شیعہ روایات کا جائزہ جو مخالفین عقد متعہ کی ممانعت کے لیے استعمال کرتے ہیں
شیعہ کتب حدیث میں اتنے تواتر کے ساتھ متعہ کے حق میں روایات موجود ہیں کہ ممکن نہیں کہ انکا انکار کیا جا سکے۔ مگر پھر کچھ روایات کو وہ ادھورا اور کچھ کے ساتھ بددیانتی کر کے مخالفین ان سے اپنا مقصد پورا کرنا چاہتے ہیں۔ آئیے اللہ کے بابرکت نام سے شروع کرتے ہیں اور حقیقت دیکھتے ہیں۔ انشاء اللہ۔
گذشتہ سے پیوستہ وہ گھڑی ہوئی روایت ہے تو یہ سب کیا ہے آپ ہی کی معتبر کتابیں اس گھڑی ہوئی روایت کی تصدیق کر رہی ہیں۔
( حرم رسول الله صلى الله عليه وآله يوم خيبر لحوم الحمر الأهلية ونكاح المتعة) انظر (التهذيب 2/186)، (الاستبصار 2/142) ، (وسائل الشيعة 14/441).
امیری المومنین علیہ السلام نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے روز گدھے کے گوشت اور متعہ النساء کی ممانعت کر دی تھی۔
اس خیبر والی روایت پر لمبی چوڑی جرح اوپر موجود ہے اور اہل عقل و انصاف کے لیے کافی ہے۔ اس لیے اسے بلاتبصرہ چھوڑتی ہوں۔
از شوکت کریم:
عن عبد الله بن سنان قال سألت أبا عبد الله عليه السلام عن المتعة فقال: (لا تدنس نفسك ب۔ها) (بحار الأنوار 100/31.
عبداللہ بن سنان بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو عبداللہ سے متعہ کے بارے میں پوشھا تو انہوں نے کہا مت گندہ کرو اپنے نفس کو اس سے۔
علامہ مجلسی نے یہ روایت ایک النوادر نامی کتاب سے نقل کی جس کے مصنف ہیں احمد بن محمد بن عیسیٰ الاشعری جنھوں نے متعہ کے حلال ہونے کے بارے میں بہت سی روایات درج کی ھیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کا بیان خاص پس منظر میں عبداللہ بن سنان کے لیئے تھا جو کہ ایک شادی شدہ تھے اور محض جنسی تسکین کے لیئے متعہ کرنا چاھتے تھے۔ اسی لیئے امام (ع) نے اسے اس کے خلاف مشورہ دیا کیونکہ یہ اُن کے لیئے غیر ضروری تھا، بالکل اسی طرح امام رضا علیہ السلام نے اپنے ساتھی ابن یقطین کو بھی، جو ابن سنان کی طرح شادی شدہ تھے، متعہ کے سوال پوچھنے پر کہا تھا کہ: "تیرا اس سے کیا کام کیونکہ تجھے اللہ نے اس کی ضرورت سے بے نیاز کر دیا ہے (نکاح دائمی والی بیویوں کی موجودگی کی وجہ سے)"لہٰذا امام (ع) کے قول کی روشنی میں بیوی موجود ہونے کی صورت میں متعہ سے پرھیز کیا جائے۔ کہ کہیں ایسا کرنے سے وہ شخص عورتوں کے حقوق نہ پورے کر سکے اور مشکلات سے دوچار ہو جائے۔
اسی بارے میں امام رضا (ع) کی ایک اور حدیث ملاحظہ ہو:امام ابو حسن (ع) کا ارشاد ہے: "متعہ حلال مباح مطلق ہے، اس مرد کے لیئے جسے اللہ نے نکاح کے ذریعے اس سے بے نیاز نہ کر دیا ہو۔ اس لیئے متعہ کے ذریعے پاکیزگی کے طالب رہو۔
اگر اللہ نے تمہارے لیئے اسے غیر ضروری بنا دیا ہے، تو اس کی صرف اس صورت میں اجازت ہے کہ تمہاری بیوی تک تمہیں رسائی حاصل نہ ہو۔
حوالے:
1۔ الکافی، ج 5 ص 453 حدیث 22۔
2۔ وسائل الشیعہ ، ج 21 ص 22 حدیث 26421
