فیض نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی

سارہ خان

محفلین
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی

نہ تن میں‌ خون فراہم نہ اشک آنکھوں میں
نماز شوق تو واجب ہے بے وضو ہی سہی

کسی طرح تو جمے بزم میکدے والو
نہیں جو بادہء و ساغر تو ہاو ہو ہی سہی

گر انتظار کٹھن ہے تو جب تلک اے دل
کسی کے وعدہء فردا کی گفتگو ہی سہی

دیار غیر میں محرم اگر نہیں کوئی
تو فیض ذکر وطن اپنے روبرو ہی سہی


فیض احمد فیض
 

محمد وارث

لائبریرین
نہ تن میں‌ خون فراہم نہ اشک آنکھوں میں
نماز شوق تو واجب ہے بے وضو ہی سہی

کسی طرح تو جمے بزم میکدے والو
نہیں جو بادہ و ساغر تو ہاو ہو ہی سہی

واہ واہ واہ، کیا لاجواب غزل ہے۔

شکریہ سارہ خان شیئر کرنے کیلیئے۔

 

ابوشامل

محفلین
تمام شعر ہی بہت اعلٰی ہیں، ابتدا ہی سے فیض کا انداز جھلک رہا ہے۔ یہاں پیش کرنے کا بہت شکریہ سارہ صاحبہ
 

فرحت کیانی

لائبریرین
نہ تن میں‌ خون فراہم نہ اشک آنکھوں میں
نماز شوق تو واجب ہے بے وضو ہی سہی


دیار غیر میں محرم اگر نہیں کوئی
تو فیض ذکر وطن اپنے روبرو ہی سہی


زبردست۔۔۔ بہت خوب ۔سارہ ! یہ غزل بھی سمجھیں ،چوری ہوگئی :ڈ

بہت بہت شکریہ سارہ :)
 

باباجی

محفلین
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی​
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی​
نہ تن میں خون فراہم، نہ اشک آنکھوں میں​
نمازِ شوق تو واجب ہے بے وضو ہی سہی​
کسی طرح تو جمے بزم میکدے والو​
نہیں جو بادہ و ساغر تو ہائو ہُو ہی سہی​
گر انتظار کٹھن ہے تو جب تلک اے دل​
کسی کے وعدہِ فردا کی گفتگو ہی سہی​
دیارِ غیر میں محرم اگر نہیں کوئی​
تو "فیض" ذِکرِ وطن اپنے رُوبرُو ہی سہی​
 
Top