نکاح المتعہ کا تعارف (حصہ دوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
ش

شوکت کریم

مہمان
نکاح اور متعہ میں ایک اور فرق:
ابوبکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، شعبہ، ابی قزرہ، حکیم بن معاویہ فرماتے ہیں کہ ایک مرد نے نبی سے پوچھا کہ خاوند کے ذمہ بیوی کا کیا حق ہے آپ نے فرمایا جب خود کھائے تو اسے بھی کھلائے اور جب خود پہنے تو اسے بھی پہنائے اور چہرے پر نہ مارے اور برا بھلا نہ کہے اور اسے الگ نہ سلائے مگر اپنے ہی گھر میں ۔ (سنن ماجہ جلد دوم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور زن متعہ کا مرد کے بستر پر کوئی حق نہیں!

حرمت متعہ :
قتیبہ بن سعید، جریر، فضیل، زبید، ابراہیم تیمی، حضرت ابراہیم تیمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ دو متعے کسی کے لئے درست نہیں صرف ہمارے لئے ہی مخصوص تھے یعنی عورتوں سے متعہ اور دوسرا متعہ حج (صحیح مسلم جلد دوم)

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکہ میں قیام کیا تو فرمایا کہ لوگوں کے دلوں کو اللہ نے اندھا کردیا ہے جیسا کہ وہ بینائی سے نابینا ہیں کہ وہ متعہ کا فتویٰ دیتے ہیں اتنے میں ایک آدمی نے انہیں پکارا اور کہا کہ تم کم علم اور نادان ہو میری عمر کی قسم امام المتقین یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں متعہ کیا جاتا تھا تو ان سے ( ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے) ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تم اپنے آپ پر تجربہ کرلو اللہ کی قسم اگر آپ نے ایسا عمل کیا تو میں تجھے پتھروں سے سنگسار کر دوں گا ابن شہاب نے کہا مجھے خالد بن مہاجر بن سیف اللہ نے خبر دی کہ وہ ایک آدمی کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی نے اس سے آکر متعہ کے بارے میں فتوی طلب کیا تو اس نے اسے اس کی اجازت دے دی تو اس سے ابن ابی عمرہ انصاری نے کہا ٹھہر جا انہوں نے کہا کیا بات ہے حالانکہ امام المتقین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں ایسا کیا گیا ابن ابی عمرہ نے فرمایا کہ یہ رخصت ابتدائے اسلام میں مضطر آدمی کے لئے تھی مراد اور خون اور خنزیر کے گوشت کی طرح پھر اللہ نے دین کو مضبوط کردیا اور متعہ سے منع کردیا ابن شہاب نے کہا مجھے ربیع بن سبرہ الجہنی نے خبر دی ہے اس کے باپ نے کہا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں متعہ کیا تھا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں متعہ سے منع فرما دیا ابن شہاب نے کہا کہ میں نے ربیع بن سبرہ کی یہ حدیث عمر بن عبدالعزیز سے بیان کرتے سنا اس حال میں کہ میں وہاں بیٹھا ہوا تھا۔ (صحیح مسلم جلد دوم)

عبد اللہ بن محمد بن اسماء ضبعی، جویریہ، حضرت مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی بن ابی طالب کو ایک آدمی سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ وہ اسے کہہ رہے تھے کہ تو ایک بھٹکا ہوا آدمی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعہ سے منع فرمایا ۔ (صحیح مسلم:جلد دوم)

اسلام میں لونڈیوں کا مقام:

مسدد، حماد بن زید، عبدالعزیز بن صہیب، ثابت بنانی، انس بن مالک سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھی پھر سوار ہوئے اور فرمایا کہ اللہ اکبرخیبر ویران ہوا جئے جب ہم کسی قوم کے میدان میں اترتے ہیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح منحوس ہوتی ہے، چناچہ وہ لوگ (یہودی) گلیوں میں یہ کہتے ہوئے دوڑنے لگے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لشکر کے ساتھ گئے، روای نے کہا کہ خمیس لشکر کو کہتے ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان پر غالب گئے، جنگ کرنے والوں کو قتل کر دیا اور عورتوں اور بچوں کو قید کر لیا۔ صفیہ، دحیہ کلبی کے حصہ میں آئیں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ملیں جس سے بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نکاح کرلیا اور ان کی آزادی کو ان کا مہر مقرر کیا۔ عبدالعزیز نے ثابت سے کہا کہ ابومحمد کیا تم نے انس سے پوچھا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (رسول اللہ) نے ان کا مہر کیا مقرر کیا تھا؟ تو ثابت نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہی کو ان کا مہر مقرر کیا تھا۔ عبدالعزیز کا بیان ہے کہ ابومحمد اس پر مسکرائے۔ (صحیح بخاری جلد اول)

اسحاق بن ابراہیم محمد بن فضیل مطرف شعبی ابوبردہ حضرت ابو موسی اشعری سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے پاس لونڈی ہو اور وہ اس کی اچھی طرح پرورش کرے پھر اس کو آزاد کر دے اور اس سے نکاح کر لے تو اس کے لیے دوہرا ثواب ہے۔ (صحیح بخاری جلد اول)

محمد بن یحیی نیسابوری، ابوعاصم، ابن جریج، مظاہر بن اسلم، قاسم، حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لونڈی کی طلاق دو طلاقیں ہیں اور اس کی عدت دو حیض ہے۔ محمد بن یحیی کہتے ہیں کہ ہم کو اس حدیث کی خبر ابوعاصم نے دی اور انہوں نے مظاہر سے روایت کی اس باب میں عبد اللہ بن عمر سے بھی روایت ہے حدیث عائشہ غریب ہے ہم اسے صرف مظاہر بن اسلم کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں اور ان کی اس کے علاوہ کوئی حدیث نہیں۔ علماء صحابہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وغیرہ کا اسی حدیث پر عمل ہے سفیان، ثوری، شافعی، احمد، اور اسحاق کا یہی قول ہے۔ (جامع ترمذی جلد اول)

ترغیب نکاح:
عبدان ابوحمزہ، اعمش، ابراہیم، علقمہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن مسعود کے ساتھ چل رہا تھا، تو انہوں نے کہا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ نے فرمایا کہ جو شخص مہر ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو وہ نکاح کرلے اس لئے کہ وہ نگاہ کو نیچی کرتا ہے اور شرمگاہ کو زنا سے محفوظ رکھتا ہے اور جس کو اس کی طاقت نہ ہو تو وہ روزے رکھے اس لئے کہ روزہ اس کو خصی بنا دیتا ہے۔ (صحیح بخاری جلد اول)

محترمہ مہوش صاحبہ سے گذارش ہے کہ کوئی تو روایت ایسی دیں جس میں اسی طرح وضاحت سے متعہ کی ترغیب دی گئی ہو اور احکامات بیان کئے گئے ہوں۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
اور اللہ کی پناہ اب نوبت یہاں تک اس جھوٹ تک آ چکی ہے کہ میں نے آپکی کتب سے جو بیسیوں روایات پیش کی ہیں جن میں سے بہت سی روایات بذات خود بخاری و مسلم کی ہیں یا ایسی ہیں جنہیں خود آپکے علماء مان رہے ہیں، انہیں یہ الزام لگا کر رد کر دیا جائے کہ ان سب کے راوی شیعہ ہیں۔
آپ ایسے غلط الزامات لگانے کی بجائے دلیل اور ثبوت سے ثابت کیجئے کہ ان بیسیوں روایات کے راوی شیعہ ہیں۔ (نوٹ: یہ عیاری و چالاکی والے ہتھکنڈے بھی غیر مؤثر ہو چکے ہیں جہاں کسی روای کو شیعہ کہہ کر پوری روایت کو رد کر دیا جاتا ہے، کیونکہ آپکے علمائے رجال کی اصطلاح میں "شیعہ" سے مراد بذات خود آپ ہی کا عقیدہ رکھنے والا شخص ہے جو کہ صرف سیاسی میدان میں معاویہ ابن ابی سفیان کے مقابلے میں علی ابن ابی طالب کو حق پر سمجھتا تھا، جبکہ آج کے عقیدتی امامی شیعہ کو "رافضی" کہا جاتا تھا)۔

دیکھیں میں نے اس کا ایک آسان اصول بتا دیا تھا۔ کہ جو روایت نصوص قرآن اور روح قرآن سے متصادم ہو گی وہ روایت تسلیم نہیں کی جائے گی۔

اور ہمارے لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خیبر والی روایت معتبر ہے اور حجت ہے ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔ غضب خدا کا حدیث کی درجنوں کتابوں میں درجنوں‌ بار ایک روایت آتی ہے حتٰی کہ آپکی کتابوں میں بھی تو آپ اس سے انکار کر دیتی ہیں تو پھر اس کا تو کوئی حل نہیں ۔ اور دلیل کیا ہے کہ دو روای شیعہ ہیں اور یہ روایت بہت سی جگہ صرف پالتو گدھے کے بارے میں آئی ہے!! جبکہ یہی روایت درجنوں بار متعہ اور پالتو گدھے دونوں کے ساتھ آئی ہے اور درجنوں کتابوں میں آئی ہے۔

اور شیعہ کا لفظ جوابا استعمال کیا گیا تھا جیسا کہ آپ نے کیا تھا ؟؟؟
 

میر انیس

لائبریرین
گرافکس بھایٔ آپ کی بات ٹھیک ہے اور شوکت بھایٔ نے اپنے نکاحوں کے بارے میں بتا کر مثال دی ہے ان کے جواب میں دعوت پوشیدہ ہے کہ اگر کویٔ اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے اور یہ بھی سمجھتا ہے کے وہ اس فعل کو قرآن و سنت کے مطابق انجام دے رہا ہے تو اسے کھل کے اورفخر سے بتانا چاہیے نا۔۔۔۔۔۔۔! اب دیکھیںپختگیِ عقیدہ اور وسعت نظری کے مطابق آپ کے سوال کا جواب آتا ہے یا شوکت بھایٔ کےاس جملے کی تا یٔد ہوتی ہے؟؟؟؟؟

