو سب آپ نے بھیجا ہے بہتر ہے اسکے متعلق اپنے ہی کسی ایسے سنی بھائی سے تصدیق کرلیتے جو شیعہ حضرات کے ساتھ بہت رہا ہو یا جس کے گھر کے قریب شب بیداریاں ہوتی ہوں کہ شب بیداری اور انجمنوں کی ماتم زنی کیا ہوتی ہے اور یہ آپ کے لیئے کوئی ایسا مشکل بھی نہیں ہے آج جکل ہر ہفتہ کے روز کہیں نہ کہیں شب بیداری ہوتی ہے جس میں پہلے مجلسِ حسین(ع) ہوتی ہے بعد میں ساری رات مختلف انجمنیں نوحہ خوانی اور سینہ زنی کرتی ہیں آپ نے یا جن سے آپ نے یہ سب خرافات شیعوں کو بدنام کرنے کیلیئے لی ہیں وہ دراصل بہت سارے ٹوٹوں کو ایک ساتھ ملا کر یا تو فوٹو کاپی کی گئی ہے یا ایڈٹنگ کا فن آزمایا گیا ہے ۔ آپ اس میں با آسانی دیکھ سکتے ہیں کہ ایک عبارت دوسری عبادت سے نہیں ملتی۔ ایک عبارت ہے جس میں شبِ بیداری کی طرف بلایا گیا ہے اور صاف لکھا ہے کہ یہ ساری انجمنیں جن کی لسٹ دی ہوئی ہے یہ ساری رات نوحہ خوانی کریں گی دوسری طرف سپاہِ صحابہ کی ایک تحریر ہے جو اس نے کافی پہلے متعہ کے خلاف لگائی تھی اسکا ٹوٹا ہے دونوں کو اتنی خوبصورتی سے ملایا گیا ہے کہ ایک لگے۔ بالکل اسے طرح جس طرح ان لوگوں نے یو ٹیوب پر آوارہ لڑکیوں کو ڈانس کرتے دکھایا اور کہا کہ یہ خمینی صاحب کی بیٹیاں رقص کر رہی ہیں اب جس نے انکی صاحبزادی کو نہیں دیکھا ہوگا وہ تو یقین کرلے گا کیونکہ مخالف فرقہ کے ایک بہت بڑے عالم کو بدنام کرنے کا موقعہ ہاتھ آیا ہے تو وہ تو تحقیق بھی نہیں کرے گا کہ انکی بیٹی ہے بھی یا نہیں۔
ایک بڑی غلطی اس میں آپ اور کرگئے کہ اتنا بڑا اشتہار چھاپا گیا اور کوئی تاریخ یا ٹائم نہیں لکھا گیا جبکہ آپ ہماری شبِ بیداریوں کہ اشتہار دیکھ لیں ان میں دن تاریخ وقت کے ساتھ ساتھ اسلامی تاریخ بھی ضرور لکھی جاتی ہے کہ فلاں محرم یا فلاں صفر ۔ سچ ہے نقل کے لیئے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے ۔آپ سب کو پتا ہے کہ ایامِ عزا یعنی محرم اور صفر میں ہم نہ تو شادیاں کرتے ہیں نہ ہی کوئی خوشی مناتے ہیں ہم تو لال کپڑے تک نہیں پنہنتے کسی کو کسی خوشخبری پر مبارکباد تک نہیں دیتے اور یہ سب ہمارے ان سب سنی بھائیوں کو پتا ہے جن کا اٹھنا بیٹھنا شیعوں کہ ساتھ ہے ۔میں تو سمجھ رہا تھا کہ اردو محفل میں بہت بردبار لوگ ہیں پر اس گھٹیا حرکت پر مجھ کو بہت افسوس ہوا کہ اب اسطرح کے ہتھکنڈے استعمال کیئے جارہے ہیں اور ایڈمن جسنے ذراسی بات پر کشفی پر پابندی لگادی تھی اس بات پر کچھ نہیں کیا گیا۔ جب کہ یہاں کے سارے پیغام انتظامیہ کے بعد ہی یہاں پنہچتے ہیں۔
اب میں اب اپنے ان سنی بھائیوں سے جنکے کافی دوست شیعہ ہیں اور وہ ہمارے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں سوال کروں گا کہ کیا انہوں نے اس سے پہلے شیعوں کی طرف سے ایسا اشتہار کبھی پڑھا ہے ؟ مختلف اخباروں میں بھی آج کل روز ہی مجلسوں یا شب بیداری کہ اشتہارات آتے ہیں کیا آپ سب نے ایسا اشتہار کبھی دیکھا؟ اہل تشیع نے اپنے عقئد کسی سے چھپائے ہوئے نہیں ہیں جیسے ہمارے بعض اسلامی فرقوں نے چھپائے ہوئے ہیں اب جب چاہیں جس مسجد یا امام بارگاہ میں جاسکتے ہیں اور جو ہوتا ہے دیکھ سکتے ہیں۔ میں تو خوش تھا کہ اب ایسے بہتان آپس میں میل جول کی وجہ سے اپنی موت آپ مر چکے ہیں پر لگتا ہے ابھی تک بہت سے جاہل موجود ہیں ۔ جسطرح شامِ غریباں‌وغیرہ کے متعلق بہت سی باتیں پھیلائی گئیں تھیں پر اب تو ہر چینل پر شامِ غریباں نشر ہوتی ہے ۔ بیچارے پروفیسر کرار حسین تو کب کے مر حوم بھی ہوچکے ہیں انکو بھی گھسیٹ لیا ۔


