مثال آپ کچھ دے رہی ہیں اور واقع کچھ ہے جن اختیارات کا آپ نے ذکر کیا وہ حاکم وقت کو حاصل ہوتےہیں مگر اس مثال کو آپ جس واقعے کی طرف دے رہی ہیں وہ حاکم وقت کے اختیار سے باہر ہے ۔ وہ مسئلہ ہے حرام و حلال کا ۔ حرام وہی ہے جس کو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کیا اور حلال وہی ہے جس کو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال کیا۔ قیامت تک اس میں کوئی تبدیلی کا مختار نہیں۔
دوسرے لفظوں میں آپ کہنا چاہتی ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حلال عورت کو حرام کیا۔ یہ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اختیار میں نہیں تھا اور نہ انہوں نے کیا۔ اور اگر آپ کے نزدیک ایسیا ہوا تو تمام صحابہ بشمول حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خاموشی کیا معنی رکھتی ہے ؟؟؟
شوکت بھائی،
آپ کو پہلے "حرام کرنے" اور "منع کرنے" کا فرق پتا ہونا چاہیے۔ حضرت عمر نے کچھ چیزوں سے بطور حاکم منع کیا تھا، مگر کبھی انہیں رسول اللہ ص کی طرف منسوب کر کے حرام نہیں قرار دیا تھا (جیسا کہ بعد میں آنے والوں نے کیا ہے)
۔ اور اب یہ سمجھیں کہ میں نے ایک حقیقت بیان کی ہے جو کہ آپکی کتب سے ایسی مصدقہ طور پر ثابت ہے کہ جسے آپ جھٹلا نہیں سکتے۔ تو جب آپکے لیے ممکن نہ ہو سکا کہ انکا براہ راست جواب دے سکیں، تو اب آپ اپنی قیاسی عذر پیش کر کے ان حقائق کو جھٹلانا چاہتے ہیں جو کہ ممکن نہیں ہے۔
1۔ چنانچہ سب سےپہلے آپ کو اس حقیقت کے متعلق ہاں یا ناں میں جواب دینا ہے کہ یہ واقعات ہوئے ہیں یا نہیں ہوئے ہیں۔ میں نے اپنی پچھلی پوسٹ میں یہ دو روایات پیش کی تھیں:
Sahih Muslim, Book 007, Number 2816:
Sa'id b. al-Musayyab reported that 'Ali and 'Uthman (Allah be pleased with them) met at 'Usfan; and Uthman used to forbid (people) from performing Tamattu' and 'Umra (during the period of Hajj), whereupon 'Ali said: What is your opinion about a matter, which the Messenger of Allah (may peace be upon him) did but you forbid it? Thereupon Uthman said: You leave us alone, whereupon he ('Ali) said: I cannot leave you alone. When 'Ali saw this, he put on Ihram for both of them together (both for Hajj and 'Umra).
Sahih Bukhari, Volume 2, Book 26, Number 640
Narrated Said bin Al-Musaiyab:
'Ali and 'Uthman differed regarding Hajj-at-Tamattu' while they were at 'Usfan (a familiar place near Makka). 'Ali said, "I see you want to forbid people to do a thing that the Prophet did?" When 'Ali saw that, he assumed Ihram for both Hajj and 'Umra
اب صحابی عمران بن حصین کی گواہی دیکھیں:
حدثنا مسدد حدثنا يحيى عن عمران أبي بكر حدثنا أبو رجاء عن عمران بن حصين رضي الله عنهما قال
أنزلت آية المتعة في كتاب الله ففعلناها مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ولم ينزل قرآن يحرمه ولم ينه عنها حتى مات قال رجل برأيه ما شاء [
صحیح بخاری لنک ]
ترجمہ:
صحابی عمران بن حصین کہتے ہیں:"آیت متعہ قرآن میں نازل ہوئی اور ہم رسول اللہ ص کے عہد میں متعہ کرتے تھے اور قرآن میں اسکے بعد کچھ اور نازل نہیں ہوا جو اس کی ممانعت کرتا اور نہ ہی رسول اللہ ص نے اسکی ممانعت کی حتی کہ آپ ص کا انتقال ہو گیا۔ مگر اسکے بعد ایک شخص (عمر ابن الخطاب) نے اپنی مرضی سے جو چاہا وہ کہا۔
اگر آپ اس روایت کو عقد المتعہ کے لیے مانیں تو بات ایسے ہی ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر آپ اصرار کریں کہ یہ متعہ الحج کے متعلق ہے تو پھر بھی یہ روایت آپکا گلا چھوڑنے والی نہیں
اور آپکو بتلانا ہو گا کہ قرآن کی یہ مخالفت کی گئی اور پھر اس صحابی عمران بن حصین نے تلوار نہیں نکالی؟ کیوں؟