میں آپ کو بڑے فخر سے بتاتا ہوں کہ میں نے متعہ کیا ہے اور میرے سب سے قریبی دوست نے بھی متعہ کیا ہے اب آپ ہم دونوں کے حالات سنیں اور بتائیں کہ اگر ایسا آپکے ساتھ ہو تو آپ کیا کریں گے۔ پہلے میرا واقعہ سنیں
میری شادی کی تاریخ طے ہوچکی تھی کہ لوگوں نے مجھکو میری ہونے والی بیوی کے خلاف اور انکو میرے خلاف بھڑکانا شروع کردیا کچھ خاندانی حالات ایسے تھے جو میں آپکو بتانا نہیں چاہتا نا میرے ماں اور باپ زندہ تھے نہ ہی میری اہلیہ کے دونوں کے بہن بھائیوں نے ہم دونوں کو سمجھایا پر ہم جب بھی آپس میں موبائل پر بات کرتے مسائل اور الجھتے جاتے تھے ۔ لہٰذا میں نے سوچا کہ کیوں نا میں اُن سے شادی سے پہلے دوستی کرلوں اور مل لیا کروں تاکہ وہ مجھے اور میں انکو اچھی طرح سمجھ سکوں پر وہ باحجاب تھیں بلکہ ہیں اسلئے انہوں نے کہا کہ میں آپ کے ساتھ اکیلے تو نہیں بیٹھ اور چونکہ میں اب تک آپ کے لئے نامحرم ہوں اسلئے آپ ایک دفعہ اچانک نگاہ کرنے کے سوا مجھکو دیکھ بھی نہیں سکتے لہٰذا میں نے انسے کہا کہ چلو پھر ہم جب تک شادی نہیں ہوتی تب تک متعہ کرلیتے ہیں ۔ ہماری شادی 23 دسمبر کو تھی اور ہم نے 10 دسمبر تک متعہ کیا میرے دو دوست گواہ تھے اور باقاعدہ نکاح پڑھوایا گیا مہر رکھا گیا ۔ پھر ہم آزادی سے مختلف ریسٹورینٹوں اور پارکوں میں ملتے اور انکو مجھ سے بات کرنے میں پھر کوئی جھجک نہیں ہوتی تھی کیونکہ ہم دونوں میاں بیوی تھے ہاں ہم نے کوئی جسمانی تعلق قائم نہیں کیا تھا اب بتائیں یہ صحیح ہوا یا یہ صحیح ہوا کہ میرے پڑوس میں ایک صاحب کی منگنی ہوئی 2 سال چلی اور مزید چلتی پر پھر بہت عجلت میں انکی شادی کردی گئی کیونکہ لڑکے کا لڑکی کے گھر آزادانہ آنا جانا اور ساتھ گھومنا پھرنا تھا اور پھر جب وہ زیادہ ہی آزاد ہوگئے اور لڑکی کے بھائیوں نے کچھ دیکھ لیا تو فوراََ نکاح کیا گیا اور منگنی یا رشتہ ہی طے ہونے کے بعد آپ ہمارے اس معاشرے میں اب اکثر ایسے واقعات دیکھتے ہی ہیں۔
دوسرا واقعہ میرے دوست کا ہے اسکے والد کے دوست کی ایک بیٹی بنگلہ دیش سے لٹی پٹی آئی اسکے والد اور والدہ دونوں کی شہادت ہوچکی تھی اور وہ یہاں اپنے دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ آئی تھی میرے دوست ضیا کے والد ان سے ملے پھر کچھ دن بعد وہ رشتہ دار اسکو ضیا کہ گھر چھوڑ گئے کہ آپ ماشاللہ کھاتے پیتے گھرانے کے ہیں جبکہ ہم اس بچی کا بوجھ نہیں سنبھال سکتے لہٰذا انہوں نے اسکو گود لے لیا پر جب وہ لڑکی اپنی بلوغت پر پنہچی تو مسائل شروع ہوئے ضیا کے والد علمی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے تو انہوں نے سوچا یہ لڑکی میرے لیئے اور میرے بیٹے کے لیئےنامحرم ہے تو اب کیا کیا جائے وہ لڑکی تو اب انکو ہی اپنا اصلی والد سمجھنے لگی تھی اور وہ بھی اسکو اپنے سے دور کرنے کا تصور نہیں کرسکتے تھے وہ چاہتے تو اپنے لڑکے کی شادی بھی اس سے نہیں کرسکتے تھےکیونکہ وہ بھی ابھی 15 یا 16 سال کا ہی تھا اور اگر بڑے ہوکردونوں ایک دوسرے کو ناپسند کریں گے تو کیا ہوگا لہٰذا انہوں نے اسکا متعہ ضیا سے کرادیا ۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ اس لڑکی کے لیئے محرم ہوگئے اور اب وہ شرعی طور پر بھی اسکے باپ بن گئے وہ لڑکی جوان ہوئی تو انہوں نے اسکے شادے ضیا سے کردی اب دونوں ایک بہت کامیاب زندگی گزار رہے ہیں ۔ اب آپ بتائیں کہ انکے پاس اور کیا راستہ تھا جب کہ اس لڑکی کو نہ تو کوئی اپنے پاس رکھنے کو تیار تھا نہ ہی کسی نے کبھی پلٹ کر بھی اسکو پوچھا انہوں نہ صرف اسکو گھر دیا اپنا نام دیا بلکہ اسکی بہت اچھی تعلیم و تربیت بھی کی اور اسکو ماں اور باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی
 
ابن حسن:
مہاج الصادقین میں "ان برما مجھول است" کے یہ الفاظ اسکے فٹ نوٹ میں موجود ہیں:


اب آپ سے میرا مطالبہ ہے کہ آپ ہمارے خلاف یہ روایت استعمال کر کے مطعون کرنے کی بجائے پہلے اس روایت کی سند پیش کریں۔ اور یہ مطالبہ اس لیے ہے کہ ہمارے اوپر تو ایسی روایت لے کر نفرت کے کلہاڑے چلنے شروع ہو گئے کہ جس کی کوئی سند ہے اور نہ ہماری کسی کتاب میں اسکی حقیقت کہیں ڈھونڈنے سے ملتی ہے۔۔۔۔ مگر خود پر ہزار خون معاف ہیں۔۔۔۔۔ مثلا:
1۔ میں نے اوپر اسی روایت کے حوالے سے مطالبہ کیا تھا کہ کیوں ایسی بے سند روایت پر اتنا زور ہے جبکہ میں نے آپکی اپنی کتابوں سے کئی عدد مستند روایات (صحیح مسلم و دیگر) مکمل سندوں کے ساتھ پیش کی تھی کہ جہاں عقد المتعہ کے لیے رسول اللہ ص سے لیکر صحابہ "استمتاع" کی اصطلاح استعمال کر رہے تھے، مگر آپ لوگوں کو اسکے باوجود اس کا انکار ہے اور پھر آپ لوگ منکر حدیث حضرات کی پیروی میں لگے ہوئے ہیں۔
2۔ اسی طرح سورۃ النساء کی آیت 24 کے متعلق بے تحاشہ روایات بمع مکمل روایات اور بمع امام حاکم اور امام الذہبی کی گواہی کے نقل کی تھیں، بلکہ آپکے جمہور سلف کی گواہی پیش کی تھی کہ یہ آیت عقد المتعہ کے حق میں نازل ہوئی، مگر اس سب کے باوجود آپ نے اپنے اوپر تو ہر چیز معاف کر رکھی ہے اور اگر کوئی اعتراض و الزام ہے تو بس فقط دوسروں کے لیے۔

**************
اور شیخ صدوق کے متعلق آپ کا اعتراض بالکل غیر متعلق ہے۔ اُس وقت کے سخت دور میں ظالم و جابر خلفاء نے عقد المتعہ کو حرام کر رکھا تھا اور پتا چلنے پر زناکاری کا الزام لگا کر قتل کر ڈالتے تھے۔ چنانچہ وہاں رجسٹر کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ اس رجسٹریشن کا سوال تو صرف ایسی جگہ پیدا ہو سکتا ہے جہاں عقد المتعہ کی اجازت ہو کہ رجسٹریشن کے بعد آپکو قانونی تحفظ حاصل ہو جائے گا۔

غالبا اب آپ متعہ کو تقیہ کا بھی لبادہ پہنا رہی ہیں یعنی ایک تو کڑوا کریلا (یعنی متعہ) اوپر سے نیم چڑھا (یعنی تقیہ)

بہرحال آپ کی تشفی اور اوروں کی تسلی کے لیے میں نے سابقہ امیج ذرا بڑے سائز میں دوبارہ اپ لوڈ کر دی ہے ذرا بتائیے کہ اس میں مذکورہ الفاظ کہاں‌ہیں؟
2۔ یہ کتاب کسی فٹ نوٹ کے بغیر ہی کاشانی صاحب نے لکھی تھی اس پر پاورقی یا فٹ نوٹ کا کارنامہ ایک اور دانشمند جناب ابو الحسن مرتضوی اور تصیح ایک اور آقائی جناب علی اکبر کی ہے تو یہ فٹ نوٹ کاشانی صاحب کے ہیں ہی نہیں۔
3۔ اس بات کے ثبوت کے لیے منھج الصادقین کے ایک بڑے پرانے نسخے کا عکس دے رہا ہوں جو کسی قسم کے فٹ نوٹ کے بغیر ہی ہے اس کو بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
یہ تو بات ہوئی فٹ نوٹ کے حوالے سے اب آئیے دوسری باتوں کی طرف