میری جان اس امیج کو ڈاؤن لوڈ کرو اور میگنی فا یٔ کر کے دیکھو اور پھر خود بتانا کے کہاں ایڈیٹنگ ہویٔ ہے؟ کا غذ کی پو سیدگی کو
صاف سمجھا جا سکتا ہے، اور جہاں تک دن اور تاریخ کا سوال ہے یہ کویٔ اشتہار عام نہیں کہ سب کچھ اتنا واضح لکھا جاتا ہاں جس کو
سمجھانا تھا وہ سمجھ گیا، 18 ذی الحجہ ہے، ٹأم رات کا ہے، جگہ آخر پر ڈیٹیل سے دی گٔی ہے اور میں بذات خود سب اٹینڈ کر کے دیکھ چکا ہوں نہیں ہوتا یہ سب مگر خواص میں۔۔۔۔ عام شیعہ تو معصوم ہیں کہ انہیں اپنے مذہب کی وہ تفصیلات حقیقتاً نہیں معلوم جو تقیہ کے نام پر ان سے چھپایٔ جاتی ہیں۔ اور اگر معلوم ہوں تو ان‌ کی آنکھیں‌ کھل جا یٔں وہ بے چارے تو محبت اہل بیت میں خود کو مار تے رہنا بس کافی سمجھتے ہیں۔ خیر یہ تو ایک سر سری ذکر آگیا تصویر لگانے کا مقصد وہ نہیں تھا جو آپ نے سمجھ لیا اصل مقصد یہ تھا کہ مہوش بہیں کو یہ سمجھا کہ متعہ کی آڑ میں کیا ہو رہا ہے اور اگر یہ عام ہو جائے تو اسے کیسے کیسے استعمال کیا جاتا ہے۔یہی تصویر میں پہلے بھی اپ لوڈ کر چکا ہوں (میرے لینکس کے یو آر ایل کاپی اور اوپن کر کے دیکھیں( اور مہوش بہین ان کو دیکھ کر
ان پر کمنٹس پھی کر چکی ہیں۔
اللھم صل علی محمد و آ ل محمد و ا صحا ب محمد
 

طالوت

محفلین
کسی بھی بات کو اپنی عقل سے سمجھنا اور خود ہی اسکے بارے میں فٰصلہ کرنے کا حق اگر اللہ نے ہر مسلمان کو دیا ہوتا تو قران اور حدیث کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی اللہ صرف اتنا فرمادیتا کہ اچھے کام کرو اور برے کاموں سے دور رہو اور اچھائی اور برائی کا فیصلہ اپنی عقل سے کرلو۔ ہماری عقل ناقص ہے آپ نے کئی دفعہ یہ نوٹ کیا ہوگا ایک بات کو ہم اپنے لیئے صحیح سمجھ رہے ہوتے ہیں پر وہ آگے چل کر غلط ثابت ہوجاتی ہے ۔ ایمان لانے کا مطلب ہی یہ ہے کہ بس جو اللہ اور اسکاے رسول(ص) تمکو دیں وہ لے لو جس سے منع کریں اس سے رک جائو۔ اگر آپ اللہ کی جائز کی ہوئی کسی بھی چیز کو اپنی عقل کے فیصلے کے حساب سے ناجائز قرار دے رہے ہیں تو بھائی پھر ہر معاملہ میں ایسا ہی کریں کیوں پھر احادیث کی کتابیں دیکھتے ہیں۔
اگر آپ اسکو بے حیائی سمجھتے ہیں تو پھر اسلام نے کنیز سے تو بغیر کسی نکاح کے تعلقات کو جائز قرار دیا ہے اور بغیر طلاق کے وہ اسکو کسی دوسرے کو بخش سکتا ہے یا بیچ سکتا ہے۔ کسی کی ماں بہن ابھی آزاد ہیں تووہ یہ سب سوچ سکتا ہے پر اگر وہ آج سے 1400 سال پہلے ایک کنیز ہوتیں تو پھر اسکی غیرت کہاں ہوتی ۔
یاد کریں صلح حدیبیہ کی شرائط پر حضرت عمر کو شدید اختلاف تھا کیوں کہ ساری ہی بظاہر مسلمانوں کے خلاف لگ رہی تھیں وہ اپنی عقل کے حساب سے سوچ رہے تھے ۔
اگر کسی بات کو غلط ثابت کرنا ہے تو کوئی دلیل لائیں جیسا اللہ نے قران میں کہا ہے کہ اگر تم سچے ہو تو دلیل لائو۔ آپ میں سے ہر کچھ دن بعد ایک شخص کھڑا ہوتا ہے اور اللہ اور رسول(ص) کا حکم ماننے کے بجائے ایک نئی بحث شروع کر کے حضرت عمر کے ایک غلط فیصلے کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اور اسطرح ایک جانچ بھی ہم کر رہے ہیں کہ آپ کے نزدیک اللہ اور رسول(ص) کا حکم زیادہ ہے یا حضرت عمر کا
رسول اللہ کی آڑ میں سیدنا عمر سے بغض خوب نکالا ۔ کاش یہ ہتھکنڈے ہم پر بھی حلال ہوتے ۔ آپ ہوتے کون ہے بے تکی تاویلوں اور جھوٹی تاریخ کے سہارے سے سیدنا عمر جیسی شخصیت پر اعتراض کرنے والے ؟ ذرا سوچ سمجھ کر مراسلہ لکھا کیجئے وگرنہ موضوع بدل جاتا ہے دھاگہ مقفل ہو جاتا ہے اور آپ جیسے لوگ انگلیاں چباتے رہ جاتے ہیں۔
 

