نہاری ۔ شاہد احمد دہلوی

فرخ منظور

لائبریرین
‏ڈپٹی نذیر احمد کے پوتےشاہد احمد دہلوی کاطرز تحریراپنے اسلاف کے طرزِ ِتحریر کا عکاس اور زبان کی چاشنی لیے ہوئے ہے۔ مرحوم دلی کے شب و روز اوراشتہا انگیز، گوناگوں کھانوں اورپکوانوں کا تذکرہ اپنی کتاب "دلی جو اِک شہر تھا۔۔" کے ایک مضمون میں کیا شاندار انداز میں کرتے ہیں۔
نہاری
اصل میں نہاری والے نان بائی ہی ہوتے ہیں، بھٹیارے نہیں۔ نہاری تو جاڑوں میں کھائی جاتی ہے، گرمیوں اور برسات میں نہیں کھائی جاتی۔ خالی دنوں میں نہاری والے اپنا تندور گرم کرتے ہیں اور روٹی پکانے پر ‏ان کی گزر اوقات ہوتی ہے۔ 1947 میں دلی اُجڑنے سے پہلے تقریبًا ہر محلے میں ایک نہاری والا موجود تھا۔ لیکن اب سے 40، 50 سال پہلے دلی میں صرف چار نہاری والے مشہور تھے۔ انہوں نے شہر کے چاروں کھونٹ داب رکھے تھے۔ گنجے کی دکان چاندنی چوک میں نیل کے کٹڑے کے پاس تھی اور شہر میں اس کی نہاری ‏سب سے مشہور تھی۔ دلی سے باھر اکثر لوگ یہ بھی نہ جانتے تھے کہ نہاری کیا ہوتی ہے۔بعض شہروں میں یہ لفظ کچھ اور معنوں میں مستعمل ھے، مثلًا چوپایوں کو خصوصًا گھوڑوں کو تقویت دینے کے لیئے ایک گھولوا پلایا جاتا ھے جسے نہاری کہتے ہیں۔ بعض جگہ پایوں کو نہاری کہا جاتا ہے۔ دلی میں یہ ایک خاص ‏قسم کا سالن ہوتا تھا جو بڑے اہتمام سے تیار کیا جاتا تھا اور بازار میں فروخت ہوتا تھا۔ اس کے پکانے کا ایک خاص طریقہ ہوتا ہے اور اس کے پکانے والے بھی خاص ہی ہوتے ہیں۔ نہاری کو آج سے نہیں 1857 سے بھی پہلے سے دلی کے مسلمانوں میں بڑی اہمیت حاصل ھے۔ یوں تو گھر میں بھی اور باہر بھی ‏سینکڑوں قسم کے قورمے پکتے ہیں مگر نہاری ایک مخصوص قسم کا قورمہ ھے جس کا پکانا سوائے نہاری والوں کے اورکسی کو نہیں آتا۔ اس کی پُخت و پُز کی ایک خصوصیت یہ ھےکہ اسے ساری رات پکایاجاتا ہے، اورپکنے کی حالت میں ہمہ وقت اس کا تاؤ مساوی رکھا جاتا ہے۔ اس کام کے لیئے بڑی مشق ومہارت کی ضرورت ‏ہے۔ تیسرے پہر سے اسکی تیاری شروع ھوتی ہے۔ دکان کی دہلیز کے پاس زمین میں گڑھاکھود کر ایک گہرا چولہا یا بھٹی بنائی جاتی ہے اور اس میں ایک بڑی سی دیگ اس طرح اتار کرجما دی جاتی ہے کہ صرف اس کا گلا باہر نکلا رہ جاتا ہے۔ چولہے کی کھڑکی باھر کے رخ کُھلتی ہے۔ اس میں سے ایندھن ڈالا جاتا ھے ‏جو دیگ کے نیچے پہنچ جاتا ہے۔ آگ جلانے کے بعد جیسے قورمے کا مصالحہ بھونا جاتا ہے، گھی میں پیاز داغ کرنے کے بعد دھنیا، مرچیں، لہسن، ادرک اور نمک ڈال کر نہاری کا مصالحہ بھونا جاتا ہے۔ جب مصالحے میں جالی پڑ جاتی ہے تو گوشت کے پارچے خصوصا ادلے ڈال کر انہیں بھونا جاتا ہے۔ اس کے بعد ‏اندازے سے پانی ڈال کر دیگ کا منہ بند کر دیا جاتا ہے۔
پکانے والے کو جب ادھ گلے گوشت کا اندازہ ھو جاتا ھے تو دیگ کا منہ کھول کر اس میں پچیس تیس بھیجے اور اتنی ھی نلیاں یعنی گُودے دار ہڈیاں ڈال دی جاتی ہیں۔ شوربے کو لبدھڑا بنانے کے لیئے آلن ڈالا جاتا ہے۔ یہ دیگ ساری رات پکتی رہتی ہے‏اور اس کا تاؤ دھیما رکھا جاتا ہے۔بارہ چودہ گھنٹے پکنے کے بعد جب علی الصبح دیگ پر سے کُونڈا ہٹایا جاتا ہے تو دور دور تک اس کی اشتہا انگیز خوشبو پھیل جاتی ہے۔
بشکریہ، ظفر قابل اجمیری
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
لبدھڑا... یہ لفظ آج کئی برس بعد سننے کو ملا ہے۔ ہمارے بچپن میں عام بولا جاتا تھا۔یہ آلن البتہ نہیں سنا
 
Top