روایت آپکی مگر اس کیوں کا جواب کبھی آپ نہیں دیتے اور الٹا ہم پر برس پڑتے ہیں کہ ہم جواب دیں۔ اور ہم جو جواب دیں اس کا آپ استہزاء کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ آپ یہ تمام تر Tactics استعمال کر سکتے ہیں، مگر اپنی جان پھر بھی ان روایتوں سے نہیں چھڑا سکتے اور بہرحال آپکو تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ واقعہ ہوا اور صحابہ نے قرآن کی مخالفت ہوتے دیکھی مگر اس پر فورا تلوار نکال کر قتل عام شروع نہیں کر دیا، بلکہ ایسی حالت میں انہوں نے صرف زبان سے ان قرآن مخالف چیزوں کی مخالفت کی اور یہ مخالفت مستقل جاری رکھی اور یہی اسلام کے مفاد میں بہترین تھا بجائے تلواریں نکال کر اسلامی سلطنت میں خانہ جنگی پیدا کرنے کے۔
اور اب ذیل میں ایک اور روایت آپکے لیے، جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر اپنی رائے سے ان قرآنی احکامات میں تبدیلی کر رہے ہیں اور صحابہ انکے خلاف تلوار اٹھا کر قتل عام نہیں شروع کر دیتے:
Sahih Muslim, Book 007, Number 2814
Abu Musa, (Allah be pleased with him) reported that he used to deliver religious verdict in favour of Hajj Tamattu'. A person said to him: Exercise restraint in delivering some of your religious verdicts, for you do not know what the Commander of Believers has introduced in the rites (of Hajj) after you (when you were away in Yemen). He (Abu Musa, ) met him (Hadrat Umar) subsequently and asked him (about it), whereupon 'Umar said: I know that Allah's Apostle (May peace be upon him) and also his Companions did that (observed Tamattu'), but I do not approve that the married persons should have intercourse with their wives under the shade of the trees, and then set out for Hajj with water trickling down from their beads.
تو اب دکھلائیے کہ کہاں صحابہ تلوار نکال کر خون بہانا شروع کر رہے ہیں؟ آپ جو مرضی Tactics کھیل لیں، مگر اس روایت سے فرار ممکن نہیں کہ ایک طرف اس حقیقت کو بھی آپ قبول کریں یہ واقعہ ہوا، اور پھر دوسری طرف تلوار کا عذر پیش کر کے اسکا انکار بھی کر دیں۔
عبداللہ ابن عمر کی تلوار نکالنے کی بجائے اپنے والد کی زبانی مخالفت
کاش کہ آپ عبداللہ ابن عمر سے ہی کچھ سیکھ لیں، مگر اسکے لیے آپ کو اپنے قیاسی عذروں سے توبہ کر کے نصوص کی طرف توجہ دینا پڑی گی، اور ابتک آپ انہی نصوص سے بھاگتے چلے جا رہے ہیں:
[FONT=times new roman(arabic)]
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَهُ أَنَّهُ، سَمِعَ رَجُلاً، مِنْ أَهْلِ الشَّامِ وَهُوَ يَسْأَلُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ عَنِ التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ هِيَ حَلاَلٌ . فَقَالَ الشَّامِيُّ إِنَّ أَبَاكَ قَدْ نَهَى عَنْهَا . فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ أَبِي نَهَى عَنْهَا وَصَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَأَمْرَ أَبِي نَتَّبِعُ أَمْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ الرَّجُلُ بَلْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم . فَقَالَ لَقَدْ صَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم . قَالَ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ . [/FONT]
ترجمہ:
"
عبداللہ ابن عمر سے پوچھا گیا کہ وہ حج کے متعہ کے متعلق کیا کہتے ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا: یہ حلال ہے۔اس پر سوال پوچھنے والے نے کہا: مگر آپکے والد (حضرت عمر ابن الخطاب) تو اس سے منع کیا کرتے تھے (منع اور حرام میں فرق کیجئے)۔ اس پر عبداللہ ابن عمر نے جواب دیا: اگر میرا باپ کسی چیز سے منع کرے مگر اللہ کا رسول ص اس کا حکم دے تو مجھے پھر کس کی پیروی کرنی چاہیے ہے؟ کیا میں رسول اللہ ص کے حکم کو مانوں یا پھر اپنے باپ کی بات کو؟ اس پر وہ شخص بولا: بے شک پھر (صرف) اللہ کے رسول ص کے حکم کی پیروی کرنا ہے۔