1۔ آپ پر چلنے والے کلھاڑے آپ کے اپنے ایک عالم کے ہیں ہمارے نہیں جو ایک کے بعد ایک کلھاڑے معاف کیجے گا فضائل ایک ہی صفحے میں لکھتے چلے جارہے ہیں اور یہ درجہ والی بات صرف اسی حدیث میں نہیں کی گئی بلکہ اس سے پیشتر ایک حدیث میں‌متعی کو نبی پاک کے ساتھ جنت میں رہنے کی گارنٹی بھی دی گئی ہے (استغفراللہ)
2۔جہاں تک بات سند کی ہے تو یہ حدیث اگر بلاسند ہے اور غلط ہے تو اس کا وبال بھی آُپ کے ہی ملاوں پر ہے جو ایسی بلاسند اور من گھڑت حدیث بیان کرتے ہیں ۔ درحقیقت یہ ایک ایسا ظلم و جہل ہے جو خود آپ کے اپنے گلوں میں اٹک جاتا ہے اللہ جانے کیسے کاشانی ایسی لغویات لکھ گئے۔
3۔اس کے بعد جو اعتراضات آپ بیان کر رہی ہیں تو میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ ایک ایک بات کا جواب آُپ کو دیا جائے گا فکر نہ کیجے لیکن آپ اس مضمون کو مکمل تو کیجئے جوابات کے ساتھ ساتھ اگر آپ اس مضمون کو اگر تھوڑا تھوڑا یہاں بڑھاتی بھی جائیں تو بہتر ہو۔
3۔آپ اب جناب جعفر صادق پر جھوٹ باندھ رہی رہی ہیں وہ تو کہ رہے ہیں کہ متعہ باکرہ عورتوں پر ہی مباح ہے اور یہ کہ ان کی عفت و پاکدامنی متاثر نہ ہو تو اس کو چھپا کر کرو اور آُ پ نہ جانے کن ظالم خلفاوں کا ذکر بیچ میں لے آئیں؟؟ اگر ایسا ہی جناب جعفر صادق کو ظالم خلفا کا خوف تھا تو پھر وہ صاف صاف کہ دیتے کہ حکومت سے بچ بچا کر متعہ کرو ؟ وہ تو صاف الفاظ میں کہ رہے ہیں کہ عورت کی عفت کے تحفظ کے لیے متعہ چھپا کر کرو کہ اگر کہیں لوگوں کو پتہ چل گیا تو اس عورت کی عفت و پاکیزگی گئی کام سے۔
اور ویسے یہ بتائیے کہ کیا یہ شرح قیاسی و تفسیر قیاسی نہیں جناب جعفر صادق کی اس حدیث کی؟؟ ویسے تو آپ فٹاک سے سب پر قیاس کے گھوڑے دوڑانے کا الزام لگادیتی ہیں اب اب ایک واضح و صریح حکم کو اپنے قیاس سے رد کرتے ہوئے لوگوں کو متعہ کی رجسٹریشن کروانے کا حکم دے رہی ہیں اور اب بچارے اہل تشیع آپ کی بات پر عمل کریں یا جناب جعفر صادق کی بات پر؟

1
84902323wc3.jpg


2

37002245um8.jpg


3

copyofpagesfromi000740p.jpg
 

مہوش علی

لائبریرین
اس وقت پتا نہیں آپ لوگوں کے کتنے ایسے مراسلے جمع ہیں کہ جنکے جواب تفصیل سے دینے تھے مگر جس سپیڈ کے ساتھ نئے نئے اعتراضات لا کر چیزوں کو خلط ملط کر دیا گیا ہے، اسکے بعد یقینا آپ لوگ کامیاب ہیں کہ دوسرا اپنے دلائل مکمل تفصیل کے ساتھ پیش نہ کر سکے۔

یعنی جس کے پاس پیسا ہے وہ اپنا بستر گرم کرلے اور باقی منہ دیکھتے رہ جائیں۔ سبحان اللہ بھئی بڑا دین فطرت ہے جو صرف ان کو رحمت کے دائرے میں لاتا ہے جو پیسے والے ہیں۔ کیا کہنے جی ایسی تاویلات کے۔

آپ سے تو بہت بڑا اختلاف مجھے پہلے ہی ہے کہ آپ نے بہت ناانصافی کی بات کی ہے کہ پچھلے 1300 سالہ تاریخ کو بھول جایا جائے۔ بھائی جی اگر عورت کے ساتھ عارضی تعلقات آج زناکاری ہیں تو ان پچھلے 1300 سال میں بھی یہ عارضی تعلقات زناکاری ہی کہلائیں گے۔ آپ ہرگز ہرگز یہ غلط معیار مقرر نہیں کر سکتے ہیں۔

اور جس طرح آپ ہر گناہ عقد المتعہ کی جھولی میں ڈالتے چلے جا رہے ہیں اور اس بنا پر ہمیں مطعون کر رہے ہیں، تو ذرا انصاف کے ساتھ سوچنا شروع کریں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ متعہ سے کہیں زیادہ بڑے گناہ پھر کنیز عورت کی صورت اسلام کے منہ پر جا کر لگ جائیں گی اور آپ کو ہم سے کہیں بڑھ کر اسلام ہی کو مطعون کرنا پڑے گا۔ بات تو یہ بہت سادہ اور لاجیکل ہے، مگر اس وقت جوش و جذبات میں یہ چیزیں دیکھ نہیں پائیں گے۔

مثال کے طور پر یہی جو آپ نے لکھا ہے کہ:
یعنی جس کے پاس پیسا ہے وہ اپنا بستر گرم کرلے اور باقی منہ دیکھتے رہ جائیں۔ سبحان اللہ بھئی بڑا دین فطرت ہے جو صرف ان کو رحمت کے دائرے میں لاتا ہے جو پیسے والے ہیں۔ کیا کہنے جی ایسی تاویلات کے۔

تو بھائی، آپ ٹھنڈے ہوں تو آپکو پتا چلے عقد المتعہ سے کہیں پہلے آپکا یہ اعتراض اسلام پر وارد آ جائے گا کیونکہ جو قرآنی آیات مستقل طور پر ہمارے خلاف پیش کر رہے تھے، وہ دراصل خود آپ کے خلاف جا رہی ہیں کیونکہ یہ امارت و غربت اللہ نے اپنے نظام میں رکھی ہے کہ جہاں وہ سورۃ النور میں فرما رہا ہے کہ اور وہ لوگ کہ جن کی استطاعت نہیں ہے وہ صبر کریں یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے۔

دیکھا آپ نے کہ جذباتیت میں آپ اپنے تئیں تو عقد المتعہ کو برا بھلا کہہ رہے ہیں، مگر حقیقت میں آپکے یہ اعتراضات پہلے اسلام کے خلاف اٹھ جائیں گے۔

میں انتہائی ٹھنڈے لہجے میں آپ کو پھر سمجھا رہی ہوں کہ جذباتیت اچھی چیز نہیں ہے۔

**************

اہل صفا کے متعلق کوئی ایسی روایت نہیں کہ انہوں نے عقد المتعہ نہ کیا ہو۔ عدم ذکر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خود بخود اسکا الٹ ثابت ہو گیا۔ بلکہ ان اہل صفا کے متعلق اللہ کا وہی حکم ہے جو خود بار بار آپ سورۃ النور کی صورت ہم پر چسپاں کر رہے تھے، اور وہ یہ کہ اگر انکی استطاعت نہیں ہے تو وہ پھر صبر کریں یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے۔ اور بہرحال یہ قیاسی گھوڑے کبھی نص کے سامنے نہیں ٹہر سکتے کہ اس بنیاد پر رسول ص کی اُس سنت کو ٹھکرا دیا جائے جب وہ خود صحابہ کو اجازت دے رہے ہیں، کبھی منادی کروا رہے ہیں کہ وہ عقد المتعہ کریں، اور یہ کہہ کر ان کو یہ اجازت دے رہے ہیں کہ گناہ میں پڑنا حرام ہے (چاہے وہ "چھوٹے گناہ" ہی کیوں نہ ہوں کہ جن کا شاکر نے ذکر کیا ہے) بلکہ اسکی جگہ انہیں عقد المتعہ کرنا چاہیے کیونکہ یہ پاکیزہ طیبات اور چیزوں میں سے ہے اور ضرورت پڑنے پر ایسی حلال چیزوں کو انسان اپنے اوپر حرام نہیں کر سکتا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
حرمت متعہ :
قتیبہ بن سعید، جریر، فضیل، زبید، ابراہیم تیمی، حضرت ابراہیم تیمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ دو متعے کسی کے لئے درست نہیں صرف ہمارے لئے ہی مخصوص تھے یعنی عورتوں سے متعہ اور دوسرا متعہ حج (صحیح مسلم جلد دوم)

بھائی، ایک دو غلطی کریں تو کوئی مسئلہ نہیں، مگر آپ تو بالکل ہی ہتھے سے اکھڑ گئے ہیں۔
آپ جو یہ روایت بیان کر رہے ہیں وہ کسی کتاب میں موجود نہیں۔

اور اگر یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ "متعہ الحج" صرف صحابہ کے لیے تھا تو ایسے بڑے جھوٹ کم ہی کم دیکھنے کو ملیں گے۔ رسول اللہ ص نے متعہ الحج پوری امت کے لیے حلال کیا تھا مگر حضرت عمر نے اپنی رائے کے مطابق اس پر پابندی لگا دی تھی کہ انہیں کچھ ایسی باتیں پسند نہ آئی تھیں جو کہ رسول اللہ ص نے حلال رکھی تھیں۔