dxbgraphics

محفلین
بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ اب آپ لوگوں نے ایسی گھٹیا حرکتیں بھی شروع کردیں یہ جو سب آپ نے بھیجا ہے بہتر ہے اسکے متعلق اپنے ہی کسی ایسے سنی بھائی سے تصدیق کرلیتے جو شیعہ حضرات کے ساتھ بہت رہا ہو یا جس کے گھر کے قریب شب بیداریاں ہوتی ہوں کہ شب بیداری اور انجمنوں کی ماتم زنی کیا ہوتی ہے اور یہ آپ کے لیئے کوئی ایسا مشکل بھی نہیں ہے آج جکل ہر ہفتہ کے روز کہیں نہ کہیں شب بیداری ہوتی ہے جس میں پہلے مجلسِ حسین(ع) ہوتی ہے بعد میں ساری رات مختلف انجمنیں نوحہ خوانی اور سینہ زنی کرتی ہیں آپ نے یا جن سے آپ نے یہ سب خرافات شیعوں کو بدنام کرنے کیلیئے لی ہیں وہ دراصل بہت سارے ٹوٹوں کو ایک ساتھ ملا کر یا تو فوٹو کاپی کی گئی ہے یا ایڈٹنگ کا فن آزمایا گیا ہے ۔ آپ اس میں با آسانی دیکھ سکتے ہیں کہ ایک عبارت دوسری عبادت سے نہیں ملتی۔ ایک عبارت ہے جس میں شبِ بیداری کی طرف بلایا گیا ہے اور صاف لکھا ہے کہ یہ ساری انجمنیں جن کی لسٹ دی ہوئی ہے یہ ساری رات نوحہ خوانی کریں گی دوسری طرف سپاہِ صحابہ کی ایک تحریر ہے جو اس نے کافی پہلے متعہ کے خلاف لگائی تھی اسکا ٹوٹا ہے دونوں کو اتنی خوبصورتی سے ملایا گیا ہے کہ ایک لگے۔ بالکل اسے طرح جس طرح ان لوگوں نے یو ٹیوب پر آوارہ لڑکیوں کو ڈانس کرتے دکھایا اور کہا کہ یہ خمینی صاحب کی بیٹیاں رقص کر رہی ہیں اب جس نے انکی صاحبزادی کو نہیں دیکھا ہوگا وہ تو یقین کرلے گا کیونکہ مخالف فرقہ کے ایک بہت بڑے عالم کو بدنام کرنے کا موقعہ ہاتھ آیا ہے تو وہ تو تحقیق بھی نہیں کرے گا کہ انکی بیٹی ہے بھی یا نہیں۔
ایک بڑی غلطی اس میں آپ اور کرگئے کہ اتنا بڑا اشتہار چھاپا گیا اور کوئی تاریخ یا ٹائم نہیں لکھا گیا جبکہ آپ ہماری شبِ بیداریوں کہ اشتہار دیکھ لیں ان میں دن تاریخ وقت کے ساتھ ساتھ اسلامی تاریخ بھی ضرور لکھی جاتی ہے کہ فلاں محرم یا فلاں صفر ۔ سچ ہے نقل کے لیئے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے ۔آپ سب کو پتا ہے کہ ایامِ عزا یعنی محرم اور صفر میں ہم نہ تو شادیاں کرتے ہیں نہ ہی کوئی خوشی مناتے ہیں ہم تو لال کپڑے تک نہیں پنہنتے کسی کو کسی خوشخبری پر مبارکباد تک نہیں دیتے اور یہ سب ہمارے ان سب سنی بھائیوں کو پتا ہے جن کا اٹھنا بیٹھنا شیعوں کہ ساتھ ہے ۔میں تو سمجھ رہا تھا کہ اردو محفل میں بہت بردبار لوگ ہیں پر اس گھٹیا حرکت پر مجھ کو بہت افسوس ہوا کہ اب اسطرح کے ہتھکنڈے استعمال کیئے جارہے ہیں اور ایڈمن جسنے ذراسی بات پر کشفی پر پابندی لگادی تھی اس بات پر کچھ نہیں کیا گیا۔ جب کہ یہاں کے سارے پیغام انتظامیہ کے بعد ہی یہاں پنہچتے ہیں۔
اب میں اب اپنے ان سنی بھائیوں سے جنکے کافی دوست شیعہ ہیں اور وہ ہمارے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں سوال کروں گا کہ کیا انہوں نے اس سے پہلے شیعوں کی طرف سے ایسا اشتہار کبھی پڑھا ہے ؟ مختلف اخباروں میں بھی آج کل روز ہی مجلسوں یا شب بیداری کہ اشتہارات آتے ہیں کیا آپ سب نے ایسا اشتہار کبھی دیکھا؟ اہل تشیع نے اپنے عقئد کسی سے چھپائے ہوئے نہیں ہیں جیسے ہمارے بعض اسلامی فرقوں نے چھپائے ہوئے ہیں اب جب چاہیں جس مسجد یا امام بارگاہ میں جاسکتے ہیں اور جو ہوتا ہے دیکھ سکتے ہیں۔ میں تو خوش تھا کہ اب ایسے بہتان آپس میں میل جول کی وجہ سے اپنی موت آپ مر چکے ہیں پر لگتا ہے ابھی تک بہت سے جاہل موجود ہیں ۔ جسطرح شامِ غریباں‌وغیرہ کے متعلق بہت سی باتیں پھیلائی گئیں تھیں پر اب تو ہر چینل پر شامِ غریباں نشر ہوتی ہے ۔ بیچارے پروفیسر کرار حسین تو کب کے مر حوم بھی ہوچکے ہیں انکو بھی گھسیٹ لیا ۔