حوالہ: آنلائن سنن ترمذی، حدیث 832
دیکھا آپ نے کہ صحابی عبداللہ ابن عمر اللہ اور اسکے رسول کے قول کو اولین ترجیح دے رہے ہیں اور حضرت عمر یعنی اپنے والد کی رائے کو اسکے مقابلے میں قبول نہیں کر رہے۔ کاش کہ آپ لوگ بھی یہ رویہ اپنا سکیں اور حضرت عمر کا نام آتے ہی جذباتی ہونے کی بجائے اپنے ہوش و حواس کو قائم رکھتے ہوئے قرآن وسنت نبوی کے پیمانے پر چیزوں کو ٹھنڈے دل و دماغ سے ناپ سکیں۔
علامہ ابن قیم الجوزیہ بھی اسی اپنی کتاب زاد المعاد میں یہی روایت نقل کرتے ہیں:
وقال عبد الله بن عمر لمن سأله عنها وقال له : إن أباك نهى عنها : أأمر رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم أحق أن يتبع أو أمر أبي ؟
یعنی کسی نے عبداللہ ابن عمر سے متعہ کے متعلق سوال کیا کہ آپکے والد تو اس سے منع کرتے ہیں، تو اس پر عبداللہ ابن عمر نے اُسے جواب دیا کہ کیا رسول اللہ ص کا حکم اس بات کا زیادہ حق نہیں رکھتا کہ اسکی پیروی کی جائے یا پھر میرے باپ کے حکم کی؟
حوالہ:
زاد المعاد، جلد 2، صفحہ 176
اور یہی عبداللہ ابن عمر تھے کہ جب ان سے عورتوں کے ساتھ عقد المتعہ کے متعلق پوچھا جاتا ہے تو یہ پھر سے غضبناک ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے رسول ص کے زمانے میں زناکار نہیں تھے:
حدثنا عفان حدثنا عبيد الله بن إياد قال حدثنا إياد يعني ابن لقيط عن عبد الرحمن بن نعيم الأعرجي قال
سأل رجل ابن عمر وأنا عنده عن المتعة متعة النساء فغضب وقال والله ما كنا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم زنائين ولا مسافحين ثم قال والله لقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ليكونن قبل المسيح الدجال كذابون ثلاثون أو أكثر
قال أبي و قال أبو الوليد الطيالسي قبل يوم القيامة
ترجمہ: عفان نے عبید اللہ سے، انہوں نے ایاد سے، انہوں نے عبدالرحمن ابن نعیم سے روایت کی ہے: ایک شخص نے صحابی عبداللہ ابن عمر سے متعہ، متعہ النساء کے متعلق پوچھا۔
اس پر ابن عمر غصے ہو گئے اور قسم کہا کر کہنے لگے کہ ہم رسول اللہ (ص) کے زمانے میں زناکار و سفاح کار نہیں تھے۔ پھر آگے کہنے لگے کہ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے رسول (ص) کو فرماتے سنا ہے کہ دجال کے آنے سے قبل 30 کذاب آئیں گے۔
حوالہ: مسند احمد بن حنبل، جلد 2، حدیث 5546
یہی روایت مسند احمد بن حنبل میں ابو ولید سے بھی مروی ہے۔ [
حوالہ: مسند احمد بن حنبل، جلد 2، حدیث 5436]
تو اب دکھلائیے کہاں ہے وہ تلوار اور کہاں ہے وہ کشت و خون؟ مگر کیا آپکو یہ زبان سے مخالفت نظر آ رہی ہے کہ نہیں؟
حضرت عمر کی اپنی گواہی کہ رسول اللہ ص کے زمانے میں دو متعہ رائج تھے جنہیں وہ اپنی رائے سے منع کر رہے ہیں
[FONT=times new roman(arabic)] عن عمر قال: متعتان كانا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم انهى عنهما واعاقب عليهما: متعة النساء، ومتعة الحج. [/FONT]
[FONT=times new roman(arabic)] (أبو صالح كاتب الليث في نسخته، والطحاوي). [/FONT]
ترجمہ: حضرت عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ ص کے زمانے میں دو طرح کے متعہ رائج تھے، مگر میں ان دونوں کی ممانعت کرتا ہوں، اور یہ دو ہیں متعہ النساء اور متعہ الحج۔
حوالہ: آنلائن کنزالاعمال، حدیث 45715
مزید حوالے:
آنلائن احکام القرآن الجصاص، سورۃ النساء، باب المتعہ
تفسیر الکبیر، از امام فخر الدین کبیر رازی، صفحہ 42 اور 43
اور مسند امام احمد بن حنبل میں موجود ہے:
حدثنا بهز قال وحدثنا عفان قالا حدثنا همام حدثنا قتادة عن أبي نضرة قال قلت لجابر بن عبد الله