حرملہ بن یحیی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکہ میں قیام کیا تو فرمایا کہ لوگوں کے دلوں کو اللہ نے اندھا کردیا ہے جیسا کہ وہ بینائی سے نابینا ہیں کہ وہ متعہ کا فتویٰ دیتے ہیں اتنے میں ایک آدمی نے انہیں پکارا اور کہا کہ تم کم علم اور نادان ہو میری عمر کی قسم امام المتقین یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں متعہ کیا جاتا تھا تو ان سے ( ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے) ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تم اپنے آپ پر تجربہ کرلو اللہ کی قسم اگر آپ نے ایسا عمل کیا تو میں تجھے پتھروں سے سنگسار کر دوں گا ابن شہاب نے کہا مجھے خالد بن مہاجر بن سیف اللہ نے خبر دی کہ وہ ایک آدمی کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی نے اس سے آکر متعہ کے بارے میں فتوی طلب کیا تو اس نے اسے اس کی اجازت دے دی تو اس سے ابن ابی عمرہ انصاری نے کہا ٹھہر جا انہوں نے کہا کیا بات ہے حالانکہ امام المتقین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں ایسا کیا گیا ابن ابی عمرہ نے فرمایا کہ یہ رخصت ابتدائے اسلام میں مضطر آدمی کے لئے تھی مراد اور خون اور خنزیر کے گوشت کی طرح پھر اللہ نے دین کو مضبوط کردیا اور متعہ سے منع کردیا ابن شہاب نے کہا مجھے ربیع بن سبرہ الجہنی نے خبر دی ہے اس کے باپ نے کہا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں متعہ کیا تھا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں متعہ سے منع فرما دیا ابن شہاب نے کہا کہ میں نے ربیع بن سبرہ کی یہ حدیث عمر بن عبدالعزیز سے بیان کرتے سنا اس حال میں کہ میں وہاں بیٹھا ہوا تھا۔ (صحیح مسلم جلد دوم)

ابن عباس کا ذکر مکمل طور پر گذر چکا ہے اور مکمل دلائل دیے جا چکے ہیں کہ وہ آخری عمر تک عقد المتعہ کے قائل رہے اور انکے بعد انکے شاگرد اور اہل مکہ و یمن عقد المتعہ کے جواز پر قائم رہے، اور آپکی طرف سے اسکے مقابلے میں کوئی جوابی دلیل پیش نہیں کی گئی ہے۔
اور اسی روایت میں ایک دوسرے شخص کے متعلق ذکر ہے کہ جو عقد المتعہ کے حق میں فتوی دے رہا ہے، پھر اسے امام المتقین رسول اللہ ص کے دور میں حلال بیان کر رہا ہے، تو بلاشبہ یہ بھی ابن عباس ہی کی طرف اشارہ ہے۔ اور پہلے کی طرح دلیل پھر یہی ہے کہ یہ ابن عباس پر جھوٹ ہے کیونکہ انہوں نے آخری دم تک متعہ کے حق میں فتوی دیا۔
اور یہ بھی جھوٹ ہے کہ عقد المتعہ خنزیر کے گوشت کی طرح ہے کیونکہ رسول اللہ ص نے کبھی خنیز کھانے کی "منادی" نہیں کروائی بلکہ آپ ص نے صاف صاف طور پر عقد المتعہ کو پاکیزہ طیبات و حلال چیزوں میں قرار دیا ہے۔ اور رسول اللہ ص کے مقابلے میں کسی کا کوئی قول قبول نہیں کیا جا سکتا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
غالبا اب آپ متعہ کو تقیہ کا بھی لبادہ پہنا رہی ہیں یعنی ایک تو کڑوا کریلا (یعنی متعہ) اوپر سے نیم چڑھا (یعنی تقیہ)
میرے خیال میں آپکو اتنا کڑوا ہونے کی ضرورت نہیں کہ عقد المتعہ کی بحث میں تقیہ کو کھینچ لائیں۔

بہرحال آپ کی تشفی اور اوروں کی تسلی کے لیے میں نے سابقہ امیج ذرا بڑے سائز میں دوبارہ اپ لوڈ کر دی ہے ذرا بتائیے کہ اس میں مذکورہ الفاظ کہاں‌ہیں؟
2۔ یہ کتاب کسی فٹ نوٹ کے بغیر ہی کاشانی صاحب نے لکھی تھی اس پر پاورقی یا فٹ نوٹ کا کارنامہ ایک اور دانشمند جناب ابو الحسن مرتضوی اور تصیح ایک اور آقائی جناب علی اکبر کی ہے تو یہ فٹ نوٹ کاشانی صاحب کے ہیں ہی نہیں۔
3۔ اس بات کے ثبوت کے لیے منھج الصادقین کے ایک بڑے پرانے نسخے کا عکس دے رہا ہوں جو کسی قسم کے فٹ نوٹ کے بغیر ہی ہے اس کو بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

میں نے جو امیج پیش کیا ہے وہ آپ ہی کے کسی بھائی بند سائیٹ نے پیش کیا ہے اور اس میں اسی کوئی صراحت موجود نہیں کہ پتا چلے کہ یہ فٹ نوٹ کاشانی صاحب نے نہیں بلکہ کسی اور نے لکھا ہے۔
بہرحال جس نے بھی لکھا ہے اس نے آپ کو گردن سے پکڑا ہے کہ اس روایت کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور جتنا مرضی آپ کوشش کر لیں مگر اسکی کوئی سند پیش نہیں کر سکتے۔
اور اب دوسری بات آتی ہے کہ کیوں ایسا ہے کہ جب ہماری ایسی کوئی بغیر سند کی ایسی روایت پیش ہوتی ہے کہ جس کے وجود کا ہی ہماری اصل کتب میں پتا نہیں تو ایسی روایات کو آپ چوم چوم کر آنکھوں پر رکھتے ہیں اور اس پر حلال حرام کا فیصلہ کرنے لگتے ہیں، مگر جواب میں خود اپنی طرف نہیں دیکھتے کہ جہاں دسیوں روایات استمتاع کی اصطلاح، صحابہ و تابعین و سلف کے "جمہور" کا ذکر ہے مگر اسکے باوجود آپ پر اپنی ہر روایت معاف ہے۔

1
از ابن حسن:
آپ پر چلنے والے کلھاڑے آپ کے اپنے ایک عالم کے ہیں ہمارے نہیں جو ایک کے بعد ایک کلھاڑے معاف کیجے گا فضائل ایک ہی صفحے میں لکھتے چلے جارہے ہیں اور یہ درجہ والی بات صرف اسی حدیث میں نہیں کی گئی بلکہ اس سے پیشتر ایک حدیث میں‌متعی کو نبی پاک کے ساتھ جنت میں رہنے کی گارنٹی بھی دی گئی ہے (استغفراللہ)
ایسا ہے تو ترجمہ کے ساتھ یہ روایت پیش کیجئے کہ پتا تو چلے کونسی روایت ہے، اور کیا واقعی اس سے بڑھ کر روایت ہے جہاں آپکی کتاب میں اس کائنات اور اس زمین و آسمان میں جو کچھ ہے اس سب سے زیادہ ثواب کا بخشا جا رہا ہے؟ اب تو آپ استغفراللہ کی پوری تسبیح ہی پڑھ لیں۔

3۔آپ اب جناب جعفر صادق پر جھوٹ باندھ رہی رہی ہیں وہ تو کہ رہے ہیں کہ متعہ باکرہ عورتوں پر ہی مباح ہے اور یہ کہ ان کی عفت و پاکدامنی متاثر نہ ہو تو اس کو چھپا کر کرو اور آُ پ نہ جانے کن ظالم خلفاوں کا ذکر بیچ میں لے آئیں؟؟
مجھے پہلے غلطی ہوئی تھی کہ آپ اُس صفحے پر شاید پہلی روایت کی بات کر رہے ہیں۔
اس دوسری روایت کے متعلق:
1۔ آپ ایک ایسی روایت پر تکیہ کیے ہوئے ہیں کہ جس کی سند ہی مکمل نہیں ہے کیونکہ یہ پتا ہی نہیں ہے کہ یہ کون شخص تھا جو امام کا نام لے کر یہ بیان کر رہا ہے۔ اور جو چیز وہ بیان کر رہا ہے وہ بقیہ روایات سے ٹکرا رہی ہے اور اسی بنیاد پر یہ اہل تشیع کے علماء کا فتوی ہے کہ خاص حالات میں ولی کو اجازت ہے کہ وہ کنواری لڑکی کو بھی نکاح المتعہ میں دے سکتا ہے، مگر اصل تاکید یہی ہے کہ کنواری لڑکی کو نکاح دائمی میں دیا جائے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
دیکھیں میں نے اس کا ایک آسان اصول بتا دیا تھا۔ کہ جو روایت نصوص قرآن اور روح قرآن سے متصادم ہو گی وہ روایت تسلیم نہیں کی جائے گی۔
اور آپ کو دعوی ہے کہ آپ اس نصوص قرآن اور روح القرآن کو ان صحابہ و تابعین کے جمگھٹے سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں کہ جن میں ابن عباس، عبداللہ ابن مسعود، ابی ابنی ابی کعب، سعید بن جبیر، السدی، الحکم، عطاء، قتادہ وغیرہ شامل ہیں؟؟؟؟
کیا آپکے دماغ ٹھکانے آ جائیں گے جب آپ کو پتا چلے گا کہ جن صاحب کی پیروی میں آپ تفسیر بالرائے کے فتنے کو "نصوص القرآن" اور "روح القرآن" کا نام دے رہے ہیں وہ صاحب سرے سے ہی مالک کے کنیز عورت سے مباشرت کے تعلق کو حرام قرار دے کر آپکی تمام کی تمام تر مستند کتابوں کا بھرکس نکال رہے ہیں اور انہیں جھوٹا گھڑا ہوا کہہ رہے ہیں؟
پھر یہی صاحب مزید بھرکس نکال رہے ہیں جب وہ کہہ رہے ہیں کہ طلاق کے بعد عورت کو ایک سال تک گھر میں رکھو اور اسکے اخراجات پورے کرو، جبکہ آپکی تمام کتب و علماء کہہ رہے ہیں کہ یہ آیت منسوخ ہے۔ تو حضرت یہ نصوص القرآن اور روح القرآن آپ کو مبارک۔
بات یہ ہے کہ اگر مسئلہ اکیلا ابن عباس کو ہوتا تو بات قبول کی جا سکتی تھی کہ ان سے غلطی ہو گئی ہو شاید۔ مگر یہاں ان سارے بلند پایہ صحابہ و تابعین کا ہے جو کہ خدا کی کتاب یعنی اس قرآن پر اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں اور جو صحیح روایات کے ساتھ بیان کر رہے ہیں کہ یہ آیت متعہ النساء کے متعلق ہے اور انہوں نے رسول اللہ ص سے اس قرآت کے ساتھ یہ روایت سیکھی ہے۔ چنانچہ یہ تو ہو سکتا ہے کہ ان سے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو اور یہ زائد الفاظ قرآن کا حصہ نہیں بلکہ بطور تفسیر کے رسول اللہ ص نے بتلائے ہوں، مگر یہ محال ہے کہ اتنے صحابہ مل کر جان بوجھ کر رسول اللہ ص پر جھوٹ باندھیں۔ چنانچہ آپکے سلف کے جمہور نے اسے آیت المتعہ ہی سمجھا ہے اور جنہوں نے اس سے اختلاف بھی کیا ہے، انہوں نے کبھی "روح القرآن" اور "نصوص القرآن" کے نام پر اس آیت کا وہ حشر نہیں کیا ہے جو آپ منکر حدیث حضرات کی تقلید میں کر رہے ہیں۔

