نگارِ وقت پہ موجود ہر تحریر جھوٹی ہے-------------خیام قادری

مغزل

محفلین
غزل

نگارِ وقت پہ موجود ہر تحریر جھوٹی ہے
کہیں پر تاج جھوٹے ہیں کہیں زنجیر جھوٹی ہے

کہیں بے نور سجدوں کے نشاں روشن ہیں‌ماتھے پر
کہیں روشن جبیں سے پھوٹتی تنویر جھوٹی ہے

کہیں پر قہقہے نوحہ کناں ہیں‌زیرِ‌لب خود بھی
کہیں چہرے پہ اشکوں سے لکھی تحریر جھوٹی ہے

کہیں‌حق، حلقۂ حلقوم ِ باطل کا فرستادہ
کہیں‌حلقوم پر رکھی ہوئی شمشیر جھوٹی ہے

کہیں جھوٹے صحیفے مستند سچے حوالوں سے
کہیں سچی کتابوں کی لکھی تفسیر جھوٹی ہے

کہیں ہاتھوں پہ سیاہی کی لکیریں بھی بنی ریکھا
کہیں ریکھاؤں میں‌بھی بولتی تقدیر جھوٹی ہے

کہیں سچ کے سنگھاسن پر کوئی سقراط ہے جھوٹا
کہیں ہونٹوں تک آتے زہر کی تاثیر جھوٹی ہے

میں سویا ہی نہیں خیام ؔ ، یا ہوں نیند میں اب تک
وہ میرے خواب جھوٹے تھے کہ یہ تعبیر جھوٹی ہے

خیام قادری، کراچی
 

فاتح

لائبریرین
خوبصورت انتخاب ہے۔ بہت شکریہ قبلہ مغل صاحب!
اس غزل کی ردیف سے ہمیں اپنی ایک نظم یاد آ رہی ہے جو باقیوں کی طرح تکمیل کے انتظار میں سڑ رہی ہے۔
 

مغزل

محفلین
شکریہ فاتح المفتوحین صاحب، آپ نے باقیوں لکھا میں سمجھا قافیوں کی وجہ کر ادھوری ہے ۔( کہیں نفر ت کی نسل سے تو نہیں وہ بھی ؟)
 

Ali Sultan

محفلین
کہیں جھوٹے صحیفے مستند سچے حوالوں سے
کہیں سچی کتابوں کی لکھی تفسیر جھوٹی ہے
بہت ہی خوب
 
اس پختہ فرش پر ایک رات ہم پر بڑی کڑی گزری اور ہم پر ہی کیا وارڈ میں موجود تمام مریضوں اور انکے تیمار داروں پر بھی ہم حسب معمول عشاء کے بعد پختہ فرش پر آ گئے ابھی اطمنان سے بیٹھے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ وارڈ سے آہ و بکا کا شور بلند ہوا فرش پر موجود تمام چہرے ملول ہو گئے کوئی مریض چل بسا تھا ........

یہ ہسپتال تھا یہاں ایسے واقعات معمول کا حصہ تھے ہم میت و لواحقین کو رخصت کر کے سونے کی کوشش کر رہے تھے کہ یکایک وارڈ سے دوبارہ شور بلند ہوا ایک اور بیڈ خالی ہو گیا تھا اور پھر اس رات تواتر کے ساتھ وقفے وقفے سے بیڈز خالی ہوتے رہے معلوم ہوتا تھا کہ آج عزرا ئیل کو اسی وارڈ پر معمور کر دیا گیا ہے .........

ہم ساری رات لرزتے رہے کہ نہ جانے اب کس کی باری ہے اندر ہماری اہلیہ تھیں اور باہر ہم ہمیں دونوں ہی صورتوں میں نقصان تھا مگر جب اس طویل رات کی صبح ہوئی تو ہمارا یقین اور پختہ ہو گیا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے اور وہ اپنے وقت پر آئے گی اسکیلئے کسی ہسپتال کے بیڈ یا دالان میں موجودگی شرط نہیں .....

خیام قادری (مرحوم )
مرے اسپتال جا کر !

اور پھر خیام موت سے لڑتا ہوا اسپتال کے بیڈ پر زندگی کی بازی ہار گیا ..

کہیں پر قہقہے نوحہ کناں ہیں‌زیرِ‌لب خود بھی
کہیں چہرے پہ اشکوں سے لکھی تحریر جھوٹی ہے
 
Top