إن ابن الزبير رضي الله عنه ينهى عن المتعة وإن ابن عباس يأمر بها قال فقال لي على يدي جرى الحديث تمتعنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم قال عفان ومع أبي بكر فلما ولي عمر رضي الله عنه خطب الناس فقال إن القرآن هو القرآن وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم هو الرسول وإنهما كانتا متعتان على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم إحداهما متعة الحج والأخرى متعة النساء
ترجمہ: ۔۔۔ جب حضرت عمر خلیفہ ہوئے تو آپ نے لوگوں کو ایک خطبہ دیا: یہ قرآن وہی قرآن ہے اور رسول ص وہی رسول ص ہیں۔ اور رسول اللہ ص کے زمانے میں دو طرح کے متعہ رائج تھے، ایک متعہ النساء اور ایک متعہ الحج۔
حوالہ: آنلائن مسند احمد بن حنبل، جلد 1، حدیث 347
اب حضرت عمر کی اپنی گواہی کے بعد آپ کہاں جائیں گے؟ یا پھر ابھی بھی اپنے قیاسی گھوڑے دوڑاتے پھریں گے؟
روایات سے پتا چلتا ہے کہ حضرت عمر کی نظر میں کچھ وجوہات آ گئی تھیں کہ جن کی بنا پر انہوں نے رسول اللہ ص کے رائج کردہ ان دونوں متعوں سے منع کر دیا (متعہ الحج میں حضرت عمر کو یہ پسند نہ آیا کہ حج اور عمرے کے دوران لوگ اپنی بیویوں سے مباشرت کریں، اور متعہ النساء سے انہوں نے اپنی رائے سے اُس وقت منع کیا جب عمرو بن حریث کا واقعہ پیش آیا کہ جس کا ذکر آگے تفصیل سے آئے گا)۔
چنانچہ ہمارا اختلاف حضرت عمر سے فقط اتنا ہی ہے کہ جتنا کہ حضرت علی نے کیا اور وہ یہ کہ ہم ان دونوں معاملات میں انکی رائے کو صحیح نہیں مانتے۔ اور حضرت عمر کے مقابلے میں بعد میں آنے والوں سے ہمارا اختلاف زیادہ بڑا ہے کیونکہ انہوں نے کھل کر رسول اللہ ص پر جھوٹ باندھنا شروع کر دیا ہے کہ رسول اللہ ص نے عقد المتعہ کو حرام کیا۔ جبکہ حضرت عمر نے ایسا کوئی جھوٹ نہیں بولا بلکہ انہوں نے صاف صاف اس ممانعت کو اپنی ذاتی رائے قرار دیا۔
حضرت علی کی مخالفت
از شوکت کریم:
۔۔۔۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خاموشی کیا معنی رکھتی ہے ؟؟؟
میں نے بلاوجہ تو اس پر احتجاج نہیں کیا تھا کہ آپکی نظریں مسلسل ہمارے دلائل سے پھسل جاتی ہیں۔ خود تو آپ کی طرف سے دلیل آتی نہیں (سوائے قیاسات کے)، اور اگر ہم پیش کریں تو وہ آپکی نظر میں کوئی وقعت ہی نہیں رکھتی، تو اب خود بتلائیں کہ یہ بحث کیسے آگے بڑھے؟
اہل تشیع کی کتب کو چھوڑئیے، خود آپکی اپنی کتابوں میں حضرت علی کے متعلق صاف صاف لکھا ہے کہ آپ عقد المتعہ کو اللہ کی رحمت سمجھتے تھے اور حضرت عمر سے اس معاملے میں اختلاف کرتے تھے۔حضرت علی کے متعلق صاف صاف طور پر ہم یہ روایت پہلے پیش کر چکے ہیں:
حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن الْمُثَنَّى ,
قَالَ :
ثنا مُحَمَّد بْن جَعْفَر ,
قَالَ :
ثنا شُعْبَة ,
عَنْ الْحَكَم ,
قَالَ :
سَأَلْته عَنْ هَذِهِ الْآيَة : {
وَالْمُحْصَنَات مِنْ النِّسَاء إِلَّا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانكُمْ }
إِلَى هَذَا الْمَوْضِع : {
فَمَا اِسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ }
أَمَنْسُوخَة هِيَ ؟ قَالَ :
لَا .
قَالَ الْحَكَم :
قَالَ عَلِيّ رَضِيَ اللَّه عَنْهُ :
لَوْلَا أَنَّ عُمَر رَضِيَ اللَّه عَنْهُ نَهَى عَنْ الْمُتْعَة مَا زَنَى إِلَّا شَقِيّ [
تفسیر الطبری آنلائن لنک ]
عبد الرزاق اور ابو داؤد سے کتاب ناسخ میں درج ہے اور ابن جریر نے الحکم سے روایت کی ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ آیت متعہ منسوخ ہو چکی ہے، جس پر آپ نے کہا کہ نہیں (یہ منسوخ نہیں ہوئی) اور پھر کہا کہ علی ابن ابنی طالب نے فرمایا ہے اگر عمرعقد متعہ کی ممانعت نہ کر دیتے تو کوئی شقی القلب ہی ہوتا جو زنا کرتا۔
اس روایت کے راوی حضرات:
مُحَمَّد بْن الْمُثَنَّى (
امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ ثقہ ہیں)
، مُحَمَّد بْن جَعْفَر الهذلى (
امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ بہترین راوی ہیں)
شعبة بن الحجاج بن الورد العتكى الأزدى (
امام ذہبی کہتے ہیں یہ حدیث میں امیر المومنین ہیں)
،الحكم بن عتيبة الكندىہ (
امام ذہبی کہتے ہیں یہ ثقہ اور صاحب سنت ہیں)
اب آپ لوگ جواب میں دلیل لانے کی بجائے اپنے قیاسات لاتے پھریں تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔
جی ہاں، دلیل کیا پیش کرنی، ایک گھڑی ہوئی جھوٹی روایت پیش کر دی جاتی ہے کہ حضرت علی نے ابن عباس کو کہا تھا کہ رسول اللہ ص نے خیبر کے روز عقد متعہ کو تاقیامت منع کر دیا تھا۔ جی ہاں، بالکل جھوٹی گھڑی ہوئی روایت ہے اور حضرت علی پر جھوٹ ہے۔
سوال: اگر علی ابن ابی طالب نے ابن عباس کو واقعی خیبر میں متعہ کی رسول اللہ ص سے حرمت کا بتلا دیا تھا تو پھر ابن عباس اپنی زندگی کے آخر تک متعہ کے جواز کا فتوی کیوں دیتے رہے؟
انسان چالیں چلتا ہے، مگر اللہ سب سے بڑا تدبیر کرنے والا ہے۔
بہت سے صحابہ نے گواہیاں دیں کہ وہ رسول اللہ ص، پھر حضرت ابو بکر اور پھر اسکے بعد جناب عمر کی خلافت کے نصف یا آخر تک عقد متعہ کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت عمر نے عمرو بن حریث کے واقعے کے بعد اس کی ممانعت کر دی۔
اس پر بھائی لوگوں نے جھوٹا عذر گھڑا کہ رسول اللہ ص نے متعہ کی حرمت صحیح اور مکمل طور پر نہیں پہنچائی اس لیے یہ جانے انجانے میں ان تمام سالوں تک عقد المتعہ کے نام پر غلط کاری کرتے رہے۔
مگر انکا یہ بہانہ الٹا ان کے گلے صدیوں سے پڑا ہوا ہے کہ آپکا تو دعوی ہے کہ حضرت علی نے خصوصی طور پر عبداللہ ابن عباس کو رسول اللہ ص کی اس حرمت کا بتلایا تھا کہ خیبر میں رسول اللہ ص نے عقد المتعہ کو حرام کر دیا تھا۔ تو اب آپ ابن عباس کی "لاعلمی" کا کونسا بہانہ بنا سکتے ہیں؟
آپکی روایات کا اب ایک جم غفیر ہے جو ثابت کر رہا ہے کہ ابن عباس نے طویل زندگی پائی اور اپنی زندگی کے آخر تک (جب وہ نابینا ہو گئے) کسی ایسی رسول اللہ ص سے مروی حرمت کا دور دور تک پتا نہیں، اور اس لیے وہ مسلسل عقد المتعہ کے جواز میں فتوی دیتے رہے۔
بے شک و بلا شبہ تاریخ ایک ایسا TOOL ہے جو ایسی بہت سے جھوٹے اور گھڑے ہوئے قصوں کا قصہ ہی تمام کر دیتی ہے۔ (اسی لیے شاید بھائی لوگ سب سے زیادہ اس سے الرجک ہیں)
اب ذرا آنکھیں کھول کر پڑھئیے اپنی ہی کتاب کی صحیح روایت:
آنلائن لنک: صحیح مسلم، کتاب النکاح
و حدثني حرملة بن يحيى أخبرنا ابن وهب أخبرني يونس قال ابن شهاب أخبرني عروة بن الزبير
أن عبد الله بن الزبير قام بمكة فقال إن ناسا أعمى الله قلوبهم كما أعمى أبصارهم يفتون بالمتعة يعرض برجل فناداه فقال إنك لجلف جاف فلعمري لقد كانت المتعة تفعل على عهد إمام المتقين يريد رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال له ابن الزبير فجرب بنفسك فوالله لئن فعلتها لأرجمنك بأحجارك قال ابن شهاب فأخبرني خالد بن المهاجر بن سيف الله أنه بينا هو جالس عند رجل جاءه رجل فاستفتاه في المتعة فأمره بها فقال له ابن أبي عمرة الأنصاري مهلا قال ما هي والله لقد فعلت في عهد إمام المتقين قال ابن أبي عمرة إنها كانت رخصة في أول الإسلام لمن اضطر إليها كالميتة والدم ولحم الخنزير ثم أحكم الله الدين ونهى عنها
ترجمہ:
عروہ بن زبیر سے مروی ہے کہ عبداللہ ابن زبیر مکہ میں تقریر کرنے کے لیے کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ کچھ لوگوں (ابن عباس) کے دلوں کو اللہ نے اسی طرح اندھا کر دیا ہے جس طرح انکی آنکھوں کو اندھا کر دیا ہے کہ وہ متعہ کے جواز حق میں فتوی دیتے ہیں۔ یہ سن کر وہ بزرگ (ابن عباس) جوابا کہنے لگے کہ (اے ابن زبیر) تو بدمعاش مفسدہ پرواز ہے۔ اور میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں متعہ تمام متقیوں کے پیشوا اور امام یعنی رسالت مآب ﷺ کے سامنے کیا جاتا تھا۔ اس پر ابن زبیر کہنے لگا کہ اچھا ایک دفعہ تو یہ تجربہ اپنے اوپر تو کر اور پھر دیکھ میں اس متعہ کرنے پر تجھے کیسے سنگسار کرتا ہوں۔