میں فاروق صاحب کے مراسلوں کا جواب دے چکی ہوتی، مگر پھر میں نے طے کیا کہ آپ لوگوں سے فارغ ہو کر منکر حدیث روش کو سامنے پیش کیا جائے تاکہ آپ لوگوں کو اپنی غلطی کا احساس ہو سکے۔


اور ہمارے لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خیبر والی روایت معتبر ہے اور حجت ہے ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔ غضب خدا کا حدیث کی درجنوں کتابوں میں درجنوں‌ بار ایک روایت آتی ہے حتٰی کہ آپکی کتابوں میں بھی تو آپ اس سے انکار کر دیتی ہیں تو پھر اس کا تو کوئی حل نہیں ۔ اور دلیل کیا ہے کہ دو روای شیعہ ہیں اور یہ روایت بہت سی جگہ صرف پالتو گدھے کے بارے میں آئی ہے!! جبکہ یہی روایت درجنوں بار متعہ اور پالتو گدھے دونوں کے ساتھ آئی ہے اور درجنوں کتابوں میں آئی ہے۔

حیرت ہے کہ آپ کو اتنی سادہ سی بات ابھی تک سمجھ نہیں لگی کہ:

1۔ آپکی کتابوں میں خیبر و علی و ابن عباس والی ایک ہی روایت آخری ایک دو روایوں کے فرق سے "تکرار" کی صورت میں روایت کی گئی ہے۔ اگر اس تکرار کو ہٹا دیا جائے تو یہ خیبر، علی و ابن عباس کی فقط ایک ہی روایت ہے۔ چنانچہ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ کتنے درجنوں کتب میں کتنی درجن مرتبہ یہ نقل ہوئی ہے۔
2۔ آپ لوگوں کا دعوی ہے کہ جو صحابہ عمر ابن خطاب کے دور تک عقد المتعہ کرتے رہے انہیں اصل میں اسکی حرمت کا علم نہ تھا۔
3۔ مگر جب آپ کہیں گے کہ علی نے ابن عباس کو اس حرمت کا بتلایا تھا، تو پھر یہ "لاعلمی" والا عذر ختم ہو جائے گا۔
4۔ چنانچہ اس صورت میں یہ ممکن نہیں کہ ابن عباس نصف صدی گذرنے کے بعد عقد المتعہ کے جواز میں فتوی دیں اور ابن زبیر انکو سنگسار کرنے کی دھمکی دے۔
5۔ اگر خالی ابن عباس ہوتے تو بھی سمجھا جا سکتا تھا کہ ان سے شاید کوئی غلطی ہو گئی ہو، یا پھر ان پر بہت بڑی الزام تراشی کی جائے کہ وہ جان بوجھ کر علی ابن ابی طالب کی صورت احکام خداوندی کو ٹھکرا کر زناکاری کے حق میں فتوے دے رہے تھے، مگر یہاں تو ابن عباس کے ساتھ جابر بن عبداللہ انصاری بھی موجود ہیں جنہیں نصف صدی بعد ابن زبیر کے واقعے کے وقت بھی خیبر میں ایسی کسی حرمت کا پتا نہیں اور وہ سیدھا سادھا کہہ رہے ہیں کہ یہ حضرت عمر ہیں جنہوں نے عمرو بن حریث کے واقعے کے بعد عقد المتعہ کو حرام قرار دیا۔
5۔ اور پھر اُس صحیح السند روایت کا کیا کریں گے جس میں علی ابن ابنی طالب کھل کر عمر ابن الخطاب سے اختلاف کر رہے ہیں کہ اگر وہ اپنی رائے سے یہ ممانعت نہ کرتے تو کوئی شقی القلب ہی زنا کرتا۔
6۔ پھر انہی کی اتباع میں ابن عباس بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ اگر عمر ابن الخطاب اس کی ممانعت نہ کرتے تو کوئی شقی القلب ہی زنا کرتا۔
اسی لیے تو میں کہتی ہوں کہ ہمارے دلائل پر سے آپکی نظریں پھسلتی چلی جاتی ہیں۔

اور یاد آیا کہ آپ نے ابھی تک پچھلے 1400 سالہ تاریخ میں ایک بھی ایسا معاشرہ نہیں پیش کیا ہے کہ جو آپکے زعم کے مطابق آئیڈیل تھا۔
 

dxbgraphics

محفلین
اگر کوئی آپ سے آپ کی بہن یا بیٹی کے بارے میں متعہ کی خواہش ظاہر کرے تو کیا آپ اس کی اجازت دینگی۔
براہ مہربانی تقیہ نہ کیجئے گا اور جو آپ کے دل پر گزر رہی ہے اس کے مطابق جواب دیجئے گا۔
نیز میرے اس سوال کو فرقہ واریت نہ سمجھا جائے ۔ میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اس کو حلال کرنے والے اپنے اہل و عیال کے بارے میں اسے کس تناظر میں دیکھتے ہیں

میر انیس جس طرح آپ نے فخر سے متعہ کے بارے میں بیان کیا تو میں درج بالا سوال کا آپ سے بھی جواب سننا چاہتا ہوں۔
شکریہ
 

dxbgraphics

محفلین
دوسروں کے گریبان میں جھانکنے سے پہلے حضرت اپنے گریبان کو چاک کر کے دیکھئیے کہ جہاں عمرہ و حج کیا، زمین و آسمان بلکہ کائنات میں جو کچھ موجود ہے اس سے زیادہ ثواب کمانے کا طریقہ بتلایا گیا ہے۔

جب اس سے زیادہ طریقہ ثواب بتایا گیا ہے تو آپ نشاندہی کر دیں ۔ پھر کیوں آپ کیوں زنا کو حلال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں نیز میرے سوال کا جواب ابھی تک نہیں ملا مجھے
 

مہوش علی

لائبریرین
خیبر کے حوالے سے میں نے مزید کچھ ثبوت بھی پیش کیے تھے کہ جنہیں مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ یاد دہانی کے لیے ایک مرتبہ پھر یہ پیش خدمت ہیں۔

غزوہ خیبر میں اہل کتاب سے نکاح یا متعہ جاری ہی نہیں ہوا تھا
انسان اپنی چالیں چلتا ہے، مگر بلا شک و شبہ اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔
اور جھوٹ بولنے کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس احمق نے غزوہ خیبر پر متعہ کو حرام قرار دینے والی روایت گھڑی ہے، اُس کے جھوٹ کا پول کھول دینے کا پورا انتظام اللہ تعالی نے کر رکھا ہے اور وہ یہ کہ سن 7 ہجری میں غزوہ خیبر تک اہل کتاب کے ساتھ نکاح یا کسی بھی قسم کے عقد کی اجازت ہی نہ تھی۔
علامہ ابن قیم اپنی کتاب زاد المعاد ، جلد 3، صفحہ 183 میں اس جھوٹ کا پول کھولتے ہوئے تحریر فر ماتے ہیں:
وأيضا : فإن خيبر لم يكن فيها مسلمات وإنما كن يهوديات وإباحة نساء أهل الكتاب لم تكن ثبتت بعد إنما أبحن بعد ذلك في سورة المائدة بقوله ۔۔۔
ترجمہ:
"غزوہ خیبر میں صحابہ کرام کے ساتھ کوئی مسلمان عورت نہیں گئی تھی، اور خیبر میں صرف یہودی عورتیں تھیں اور اُس وقت تک اہل کتاب کی عورتوں سے عقد کرنے کی اجازت نازل ہی نہ ہوئی تھی۔ اور اہل کتاب کی عورتوں سے عقد کی اجازت غزوہ خیبر کے بعد سورۃ المائدہ میں نازل ہوئی۔"

نوٹ: یاد رکھئیے کہ سورۃ المائدہ اور سورۃ الفتح سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورتیں تھیں۔

اسی لیے اللہ تعالی مسلمان کو غور و فکر اور تدبر اور تحقیق کی دعوت دیتا ہے۔ اور اگر انسان عقل رکھتا ہے اور پھر انصاف کرنے کا بھی قائل ہے، تو پھر اسے سیدھی راہ آرام سے ملتی جائے گی۔ انشاء اللہ۔
کیا علی ابن ابی طالب وہ واحد شخص تھے جنہوں نے خیبر میں عقد متعہ کی ممانعت سنی؟