بھائی صاحب اتنی دور جانے کی ضرورت نہیں مجھ سے ہی کم از کم پوچھ لیجئے۔ میں اہل تشیع امام باڑے کی گلی میں تقریبا 12 سال رہ چکا ہوں۔
 

dxbgraphics

محفلین
بھائی اللہ آپ کو ہدایت دے آپ شیعوں کے جتنے بھی بڑے دشمن صحیح پر مسلمان تو ہیں نا ظاہر ہے آپ کو پتا ہوگا کہ بہتان کتنا بڑا گناہ ہے ۔ آپ نے بغیر تحقیق کہ یہ سب باتیں کیسے مان لیں کیا آپ کو اس رقعہ میں جو پیوند کاری ہے وہ صاف صاف نظر نہیں آرہی کوئی پانچ چھ جگہ سے ٹکڑے جوڑے ہوئے صاف نظر آرہے ہیں کسی کی دشمنی میں اتنا آگے نہ جائیں کہ خدا نا کرے آیات قرانی کے مصداق بد گمانی کرنے سے آپ کے اعمال اسطرح رد کردیئے جائیں کے آپ کو خبر نہ ہو۔ متعہ سے متعلق آپ کو احادیث سے اختلاف ہوسکتا ہے پر اس حدیث سے تو اختلاف نہ ہوگا نا کہ ایک انسان کہ جھوٹا ہونے کہ لیئے صرف یہ ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے آگے بڑھادے ۔ بس اللہ آپ پر رحم ہی کرے

جناب تحقیق کے بعد ہی کچھ کہنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ اصول کافی مطبوعہ لاہور میرے پاس اردو میں موجود ہے اور باب المتعہ سے میں اس کی تصدیق کر چکا ہوں۔
 

dxbgraphics

محفلین
اس موقع پر ہمیں وہی کچھ کرنا جو ائمہ اہلبیت علیھم السلام نے کیا تھا جب ایک شخص عبداللہ ابن عمیر پہلے ان سے بدزبانی کرتا رہا، مگر چونکہ اسلامی مسائل کا جواب دینا "فرض" ہے اس لیے امام جواب دیتے رہے، مگر جب وہ اسلامی مسئلہ سے ہٹ کر ذاتیات پر اتر آیا تو امام کی سنت ہے ایسے لوگوں سے منہ پھیر لو کہ یہ بس فتنہ پھیلانا چاہتے ہیں، نہ کہ دین کا علم حاصل کرنا۔