اور پھر سب سے اہم بات جو تمام شکوک کو رفع کر دیتی ہے، وہ یہ کہ اہل تشیع کی مستند کتاب مستدرک الوسائل جلد 14 صفحہ 455 پر عبداللہ ابن سنان کی یہ روایت جس باب کے ذیل میں مروی ہے اس باب کا نام ہے
"متعہ کی غیر پسندیدگی جب اس کی ضرورت نہ ہو اور جب اس سے کراہت پیدا ہو اور عورتوں سے نا انصافی ہوتی ہو" چنانچہ شعوری طور پر یہ بات عین قرآن کے مطابق ہے کہ جہاں اللہ تعالی فرماتا ہے:
"اور اگر تم کو اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں میں انصاف نہ کر سکو گے تو عورتوں سے اپنی مرضی کے موافق دو دو اور تین تین اور چار چار نکاح کرو پھر اگر تمہیں اس کا اندیشہ ہو کہ تم انصاف نہ کر سکو گے تو ایک ہی پر اکتفا کرو یا جو تمہاری زرخیز ہو یہ تدبیر بے انصافی نہ کرنے کی بہت قرین قیاس ہے اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی خوشی دے ڈالو پھر اگر وہ خوشی خوشی تمہیں کچھ چھوڑ دیں تو شوق سے نوش جاں کھاؤ پیؤ۔ (سورۃ النساء) (4:3)"
از شوکت کریم:
عن عمار قال: قال أبو عبد الله عليه السلام لي ولسليمان بن خالد: (قد حرمت عليكما المتعة) (فروع الكافي 2/4
، (وسائل الشيعة 14/450).
Narrated by A'maar: Abu Abdullah said to me and to Suliman Bin Khaled: "I made Mut'ah Haram on you"
(Furoo AlKafi 2/48 & Wasaeel Shia 14/450).
اس روایت کی نقل میں مخالفین نے مکمل بددیانتی سے کام لیا ہے۔ مکمل روایت یہ ہے:
"امام علیہ السلام نے فرمایا:
تم دونوں پر متعہ کی (وقتی) حرمت ہے جب تک تم مدینہ شہر میں میرے پاس موجود ہو، کیونکہ تم دونوں میرے پاس آتے ہو تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں تم گرفتار نہ کر لیے جاؤ اور پھر یہ کہا جائے گا کہ یہ جعفر کے ساتھی ہیں"
1۔ الکافی، ج 5 ص 467 حدیث 9
2۔ وسائل الشیعہ ، ج 21 ص 22 حدیث 26424
اب کوئی بھی عقل والا دیکھ سکتا ہے کہ امام نے یہاں پر عقد المتعہ سے مطلق منع نہیں کیا ہے بلکہ صرف اور صرف خاص حالات کے تحت اپنے ان دو ساتھیوں پر وقتی طور پر حرام کیا ہے کیونکہ مدینہ میں بنی عباس کے ظالم خلفاء کے کارندے شیعوں پر ظلم و ستم کرتے تھے اور انہیں ہر وقت جان کے ڈر سے تقیہ میں رہنا پڑتا تھا۔ اور بنی عباس کے یہ خلفاء خصوصی طور پر ائمہ اہلبیت کی تاک میں تھے کیونکہ لوگ بنی عباس کی جگہ خانوادہ نبوی کے ان ائمہ کو زیادہ عزت و توقیر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور اس لیے بنی عباس کو ان سے بغاوت کا ڈر رہتا تھا۔ چنانچہ اس روایت سے دور دور تک متعہ حرام نہیں ٹہرتا، بلکہ الٹا ثابت کر رہا ہے کہ جب وہ مدینہ میں نہ ہوں اور یہ خطرہ نہ ہو کہ وہ گرفتار کر لیے جائیں گے اور خود ان کو اور ائمہ کو اور دیگر شیعوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے تو پھر وہاں ان کے لیے عقد المتعہ بالکل حلال ہے۔
از شوکت کریم:
ولما سأل علي بن يقطين أبا الحسن عليه السلام عن المتعة أجابه:
( ما أنت وذاك؟ قد أغناك الله عنها ) (الفروع 2/43)، الوسائل (14/449).