اگر تکرار نکال دی جائے تو یہ صرف ایک ہی روایت ہے جو بتلا رہی ہے کہ علی ابن ابی طالب ابن عباس کو بتلایا کہ خیبر میں پالتو گدھے کے گوشت اور عقد المتعہ حرام کر دیا گیا تھا۔ پورے ذخیرہ حدیث میں ایک بھی ایسا اور راوی نہیں ہے جسے یہ علم ہو کہ خیبر میں متعہ کو رسول اللہ نے حرام کیا جبکہ دسیوں مختلف روایات اور صحابہ ایسے ہیں جنہوں نے خیبر میں صرف اور صرف پالتو گدھے کی حرمت کے متعلق سنا جبکہ ان کو دور دور تک متعہ کی حرمت کا علم نہیں۔

کیا مولا علی واحدانسان تھے جنہوں نے غزوہ خیبر پر متعہ کی حرمت سنی؟

اس جھوٹی روایت کے گھڑنے والے کا جھوٹ یہاں سے بھی پکڑا جاتا ہے کہ خیبر کے موقع پر بہت سے صحابہ نے پالتو گدھوں کے حرام ہونے کا حکم تو رسول ص سے سنا، مگر کسی نے عقد متعہ کو حرام نہ بتلایا۔ دیکھئیے صحابہ کی لسٹ جو صرف اور صرف گدھے کی گوشت کی بات کر رہے ہیں، مگر ان میں سے کوئی متعہ النساء کے حرام ہونے کی بات نہیں کرتا۔
صحیح بخاری کی روایات
روایت نمبر 668 اور 669، انس ابن مالک ( صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 648، 68e, اور 687، ابن عمر (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 688، جابر بن عبداللہ انصاری (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 689، 690، ابن عوفہ (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 693، براء بن عازب (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 694 ، ابن عباس (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
صحیح مسلم کی روایات
روایت 4440، (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 4765، ابع ثعلبہ (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 4770، 4771، 4772، 4773، عدی ابن ثابت (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 4774،4775 سلمہ بن اکوع اور ابن عباس (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
روایت 4776، یزید بن عبید (صرف پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر ہے)
سنن نسائی کی روایات
سنن نسائی، جلد 7، صفحہ 205 پر 9 روایات موجود ہیں جو پالتو گدھے کے گوشت کا ذکر کر رہی ہیں۔

عقل اللہ کی طرف سے بنی نوع انسا ن کے لیے بہت بڑا تحفہ ہے۔ اسے استعمال کیجئے اور حق کو باطل سے جدا کیجئے۔
اب شوکت کریم بھائی کچھ ایسا عجیب و غریب استدلال لے کر آئے کہ جس کا مجھے سر سمجھ آیا نہ پیر۔
کاش انہوں نے اپنے ان علماء سے کچھ نصیحت پکڑ لی ہوتی جو کہ انہیں حقائق کی بنیاد پر یہ لکھ رہے ہیں کہ:

اور خیبر والی اس روایت پر تو خود اہلسنت علماء نے شدید تنقید کی ہے، تو پھر بھلا آپ اسے کس طرح بطور حجت ہمارے خلاف پیش کر رہے ہیں۔ مثلا
وقال ابن عبد البر وذكر النهي عن المتعة يوم خيبر غلط وقال السهيلي النهي عن المتعة يوم خيبر لا يعرفه أحد من أهل السير ورواة الأثر
ترجمہ: ابن عبد البر کہتے ہیں کہ یہ غلط ہے کہ متعہ کی ممانعت خیبر والے دن ہوئی۔ السھیلی خیبر میں متعہ کی ممانعت کے حوالے سے کہتے ہیں کہ راویوں اور اہل سیر (مؤرخین) میں سے کسی نے اس چیز کو نقل نہیں کیا۔
حوالہ: عمدۃ القاری، جلد 8، صفحہ 311

اور ابو عوانہ بھی یہی کہتے ہیں کہ خیبر میں صرف پالتو گدھوں کے گوشت کا ذکر تھا، متعہ النساء کا نہیں:
وقال أبو عوانة في صحيحه سمعت أهل العلم يقولون : معنى حديث علي أنه نهى يوم خيبر عن لحوم الحمر ، وأما المتعة فسكت عنها
ترجمہ: اور ابو عوانہ اپنی صحیح میں کہتے ہیں کہ میں نے اہل علم کو یہی کہتے سنا ہے کہ خیبر والی حدیث میں علی ابن ابی طالب نے صرف پالتو گدھوں کے گوشت کی ممانعت کا ذکر کیا تھا اور اس میں عقد المتعہ کے مسئلے پر خاموشی تھی (یعنی کوئی ذکر نہ تھا)
حوالے:
1۔ فتح الباری، جلد 9، صفحہ 145
2۔ نیل الاوطار، جلد 6، صفحہ 146
3۔سنن بیہقی، جلد 7، صفحہ 201


اور اگر ابن عباس اس معاملے میں اکیلے ہوتے تو بھی شاید ان سے غلطی مان لی جاتی، مگر نصف صدی گذرنے کے باوجود جب ابن زبیر والی لڑائی اٹھتی ہے تو اس پر جابر بن عبداللہ انصاری بھی صاف صاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ کے دور میں اور پھر حضرت ابو بکر کے دور میں اور پھر حضرت عمر کی خلافت میں مستقل عقد المتعہ کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت عمر نے عقد المتعہ سے منع کر دیا عمرو بن حریث کے واقعے کے بعد۔ یعنی اس نصف صدی گذر جانے کے بعد جابر بن عبداللہ انصاری ہوں یا ابو نضرہ یا عطاء یا دیگر تابعین، کسی کو خیبر کا پتا ہے نہ فتح مکہ کا، بلکہ انہیں سرے سے ہی رسول اللہ ص کی جانب سے متعہ کی کسی حرمت کا علم نہیں اور وہ کھل کر حضرت عمر کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ انہوں نے عقد المتعہ کی ممانعت کی جب عمرو بن حریث کا واقعہ پیش آیا۔
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری کی روایات کہ جن کا کوئی جواب پیش نہیں کیا جاتا:

حضرت ابو نضرہ سے روایت ہے :
"ابن عباس نے ہمیں حکم دیا کہ ہم متعہ کریں۔ جبکہ ابن زبیر نے اس سے منع کرتے تھے۔ میں نے جابر بن عبد اللہ انصاری سے اس کا ذکر کیا، تو انہوں نے کہا: " یہ میں ہی ہوں جس نے یہ روایت بیان کی ہے۔ ہم نے رسول (ص) کے زمانے میں متعہ کیا۔ اور جب عمر ابن خطاب خلیفہ بنے، تو انہوں نے کہا: "بیشک اللہ نے اپنے رسول (ص) پر ہر وہ چیز حلال کی جو اس نے چاہی اور جیسے اس نے چاہی، جیسا کہ اس نے اسکا حکم قران میں نازل کیا۔ پس اللہ کے لیے حج اور عمرہ ادا کرو جیسا اللہ نے حکم دیا ہے۔ اور ان عورتوں کے ساتھ (جن سے تم نے متعہ کیا ہوا ہے) شادیاں پکی کرو (نکاح کر کے)۔ اور اگر اب کوئی ایسا شخص میرے پاس آتا ہے جس نے متعہ کر رکھا ہے، تو میں اسے سنگسار کر دوں گا۔
حوالہ: صحیح مسلم، عربی ایڈیشن، جلد 2، صفحہ 885، حدیث 145، کتاب النکاح، باب نکاحِ المتعہ۔

حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت ہے:
ہم رسول (ص) اور ابو بکر کی زندگی میں مٹھی بھر کھجور یا آٹے کے عوض متعہ کیا کرتے تھے، حتیٰ کہ عمر ابن خطاب نے امر ابن حریث کے واقعہ کے بعد یہ متعہ ممنوع کر دیا۔
حوالہ:
صحیح مسلم، حدیث 16، کتاب النکاح، باب نکاحِ المتعہ۔

عطا کہتے ہیں:
جابر بن عبد اللہ انصاری عمرہ ادا کرنے کی غرض سے آئے تو ہم ان سے ملنے ان کی رہائشگاہ پر گئے۔ اور لوگوں نے ان سے مختلف چیزوں کے متعلق پوچھنا شروع کر دیا، اور انہی سوالات میں ایک سوال متعہ کے متعلق بھی تھا۔ اس پر جابر بن عبد اللہ انصاری نے فرمایا: "ہاں، ہم رسول (ص)، حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے دور میں متعہ کیا کرتے تھے۔
حوالہ:
صحیح مسلم، حدیث 15، کتاب النکاح، باب نکاح المتعہ۔
 
روایات کا شاندار کریا کرم جو اس دھاگہ میں نظر آتا ہے وہ شاید ہی کہیں دیکھا ہو۔ گو کہ میں‌بہن مہوش سے اختلاف رکھتا ہوں لیکن اس کے باوجود بھی ان کا شکر گزار ہوں کہ کتب روایات میں پائے جانے والے شدید نوعیت کے اختلافات کو جس محنت سے وہ سامنے لارہی ہیں وہ تمام مسلمانوں کے لئے مقام ہدایت ہے۔


