عرفان سعید
محفلین
(روح غالبؔ سے معذرت کے ساتھ)
نہا کر کولڈ واٹر سے جو کل کالج کو ہم نکلے
یہی تھی آرزو دل کی کہ یا رب جلد دم نکلے
حقیقت دوستوں کی چھ مہینے بعد کھل پائی
سمجھتا تھا جنہیں چاندی وہ سب المونیم نکلے
نشیمن کو جلانے کا نیا انداز تو دیکھو
پکڑ کر بجلیوں کی جب تلاشی لی تو بم نکلے
تیرے ڈیڈی سے مل کر کل رقیبوں نے ہمیں پیٹا
’’بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے‘‘
پچھتر کا ہوا آغاز تو منّے کی ماں بولیں
’’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے‘‘
مگر وہ سالِ نسواں ختم ہونے پر لگیں کہنے
’’بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے‘‘
نہیں رک سکتے تیری دید کی خاطر کبھی گھنٹوں
بجی چھٹی کی گھنٹی بس پکڑ کر گھر کو ہم نکلے
فضا گڑ بڑ ہوئی جب شہر کی تو گولیاں لے کر
ادھر اہلِ حرم نکلے ادھر اہلِ دھرم نکلے
جو پیروڈی سنی تو روحِ غالبؔ نے کہا مجھ سے
’’خدا کی مار ہو تجھ پر ترا بھی جلد دم نکلے‘‘
فریاد آزر
نہا کر کولڈ واٹر سے جو کل کالج کو ہم نکلے
یہی تھی آرزو دل کی کہ یا رب جلد دم نکلے
حقیقت دوستوں کی چھ مہینے بعد کھل پائی
سمجھتا تھا جنہیں چاندی وہ سب المونیم نکلے
نشیمن کو جلانے کا نیا انداز تو دیکھو
پکڑ کر بجلیوں کی جب تلاشی لی تو بم نکلے
تیرے ڈیڈی سے مل کر کل رقیبوں نے ہمیں پیٹا
’’بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے‘‘
پچھتر کا ہوا آغاز تو منّے کی ماں بولیں
’’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے‘‘
مگر وہ سالِ نسواں ختم ہونے پر لگیں کہنے
’’بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے‘‘
نہیں رک سکتے تیری دید کی خاطر کبھی گھنٹوں
بجی چھٹی کی گھنٹی بس پکڑ کر گھر کو ہم نکلے
فضا گڑ بڑ ہوئی جب شہر کی تو گولیاں لے کر
ادھر اہلِ حرم نکلے ادھر اہلِ دھرم نکلے
جو پیروڈی سنی تو روحِ غالبؔ نے کہا مجھ سے
’’خدا کی مار ہو تجھ پر ترا بھی جلد دم نکلے‘‘
فریاد آزر