روایت یہ ہے:
"عبداللہ ابن عمیر امام ابو جعفر علیہ السلام کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ آپ متعہ النساء کے متعلق کیا کہتے ہیں؟ امام نے جواب دیا:"اللہ تعالی نے عقد المتعہ کو کتاب اللہ میں حلال فرمایا ہے، اور پھر رسول اللہ ص کی لسان مبارک سے اسے حلال قرار دلوایا ہے، چنانچہ یہ قیامت تک حلال ہے۔"
اس پر یہ شخص (عبداللہ ابن عمیر) امام سے زبان درازی کرنے لگا کہ فلاں فلاں شخص نے تو اس سے منع کیا تھا۔ اس پر امام نے جواب دیا کہ چاہے کسی شخص نے اس سے منع کیا ہو (مگر یہ حلال ہے۔ اس پر یہ شخص کہنے لگا کہ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ تم ایسی چیز کو حلال بیان کر رہے ہو کہ جس سے فلاں فلاں شخص نے منع کر دیا تھا۔ اس کی اس بدزبانی پر امام نے اسے کہا کہ (جاؤ اور جا کر) اپنی صاحب کی بات پر قائم رہو جبکہ حق وہ بات ہے جو کہ رسول اللہ ص نے فرمائی ہے اور اسکے مقابلے میں کسی اور کی بات باطل ہے۔
اس پر عبداللہ ابن عمیر (ذاتیات پر اتر آیا اور امام سے کہنے لگا) کیا تم اس پر خوشیاں مناؤ گے کہ تمہاری عورتیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور تمہارے عم کی بیٹیاں متعہ کریں؟
اس پر امام نے (اس بدزبانی کا جواب دینے کی بجائے) اپنا منہ پھیر لیا۔
۱۔ التہذیب، جلد 2، صفحہ 186
2۔ فروع الکافی، جلد 2، حدیث 4

چنانچہ بات صرف اُس وقت تک ہے جبتک اسلامی مسئلہ پوچھا جا رہا ہے کہ اسکا بتانا واجب و فرض ہے۔ مگر جب کوئی بدزبان استہزاء کرنے کے لیے ذاتیات پر اتر آئے تو اپنا منہ پھیر لو اور اسکے بعد ایسے استہزاء کرنے والوں سے کوئی بات نہیں ہے۔

اگر کوئی آپ سے آپ کی بہن یا بیٹی کے بارے میں متعہ کی خواہش ظاہر کرے تو کیا آپ اس کی اجازت دینگی۔
براہ مہربانی تقیہ نہ کیجئے گا اور جو آپ کے دل پر گزر رہی ہے اس کے مطابق جواب دیجئے گا۔
نیز میرے اس سوال کو فرقہ واریت نہ سمجھا جائے ۔ میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اس کو حلال کرنے والے اپنے اہل و عیال کے بارے میں اسے کس تناظر میں دیکھتے ہیں
 
ش

شوکت کریم

مہمان
یہاں ایک مسئلہ اٹھتا ہے اور وہ یہ کہ اسلام حکومت وقت اور حاکم وقت کو چند اختیارات دیتا ہے کہ حالات کے تحت وہ "معاملات" والے اسلامی اصولوں میں اضافہ و کمی کر سکتا ہے۔
مثلا آجکل کی اسلام حکومتوں نے لازم کر دیا ہے کہ نکاح کیا جائے تو نکاح فارم بھرا جائے اور اسکی رجسٹریشن کروائی جائے۔ اب یہ شرط بالکل ٹھیک ہے کیونکہ حاکم اور حکومت وقت کو ایسے اقدامات کی اجازت ہے۔
چنانچہ اس چیز پر تلوار اٹھانے کا سوال پیدا نہیں ہوتا، بلکہ حضرت عمر کی اس ذاتی رائے سے حضرت علی نے کھل کر اختلاف کیا (اور یہ آپکی اپنی کتب میں ہے) اور فرمایا کہ اگر حضرت عمر متعہ النساء کی ممانعت نہ کرتے تو کوئی زنا نہ کرتا سوائے شقی القلب شخص کے۔