کہ امت روایات میں کھو گئی​
والسلام
 

دوست

محفلین
میں آپ کو بڑے فخر سے بتاتا ہوں کہ میں نے متعہ کیا ہے اور میرے سب سے قریبی دوست نے بھی متعہ کیا ہے اب آپ ہم دونوں کے حالات سنیں اور بتائیں کہ اگر ایسا آپکے ساتھ ہو تو آپ کیا کریں گے۔ پہلے میرا واقعہ سنیں
میری شادی کی تاریخ طے ہوچکی تھی کہ لوگوں نے مجھکو میری ہونے والی بیوی کے خلاف اور انکو میرے خلاف بھڑکانا شروع کردیا کچھ خاندانی حالات ایسے تھے جو میں آپکو بتانا نہیں چاہتا نا میرے ماں اور باپ زندہ تھے نہ ہی میری اہلیہ کے دونوں کے بہن بھائیوں نے ہم دونوں کو سمجھایا پر ہم جب بھی آپس میں موبائل پر بات کرتے مسائل اور الجھتے جاتے تھے ۔ لہٰذا میں نے سوچا کہ کیوں نا میں اُن سے شادی سے پہلے دوستی کرلوں اور مل لیا کروں تاکہ وہ مجھے اور میں انکو اچھی طرح سمجھ سکوں پر وہ باحجاب تھیں بلکہ ہیں اسلئے انہوں نے کہا کہ میں آپ کے ساتھ اکیلے تو نہیں بیٹھ اور چونکہ میں اب تک آپ کے لئے نامحرم ہوں اسلئے آپ ایک دفعہ اچانک نگاہ کرنے کے سوا مجھکو دیکھ بھی نہیں سکتے لہٰذا میں نے انسے کہا کہ چلو پھر ہم جب تک شادی نہیں ہوتی تب تک متعہ کرلیتے ہیں ۔ ہماری شادی 23 دسمبر کو تھی اور ہم نے 10 دسمبر تک متعہ کیا میرے دو دوست گواہ تھے اور باقاعدہ نکاح پڑھوایا گیا مہر رکھا گیا ۔ پھر ہم آزادی سے مختلف ریسٹورینٹوں اور پارکوں میں ملتے اور انکو مجھ سے بات کرنے میں پھر کوئی جھجک نہیں ہوتی تھی کیونکہ ہم دونوں میاں بیوی تھے ہاں ہم نے کوئی جسمانی تعلق قائم نہیں کیا تھا اب بتائیں یہ صحیح ہوا یا یہ صحیح ہوا کہ میرے پڑوس میں ایک صاحب کی منگنی ہوئی 2 سال چلی اور مزید چلتی پر پھر بہت عجلت میں انکی شادی کردی گئی کیونکہ لڑکے کا لڑکی کے گھر آزادانہ آنا جانا اور ساتھ گھومنا پھرنا تھا اور پھر جب وہ زیادہ ہی آزاد ہوگئے اور لڑکی کے بھائیوں نے کچھ دیکھ لیا تو فوراََ نکاح کیا گیا اور منگنی یا رشتہ ہی طے ہونے کے بعد آپ ہمارے اس معاشرے میں اب اکثر ایسے واقعات دیکھتے ہی ہیں۔
دوسرا واقعہ میرے دوست کا ہے اسکے والد کے دوست کی ایک بیٹی بنگلہ دیش سے لٹی پٹی آئی اسکے والد اور والدہ دونوں کی شہادت ہوچکی تھی اور وہ یہاں اپنے دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ آئی تھی میرے دوست ضیا کے والد ان سے ملے پھر کچھ دن بعد وہ رشتہ دار اسکو ضیا کہ گھر چھوڑ گئے کہ آپ ماشاللہ کھاتے پیتے گھرانے کے ہیں جبکہ ہم اس بچی کا بوجھ نہیں سنبھال سکتے لہٰذا انہوں نے اسکو گود لے لیا پر جب وہ لڑکی اپنی بلوغت پر پنہچی تو مسائل شروع ہوئے ضیا کے والد علمی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے تو انہوں نے سوچا یہ لڑکی میرے لیئے اور میرے بیٹے کے لیئےنامحرم ہے تو اب کیا کیا جائے وہ لڑکی تو اب انکو ہی اپنا اصلی والد سمجھنے لگی تھی اور وہ بھی اسکو اپنے سے دور کرنے کا تصور نہیں کرسکتے تھے وہ چاہتے تو اپنے لڑکے کی شادی بھی اس سے نہیں کرسکتے تھےکیونکہ وہ بھی ابھی 15 یا 16 سال کا ہی تھا اور اگر بڑے ہوکردونوں ایک دوسرے کو ناپسند کریں گے تو کیا ہوگا لہٰذا انہوں نے اسکا متعہ ضیا سے کرادیا ۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ اس لڑکی کے لیئے محرم ہوگئے اور اب وہ شرعی طور پر بھی اسکے باپ بن گئے وہ لڑکی جوان ہوئی تو انہوں نے اسکے شادے ضیا سے کردی اب دونوں ایک بہت کامیاب زندگی گزار رہے ہیں ۔ اب آپ بتائیں کہ انکے پاس اور کیا راستہ تھا جب کہ اس لڑکی کو نہ تو کوئی اپنے پاس رکھنے کو تیار تھا نہ ہی کسی نے کبھی پلٹ کر بھی اسکو پوچھا انہوں نہ صرف اسکو گھر دیا اپنا نام دیا بلکہ اسکی بہت اچھی تعلیم و تربیت بھی کی اور اسکو ماں اور باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی
واہ جی واہ یہ تو بڑے فوائد بتائے آپ نے متعہ کے۔ کوئی ایسا "قابل فخر" واقعہ نہیں‌ ہے جس میں کسی دوست کی زوجہ نے کسی اور سے متعہ کیا ہو اور پھر اپنے شوہر کو "بڑے فخر" سے بتایا ہو۔ اور ان صاحب نے نے آپ کو "بڑے فخر" سے اپنی جنتی بی بی کا یہ واقعہ سنایا ہو۔ اور آپ وہ واقعہ یہاں "بڑے فخر" سے بیان کریں تو ہم جانیں‌کہ متعہ تو ایسی چیز ہے کہ جس پر فخر کیا جائے اور لوگوں کی بہو بیٹیوں کی نیکی و پرہیزگاری ان کے شادی سے پہلے کیے گئے عقد ہائے متعہ سے جانچنی چاہیے۔
آپ کے فخریہ جوابات کا انتظار رہے گا۔ نا نا منہ نہ بنائیے اور کبیدہ خاطر بھی نہ ہوں میں کوئی طنز نہیں کررہا بس اپنی معلومات کے لیے پوچھ رہا ہوں چونکہ میں نے آج تک ایسا کوئی واقعہ سنا نہیں ہے۔ تو اس لیے ذرا اشتیاق تھا۔ امید ہے آپ مطلع فرما کر ممنون احسان کریں‌ گے اور بخدا یہ بھی نیکی ہوگی جیسا کہ متعہ کرنے کی بے شمار فضیلتیں‌ہیں تو اس کو بیان کرنے کی بھی فضیلتیں‌ہونگی۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
اور جو لوگ آج مسلسل پھر ہم پر الزام لگا رہے ہیں کہ عقد المتعہ سے خاندانی زندگی ٹوٹ پھوٹ جائے گی اور چینی اور دنیا کے دیگر معاشروں کے تمام تر گناہوں کا بوجھ آج عقد المتعہ کی جھولی میں ڈال رہے ہیں، کاش کہ وہ ایسے غلط الزامات لگانے کی بجائے انصاف سے ہماری دلائل کو بھی دیکھ سکیں۔

ہم کوئی الزام نہیں لگا رہے صرف ایک چینی مصنفہ کے لکھے ہوئے کا اردو ترجمہ پیش کیا ہے جو آپکے اس دعوے کی نفی کرتا ہے کہ متعہ اللہ تعالی کی طرف سے صرف اور صرف مسلمانوں کے لئے رحمت ہے ؟؟؟؟

حیران کن بات ہے کہ عرب سے ہزاروں میل دور ایک دوسرے معاشرے میں اللہ کی رحمت اور وہ بھی ظہور اسلام سےقبل ہو رہی تھی۔ مگر وہاں کے لوگ اللہ کی اس رحمت سے کتنے خوش تھے وہ اہل دل اس ترجمے میں محسوس کر سکتے ہیں۔

اور اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ دور جاہلیت کے رواجات میں سے ایک رواج ہے جس کا اسلام جیسے پاکیزہ اور عورتوں کے لئے سراپا رحمت ہی رحمت جیسے دین سے کوئی تعلق نہیں۔ اور یہ بھی اسی تاریک دور کے ہتھکنڈوں میں‌سے ایک ہتھکنڈہ ہے جس کا شکار عورت ہوتی رہی۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
کاش انہوں نے اپنے ان علماء سے کچھ نصیحت پکڑ لی ہوتی جو کہ انہیں حقائق کی بنیاد پر یہ لکھ رہے ہیں کہ:

علما نےبہت کچھ اور بھی لکھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب سےپہلے صحیح‌ مسلم کی حدیث سے شروع کرتے ہیں۔

ابن شہاب کہتے ہیں مجھے خالد بن مہاجر بن سیف اللہ نے بتایا کہ وہ ایک آدمی کے پاس بیٹھے تھے تو ایک شخص نے متعہ کے بارے میں آکر مسئلہ پوچھا تو اس آدمی نے اسے اجازت دی ابن ابی عمرۃ انصاری کہنے لگے چھوڑو ، وہ کہنے لگے ایسا کیوں امام المتقین کے زمانہ میں ہم نے کیا تھاتو ابن ابی عمرۃ نے کہا یہ اسلام کے دور آغاز میں رخصت تھی اس شخص کے لئے جو مجبور ہو جیسے کوئی آدمی مردار خون اور خنزیر کھانے پر مجبور ہو پھر اللہ نے دین کو پختہ کر دیا اور ہمیں متعہ سے روک دیا۔ (صحیح مسلم۔جلد ۱)

رخصت دیکھیں کیسی تھی ؟؟؟ اور فضائل جو پچھلی پوسٹوں میں بیان کئے گئے ہیں دیکھیں کیسے ہیں ؟؟؟

علامہ نودی ؓ شارح مسلم باب نکاح المتعہ میں بحوالہ قاضی عیاض رقم فرماتے ہیں۔

مازریؓ نے کہا کہ نکاح متعہ اسلام کے ابتدائی دور میں جائز تھا پھر صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ وہ منسوخ ہو گیا اور اس کی حرمت پر اجماع واقع ہو گیا۔ اور اس میں کسی نے اختلاف نہیں کیا بجز اہل بدعت کے ایک گروہ کے۔

