محمد عبدالرؤوف
لائبریرین
نگراں کوئی بجز دیدۂ مسحور نہ ہو
جلوہ اس طرح دکھا، برق نہ ہو، طور نہ ہو
خود ضیا بار، جو اک جلوۂ مستور نہ ہو
آئینہ خانہِ عالم میں کہیں نور نہ ہو
رازِ غم فاش نہ ہو عشق جو مجبور نہ ہو
دیکھنا! کوئی پسِ پردۂ منصور نہ ہو
آج ہر زخم نظر آتا ہے پیمانہ بدست
اس میں کچھ شعبدۂ نرگسِ مخمور نہ ہو
کھول کر آنکھ ذرا دیکھ تو لے اے غافل
تیری ہستی ہی حجابِ رخِ پر نور نہ ہو
خاک ہے سوزِ غمِ عشق کی تاثیر ،کلیم!
دل کا ہر ذرہ اگر برقِ سرِ طور نہ ہو
جتنے وہ پاس ہیں، اتنا بھی نہ ہو پاس کوئی
جتنے وہ دور ہیں، اتنا بھی کوئی دور نہ ہو
عین ایماں ہے انالحق کا ترانہ، لیکن
ہے یہی کفر، اگر دیدۂ منصور نہ ہو
اس تقید پہ تو عالم ہے یہ آزادی کا
کیا قیامت کرے انسان جو مجبور نہ ہو
ایک اک سانس ہے اس کے لیے پیغامِ حیات
آدمی اپنی حقیقت سے اگر دور نہ ہو
کوچۂ عشق سے باہر وہ نکل جائے، جگر!
جیتے جی خاک میں ملنا جسے منظور نہ ہو
جلوہ اس طرح دکھا، برق نہ ہو، طور نہ ہو
خود ضیا بار، جو اک جلوۂ مستور نہ ہو
آئینہ خانہِ عالم میں کہیں نور نہ ہو
رازِ غم فاش نہ ہو عشق جو مجبور نہ ہو
دیکھنا! کوئی پسِ پردۂ منصور نہ ہو
آج ہر زخم نظر آتا ہے پیمانہ بدست
اس میں کچھ شعبدۂ نرگسِ مخمور نہ ہو
کھول کر آنکھ ذرا دیکھ تو لے اے غافل
تیری ہستی ہی حجابِ رخِ پر نور نہ ہو
خاک ہے سوزِ غمِ عشق کی تاثیر ،کلیم!
دل کا ہر ذرہ اگر برقِ سرِ طور نہ ہو
جتنے وہ پاس ہیں، اتنا بھی نہ ہو پاس کوئی
جتنے وہ دور ہیں، اتنا بھی کوئی دور نہ ہو
عین ایماں ہے انالحق کا ترانہ، لیکن
ہے یہی کفر، اگر دیدۂ منصور نہ ہو
اس تقید پہ تو عالم ہے یہ آزادی کا
کیا قیامت کرے انسان جو مجبور نہ ہو
ایک اک سانس ہے اس کے لیے پیغامِ حیات
آدمی اپنی حقیقت سے اگر دور نہ ہو
کوچۂ عشق سے باہر وہ نکل جائے، جگر!
جیتے جی خاک میں ملنا جسے منظور نہ ہو