تمام علماء متفق ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عباس اپنی زندگی کے آخری دور میں جا کر نابینا ہوئے تھے۔ مثلا دیکھئے البدایہ و النہایہ جس میں ابن کثیر الدمشقی لکھتے ہیں کہ عبداللہ ابن عباس نے سن 68 ہجری (یعنی رسول اللہ ص کی وفات کے 58 سال بعد) وفات پائی اور آپ آخری عمر میں نابینا ہو گئے تھے
حوالہ:
البدایہ و النہایہ (اردو ترجمہ)، جلد 8، صفحہ 1291، سن 68 کے حالات
چنانچہ کیا کوئی عقل اور تدبر و تفکر کرنے والا شخص اس جھوٹ پر اب یقین کر سکتا ہے کہ رسول اللہ ص کے انتقال کے "نصف صدی" سے زیادہ عرصہ گذرنے کے بعد (58 سال) کے بعد بھی ابن عباس جیسے جلیل القدر صحابی، جنہیں آپ خود حبر الامت اور ترجمان القران کا لقب دیتے ہیں انہیں اپنی زندگی کے آخر تک علی ابن ابی طالب کی خبیر والی حرمت کا پتا ہوتا ہے اور نہ دور دور تک کسی اور حرمت کا؟؟؟
چنانچہ ابن عباس کا رسول ص کی وفات کے 58 سال بعد تک عقد المتعہ کے جواز میں فتوی دے رہے ہیں جو اس بات کا مکمل ثبوت ہے کہ یہ خیبر و فتح مکہ والی روایات مکمل طور پر جھوٹی روایات ہیں اور ابن عباس کی وفات کے وقت تک انکا وجود تک نہ تھا بلکہ اُن کے بہت بعد میں لوگوں نے اپنی طرف سے گھڑ کر بیان کرنا شروع کر دیں۔
(نوٹ: ابن عباس اور ابن زبیر کے مابین اس جھگڑے کے متعلق اور بہت سی روایات ہیں جو وقت آنے پر پیش ہوں گی)
ابن عباس پر مزید جھوٹ کا باندھے جانا کہ بستر مرگ پر مرتے دم انہوں نے عقد المتعہ سے رجوع کر لیا
اب مرتے کیا کرتے کہ ایسے بُرے پھنسے تھے کہ دم نکلا جا رہا تھا۔
چنانچہ جھوٹ کا یہ تیر آگے آگے بے دریغ چلایا جاتا رہا،۔۔۔۔ مگر انسان چالیں چلتا ہے مگر اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔
چنانچہ آخری حربے کے طور پر ابن عباس پر جھوٹ باندھا گیا کہ بستر مرگ پر مرتے دم انہوں نے عقد المتعہ سے رجوع کر لیا۔
اسی لیے کہا جاتا ہے کہ نقل کرنے یا جھوٹ بولنے کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ بھلا بستر مرگ پر ابن عباس کے پاس وہ کونسی نص ہاتھ آ گئی جو کہ رسول اللہ ص کی وفات کے پورے 58 سال تک انکے پاس نہ آئی تھی؟
یہ ایسی گھٹیا حرکت تھی کہ خود اہلسنت کی بہت سے علماء اس جھوٹ پر احتجاجا چیخ اٹھے۔ مثلا:
علامہ ابن حجر العسقلانی اپنی کتاب فتح الباری میں لکھتے ہیں:
[FONT=times new roman(arabic)]
قال ابن بطال: روى أهل مكة واليمن عن ابن عباس إباحة المتعة، وروي عنه الرجوع بأسانيد ضعيفة وإجازة المتعة عنه أصح، وهو مذهب الشيعة.
[/FONT]ترجمہ: ابن بطال کہتےہیں: اہل مکہ اور اہل یمن ابن عباس سے اباحت کا قول روایت کرتے ہیں۔ اور یہ روایت کمزور ضعیف سند رکھتی ہے کہ ابن عباس نے عقد المتعہ سے رجوع کر لیا تھا، جبکہ اسکے مقابلے میں عقد المتعہ کی اجازت دینے والی روایت صحیح ہے، اور یہ مذہب ہے شیعہ کا بھی۔
آنلائن فتح الباری، جلد 9، کتاب النکاح
مرقاۃ جو مستند سمجھے جانی والی شرح ہے المشکوۃ کی، اس میں ملا علی قاری لکھتے ہیں:
ولا تردد في أن ابن عباس هو الرجل المعرض به وكان قد كف بصره فلذا قال ابن الزبير كما أعمى أبصارهم وهذا إنما كان في حال خلافة عبد الله بن الزبير وذلك بعد وفاة على كرم الله وجهه فقد ثبت أنه مستمر القول على جوازها ولم يرجع
ترجمہ:
اس میں کوئی شک والی بات نہیں کہ ابن عباس کا مضحکہ اڑایا گیا کیونکہ وہ نابینا تھے، چنانچہ اسی پر ابن زبیر نی کہا تھا کہ جن کی آنکھیں اندھی ہیں، اور یہ اُس وقت کا واقعہ ہے جب عبداللہ ابن زبیر علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت کے بعد خلیفہ بنا تھا، اور یہ بات ثابت ہے کہ ابن عباس مستقل طور پر اسکے بعد عقد المتعہ کے جواز میں فتوی دیتے رہے اور انہوں نے کبھی اس سے رجوع نہیں کیا