قاضی عیاض ؓ فرماتے ہیں کہ علماء کا اتفاق ہے کہ یہ متعہ وقتی نکاح (بمعہ گواہ) تھا اس میں میراث نہ تھی اور بلا طلاق مدت مقررہ کے ختم ہونے پر جدائی ہو جاتی تھی اس کے بعد اس کی حرمت پر تمام علماء کا اتفاق ہوا بجز روافض کے حضرت ابن عباسؓ کچھ عرصہ اباحت کے قائل تھے پھر آپ سے مروی ہے کہ آپ نے جواز سے رجوع کر لیا۔

نکاح متعہ قیامت تک حرام ہے اور پہلی حدیث کی کہ لوگ عہد ابوبکرؓ اور خلافت عمر ؓ تک متعہ کیا کرتے تھے تاویل کرنا متعین ہے۔ کہ ان لوگوں کو ناسخ کی خبر نہیں پہنچی تھی۔

(شرح مسلم جلد ۱ ص،۴۵۱ ۴۵۰)

علامہ امیر یمانی محمد بن اسماعیل لکھتے ہیں کہ نہی دائمی ہو گی اور اجازت منسوخ ہو گئی اور جمہور سلف و خلف متعہ کی منسوخیت ہی کے قائل ہیں۔ (سبل السلام جلد ۳ ص ۱۳۹)

قاضی محمد بن علی الشوکانی لکھتے ہیں کہ حضرت ابن عباسؓ ، حضرت ابن مسعودؓ حضرت ابی بن کعب اور حضرت سعید بن جبیر ؓ سے فما استمتعتم بہ منھن کے بعد الی اجل مسی کی جو قرآت منقول ہے وہ قرآن نہیں ہے کیونکہ قرآن ہونے کے لئے تواتر کی شرط ہے (اور یہ قرآت متواتر نہیں ہے) اور یہ حدیث بھی نہیں کیونکہ یہ قرآت اس کا قرآن ہونا بیان کرتی ہے تو یہ آیت کی تفسیر کے قبیل سے ہے اور تفسیر (نص اور حدیث کے مقابلہ میں )حجت نہیں۔

امام ابوبکر احمد بن علی الرازی لکھتے ہیں کہ ہمٰیں حضرات صحابہ کرام میں سے کسی ایک کے بارے بھی یہ معلوم نہیں کہ انہوں نے محض اباحت متعہ کا قول کیا ہو ہاں البتہ حضرت ابن عباس نے مگر بعد کو ان سے بھی رجوع ثابت ہے ۔ جب ان کو حضرات صحابہ کرام سے تحریم متعہ کی متواتر خبریں پہنچیں۔
امام ابن جریر طبری کہتے ہیں کہ دو تفسیروں میں سے اولیٰ اور درست تفسیر صرف یہی ہے کہ جن عورتوں سے تم نکاح کرو اور پھر ان سے ہمبستری کرو تو ان کو ان کے مہر ادا کرو (متعہ اس سے ہرگز مراد نہیں) کیونکہ نکاح صحیح اور ملک یمین کے سوا متعۃ النساء کی حرمت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے متعدد طرق اور اسانید سے ثابت ہے اور اس پر حجت قائم ہے۔


علامہ آلوسی روح المعانی جلد ۵ صفحہ ۶ پر لکھتے ہیں کہ متعہ کی حرمت قیامت تک ابدی اور مستمر ہے۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
عقد متعہ میں وہ تمام تر قوانین اور شرائط موجود ہیں جو کہ عقد نکاح میں موجود ہوتے ہیں، سوائے اسکے کہ مقررہ وقت کے بعد طلاق ہو جاتی ہے۔

آہ، میری غلطی کہ میں یہ ایک بنیادی مسئلہ بیان کرنا بھول گئی کہ "کنواری دوشیزہ" سے عقد متعہ کرنا "مکروہ" ہے اور صرف انتہائی حالات کے تحت ہی ولی کی اجازت سے ایسا عقد ہو سکتا ہے

اور ذرا دیکھئے تو من لا یحضرۃ الفقیہ جلد سوم نمبر 4611 میں کیا بیان ہوا ہے ۔

علی بن اسباط سے محمد بن عذافر سے اور انہوں نے اس شخص سے جس نے ان سے بیان کیا اور اس نے حضرت امام جعفر صادق سے روایت کی ہے ان کا بیان ہے کہ میں نے آنجناب سے باکرہ عورت سے متعہ کرنے کےمتعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ اس کو مباح ان( باکرہ عورتوں) کے لئے ہی کیا گیا ہے (کسی اور کے لئے نہیں ) خیر اگر کرنا ہے اس کو لوگوں سے چھپا کر کرو اور اس کی عفت اور پاکدامنی کا خیال رکھو (اور صیغہ متعہ پڑھ لو)

اور مزید فرق بھی ملاحظہ ہوں من لا یحضرۃ‌جلد سوم سے ۔۔۔

4594۔ حماد نے ابی بصیر سے روایت کہ ہے ان کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ حضرت امام جعفر صادقؒ سے متعہ کے متعلق دریافت کیا گیا کہ آیا اس کا شمار چار (نکاحوں) میں ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں اور نہ ستر (70) میں سے (یعنی کوئی حد نہیں)

4595۔اور فضیل بن یسار نے آنجناب سے متعہ کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ تو ایسی ہیں جیسے تمہاری بعض کنیزیں ہوں۔

سوال اٹھتا ہے کہ ہمارے دین فطرت میں عورت کی حیثیت اور دور جاہلیت میں موجود عورت کی حیثیت میں کیا فرق ہے ؟؟؟
 
ش

شوکت کریم

مہمان
اہل صفا کے متعلق کوئی ایسی روایت نہیں کہ انہوں نے عقد المتعہ نہ کیا ہو۔ عدم ذکر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خود بخود اسکا الٹ ثابت ہو گیا۔ بلکہ ان اہل صفا کے متعلق اللہ کا وہی حکم ہے جو خود بار بار آپ سورۃ النور کی صورت ہم پر چسپاں کر رہے تھے، اور وہ یہ کہ اگر انکی استطاعت نہیں ہے تو وہ پھر صبر کریں

آپ کہنا چاہ رہی ہیں کہ اتنے سارے اصحاب صفہ میں سے کسی ایک کے پاس رومال تک کی طاقتت بھی نہ تھی ؟؟؟
 

مہوش علی

لائبریرین
خیبر کی روایت کے متعلق بذات خود اہلسنت علماء کے اعتراضات آپ یہاں وکیپیڈیا پر پڑھ سکتے ہیں۔

Negative

However, there are some who those who are not equally convinced. Ibn al-Qayyim, a 14th century Sunni Islamic scholar writes [5]:
“ In Khayber there were no Muslim women since it was a Jewish settlement and up till then, Muslims were not permitted to marry Ahl'ul Kitab (Jews & Christians). The permission came later on in Surah Mai'da, Muslims were not supposed to contract marriage with Ahl'ul Kitab during the battle of Khayber, and in any case they were not interested in marrying the women of their enemies before Khayber was captured. After the victory, the ladies were captives or "Mamlookeen" and there was no need to marry them. The companions of the Prophet (S) did not contract temporary marriage with Jewish women neither did the Prophet (S) allow it, and no one mentioned Mut'ah during the battle of Khayber. Muslim scholars say that Mut'ah was permissible after Khayber and they believe that it was cancelled on the Day of Fath Makka (victory). Therefore, it is clear that though this tradition is one of the two strongest amongst all traditions concerning the revocation of Mut'ah, it is nevertheless shaky, and cannot revoke a verdict contained in the Qur'an. ” “ If we accept that Mut'ah was cancelled on the Day of Khayber then what we are saying is that cancellation occurred twice and this has never happened in religion for sure and will not happen [6]. ” Ibn Hajar Asqalani, a 15th century Sunni Shafi'i Islamic scholar writes:
“ On Mut'ah's prohibition comments of Ibn Abbas have a weak chain. Whilst his fatwa on Mut'ah's permissibility is more Sahih [7]Ali al-Qari, a 17th century Sunni Hanafi Islamic scholar writes:
Ibn Zubayr mocked Ibn Abbas for issuing a fatwa on Mut'ah's permissibility and this event happened after the death of 'Ali, during the Khilafath of Ibn Zubayr and this proves that Ibn Abbas believed in the permissibility of Mut'ah until his dying days [8] ” Others include:

Allamah ibn Barr said that the tradition on the prohibition of Mut'ah on the Day of Khayber is wrong.
The tradition prohibiting Mut'ah during the victory of Makka is more Sahih.

This is absolutely wrong. Temporary marriage never took place in Khayber.
This is something that no one involved in the Seerah and the history Muhammad has ever acknowledged (that Mut'ah was prohibited on Khayber).

This is something that no one involved in the Seerah and the history of Muhammad has ever acknowledged (that Mut'ah was prohibited on Khayber).

"I have heard scholars saying that the tradition related of Ali only talked of the prohibition of the eating of the meat of domestic asses and there was no mention of Mut'ah, and the tradition is silent on that matter". Then they quote Ibn Qayyim in Zad al-Ma'ad Volume 2 page 142:
If we accept that Mut'ah was cancelled on the Day of Khayber then what we are saying is that cancellation occurred twice and this has never happened in religion for sure and will not happen.
 
ش

شوکت کریم

مہمان
روایات کا شاندار کریا کرم جو اس دھاگہ میں نظر آتا ہے وہ شاید ہی کہیں دیکھا ہو۔ گو کہ میں‌بہن مہوش سے اختلاف رکھتا ہوں لیکن اس کے باوجود بھی ان کا شکر گزار ہوں کہ کتب روایات میں پائے جانے والے شدید نوعیت کے اختلافات کو جس محنت سے وہ سامنے لارہی ہیں وہ تمام مسلمانوں کے لئے مقام ہدایت ہے۔

کہ امت روایات میں کھو گئی
والسلام

اللہ تبارک و تعالٰی نے قرآن کریم کی شکل میں ہم کو ایسی کسوٹی دی ہوئی ہے کہ جس پر پرکھنے سے کھری کھوٹی روایت الگ الگ ہو جاتی ہیں۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top