مثال آپ کچھ دے رہی ہیں اور واقع کچھ ہے جن اختیارات کا آپ نے ذکر کیا وہ حاکم وقت کو حاصل ہوتےہیں مگر اس مثال کو آپ جس واقعے کی طرف دے رہی ہیں وہ حاکم وقت کے اختیار سے باہر ہے ۔ وہ مسئلہ ہے حرام و حلال کا ۔ حرام وہی ہے جس کو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کیا اور حلال وہی ہے جس کو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال کیا۔ قیامت تک اس میں کوئی تبدیلی کا مختار نہیں۔

دوسرے لفظوں میں‌ آپ کہنا چاہتی ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حلال عورت کو حرام کیا۔ یہ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اختیار میں نہیں تھا اور نہ انہوں نے کیا۔ اور اگر آپ کے نزدیک ایسیا ہوا تو تمام صحابہ بشمول حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خاموشی کیا معنی رکھتی ہے ؟؟؟

جبکہ ہم جانتے ہیں کہ ایک عورت تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے کو ٹوک کر بتا دیتی ہے۔

حدیث نمبر : 6814
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبردی، کہا ہم کو یونس نے خبردی، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا، ان سے حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما نے کہ قبیلہ اسلم کے ایک صاحب ماعز نامی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور کہا کہ میں نے زنا کیا ہے۔ پھر انہوں نے اپنے زنا کا چار مرتبہ اقرار کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے رجم کا حکم دیا اور انہیں رجم کیاگیا۔ وہ شادی شدہ تھے۔

حدیث نمبر : 6824
مجھ سے عبداللہ بن الجعفی نے بیان کیا، کہا ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، کہاہم سے ہمارے والد نے کہا کہ میں نے یعلیٰ بن حکیم سے سنا، انہوں نے عکرمہ سے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب حضرت ماعز بن مالک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا غالباً تو نے بوسہ دیا ہوگا یا اشارہ کیا ہوگا یا دیکھا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کیا پھر تو نے ہم بستری ہی کرلی ہے؟ اس مرتبہ آپ نے کنایہ سے کام نہیں لیا۔ بیان کیا کہ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رجم کا حکم دیا۔

صحیح بخاری کتاب المحارمین

Book 17. Punishments Prescribed By Islam.
Hadith 4196. (Shahi Muslim)
Abu Huraira reported that a person from amongst the Muslims came to Allah's Messenger (may
peace be upon him) while he was in the mosque. He called him saying: Allah's Messenger. I have
committed ADULTERY. He (the Holy Prophet) turned away from him, He (again) came round
facing him and said to him: Allah's Messenger, I have committed ADULTERY. He (the Holy
Prophet) turned away until he did that four times, and as he testified four times against his own
self, Allah's Messenger (may peace be upon him) called him and said: Are you mad? He said: No.
He (again) said: Are you married? He said: Yes. Thereupon Allah's Messenger (may peace be upon
him) said: Take him and stone him. Ibn Shihab (one of the narrators) said: One who had heard
Jabir b. 'Abdullah saying this informed me thus: I was one of those who stoned him. We stoned
him at the place of prayer (either that of 'Id or a funeral). When the stones hurt him, he ran away.
We caught him in the Harra and stoned him (to death). This hadith has been narrated through
another chain of transmitters.


Book 17. Punishments Prescribed By Islam.
Hadith 4198. (Shahi Muslim)
Jabir b. Samura reported: As he was being brought to Allah's Apostle (may peace be upon him) I
saw Ma'iz b. Malik a short-statured person with strong sinews, having no cloak around him. He
bore witness against his own self four times that he had committed ADULTERY, whereupon Allah's
Messenger (may peace be upon him) said: Perhaps (you kissed her or embraced her). He said: No.
by God, one deviating (from the path of virtue) has committed ADULTERY. He then got him
stoned (to death), and then delivered the address: Behold, as we set out for Jihad in the cause of
Allah, one of you lagged behind and shrieked like the bleating of a male goat, and gave a small
quantity of milk. By Allah, in case I get hold of him, I shall certainly punish him.

Book 17. Punishments Prescribed By Islam.
Hadith 4199. (Shahi Muslim)
Jabir b. Samura reported that there was brought to Allah's Messenger (may peace be upon him) a
short-statured person with thick uncombed hair, muscular body, having a mantle around him and
he had committed ADULTERY. He turned him away twice and then made pronouncement about
him and he was stoned. Then Allah's Messenger (may peace be upon him) said: We set out for
Jihad in the cause of Allah and one of you lagged behind and shrieked like the bleating of a male
goat and one of then (goats' gave a small quantity of milk. In case Allah gives me power over one
of them, I will punish him (in such a way that it may have a deterrent effect upon others). In
another narration transmitted on the authority of Sa'id b Jubair (the words are), that He (the Holy
Prophet) turned him away four times."