حوالہ: مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح
اور فتح القدیر جو فقہ کی کتاب الھدایہ کی مستند شرح ہے، اس میں ہے:
"اور ابن عباس کا عقد المتعہ کے جواز میں قول ثابت ہے انکی زندگی کے آخری دن تک"
اور مولانا مودودی لکھتے ہیں اپنی کتاب رسائل و مسائل، جلد 3، صٖفحہ 53 پر کہ جب اُن سے پوچھا گیا کہ آیا ابن عباس نے اپنے آخری وقت میں عقد المتعہ سے رجوع کر لیا تھا؟ اس پر مودودی صاحب جواب دیتے ہیں:
"اس مسئلےپر مجھ سے پہلے کے اہل علم کی آراء میرے سامنے ہیں۔ یہ درست ہے کہ یہ اختلاف پایا جاتا ہے اور اس باب میں جو روایات میں نے دیکھی ہیں اُن کے مطابق ابن عباس نے کبھی عقد المتعہ سے رجوع نہیں کیا، بلکہ اسکے بالکل برخلاف آپ اسکے جواز میں فتوی دیتے رہے۔۔۔ اور پھر فتح الباری میں علامہ ابن حجر العسقلانی نے مکہ شہر کے روایوں سے نقل کیا ہےکہ: "اہل مکہ نے ابن عباس سے جو فتوی نقل روایت کیا ہے وہ صرف متعہ کے جواز کا ہے، اگرچہ اسی روایات بھی ہیں جہاں کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے اس سے رجوع کر لیا، مگر انکی سندیں کمزور ہیں، جبکہ صحیح روایات یہ ثابت کر رہی ہیں کہ وہ اسکے جواز میں باقی رہے۔ بعد میں ابن حجر قبول کرتے ہیں کہ اس کے رجوع کرنے والی روایات میں اختلاف ہے۔
ابن عباس کے بعد انکے شاگرد، جو بلند پایہ تابعین ہیں، اُنکا عقد المتعہ پر قائم رہنا
اس ابن عباس کے عقد المتعہ سے رجوع کرنے والے جھوٹ کا سب سے بڑا دھڑم تختہ اُس وقت ہوتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ مکہ میں ابن عباس کے جو بلند پایہ شاگرد تابعین ہیں، وہ سب کے سب عقد المتعہ کے جواز پر قائم رہتے ہیں اور مسلسل اسکے حق میں فتوے دیتے ہیں۔
یہ بھی وہی چیز ہوئی کہ انسان نے اپنی چال چلی مگر اللہ بہترین تدبیر کرنے والا تھا اور جھوٹ حق بات کے سامنے پاؤں نہیں جما سکا۔
حافظ ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں:
التَّلْخِيص الْحَبِير فِي تَخْرِيج أَحَادِيث الرَّافِعِيّ الْكَبِير <
الصفحة
قَالَ : وَقَدْ ثَبَتَ عَلَى تَحْلِيلِهَا بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَاعَةٌ مِنْ السَّلَفِ , مِنْهُمْ مِنْ الصَّحَابَةِ أَسْمَاءُ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ , وَجَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , وَابْنُ مَسْعُودٍ , وَابْنُ عَبَّاسٍ , وَمُعَاوِيَةُ , وَعَمْرُو بْنُ حُرَيْثٍ , وَأَبُو سَعِيدٍ , وَسَلَمَةُ , وَمَعْبَدُ بْنُ أُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ , قَالَ وَرَوَاهُ جَابِرٌ عَنْ الصَّحَابَةِ مُدَّةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَمُدَّةَ أَبِي بَكْرٍ وَمُدَّةَ عُمَرَ إلَى قُرْبِ آخِرِ خِلَافَتِهِ , قَالَ : وَرُوِيَ عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ إنَّمَا أَنْكَرَهَا إذَا لَمْ يَشْهَدْ عَلَيْهَا عَدْلَانِ فَقَطْ , وَقَالَ بِهِ مِنْ التَّابِعِينَ طَاوُسٌ وَعَطَاءٌ , وَسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ , وَسَائِرُ فُقَهَاءِ مَكَّةَ قَالَ : وَقَدْ تَقَصَّيْنَا الْآثَارَ بِذَلِكَ فِي كِتَابِ الْإِيصَالِ , انْتَهَى كَلَامُهُ . فَأَمَّا مَا ذَكَرَهُ عَنْ أَسْمَاءَ فَأَخْرَجَهُ النَّسَائِيُّ مِنْ طَرِيقِ مُسْلِمٍ الْقَرِّيِّ قَالَ : { دَخَلْت عَلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ فَسَأَلْنَاهَا عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ , فَقَالَتْ : فَعَلْنَاهَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ }
ترجمہ:
امام ابن حجر العسقلان علامہ ابن حزم کے حوالے سے ان صحابہ اور تابعین کے ناموں کی لسٹ مہیا کر رہے ہیں جو کہ نکاح المتعہ کو حلال جانتے تھے۔ آپ لکھتے ہیں:
"رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی سلف کی ایک جماعت عقد متعہ کو حلال جانتی تھی۔ اور صحابہ میں سے یہ اسماء بنت ابی بکر، جابر بن عبداللہ انصاری، ابن مسعود، ابن عباس، معاویہ، عمروہ بن حریث، ابو سعید، سلمۃ اور معبد بن امیہ بن خلف وغیرہ ہیں۔ اوربیان ہے کہ صحابی جابر بن عبداللہ انصاری نے دیگر صحابہ سے روایت کی ہے کہ عقد متعہ حلال و جاری رہا رسول اللہ ص کے زمانے میں، اور پھر حضرت ابو بکر کے زمانے میں، اور پھر حضرت عمر کے دور خلافت کے تقریبا آخر تک۔ اور پھر وہ آگے روایت کرتے ہیں کہ پھر حضرت عمر نے اس سے منع کر دیا اگر دو عادل گواہ نہ ہوں۔
تابعین میں سے جو عقد متعہ کو حلال جانتے تھے ان میں طاؤس، عطاء، سعید بن جبیرشامل ہیں، اور پھر اہل مکہ کے فقہاء کی اکثریت عقد متعہ کو حلال جانتی تھی۔۔۔
اور فتح الباری میں علامہ ابن حجر العسقلانی، اور شرح موطا امام مالک میں علامہ زرقانی لکھتے ہیں:
قال ابن عبد البر: أصحاب ابن عباس من أهل مكة واليمن على إباحتها
ترجمہ: ابن عبدالبر کہتے ہیں:"ابن عباس کے اصحاب جو کہ مکہ اور یمن سے تھے، وہ عقد المتعہ کی اباحت میں یقین رکھتے تھے۔"
اور تفسیر مظہری میں ہے:
متعہ کی حلت کا فتوی تابعین کی ایک جماعت نے دیا ہے جن میں سے ابن جریح، طاؤس، عطاء، اور حضرت ابن عباس کے شاگرد اور سعید بن جبیر اور فقہاء مکہ بھی تھے۔
تفسیر مظہری، جلد 3، صفحہ 19
تفصیل کا وقت نہیں، اس لیے مختصرا ان بلند پایہ شاگردوں کا تعارف کہ جو ابن عباس کی وفات کے بعد بھی مستقل طور پر عقد المتعہ کے حق میں فتوی دیتے تھے کیونکہ انکے زمانے تک بھی یہ خیبر و فتح مکہ و اوطاس و حجۃ الوداع پر متعہ کو حرام کرنے والی جھوٹی گھڑی ہوئی روایات نہیں پہنچی تھیں، بلکہ یہ اُنکے بھی بعد گھڑی گئیں۔
طاؤس:
انکی وفات 106 ہجری میں ہوئی۔
انکی 85 روایات صحیح بخاری اور 78 روایات صحیح مسلم میں موجود ہیں۔
سعید بن جبیر:
انکی وفات سن 94 یا 95 ہجری میں ہوئی ہے۔
انکی 147 روایات صحیح بخاری میں موجود ہیں۔ اور صحیح مسلم میں انکی 78 روایات موجود ہیں۔
عطاء:
انکی وفات 114 یا 115 ہجری میں ہوئی ہے۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں انکی سو سے زیادہ روایات نقل ہیں۔
سوال: ابن عباس، طاؤس، عطاء، سعید ابن جبیر نے مرتے دم عقد المتعہ کے جواز میں فتوی دیا، تو پھر انہوں نے اس مسئلے پر صرف علمی مخالفت کی جنگ ہی کیوں جاری رکھی اور کیوں نہیں انہوں نے آپکی شرائط کے مطابق تلوار اٹھا کر قتل و خون شروع کر دیا؟
ابن عباس کے متعلق روایات تو بہت زیادہ ہیں، مگر مختصر وقت میں ممکن نہیں کہ ہر ہر چیز کا احاطہ کیا جائے، اور وہ بھی ایسے وقت میں کہ اعتراضات اور الزامات کو طومار بھرا پڑا ہے۔ بس اللہ سے استقامت کی دعا ہے اور انشاء اللہ جلد تمام مسائل پر گفتگو انجام کو پہنچنے والی ہے۔
اختتام پر ابن عباس کی ایک روایت:
امام عبدالرزاق اور ابن منذر نے حضرت عطاء کے واسطہ سے حضرت ابن عباس رضہ اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ اللہ تعالی حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے نکاح متعہ اللہ تعالی کی رحمت تھی جو اس نے امت محمد پر کی۔ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس سے منع نہ کرتے تو بدبخت ہی زنا کرتا۔ کہا یہ سورۃ النساء میں مذکور ہے "فما استمتعتم بہ منھن" اتنی مدت کے لئے اور یہ معاوضہ ہو گا جب کہ انکے درمیان وراثت نہ ہو گی۔ اگر مدت مقررہ کے بعد بھی راضی ہوں تو بھی ٹھیک ہے۔ اگر جدا ہونے پر راضی ہوں تو بھی ٹھیک ہے جب کہ ان دونوں کے درمیان کوئی نکاح نہیں ہو گا۔
انہوں نے یہ خبر بھی دی کہ انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے ہوئے سنا کہ وہ اب بھی اس کو حلال سمجھتے ہیں [مصنف عبدالرزاق، جلد 7، صفحہ 497، روایت 14021، گجرات ہند]