Ali bin Yaqteen asked Aba Hassan about Mut'ah and he answered : "What is that and You (In Arabic it means what has that got to do with you) Allah had compensated you with something much better" (he meant legal marraige) (Furoo /43), (Wasael Al-shia 14/449).
مخالفین ان روایات کو ہر طرح سے توڑ مڑوڑ کر پیش کرتے ہیں تاکہ ہر ممکن طریقے سے عقد المتعہ کے خلاف شکوک و شبہات پیدا کر سکیں۔ حالانکہ ہر اہل دانش و انصاف دیکھ سکتا ہے کہ بددیانتی کرنے کے لیے جس روایت کا انہوں نے صرف ایک ٹکڑا کاٹ کر پیش کیا ہے، وہ مکمل روایت کچھ اور ہی پیغام دے رہی ہے۔
مکمل روایت یہ ہے:
علی بن یقطین سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ انہوں نے امام اباالحسن (ع) سے عقد المتعہ کے متعلق سوال کیا تو آپ (ع) نے فرمایا: 'تیرا اس سے کیا کام ہے جب اللہ نے اسے تیرے لیئے غیر ضروری بنا دیا ہے (کیونکہ علی بن یقطین کی دائمی نکاح والی بیویاں موجود تھیں)؟' میں نے کہا کہ میں تو صرف اس کے متعلق جاننا چاہتا تھا۔ انہوں نے جواب دیا: 'اس کی اجازت کے متعلق علی (ع) کی کتاب میں درج ہے'
1۔ الکافی، ج 5 ص 442
2۔ وسائل الشیعہ ، ج 21 ص 22 حدیث 26420
تمام شیعہ علماء صدیوں سے علی بن یقطین کی اس روایت کا مطلب بیان کر رہے ہیں، مگر جھوٹے الزامات لگانے والوں کی بددیانتی ان تمام تر صدیوں میں تبدیل نہ ہو سکی اور ہم تو ایسے ہر شر سے اللہ ہی کی پناہ طلب کرتے ہیں۔
علی بن یقطین کی اسی روایت کے ذیل میں بہت سی دیگر رواتیں موجود ہیں، مثلا یہ روایت:
امام ابو حسن (ع) کا ارشاد ہے: "متعہ حلال مباح مطلق ہے، اس مرد کے لیئے جسے اللہ نے نکاح کے ذریعے اس سے بے نیاز نہ کر دیا ہو۔ اس لیئے متعہ کے ذریعے پاکیزگی کے طالب رہو۔ اگر اللہ نے تمہارے لیئے اسے غیر ضروری بنا دیا ہے، تو اس کی صرف اس صورت میں اجازت ہے کہ تمہاری بیوی تک تمہیں رسائی حاصل نہ ہو۔
1۔ الکافی، ج 5 ص 453 حدیث 2
2۔ وسائل الشیعہ ، ج 21 ص 22 حدیث 26421
اور جو لوگ آج مسلسل پھر ہم پر الزام لگا رہے ہیں کہ عقد المتعہ سے خاندانی زندگی ٹوٹ پھوٹ جائے گی اور چینی اور دنیا کے دیگر معاشروں کے تمام تر گناہوں کا بوجھ آج عقد المتعہ کی جھولی میں ڈال رہے ہیں، کاش کہ وہ ایسے غلط الزامات لگانے کی بجائے انصاف سے ہماری دلائل کو بھی دیکھ سکیں۔ اور انکی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ مخالفت میں آ کر یہ مستقل طور پر رسول اللہ ص کی نص کو نظر انداز کر رہے ہیں جہاں عقد المتعہ میں موجود محصنین و غیر مسافحین اور دیگر محارم عورتوں اور عدت وغیرہ کی حدود و قیود کی وجہ سے خود رسول اللہ ص گواہی دے رہے ہیں کہ عقد المتعہ اسلامی شریعت پاکیزہ طیبات و حلال چیزوں کی طرح ہے۔ حیرت ہے کہ ہم پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ ہم پچھلی نصوص کو "دہرا" رہے ہیں، مگر کاش آپ لوگوں نے دیکھا ہوتا کہ آپ لوگ "مسلسل" اپنی اس "غلطی" کو "دہرا" رہے ہیں جہاں آپ مسلسل رسول اللہ ص کی اس نص کو نظر انداز کر کے اور پھر اپنے قیاسی گھوڑے دوڑا کر دنیا میں ہونے والے ہر گناہ کی ذمہ داری عقد المتعہ کی جھولی میں ڈال رہے ہیں۔
از شوکت کریم:
عبد الله بن عمير قال لأبي جعفر عليه السلام (يسرك أن نساءك وبناتك وأخواتك وبنات عمك فعلن؟ -أي يتمتعن- فأعرض عنه أبو جعفر عليه السلام حين ذكر نساءه وبنات عمه) (الفروع /42)، التهذيب 2/186)
Abdullah Bin Umair said to Abi Ja'far (as) :Is it acceptable to you that your women, daughters, sisters, daughters of your aunties do it (Mut'ah)? Abu Ja'far rebuked him when he mentioned his women and daughters of his aunties.(Al-Furoo 2/42 & At-tahdheeb 2/186)
یہاں پر پھر مخالفین پوری روایت میں کتربیونت کر گئے ہیں کیونکہ پوری روایت مکمل طور پر ثابت کر رہی ہے کہ امام علیہ السلام عقد المتعہ کو مسلسل طور پر حلال قرار دے رہے ہیں، مگر اُس شخص کا مقصد صرف استہزاء کرنا ہے۔ میں اپنی پچھلی پوسٹ میں یہ واقعہ بیان کر چکی ہوں کہ اسلامی مسائل کا بیان کرنا تو فرض ہے، مگر اگر کوئی شخص ذاتیات پر اتر آئے اور مقصد صرف بدتمیزی ہو تو انسان منہ پھیر لے۔
جبکہ اگر کوئی واقعی اس چیز میں یقین رکھتا ہو، اور اُسکا مقصد استہزاء و شر نہ ہو اور وہ آ کر اپنی ضرورت بیان کرے تو اس میں کوئی معیوب بات نہیں ہے اور یہ بات ذیل کی روایت سے ظاہر ہے کہ جو بیان کرتی ہے کہ اس شخص سے بات صرف منہ پھیر لینے پر ختم نہیں ہو گئی بلکہ بات آگے بڑھی۔
ائمہ اہلبیت علیھم السلام کی روایات اور ہمارے مراجع کرام کے فتاوی کی روشنی میں مکمل طور پر واضح ہے کہ بیوہ خواتین، چاہے وہ ہاشمی سادات ہی کیوں نہ ہوں، اللہ کی طرف سے انہیں بوقت ضرورت عقد المتعہ کی مکمل اجازت ہے۔
اور آپ میں سے وہ لوگ جو عقد المتعہ میں تو یقین نہیں رکھتے تو انہیں پھر دوسروں سے عقد المتعہ کے متعلق پوچھنے کا کیا فائدہ؟؟؟؟ (سوائے اسکے کہ آپکی نیت شر کی ہو)