Book 17. Punishments Prescribed By Islam.
Hadith 4202. (Shahi Muslim)
Abu Sa'id reported that a person belonging to the clan of Aslam, who was called Ma,iz b. Malik,
came to Allah's Messenger (may peace be upon him) and said: I have committed immorality
(ADULTERY), so inflict punishment upon me. Allah's Apostle (may peace be upon him) turned him
away again and again. He then asked his people (about the state of his mind). They said: We do
not know of any ailment of his except that he has committed something about which he thinks that
he would not be able to relieve himself of its burden but with the Hadd being imposed upon him.
He (Ma'iz) came back to Allah's Apostle (may peace be upon him) and he commanded us to stone
him. We took him to the Baqi' al-Gharqad (the graveyard of Medina). We neither tied him nor dug
any ditch for him. We attacked him with bones, with clods and pebbles. He ran away and we ran
after him until he came upon the stone ground (al-Harra) and stopped there and we stoned him
with heavy stones of the Harra until he became motionless (lie died). He (the Holy Prophet) then
addressed (us) in the evening saying Whenever we set forth on an expedition in the cause of Allah,
some one of those connected with us shrieked (under the pressure of sexual lust) as the bleating
of a male goat. It is essential that if a person having committed such a deed is brought to me, I
should punish him. He neither begged forgiveness for him nor cursed him.

Book 41. The Mudabbar.
Hadith 002. (Maliks Muwatta)
ab that a man from the Aslam
tribe came to Abu Bakr as-Siddiq and said to him, "I have committed ADULTERY." Abu Bakr said
to him, "Have you mentioned this to anyone else?" He said, "No." Abu Bakr said to him, "Then
cover it up with the veil of Allah. Allah accepts tawba from his slaves." His self was still unsettled,
so he went to Umar ibn al-Khattab. He told him the same as he had said to Abu Bakr, and Umar
told him the same as Abu Bakr had said to him. His self was still not settled so he went to the
Messenger of Allah, may Allah bless him and grant him peace, and said to him, "I have committed
ADULTERY," insistently. The Messenger of Allah, may Allah bless him and grant him peace,
turned away from him three times. Each time the Messenger of Allah, may Allah bless him and
grant him peace, turned away from him until it became too much. The Messenger of Allah, may
Allah bless him and grant him peace, questioned his family, "Does he have an illness which affects
his mind, or is he mad?" They said, "Messenger of Allah, by Allah, he is well." The Messenger of
Allah, may Allah bless him and grant him peace, said, "Unmarried or married?" They said,
"Married, Messenger of Allah." The Messenger of Allah, may Allah bless him and grant him peace,
gave the order and he was stoned.

WWW.HADITHONLINE.COM

مندرجہ بالا حدیثیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں دی گئ زنا کی سزا سے متعلق ہیں۔ جن کو پڑھ کر ذہن میں‌ چند سوال اٹھتے ہیں‌ ؟؟؟

1۔ بقول آپکے جب متعہ کی اجازت تھی تو ان صحابہ نے زنا کیوں کیا ؟؟؟؟

2۔ یہ حضرات شقی القلب میں بھی نہیں آتے کیوں‌ کہ انہوں‌ نےخود اپنے گناہ کا اقرار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےسامنے کیا ؟؟؟

اور ایک حدیث مسند امام احمد سے

مسند امام احمد میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے زنا کی اجازت دے دیجئے۔ حاضرین نے ڈانٹ بتلائی کہ (پیغمبر خدا کے سامنے ایسی گستاخی ؟) خبردار چپ رہو ۔ حضور ﷺ نے اس کو فرمایا کہ میرے قریب آؤ ، وہ قریب آ کر بیٹھا تو آپ نے فرمایا کہ کیا تو یہ حرکت اپنی ماں ،بیٹی ، بہن ، پھوپھی ، خالہ میں سے کسی کی نسبت کرنا پسند کرتا ہے ؟ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! خدا مجھ کو آپ پر قربان کرے ، ہر گز نہیں۔ فرمایا دوسرے لوگ بھی اپنی ماؤں ، بیٹیوں ، بہنوں ، پھوپھیوں اور خالاؤں کے لئے یہ فعل گوارا نہیں کرتے ۔ پھر آپ نے دعا فرمائی کہ الہٰی اس کے گناہ کو معاف فرما اور اس کےدل کو پاک اور شرمگاہ کو محفوظ کر دے “۔ ابو امامہ فرماتے ہیں کہ اس دعا کے بعد اس شخص کی یہ حالت ہو گئی کہ کسی عورت وغیرہ کی طرف نگاہ اٹھا کر نہ دیکھتاتھا۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر اس دور میں متعہ کی اجازت عام تھی تو اس صحابی نے زنا کی اجازت کیوں‌مانگی متعہ کی کیوں نہ مانگی یا متعہ کیوں نہ کیا۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
حکومت وقت یا حاکم وقت کو صرف اور صرف "معاملات" میں اجازت ہے کہ حالات کے مطابق تبدیلی کر سکیں۔
مگر جب بات آتی ہے عبادات کی تو اس میں کوئی حکومت وقت یا حاکم وقت مداخلت کرنے کا حق نہیں رکھتا۔

