نگاہوں میں کسی کی ڈوب جانے کی تمنا ہے

نگاہوں میں کسی کی ڈوب جانے کی تمنا ہے​
کہ دریا کو سمندر سے ملانے کی تمنا ہے​
مری جاں تجھ کو تجھ سے ہی چرانے کی تمنا ہے​
کہ چپکے سے ترے دل میں سمانے کی تمنا ہے​
بہارو راستہ چھوڑو، ستارو دور ہٹ جاؤ​
کہ اس کی راہ میں یہ دل بچھانے کی تمنا ہے​
جو میرے نام کی ہو اور ہو اس میں مری چاہت​
ترے ہاتھوں میں وہ مہندی رچانے کی تمنا ہے​
جو ممکن ہو تو آجاؤ مری ویران دنیا میں​
اسے آباد کرنے کی ، بسانے کی تمنا ہے​
اجازت ہو تو کہہ دوں میں تمہی ہو جان راجاؔ کی​
تمہی کو دھڑکنیں دل کی بنانے کی تمنا ہے​
 

یوسف-2

محفلین
جو ممکن ہو تو آجائو مری ویران دنیا میں
اسے آباد کرنے کی بسانے کی تمنا ہے​
واہ کیا کہنے بھئی ! لگتا ہے کہ یہ شعر بیگم صاحب سے چھُپ کر لکھا ہے ۔ ورنہ اُن کے سامنے، اُنہی کو ”ویران دنیا“ کہنا، اب اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ :)
 

شوکت پرویز

محفلین
جناب خوب غزل کہی ہے، ہمیں "ہمراز" کا ایک نغمہ یاد آ گیا
کسی پتھر کی مورت سے محبّت کا ارادہ ہے
پرستش کی تمنّا ہے عبادت کا ارادہ ہے
۔۔۔۔۔
اسی کے سامنے اس کی شکایت کا ارادہ ہے۔۔۔۔
ہر اک بے جا تکلف سے بغاوت کا ارادہ ہے۔۔۔۔
وہ کیا جانے کہ اپنا اک قیامت کا ارادہ ہے۔۔۔۔

بہت بہت شکریہ۔۔۔
 
عمدہ غزل ہے لیکن آپ کی پچھلی غزلوں کے مقابلے کی نہیں ہے:)
شکریہ بلال اعظم بھیا!
پہلے کی لکھی ہوئی غزل ہے، شاید اس وجہ سے پختگی کچھ کم نظر آرہی ہوگی۔ ویسے میرے لئے یہ خوشی کی بات ہے کہ آپ میرے کلام کے معیار پر بھرپور نظر رکھتے ہیں :)
 
Top