عاطف بٹ
محفلین
نگل گئے سب کی سب سمندر زمیں بچی اب کہیں نہیں ہے
بچاتے ہم اپنی جان جس میں وہ کشتی بھی اب کہیں نہیں ہے
بہت دنوں بعد پائی فرصت تو میں نے خود کو پلٹ کے دیکھا
مگر میں پہچانتا تھا جس کو وہ آدمی اب کہیں نہیں ہے
گزر گیا وقت دل پہ لکھ کر نجانے کیسی عجیب باتیں
ورق پلٹتا ہوں میں جو دل کے تو سادگی اب کہیں نہیں ہے
تم اپنے قصبوں میں جاکے دیکھو وہاں بھی اب شہر ہی بسے ہیں
کہ ڈھونڈتے ہو جو زندگی تم وہ زندگی اب کہیں نہیں ہے
بچاتے ہم اپنی جان جس میں وہ کشتی بھی اب کہیں نہیں ہے
بہت دنوں بعد پائی فرصت تو میں نے خود کو پلٹ کے دیکھا
مگر میں پہچانتا تھا جس کو وہ آدمی اب کہیں نہیں ہے
گزر گیا وقت دل پہ لکھ کر نجانے کیسی عجیب باتیں
ورق پلٹتا ہوں میں جو دل کے تو سادگی اب کہیں نہیں ہے
تم اپنے قصبوں میں جاکے دیکھو وہاں بھی اب شہر ہی بسے ہیں
کہ ڈھونڈتے ہو جو زندگی تم وہ زندگی اب کہیں نہیں ہے
پس نوشت: یہ غزل گوپی چند نارنگ کے جاوید اختر سے متعلق اس مضمون سے ’چُرا‘ کر یہاں پیش کی گئی ہے جسے شریکِ محفل کرنے کا سہرا بابا شاپر شاہ کے سر ہے!