چنانچہ عقد المتعہ کے معاملے میں ہمارا حضرت عمر سے فقط اتنا اختلاف ہے کہ ہم انکی ذاتی رائے کو غلطی مانتے ہیں، جبکہ "متعہ الحج" کے معاملے میں ہمیں انتہائی بڑا اعتراض ہے کیونکہ یہ "عبادات" کا معاملہ ہے اور اس میں حاکم کو دخل دینے کا ہرگز کوئی حق نہیں۔ چنانچہ اس مسئلےمیں آپ کو حضرت علی کی مخالفت بالکل صاف نظر آ جائے گی۔

اب اس پر کیا کہا جائے سوائے اس کے کہ

اس سادگی پہ کوں نہ مر جائے اے خُدا! لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

یہ تو نہایت عام فہم سی بات ہے کہ بقول آپلے متعہ کو اللہ تعالٰی نے حلال کیا، اور اس کا نسخ بھی قرآن و حدیث‌ میں نہیں پھر جناب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالٰی کے حلال کئے ہوئے کو حرام کیا اور آپ کہہ رہی ہیں یہ معاملات کا معاملہ تھا۔ اجی یہ حلال و حرام کا معاملہ تھا اور ہے پورے معاشرے کو تہہ و بالا کرنے والی بات‌ ؟؟؟

اور حرام و حلال پر تو مخالفت ہوئی نہیں اور عبادت پر مخالفت !!!

آپ کہاں کہاں سے لیپا پوتی کریں گی اس متعہ کی متروکہ عمارت کو کبھی خوشنما بنا نہیں سکتیں۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
اب میں اب اپنے ان سنی بھائیوں سے جنکے کافی دوست شیعہ ہیں اور وہ ہمارے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں سوال کروں گا کہ کیا انہوں نے اس سے پہلے شیعوں کی طرف سے ایسا اشتہار کبھی پڑھا ہے ؟ مختلف اخباروں میں بھی آج کل روز ہی مجلسوں یا شب بیداری کہ اشتہارات آتے ہیں کیا آپ سب نے ایسا اشتہار کبھی دیکھا؟ اہل تشیع نے اپنے عقئد کسی سے چھپائے ہوئے نہیں ہیں

قسم ہے رب کعبہ کی سکول سے کالج اور پھر یونیورسٹی اور پھر عملی زندگی میں آج تک کسی اہل تشیع نے متعہ کا اقرار بھی نہ کیا ؟؟؟ اور اکثر ایسا لگا کہ اگر میں زیادہ اصرار کروں گا تو یہیں شیعہ سنی فساد شروع ہو جائے گا۔ اس سے پہلے صرف سنتے تھے۔ یہ تو اس صدی کی ایجاد کمپیوٹر اور پھر نیٹ کی ضو افشانیاں ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ فقط اردو یا انگلش یا عربی میں متعہ لکھ کر سرچ کریں اور پھر دیکھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپکی زندگی ختم ہو جائے گی۔ مواد ختم نہیں ہوگا۔

اور خیر سے اب تو متعہ میچ میکر سائٹس بھی بن گئ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور لگتا ہے کہ نبی کا فرمان پورا کرنے کا سامان کیا جارہے۔ کہ جب تک زنا اتنا عام نہ ہو جائے کہ دیکھنے والا یہ کہے کہ بھائی کسی کنارے چلے جاو بیچ چوراہے پر تو یہ کام نہ کرو قیامت برپا نہ ہو گی۔

لیکن دوستوں کے لئے اچھی خبر ہے کہ اتنی پبلسٹی کے باوجو متعہ میچ میکر پر صرف 3 خواتین وہ بھی مغربی علاقوں کے سوا کسی نے اپنے کو پیش نہیں‌ کیا ؟؟؟

مرد حضرات خیر سے 103 ہیں ۔۔۔۔۔ اور مجھے نہیں لگتا کہ اور یقین ہے ہمارے معاشرے سے کبھی کوئی عورت اس میچ میکر پر رجسٹرڈ ہو۔ اور جب ہو تو پھر حضرات سمجھ لیں ۔۔۔۔۔۔۔ کہ رب کائنات ہم سے مایوس ہو چکا ۔۔۔۔۔ پھر انتظار ۔۔۔۔۔۔۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top