چنانچہ اس صورت میں اگر آپ ضرورتمند ہیں تو آپکے پاس کوئی اور صورت نہیں کہ روزے رکھیں اور صبر کریں، اور اگر صبر نہیں ہوتا تو ہمیں نہیں علم کہ پھر آپکو کیا اچھی نصیحت کی جائے۔ آپ ہمارے دینی بھائی ہیں اور ہم آپ کو نہیں کہہ سکتے کہ آپ شاکر کی تھیوری کے مطابق اُن برائیوں پر کام چلائیں کہ جنہیں وہ "چھوٹا گناہ" کہتے ہیں مثلا فحش فلمیں و انٹرنیٹ و خود لذت پرستی وغیرہ۔۔۔ بہرحال بات یہ ہے کہ یہ چھوٹے گناہ مسئلے کا حل نہیں بلکہ یہ بذات خود یہ زینہ ہیں زیادہ بڑے گناہوں کی طرف کہ ایسی فحش چیزیں دیکھ کر آپکا دماغ مزید خراب تو ہو سکتا ہے مگر صحیح نہیں۔ تو ایسی فحش چیزیں دیکھ کر لوگ پھر قوم لوط کے فعل میں مبتلا ہو جائیں گے کہ یہ معاشرے میں پھیلا ہوا ہے اور عورتیں کی نسبت معاشرے میں زیادہ آسانی سے میسر ہے۔
اس "چھوٹے گناہ" والی روش پر میں نہیں چاہتی کہ اس پر کوئی ایسی بات لکھی جائے جس سے آپ لوگوں کی کوئی دل آزاری ہو، مگر بطور دینی بھائی آپ لوگوں کو اچھی نصیحت ہے کہ چھوٹے گناہ کرنے چونکہ آسان ہوتے ہیں، اس لیے یہ بہت جلد انتہائی بڑے پیمانے پر پھیل جاتے ہیں (مثلا آج اسلامی جمہوریہ پاکستان میں 85 فیصد نوجوان کھلے عام بڑے پیمانے پر یہ گناہ کرتے ہیں)۔ آرگومینٹ یہ ہے کہ یہ چھوٹے گناہ زناکاری کرنے سے بہتر ہیں۔ مگر ٹھنڈے دماغ سے سوچئیے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ اگر لوگوں کی فطرت کے تقاضوں کو جائز طریقے سے پورا کرنے کے راستے نہ کھولے گئے تو پھر جہاں موقع ملے گا وہیں یہ لوگ زناکاری میں مبتلا ہو جائیں گے۔ مثلا مغربی ممالک میں یہ کھل کر زناکاری کا فعل کریں گے اور اس حوالے سے آپکے پاس ہرگز کوئی حل نہ ہو گا (سوائے سعودی مفتی حضرات کے مسیار دھوکے والی شادی کے جو پھر کام نہیں کرے گی اور اسلام کی انتہائی بدنامی کا باعث ہو گی اور اسلام آفیشل دھوکا مذہب قرار پائے گا)۔ اور مغربی معاشرے کے علاوہ آپ اپنے معاشرے پر نظر ڈالیں تو آپکو اندازہ ہو گا کہ اتنے بڑے پیمانے پر یہ چھوٹے گناہ کا نتیجہ فقط یہ نکلے گا کہ قوم لوط کا فعل شروع ہو جائے گا کیونکہ یہ معاشرے میں آسان ہے۔
سوال:
بہت غور سے اس سوال پر غور کریں کہ کیا ان چھوٹے گناہ کہلائے جانے والے افعال سے انسان اور انسانی ضمیر "مطمئین" ہو جاتا جیسا کہ مرد و عورت کے قدرتی و فطرتی ملاپ سے ہوتا ہے؟ یا پھر اسکا بالکل الٹ نتیجہ نکلتا ہے اور "مطمئین" ہونے کی بجائے وحشت و حیوانیت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے اور انسان مزید بے تاب ہو مزید بڑے گناہوں میں مبتلا ہو جائے گا؟